کچھ تذکرہ اٹھارویں ترمیم کا
کیا چند مفاد پرستوں کا اس ترمیم پر بات کرنے سے انکار اور سقوطِ ڈھاکہ کے قصے سنانا شکوک و شبہات کو جنم نہیں دیتا؟
یہ تحریر پڑھنے سے پہلے دو باتیں ذہن میں بٹھا لیجیے: ایک تو یہ کہ اٹھارویں ترمیم کے معاملے پر ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہوگی؛ اور دوسری یہ کہ مستقبل قریب میں اس نظام کے دھڑن تختے کا نقطۂ آغاز اسی ترمیم کا این ایف سی ایوارڈ ہوگا۔ یعنی اٹھارویں ترمیم کسی حد تک رول بیک ہوگی، کچھ دو اور کچھ لو کی بنیاد پر اسی ترمیم کے موجدین کے ہاتھوں ہوگی، مگر ابھی نہیں ہوگی۔
اب آجائیے کہ اٹھارویں ترمیم در حقیقت ہے کیا؟ زرداری صاحب صدر تو بن گئے مگر یہ بات ان جیسے زیرک سیاستدان سے زیادہ کون سمجھ سکتا تھا کہ یہ اقتدار حب علی نہیں بلکہ بغضِ معاویہ کا ثمر ہے۔ عوام چونکہ مشرف کی دس سالہ آمریت سے منہ کو آگئے تھے اور لفظ 'جمہوریت' دور کا سہانا ڈھول تھا لہٰذا بی بی کی وفات کے بعد زرداری صاحب ہی حاکموں کا انتخاب ٹھہرے۔ وہ جانتے تھے کہ جب عوام حقیقت کے جھٹکے سے لفظ جمہوریت کے وقتی رومان سے باہر نکلیں گے تو پیپلز پارٹی سکڑ کر محض سندھ کی جماعت رہ جائے گی۔
زرداری صاحب کے خدشات بعد ازاں درست ثابت ہوئے مگر معاملہ فہمی میں اپنا ثانی نہ رکھنے والے مفاہمت کے بادشاہ نے برے وقت کی پلاننگ اچھے دنوں میں کر لی تھی۔ یعنی میاں رضا ربانی کو یہ ٹاسک سونپ دیا گیا تھا کہ آئین میں ایک ایسی ترمیم کی جائے جس سے ''اُتوں اُتوں'' تو واہ واہ کا انتظام ہو مگر ''وِچوں وِچوں'' مستقبل کےلیے دسترخوان تیار کیا جائے۔ رضا ربانی نے اپنے ساتھ سلطانیٔ جمہور کا خواب دیکھنے والے ستائیس ساتھی چنے جنہوں نے ستتر میٹنگز کیں، جن میں سے ایک بھی میٹنگ کا دورانیہ پانچ گھنٹے سے کم نہ تھا، اور یوں ان کیمرہ اجلاس کی بدولت بغیر کسی بحث و مباحثہ کے آئین کی تقریباً سو شقوں میں تبدیلیاں کی گئیں۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ واہ واہ کے شور میں اس ترمیم کی کمزوریوں پر کسی کی نگاہ نہ گئی اور سامنے آنے کے چند ہی ماہ بعد یہ اس ملک کے ناکام تجربوں کی فہرست میں ایک اور اضافہ شمار ہوا۔
بہت شور برپا تھا پہلو میں دل کا، کہ آصف علی زرداری نے صدر ہوتے ہوئے اپنے اختیارات میں کمی کردی، اب صدر اسمبلیاں نہیں توڑ سکے گا، بھٹو سائیں کے عزم کے عین مطابق تہتر کا آئین اپنی اصل شکل میں بحال کردیا گیا، اب اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوں گے، صوبے اپنی نئی پہچان کے ساتھ اپنے لوگوں کی بہتر دیکھ بھال کریں گے، اب آئین کو بالائے طاق رکھنے کی سوچ میں شامل سبھی غیر جمہوری اذہان سزا کے حقدار ہوں گے، کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ ہوا، یعنی وہ معاملات جن پر صوبے اور وفاق مل کر لیجسلیشن کر سکتے ہیں اب وہ مکمل طور پر صوبوں کی ملکیت ہوگئے۔ یعنی اب تعلیم، پولیس، ٹیکس کلیکشن اور صحت سمیت اہم شعبے صوبوں کی زیرِ نگرانی ہوں گے۔ اور تو اور این ایف سی ایوارڈ میں یہ شق بھی رکھ دی گئی کہ کسی صوبے کو ماضی میں این ایف سی کی شراکت داری سے کم حصہ نہ ملے گا۔
