احفاظ بھائی اِک عہدِ مزاحمت تمام ہوا
احفاظ الرحمٰن کے انتقال سے مزاحمتی اور احتجاجی تحریکوں، حقوق کےلیے جدوجہد سے مزین ایک عہد تمام ہوا
ISLAMABAD:
صحافت کا ایک عہد، مزاحمتی اور احتجاجی تحریکوں، حقوق کےلیے جدوجہد سے مزین ایک عہد تمام ہوا۔ احفاظ الرحمٰن صبح سویرے سو گئے، ہمیشہ کےلیے۔
وہ زمانہ اور تھا جب کراچی میں تمام تحاریک خالص نظریاتی اور سیاسی بنیادوں پر چلا کرتی تھیں اور کراچی، کراچی تھا۔ لسانی گروہوں کا شہر نہ تھا۔ یہ میں کہاں بھٹکنے لگی، مجھے تو احفاظ بھائی کے بارے میں کچھ لکھنا ہے۔
یہ 1977 کے آخری مہینوں کی بات ہے۔ یاد نہیں ستمبر تھا یا اکتوبر۔ 1977 کا الیکشن سبوتاژ ہوا تھا۔ بھٹو صاحب جیل میں تھے اور ایک آمر نے اپنی کرسی مضبوط کرنے کےلیے سب سے پہلے اخبارات کی آکسیجن لائن کو بند کیا، پھر نام نہاد سنسر لگایا۔ اس سے بھی دل نہ بھرا تو اخبارات اور رسائل کے ڈیکلریشن دینا بند کرنے شروع کیے۔
کوچہ صحافت میں میری حیثیت ایک نوارد کی تھی۔ خوش قسمتی یہ تھی کہ ہمارے ہفت روزہ کے ایڈیٹرز بہت اچھے تھے۔ انھوں نے ابتدائی چند ماہ میں ہمیں نہ صرف بغیر سہارے کھڑے ہونا سکھا دیا تھا بلکہ ہم دوڑنے بھی لگے تھے اور انھوں نے ہمیں باقاعدہ ریس میں بھی بھیجا۔ بات ہورہی تھی ڈیکلریشن کی منسوخی کی۔ روزنامہ مساوات کی عزت و آبرو پامال ہوچکی تھی۔ اس کے ایڈیٹر ابراہیم جلیس صاحب اللہ کو پیارے ہوچکے تھے۔ اخباری کارکن بغیر تنخواہوں کے روز صبح سے شام تک بیٹھے رہتے تھے۔ صحافتی تنظیمیں صبح شام اجلاس کرتیں، قائدین مذمتی بیانات دیتے اور اگلے دن کا پروگرام مرتب کیا جاتا۔
ایک دن ہمارے ایڈیٹر اشرف شاد نے کہا، آپ کل چار بجے پریس کلب پہنچیں، کے یو جے کا جلسہ اور شو آف پاور بھی ہے۔ میں نئی نئی کے یو جے کی رکن بنی تھی۔ اگلے دن کلب پہنچی، جو پوری طرح بھرا ہوا تھا۔ اور باہر اتنی ہی پولیس کھڑی تھی۔ بمشکل اندر پہنچی تو گلابی رنگ کی قمیض پہنے ایک صاحب سرخ چہرے کے ساتھ دھواں دھار تقریر کررہے تھے۔ تقریر کیا تھی بس دھواں ہی دھواں تھا۔ سانس لینے کےلیے رکے تو مجمع نے ضیا کے خلاف سخت نعرے لگانے شروع کردیے، جس کی تان ایشیا کے سرخ ہونے پر آکر ٹوٹتی۔ اسٹیج پر بیٹھے برنا صاحب اپنے دیگر ساتھیوں ظفر رضوی، مغل، حبیب بوری، ولی رضوی کے ساتھ بیٹھے مسکرا رہے تھے۔ نعروں کی گونج بڑھتی تو باہر کھڑے پولیس والے اپنی ایڑیوں پر اچکنا شروع کردیتے۔
