کورونا ازخود نوٹس وفاق اور صوبوں کو یکساں پالیسی بنانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت
وفاق میں بیٹھے لوگوں کا رویہ متکبرانہ نظر آ رہا ہے اور اس سے وفاق کو نقصان پہنچ رہا ہے، جسٹس عمر عطا بندیال
ٹیسٹنگ کٹس اور ای پی پیز پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں، چیف جسٹس فوٹو: فائل
سپریم کورٹ میں کورونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے گئے ہیں کہ وفاق اور صوبے ایک ہفتے میں یکساں پالیسی بنائیں ورنہ عبوری حکم جاری کریں گے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ میں کورونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل،صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز، این ڈی ایم اے، وزارت صحت اور دیگرمتعلقہ محکموں کے حکام بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ٹیسٹنگ کٹس اور ای پی پیز پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں، ماسک اور دستانوں کے لئے کتنے پیسے چاہیے، اگر تھوک میں خریدا جائے تو 2 روپے کا ماسک ملتا ہے، پتہ نہیں یہ چیزیں کیسے خریدی جارہی ہیں، لگتا ہے کہ سارے کام کاغذوں میں ہی ہورہے ہیں۔ جتنی سرکاری رپورٹس آئی ہیں ان میں کچھ بھی نہیں، یہ ادارے کر کیا رہے ہیں، کسی چیز میں شفافیت نہیں، کوویڈ 19 کے اخراجات کا آڈٹ ہوگا تو اصل بات سامنے آئے گی۔
حاجی کیمپ قرنطینہ سے متعلق چیف جسٹس کے استفسار پر سیکریٹری صحت نے کہا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ کا دورہ کیا تو وہ غیر فعال تھا، ایک کمرے میں پارٹیشن لگا کر 4 افراد کورکھا گیا، ضلعی انتظامیہ نے گرلز ہاسٹل میں قرنطینہ سینٹر منتقل کیا، گرلز ہاسٹل میں 48 کمرے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان کے استفسار پر ڈی سی اسلام آباد نے بتایا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز این ڈی ایم اے نے بنایا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاک چائنہ فرینڈ شپ سینٹر کا حال بھی حاجی کیمپ جیسا ہی ہے، پورے ملک میں حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں، جن کا روزگار گیا ان سے پوچھیں کیسے گزارا کر رہے ہیں، سندھ حکومت کہتی ہے 150 فیکٹریوں کو کام کی اجازت دیں گے، سمجھ نہیں آتی ایک درخواست پر کیا اجازت دی جائے گی، لاکھوں دکانیں ہیں ہر کوئی کام کیلئے الگ الگ درخواست کیسے دے گا؟ ایک دکان کھلوانے والے کو نہ جانے کتنے پیسے دینا پڑتے ہوں گے، اجازت دینے والوں سے پولیس والے تک سب کو ہی کچھ دینا پڑتا ہے، جامع پالیسی بنا کر تمام فیکٹریوں کو کام کی اجازت ملنی چاہیے۔ ایک صوبائی وزیر کہتا ہے کہ وفاقی حکومت کے خلاف مقدمہ کرا دینگے۔ یعنی صوبائی وزیر کا دماغ بالکل آؤٹ ہے۔ پتہ نہیں دماغ پر کیا چیز چڑھ گئی ہے۔
سیکرٹری صحت نے بتایا کہ ملک میں روزانہ ایک ہزار کورونا کیسز سامنے آ رہے ہیں، کورونا کیسز مثبت آنے کی شرح 10 فیصد ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ بازاروں میں لوگوں کو ڈنڈوں کے ساتھ ماراجا رہا ہے، حکومت نے مارکیٹس بند کرکے مساجد کھول دیں، کیا مساجد سے کورونا وائرس نہیں پھیلے گا، 90 فیصد مساجد میں ریگولیشنز پرعمل نہیں ہو رہا ، اگر فاصلہ رکھنا ہے تو ہر جگہ رکھنا ہوگا۔
پنجاب حکومت کے اقدامات سے متعلق رپورٹ پر جسٹس قاضی امین نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے کہا کہ پنجاب سے متعلق جو آپ کاغذ پڑھ رہے ہیں حقیقت اس سے مختلف ہے، میں خود پنجاب کا ہوں، مجھے علم ہے وہاں صورتحال کیسی ہے۔پنجاب میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ الارمنگ ہے، صوبے میں کورونا وائرس کی مریضوں کے ساتھ اموات بھی بڑھ رہی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صوبائی حکومت کا اختیار اسی حد تک ہے جو آئین دیتا ہے، صوبائی حکومتوں نے کاروباری مصروفیات روک دیں، صوبوں کو ایسے کاروبار روکنے کا کوئی اختیار نہیں جو مرکز کو ٹیکس دیتے ہیں، وفاقی معاملات کے حوالے سے شیڈول 4 کو دیکھ لیں، امپورٹ، ایکسپورٹ، لمیٹڈ کمپنیز ،ہائی ویز اور ٹیکس کے معاملات وفاقی ہیں، صوبائی حکومت وفاق کے معاملات پر اثر انداز نہیں ہو سکتی، وفاقی حکومت کے ریونیو کا راستہ صوبائی حکومتیں کیسے بند کرسکتی ہیں؟ صوبائی حکومتیں پیسے مانگ رہی ہیں، اگر وفاق کے پاس فنڈز ہیں تو اسے دینے چاہئیں.