اندرون خانہ وزیرِ اعظم اور وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے علاوہ تمام انتخابات کی سیکرٹ بیلٹنگ یعنی ہارس ٹریڈنگ کے فروغ پر چپ سادھ لی گئی، چار مختلف ڈرگ قوانین پر کسی کی نگاہ نہ گئی اور چار مختلف صوبوں میں چار مختلف نصاب سے الگ الگ ذہن سازی کے مراحل سے گزرنے والے ایک قوم کے بچوں پر سب خاموش رہے۔
چلیے ایک لمحے کو یہ مان لیا جائے کہ یہ ترمیم خالصتاً نیک نیتی کا نتیجہ تھی، اس کے خالق محض بہتر گورننس کی چاہ میں یہ کار ہائے نمایاں کر بیٹھے، اور ان ستتر میٹنگز میں بیٹھنے والے کسی بھی فرد کے ذہن میں کوئی ایسی پلاننگ نہیں تھی جو ایف آئی اے کے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں آنے والے حقائق کی صورت میں سامنے آئی۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس ترمیم کے دس سال بعد بھی جب معاملات بہتر نہ ہوئے، جب صوبائی خود مختاری کے ڈھونگ کا فائدہ صرف اشرافیہ کو ہوا، جب آج کے اس جدید دور میں بھی سندھ کے میٹرک کا نصاب سن اٹھانوے کی ونڈوز سے آگے نہ بڑھ سکا، جب صحت تو صوبائی معاملہ ہوا مگر بلاول کورونا کے معاملے پر وفاق کے گریبان پکڑے دکھائی دیتے ہیں، صوبوں کے سرکاری اسپتالوں کی حالتِ زار آپ کے سامنے ہے، جب ریبیز کی ویکسین کا انتظام نہ ہوسکے، جب صوبے این ایف سی کے نام پر پچیس سو ارب ڈکار جائیں مگر پی ایف سی (پراونشل فنانس کمیشن) کے نام پر رقم عام آدمی کی سطح تک منتقل کرنے کو تیار نہ ہوں، جب جے آئی ٹی رپورٹس کرپشن کے بازار پر خون روتی دکھائی دیں تو آپ ہی بتائیے کہ کیا اِس ترمیم پر بات بھی نہ ہو؟
کیا چند مفاد پرستوں کا اس ترمیم پر بات کرنے سے انکار اور سقوطِ ڈھاکہ کے قصے سنانا شکوک و شبہات کو جنم نہیں دیتا؟
ملک کا کل ریوینیو پانچ ہزار پانچ سو ارب ہے جس کا اٹھاون فی صد یعنی پچیس سو ارب صوبوں کو منتقل ہوجاتا ہے۔ دو ہزار ارب قرضوں کی مد میں ادائیگیوں پر صرف ہوجاتے ہیں، اور لگ بھگ سترہ سو ارب دفاع کی مد میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ وفاق مالی سال کے پہلے دن سے چھ سو ارب کے خسارے میں ہوتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کوئی ایک شق نہیں، اسے تبدیل کرنے کےلیے پورا آئین تبدیل کرنا پڑے گا۔ عمران سرکار یہ سمجھتی ہے کہ پوری ترمیم کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں، بس چند ایک کمزوریوں کو دور کرنے سے بیشتر مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