گلابی قمیض میں سرخ چہرے والے مقرر احفاظ بھائی تھے۔ اس سے پہلے اُن کا صرف نام سنا تھا۔ انھوں نے میرے کے یو جے کا ممبر بننے پر اعتراض کیا تھا اور اشرف شاد سے کہا تھا ''لڑکیوں کو ممبر بنانے میں جلدی مت کیا کرو۔ چار دن بعد کام چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتی ہیں۔''
ان دنوں ہر شام پریس کلب میں جلسہ ہوتا تھا۔ جینے مرنے کی قسمیں کھائی جاتی تھیں۔ ضیاء حکومت کو گویا جھولی بھر بھر کے برا بھلا کہا جاتا تھا۔ دل بھر کے نعرے لگائے جاتے تھے اور ہم سب اس ''کار ثواب'' میں پیش پیش ہوتے۔ ہر سہ پہر یوں جوق در جوق کلب آتے تھے جیسے کوئی مذہبی فریضہ ادا کرنے جارہے ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت ہم سب یہی سوچتے تھے کہ اگر کلب نہ گئے تو آنے والا انقلاب کسی کونے پر رکا رہ جائے گا اور ضیاء کا بھوت کلب پر قبضہ کرلے گا۔
احفاظ بھائی اس وقت کے یو جے کے سیکریٹری تھے اور بہت ہی پرجوش، چیختے چنگھاڑتے صحافی تھے۔ ان کے آگے اچھے اچھے نہیں بول پاتے تھے۔ اپنے اصولوں پر سودے بازی ان کی سرشت میں نہ تھی۔
اسی آنے جانے کے دوران یہ بھی منکشف ہوا کہ لان کی کرسیوں پر بیٹھی دبلی پتلی گورے رنگ اور دھیمی مسکراہٹ والی مہناز احفاظ بھائی کی شریکِ حیات ہیں۔ ان دنوں مہناز کے پاس دو ہی کام تھے، مسکرانا اور اپنی حد درجہ شرارتی بیٹی فے فے کے پیچھے بھاگنا۔ مہناز نہ صرف احفاظ بھائی کی نصف بہتر تھیں بلکہ مساوات اخبار کے متاثرین میں سے بھی تھیں۔ تب ہی مسکرا ہٹوں کے تبادلوں کے بعد ہماری دوستی کا آغاز بھی ہوچکا تھا۔
اس تحریک کو جِلا دسمبر 1977 کی بھوک ہڑتال اور گرفتاریوں سے ملی۔ اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گی۔ ایک سال چلنے والی اس تحریک کا اختتام صحافتی تنظیموں کی تقسیم پر ہوا کہ مار آستین کی کمی تو کبھی نہیں رہی۔ کے یو جے اور پی ایف یو جے بٹ گئی۔
صحافی اور صحافت ایک واضح لائن کے ادھر اور ادھر کھڑے ہوگئے۔ تحریک میں حصہ لینے والے تمام صحافیوں پر برا اور کڑا وقت تھا۔ اس سارے وقت میں احفاظ بھائی کو نہ تو کبھی ناامید دیکھا نہ ہی جوش و جذبے سے خالی۔ وہ اسی تنتنے اور جذبے کے ساتھ رہتے اور تمام کام انجام دیتے۔
شہر کے سارے صحافیوں پر برا وقت تھا۔ چلتے ہوئے اخبار ہم جیسوں کو نوکری نہیں دیتے تھے اور جو نوکری دیتے تھے ان کے پاس دینے کو پیسے نہیں ہوتے تھے۔ احفاظ بھائی بھی مہناز اور فے فے کے ساتھ زندگی کی گاڑی کو چلانے کی تگ و دو میں لگے رہے۔ اسی دوران ان کی زندگیوں میں رمیز آگیا۔ تحریک کے بہت سارے ساتھی تھک ہار کر روٹی روزگار کے چکر میں ملک سے باہر چلے گئے، کچھ نے دوسرے پیشوں میں قسمت آزمائی شروع کردی۔