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ مسافر ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں سفر کرنے کے لیے مال بردار ٹرک میں سفر کرنے پر مجبور ہیں، سفری پابندیوں کی وجہ سے مسافروں سے جہاز کے ٹکٹ کے برابر کرایہ وصول کی جارہا ہے، صوبائی حکومتیں صرف وہ کام رکوا سکتی ہیں جو ان کے دائرہ اختیار میں آتے ہوں،کیا پنجاب نے مرکز سے ایسی کوئی اجازت لی؟ اگر اجازت نہیں لی گئی تو صوبوں کے ایسے تمام اقدامات غیر آئینی ہیں.
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ حکومت ہر کام منصوبہ بندی کے ساتھ کرتی ہے لیکن اس معاملے کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آ رہی، کورونا کی روک تھام سے متعلق اقدامات میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہو رہی ہے، ہمارا گزشتہ حکم شفافیت سے متعلق تھا اس کو نظر انداز کیا گیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ بظاہر لگتا ہے کہ تمام ایکزیکٹیو ناکام ہوگئے، کسی کو احساس نہیں کہ حکومتیں ایک ساتھ بیٹھیں اور بات کریں، وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان تعاون نہ ہونے کی وجہ غرور اور انا ہے، ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ وفاق میں بیٹھے لوگوں کی ذاتی عناد ہے، وفاق میں بیٹھے لوگوں کا رویہ متکبرانہ نظر آ رہا ہے، اس سے وفاق کو نقصان پہنچ رہا ہے، صوبوں کے درمیان تعاون کا آغاز ہونا چاہیے، ایک ہفتے کا وقت دیتے ہیں یکساں پالیسی بنائی جائے، یکساں پالیسی نہ بنی تو عبوری حکم جاری کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج کل ٹی وی دیکھیں تو لگتا ہے ملک میں سیاسی جنگ چل رہی ہے، وفاق کے اختیارات پر بات کرنے کیلئے پارلیمنٹ بہترین فورم ہے، وفاقی حکومت چاہتی ہے معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں، چاہتے ہیں معاملہ اس حد تک نہ جائے کہ عدالت کو مداخلت کرنا پڑے، کورونا وائرس اس وقت اپنی پیک پر ہے، کورونا سے متعلقہ سہولیات کی کوئی کمی نہیں۔ 9 مئی کے اجلاس میں حتمی فیصلے ہوں گے، چھوٹی تجارتی سرگرمیوں کو بھی کھولنے پر غور کیا جائے گا، ریلوے کو کھولنے کے شیڈول پر بھی غور ہورہا ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی باتوں پر ریمارکس دیئے کہ کسی سیاسی معاملے میں نہیں پڑیں گے لیکن جس قیمت پر عوام کو سہولیات مل رہی ہیں وہ بھی دیکھیں، سفید ہوش افراد راشن کیلئے لائن میں نہیں لگتے، صدر مملکت اور وزیراعظم کے ارادے نیک ہوں گے لیکن کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا،جن شعبہ جات کو کھولا گیا ان کا عوام کو کیا فائدہ ہوا۔
عدالت نے قومی رابطہ کمیٹی کے 14 اپر یل کے فیصلوں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں صرف ایس او پیز بنائے گئے،پالیسی نہیں تھی، توقع رکھتے ہیں کہ اس معاملے پر جامع پالیسی بنائی جائے گی اور اس پر عمل در آمد بھی ہو گا۔ کیس کی مزید سماعت 18 مئی کو ہوگی۔