مسائل کے حل کی تو چلیے کوئی گارنٹی نہیں، مگر پھر بھی اس جانب کوئی نہ کوئی سبیل تو نکالی جاسکتی ہے۔ اس تحریر کے آخر میں دوبارہ دو باتیں ذہن میں بٹھا لیجیے: اٹھارویں ترمیم کے معاملے پر ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہوگی؛ اور مستقبل قریب میں اس نظام کے دھڑن تختے کا نقطۂ آغاز اسی ترمیم کا این ایف سی ایوارڈ ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اب آجائیے کہ اٹھارویں ترمیم در حقیقت ہے کیا؟ زرداری صاحب صدر تو بن گئے مگر یہ بات ان جیسے زیرک سیاستدان سے زیادہ کون سمجھ سکتا تھا کہ یہ اقتدار حب علی نہیں بلکہ بغضِ معاویہ کا ثمر ہے۔ عوام چونکہ مشرف کی دس سالہ آمریت سے منہ کو آگئے تھے اور لفظ 'جمہوریت' دور کا سہانا ڈھول تھا لہٰذا بی بی کی وفات کے بعد زرداری صاحب ہی حاکموں کا انتخاب ٹھہرے۔ وہ جانتے تھے کہ جب عوام حقیقت کے جھٹکے سے لفظ جمہوریت کے وقتی رومان سے باہر نکلیں گے تو پیپلز پارٹی سکڑ کر محض سندھ کی جماعت رہ جائے گی۔
زرداری صاحب کے خدشات بعد ازاں درست ثابت ہوئے مگر معاملہ فہمی میں اپنا ثانی نہ رکھنے والے مفاہمت کے بادشاہ نے برے وقت کی پلاننگ اچھے دنوں میں کر لی تھی۔ یعنی میاں رضا ربانی کو یہ ٹاسک سونپ دیا گیا تھا کہ آئین میں ایک ایسی ترمیم کی جائے جس سے ''اُتوں اُتوں'' تو واہ واہ کا انتظام ہو مگر ''وِچوں وِچوں'' مستقبل کےلیے دسترخوان تیار کیا جائے۔ رضا ربانی نے اپنے ساتھ سلطانیٔ جمہور کا خواب دیکھنے والے ستائیس ساتھی چنے جنہوں نے ستتر میٹنگز کیں، جن میں سے ایک بھی میٹنگ کا دورانیہ پانچ گھنٹے سے کم نہ تھا، اور یوں ان کیمرہ اجلاس کی بدولت بغیر کسی بحث و مباحثہ کے آئین کی تقریباً سو شقوں میں تبدیلیاں کی گئیں۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ واہ واہ کے شور میں اس ترمیم کی کمزوریوں پر کسی کی نگاہ نہ گئی اور سامنے آنے کے چند ہی ماہ بعد یہ اس ملک کے ناکام تجربوں کی فہرست میں ایک اور اضافہ شمار ہوا۔
بہت شور برپا تھا پہلو میں دل کا، کہ آصف علی زرداری نے صدر ہوتے ہوئے اپنے اختیارات میں کمی کردی، اب صدر اسمبلیاں نہیں توڑ سکے گا، بھٹو سائیں کے عزم کے عین مطابق تہتر کا آئین اپنی اصل شکل میں بحال کردیا گیا، اب اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوں گے، صوبے اپنی نئی پہچان کے ساتھ اپنے لوگوں کی بہتر دیکھ بھال کریں گے، اب آئین کو بالائے طاق رکھنے کی سوچ میں شامل سبھی غیر جمہوری اذہان سزا کے حقدار ہوں گے، کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ ہوا، یعنی وہ معاملات جن پر صوبے اور وفاق مل کر لیجسلیشن کر سکتے ہیں اب وہ مکمل طور پر صوبوں کی ملکیت ہوگئے۔ یعنی اب تعلیم، پولیس، ٹیکس کلیکشن اور صحت سمیت اہم شعبے صوبوں کی زیرِ نگرانی ہوں گے۔ اور تو اور این ایف سی ایوارڈ میں یہ شق بھی رکھ دی گئی کہ کسی صوبے کو ماضی میں این ایف سی کی شراکت داری سے کم حصہ نہ ملے گا۔