احفاظ بھائی نے روزنامہ امن کا ڈیسک سنبھال لیا۔ یہی کرتے کرتے ایک دن وہ خاموشی سے چین چلے گئے۔ وہاں آٹھ سال تک اشاعت گھر سے منسلک رہے۔ اشاعت گھر چین میں مختلف زبانوں کے ماہرین کا مرکز ہے۔ چین سے واپسی پر احفاظ بھائی کی شخصیت میں ایک مثبت تبدیلی ان کے چہرے پر رہنے والی مسکراہٹ تھی۔ ان کے جملوں کی کاٹ، کڑواہٹ کم ہوگئی تھی۔
انھوں نے ایک بڑے اخبار کے میگزین میں بحیثیت ایڈیٹر ملازمت قبول کرلی۔ اس کے بعد روزنامہ ایکسپریس کے ہورہے اور کام میں کھرے احفاظ بھائی نے اس اخبار کے میگزین میں جان ڈال دی۔
اس دوران ان کے قریبی احباب، صحافتی تنظیموں کے ورکرز، برنا صاحب اور سبھی ان سے فرمائش کرتے رہے کہ وہ 1977۔78 کی تحریک کو ضبطِ تحریر میں لائیں۔ خود ان کی بھی خواہش تھی کہ اس تحریک کو ریکارڈ ہونا چاہیے۔
اپنی یادداشتوں اور دستیاب ریکارڈ کے سہارے انھوں نے کام شروع کردیا۔ اسی دوران ہفت روزہ الفتح کے ان کے ساتھی وہاب صدیقی اپنی جلاوطنی ختم کرکے واپس آگئے۔ ان کی آمد سے احفاظ بھائی کو نہ صرف سہارا ملا، بلکہ بہت سا ریکارڈ بھی مل گیا۔
ایک ملاقات میں انھوں نے فرمائش کی کہ میرے پاس اگر ہفت روزہ معیار کے 1977۔78 کے شمارے ہیں تو میں تحریک سے متعلق شایع شدہ تحریری مواد انھیں مہیا کروں۔ میں نے ان سے وعدہ کیا اور پورا بھی کیا۔ بہت خوش ہوئے۔
آج ان کے کئی روپ میرے سامنے ہیں، مجھے یاد آرہے ہیں۔ غصے سے بھرپور سگریٹ کا لمبا کش لگاتے ہوئے، کسی کی بیماری دکھ کا سن کر پریشان ہو جانے والے، اخباری مالکان سے ہمیشہ ناخوش، میری بیٹی کی بیماری اور انتقال کا سن کر آب دیدہ ہو جانے والے، جنون چڑھتا تو سامنے والے پر کرسیاں الٹ دیتے، مہناز کی بیماری میں ایک محبت کرنے والے شوہر، بچوں کے شفیق باپ، بہو کےلیے ایک ہم درد اور شفیق سسر، بیگماتی سیاست اور خواتین انجمنوں سے ناراض، موجودہ دور کے صحافتی انداز سے سخت نالاں۔
احفاظ بھائی ایک بہت ہی عمدہ مترجم بھی تھے۔ زبان و بیان پر عبور لاجواب تھا۔ ہلکا جملہ، تلفظ اور گرامر کی غلطی ان کے نزدیک ناقابل معافی تھی۔ شاعری بھی خوب کرتے تھے لیکن ان کے مزاج کی طرح اکثر لوگوں کو ہضم نہیں ہوتی تھی۔
ان کے شعری مجموعے ''نئی الف لیلیٰ'' اور ''زندہ ہے زندگی'' کے نام سے چھپے ہیں۔ انھیں چینی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ چینی زبان کے افسانوں کے کئی تراجم کتابی شکل میں موجود ہیں۔ یہی نہیں انھوں نے بچوں کےلیے بھی بہت کچھ لکھا اور ترجمہ کیا۔ ان کی کتاب ''پاکستانی صحافت کی سب سے بڑی جنگ'' پاکستانی صحافت کی پوری تاریخ ہے، جو ہمیشہ زندہ رہے گی۔
پھر کچھ یوں ہوا کہ ان کی آواز ہر وقت بھرائی رہنے لگی، تب ہی ان کی مہلک بیماری کا انکشاف ہوا۔ ایک فائٹر کی طرح وہ بیماری کے مختلف مراحل سے نبرد آزما رہے۔ بات کرنے کو محتاجی، پیچیدگیاں در پیچیدگیاں، لیکن اس کے باوجود جب ملتے محبت سے سر پر ہاتھ رکھتے۔ دوستوں سے ملنے کےلیے جب جب بلایا کبھی انکار نہ کیا۔
گزرے ماہ ستمبر میں جب شمیم عالم آئے اور تمام احباب ایک ظہرانے پر جمع ہوئے تو احفاظ بھائی بھی آئے اور خوب جم کر بیٹھے۔ ان سے آخری ملاقات ان کے گھر ہی پر شمیم کی واپسی سے قبل ہوئی تھی۔ اس روز انھوں نے اتنی باتیں کیں کہ اپنے آلہ آواز کی دو بیٹریاں ختم کرلیں۔
اپنی بیماری کے طویل برسوں میں انھوں نے کبھی شکستگی کا اظہار نہ کیا۔ اب جو چند ماہ سے ان کے مسائل بڑھنے شروع ہوئے تو بڑھتے ہی چلے گئے۔ لگتا تھا کہ کوئی دن کا سورج اچھی خبر کے ساتھ طلوع نہیں ہوگا اور کل یہی ہوا۔
احفاظ بھائی، جہاں رہیں خوش رہیں۔ آپ پاکستانی صحافت کا کبھی نہ جھکنے والا ستون تھے۔ آپ کے بعد بہت دور دور تک کوئی آپ جیسا نہیں۔ مجھے یقین ہے اپنے حقوق کےلیے آپ کی جدوجہد ادھر بھی جاری رہے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
صحافت کا ایک عہد، مزاحمتی اور احتجاجی تحریکوں، حقوق کےلیے جدوجہد سے مزین ایک عہد تمام ہوا۔ احفاظ الرحمٰن صبح سویرے سو گئے، ہمیشہ کےلیے۔
وہ زمانہ اور تھا جب کراچی میں تمام تحاریک خالص نظریاتی اور سیاسی بنیادوں پر چلا کرتی تھیں اور کراچی، کراچی تھا۔ لسانی گروہوں کا شہر نہ تھا۔ یہ میں کہاں بھٹکنے لگی، مجھے تو احفاظ بھائی کے بارے میں کچھ لکھنا ہے۔
یہ 1977 کے آخری مہینوں کی بات ہے۔ یاد نہیں ستمبر تھا یا اکتوبر۔ 1977 کا الیکشن سبوتاژ ہوا تھا۔ بھٹو صاحب جیل میں تھے اور ایک آمر نے اپنی کرسی مضبوط کرنے کےلیے سب سے پہلے اخبارات کی آکسیجن لائن کو بند کیا، پھر نام نہاد سنسر لگایا۔ اس سے بھی دل نہ بھرا تو اخبارات اور رسائل کے ڈیکلریشن دینا بند کرنے شروع کیے۔
کوچہ صحافت میں میری حیثیت ایک نوارد کی تھی۔ خوش قسمتی یہ تھی کہ ہمارے ہفت روزہ کے ایڈیٹرز بہت اچھے تھے۔ انھوں نے ابتدائی چند ماہ میں ہمیں نہ صرف بغیر سہارے کھڑے ہونا سکھا دیا تھا بلکہ ہم دوڑنے بھی لگے تھے اور انھوں نے ہمیں باقاعدہ ریس میں بھی بھیجا۔ بات ہورہی تھی ڈیکلریشن کی منسوخی کی۔ روزنامہ مساوات کی عزت و آبرو پامال ہوچکی تھی۔ اس کے ایڈیٹر ابراہیم جلیس صاحب اللہ کو پیارے ہوچکے تھے۔ اخباری کارکن بغیر تنخواہوں کے روز صبح سے شام تک بیٹھے رہتے تھے۔ صحافتی تنظیمیں صبح شام اجلاس کرتیں، قائدین مذمتی بیانات دیتے اور اگلے دن کا پروگرام مرتب کیا جاتا۔