اندرون خانہ وزیرِ اعظم اور وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے علاوہ تمام انتخابات کی سیکرٹ بیلٹنگ یعنی ہارس ٹریڈنگ کے فروغ پر چپ سادھ لی گئی، چار مختلف ڈرگ قوانین پر کسی کی نگاہ نہ گئی اور چار مختلف صوبوں میں چار مختلف نصاب سے الگ الگ ذہن سازی کے مراحل سے گزرنے والے ایک قوم کے بچوں پر سب خاموش رہے۔
چلیے ایک لمحے کو یہ مان لیا جائے کہ یہ ترمیم خالصتاً نیک نیتی کا نتیجہ تھی، اس کے خالق محض بہتر گورننس کی چاہ میں یہ کار ہائے نمایاں کر بیٹھے، اور ان ستتر میٹنگز میں بیٹھنے والے کسی بھی فرد کے ذہن میں کوئی ایسی پلاننگ نہیں تھی جو ایف آئی اے کے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں آنے والے حقائق کی صورت میں سامنے آئی۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس ترمیم کے دس سال بعد بھی جب معاملات بہتر نہ ہوئے، جب صوبائی خود مختاری کے ڈھونگ کا فائدہ صرف اشرافیہ کو ہوا، جب آج کے اس جدید دور میں بھی سندھ کے میٹرک کا نصاب سن اٹھانوے کی ونڈوز سے آگے نہ بڑھ سکا، جب صحت تو صوبائی معاملہ ہوا مگر بلاول کورونا کے معاملے پر وفاق کے گریبان پکڑے دکھائی دیتے ہیں، صوبوں کے سرکاری اسپتالوں کی حالتِ زار آپ کے سامنے ہے، جب ریبیز کی ویکسین کا انتظام نہ ہوسکے، جب صوبے این ایف سی کے نام پر پچیس سو ارب ڈکار جائیں مگر پی ایف سی (پراونشل فنانس کمیشن) کے نام پر رقم عام آدمی کی سطح تک منتقل کرنے کو تیار نہ ہوں، جب جے آئی ٹی رپورٹس کرپشن کے بازار پر خون روتی دکھائی دیں تو آپ ہی بتائیے کہ کیا اِس ترمیم پر بات بھی نہ ہو؟
کیا چند مفاد پرستوں کا اس ترمیم پر بات کرنے سے انکار اور سقوطِ ڈھاکہ کے قصے سنانا شکوک و شبہات کو جنم نہیں دیتا؟
ملک کا کل ریوینیو پانچ ہزار پانچ سو ارب ہے جس کا اٹھاون فی صد یعنی پچیس سو ارب صوبوں کو منتقل ہوجاتا ہے۔ دو ہزار ارب قرضوں کی مد میں ادائیگیوں پر صرف ہوجاتے ہیں، اور لگ بھگ سترہ سو ارب دفاع کی مد میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ وفاق مالی سال کے پہلے دن سے چھ سو ارب کے خسارے میں ہوتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کوئی ایک شق نہیں، اسے تبدیل کرنے کےلیے پورا آئین تبدیل کرنا پڑے گا۔ عمران سرکار یہ سمجھتی ہے کہ پوری ترمیم کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں، بس چند ایک کمزوریوں کو دور کرنے سے بیشتر مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
مسائل کے حل کی تو چلیے کوئی گارنٹی نہیں، مگر پھر بھی اس جانب کوئی نہ کوئی سبیل تو نکالی جاسکتی ہے۔ اس تحریر کے آخر میں دوبارہ دو باتیں ذہن میں بٹھا لیجیے: اٹھارویں ترمیم کے معاملے پر ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہوگی؛ اور مستقبل قریب میں اس نظام کے دھڑن تختے کا نقطۂ آغاز اسی ترمیم کا این ایف سی ایوارڈ ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