ایک دن ہمارے ایڈیٹر اشرف شاد نے کہا، آپ کل چار بجے پریس کلب پہنچیں، کے یو جے کا جلسہ اور شو آف پاور بھی ہے۔ میں نئی نئی کے یو جے کی رکن بنی تھی۔ اگلے دن کلب پہنچی، جو پوری طرح بھرا ہوا تھا۔ اور باہر اتنی ہی پولیس کھڑی تھی۔ بمشکل اندر پہنچی تو گلابی رنگ کی قمیض پہنے ایک صاحب سرخ چہرے کے ساتھ دھواں دھار تقریر کررہے تھے۔ تقریر کیا تھی بس دھواں ہی دھواں تھا۔ سانس لینے کےلیے رکے تو مجمع نے ضیا کے خلاف سخت نعرے لگانے شروع کردیے، جس کی تان ایشیا کے سرخ ہونے پر آکر ٹوٹتی۔ اسٹیج پر بیٹھے برنا صاحب اپنے دیگر ساتھیوں ظفر رضوی، مغل، حبیب بوری، ولی رضوی کے ساتھ بیٹھے مسکرا رہے تھے۔ نعروں کی گونج بڑھتی تو باہر کھڑے پولیس والے اپنی ایڑیوں پر اچکنا شروع کردیتے۔
گلابی قمیض میں سرخ چہرے والے مقرر احفاظ بھائی تھے۔ اس سے پہلے اُن کا صرف نام سنا تھا۔ انھوں نے میرے کے یو جے کا ممبر بننے پر اعتراض کیا تھا اور اشرف شاد سے کہا تھا ''لڑکیوں کو ممبر بنانے میں جلدی مت کیا کرو۔ چار دن بعد کام چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتی ہیں۔''
ان دنوں ہر شام پریس کلب میں جلسہ ہوتا تھا۔ جینے مرنے کی قسمیں کھائی جاتی تھیں۔ ضیاء حکومت کو گویا جھولی بھر بھر کے برا بھلا کہا جاتا تھا۔ دل بھر کے نعرے لگائے جاتے تھے اور ہم سب اس ''کار ثواب'' میں پیش پیش ہوتے۔ ہر سہ پہر یوں جوق در جوق کلب آتے تھے جیسے کوئی مذہبی فریضہ ادا کرنے جارہے ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت ہم سب یہی سوچتے تھے کہ اگر کلب نہ گئے تو آنے والا انقلاب کسی کونے پر رکا رہ جائے گا اور ضیاء کا بھوت کلب پر قبضہ کرلے گا۔
احفاظ بھائی اس وقت کے یو جے کے سیکریٹری تھے اور بہت ہی پرجوش، چیختے چنگھاڑتے صحافی تھے۔ ان کے آگے اچھے اچھے نہیں بول پاتے تھے۔ اپنے اصولوں پر سودے بازی ان کی سرشت میں نہ تھی۔
اسی آنے جانے کے دوران یہ بھی منکشف ہوا کہ لان کی کرسیوں پر بیٹھی دبلی پتلی گورے رنگ اور دھیمی مسکراہٹ والی مہناز احفاظ بھائی کی شریکِ حیات ہیں۔ ان دنوں مہناز کے پاس دو ہی کام تھے، مسکرانا اور اپنی حد درجہ شرارتی بیٹی فے فے کے پیچھے بھاگنا۔ مہناز نہ صرف احفاظ بھائی کی نصف بہتر تھیں بلکہ مساوات اخبار کے متاثرین میں سے بھی تھیں۔ تب ہی مسکرا ہٹوں کے تبادلوں کے بعد ہماری دوستی کا آغاز بھی ہوچکا تھا۔
اس تحریک کو جِلا دسمبر 1977 کی بھوک ہڑتال اور گرفتاریوں سے ملی۔ اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گی۔ ایک سال چلنے والی اس تحریک کا اختتام صحافتی تنظیموں کی تقسیم پر ہوا کہ مار آستین کی کمی تو کبھی نہیں رہی۔ کے یو جے اور پی ایف یو جے بٹ گئی۔
صحافی اور صحافت ایک واضح لائن کے ادھر اور ادھر کھڑے ہوگئے۔ تحریک میں حصہ لینے والے تمام صحافیوں پر برا اور کڑا وقت تھا۔ اس سارے وقت میں احفاظ بھائی کو نہ تو کبھی ناامید دیکھا نہ ہی جوش و جذبے سے خالی۔ وہ اسی تنتنے اور جذبے کے ساتھ رہتے اور تمام کام انجام دیتے۔
شہر کے سارے صحافیوں پر برا وقت تھا۔ چلتے ہوئے اخبار ہم جیسوں کو نوکری نہیں دیتے تھے اور جو نوکری دیتے تھے ان کے پاس دینے کو پیسے نہیں ہوتے تھے۔ احفاظ بھائی بھی مہناز اور فے فے کے ساتھ زندگی کی گاڑی کو چلانے کی تگ و دو میں لگے رہے۔ اسی دوران ان کی زندگیوں میں رمیز آگیا۔ تحریک کے بہت سارے ساتھی تھک ہار کر روٹی روزگار کے چکر میں ملک سے باہر چلے گئے، کچھ نے دوسرے پیشوں میں قسمت آزمائی شروع کردی۔
احفاظ بھائی نے روزنامہ امن کا ڈیسک سنبھال لیا۔ یہی کرتے کرتے ایک دن وہ خاموشی سے چین چلے گئے۔ وہاں آٹھ سال تک اشاعت گھر سے منسلک رہے۔ اشاعت گھر چین میں مختلف زبانوں کے ماہرین کا مرکز ہے۔ چین سے واپسی پر احفاظ بھائی کی شخصیت میں ایک مثبت تبدیلی ان کے چہرے پر رہنے والی مسکراہٹ تھی۔ ان کے جملوں کی کاٹ، کڑواہٹ کم ہوگئی تھی۔
انھوں نے ایک بڑے اخبار کے میگزین میں بحیثیت ایڈیٹر ملازمت قبول کرلی۔ اس کے بعد روزنامہ ایکسپریس کے ہورہے اور کام میں کھرے احفاظ بھائی نے اس اخبار کے میگزین میں جان ڈال دی۔
اس دوران ان کے قریبی احباب، صحافتی تنظیموں کے ورکرز، برنا صاحب اور سبھی ان سے فرمائش کرتے رہے کہ وہ 1977۔78 کی تحریک کو ضبطِ تحریر میں لائیں۔ خود ان کی بھی خواہش تھی کہ اس تحریک کو ریکارڈ ہونا چاہیے۔
اپنی یادداشتوں اور دستیاب ریکارڈ کے سہارے انھوں نے کام شروع کردیا۔ اسی دوران ہفت روزہ الفتح کے ان کے ساتھی وہاب صدیقی اپنی جلاوطنی ختم کرکے واپس آگئے۔ ان کی آمد سے احفاظ بھائی کو نہ صرف سہارا ملا، بلکہ بہت سا ریکارڈ بھی مل گیا۔
ایک ملاقات میں انھوں نے فرمائش کی کہ میرے پاس اگر ہفت روزہ معیار کے 1977۔78 کے شمارے ہیں تو میں تحریک سے متعلق شایع شدہ تحریری مواد انھیں مہیا کروں۔ میں نے ان سے وعدہ کیا اور پورا بھی کیا۔ بہت خوش ہوئے۔
آج ان کے کئی روپ میرے سامنے ہیں، مجھے یاد آرہے ہیں۔ غصے سے بھرپور سگریٹ کا لمبا کش لگاتے ہوئے، کسی کی بیماری دکھ کا سن کر پریشان ہو جانے والے، اخباری مالکان سے ہمیشہ ناخوش، میری بیٹی کی بیماری اور انتقال کا سن کر آب دیدہ ہو جانے والے، جنون چڑھتا تو سامنے والے پر کرسیاں الٹ دیتے، مہناز کی بیماری میں ایک محبت کرنے والے شوہر، بچوں کے شفیق باپ، بہو کےلیے ایک ہم درد اور شفیق سسر، بیگماتی سیاست اور خواتین انجمنوں سے ناراض، موجودہ دور کے صحافتی انداز سے سخت نالاں۔
احفاظ بھائی ایک بہت ہی عمدہ مترجم بھی تھے۔ زبان و بیان پر عبور لاجواب تھا۔ ہلکا جملہ، تلفظ اور گرامر کی غلطی ان کے نزدیک ناقابل معافی تھی۔ شاعری بھی خوب کرتے تھے لیکن ان کے مزاج کی طرح اکثر لوگوں کو ہضم نہیں ہوتی تھی۔
ان کے شعری مجموعے ''نئی الف لیلیٰ'' اور ''زندہ ہے زندگی'' کے نام سے چھپے ہیں۔ انھیں چینی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ چینی زبان کے افسانوں کے کئی تراجم کتابی شکل میں موجود ہیں۔ یہی نہیں انھوں نے بچوں کےلیے بھی بہت کچھ لکھا اور ترجمہ کیا۔ ان کی کتاب ''پاکستانی صحافت کی سب سے بڑی جنگ'' پاکستانی صحافت کی پوری تاریخ ہے، جو ہمیشہ زندہ رہے گی۔
پھر کچھ یوں ہوا کہ ان کی آواز ہر وقت بھرائی رہنے لگی، تب ہی ان کی مہلک بیماری کا انکشاف ہوا۔ ایک فائٹر کی طرح وہ بیماری کے مختلف مراحل سے نبرد آزما رہے۔ بات کرنے کو محتاجی، پیچیدگیاں در پیچیدگیاں، لیکن اس کے باوجود جب ملتے محبت سے سر پر ہاتھ رکھتے۔ دوستوں سے ملنے کےلیے جب جب بلایا کبھی انکار نہ کیا۔
گزرے ماہ ستمبر میں جب شمیم عالم آئے اور تمام احباب ایک ظہرانے پر جمع ہوئے تو احفاظ بھائی بھی آئے اور خوب جم کر بیٹھے۔ ان سے آخری ملاقات ان کے گھر ہی پر شمیم کی واپسی سے قبل ہوئی تھی۔ اس روز انھوں نے اتنی باتیں کیں کہ اپنے آلہ آواز کی دو بیٹریاں ختم کرلیں۔
اپنی بیماری کے طویل برسوں میں انھوں نے کبھی شکستگی کا اظہار نہ کیا۔ اب جو چند ماہ سے ان کے مسائل بڑھنے شروع ہوئے تو بڑھتے ہی چلے گئے۔ لگتا تھا کہ کوئی دن کا سورج اچھی خبر کے ساتھ طلوع نہیں ہوگا اور کل یہی ہوا۔
احفاظ بھائی، جہاں رہیں خوش رہیں۔ آپ پاکستانی صحافت کا کبھی نہ جھکنے والا ستون تھے۔ آپ کے بعد بہت دور دور تک کوئی آپ جیسا نہیں۔ مجھے یقین ہے اپنے حقوق کےلیے آپ کی جدوجہد ادھر بھی جاری رہے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