ہندوتوا اور وصف انسانی
بھارتی جہالت کے خلاف ہتھیاروں سے لڑا جاسکتا ہے نہ ہتھیاروں سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔
بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کوئی نئی بات نہیں ہے، بھارتی مذہبی انتہا پسندی تقسیم ہند کے فوری بعد ہی شروع ہوچکی تھی، فسادات کا سلسلہ شروع آج تک جاری ہے۔ اس حوالے سے دوسرا المیہ یہ ہے کہ بھارت نے ایل او سی پر مسلسل مار دھاڑ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، آئے دن لائن آف کنٹرول پر خون خرابہ جاری رہتا ہے اور کھیتوں میں کام کرنے والے مزدور اس کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔
آج کل بھی لائن آف کنٹرول پر خون خرابے کا سلسلہ جاری ہے، بھارتی سفارت کاروں کو وزارت خارجہ بلا کر احتجاج کیا جاتا ہے لیکن جانے یہ سفارت کار کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں ان پر کچھ اثر ہی نہیں ہوتا۔ لائن آف کنٹرول کو لائن آف جھڑپ بنا دیا گیا ہے، لائن آف کنٹرول کا مطلب ہی بدل دیا گیا ہے۔بھارت کی حکمران جماعت نے ملک میں ہندو مسلم منافرت کا ایک ایسا کلچر بنا دیا ہے کہ ہر حیلے ہر بہانے فرقہ وارانہ منافرت کے واقعات پیش آتے ہیں، گائے ساری دنیا میں ایک ایسا جانور ہے جس کا دودھ پیا جاتا ہے اور گوشت کھایا جاتا ہے اسے ماتا کا نام دے کر اس قدر مقدس بنا دیا گیا ہے کہ اس کے حوالے سے بھارت میں آئے دن فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہتے ہیں ہم جس دور میں ہم زندہ ہیں وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔
انسان چاند پر ہو آیا ہے اور اب مریخ پر جانے کی تیاری کر رہا ہے ،ایسے ترقی یافتہ دور میں گائے ماتا کا تصور محض حماقت کے علاوہ کچھ نہیں، گائے دوسرے بے شمار جانوروں کی طرح ایک جانور ہے جسے ساری دنیا میں غذا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن سادہ لوح ہندو عوام کے سامنے اسے بھگوان کا درجہ دے کر جہاں عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے وہیں اسے فرقہ وارانہ فسادات میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
بھارتی جہالت کے خلاف ہتھیاروں سے لڑا جاسکتا ہے نہ ہتھیاروں سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے، مذہبی جہالت کا خاتمہ جدید علوم اور گاؤ ماتا جیسی حماقتوں کی اصلیت بتا کر ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ بھارت کا عام ہندو غیر منطقی روایات میں پھنسا ہوا ہے۔ مذہب کے نام پر جہل کے جو مظاہرے کیے جاتے ہیں خواہ ان مظاہروں کا تعلق کسی مذہب سے ہو اب اسے ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے۔
بھارت آبادی کے حوالے سے چین کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔بھارت میں بے شمار زبانیں بولی جاتی ہیں، بے شمار رسم و رواج کے علاوہ کئی مذاہب بھی بھارت میں موجود ہیں جن میں ہندو مذہب سب سے بڑا مذہب مانا جاتا ہے ۔بھارت کا ایک بڑا مذہب اسلام ہے، بھارت میں 20 کروڑ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں۔ ہندوازم کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے حوالے سے ہندو مذہب لاجیکلی الرجک ہے۔
مذہب کو ماننے والے یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کون سا مذہب کتنا لاجیکل ہے، اس حوالے سے ہندو مذہب کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہندو مذہب کی کوئی لاجک ہی نہیں یہ بھگوانوں اور ماتاؤں کا ایک ایسا معجون مرکب ہے جس کا کوئی سر پیر ہی نہیں۔ہم بات کر رہے تھے مذاہب کے لاجک کی لیکن چونکہ ہمارا اصل موضوع مذہبی انتہا پسندی ہے لہٰذا ہم اپنے کالم کو اسی موضوع تک محدود رکھیں گے۔ اصل میں انتہا پسندی خواہ وہ کسی شعبے سے تعلق رکھتی ہو لاجک ہی نہیں بلکہ غیر انسانی بھی ہوتی ہے۔
بھارت بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے پہلے ایک لبرل ملک کی تعریف میں آتا تھا لیکن نریندر مودی نے اسے ہندوتوا کے حوالے سے ایک ایسا کٹر مذہبی ملک بنا دیا ہے کہ اگر اسے اس راستے سے نہ ہٹایا گیا تو اس کا مستقبل ایک وحشی اور غیر انسانی قوم کا ہو جائے گا اور اس ملک میں مہذب انسانوں کا رہنا مشکل ہو جائے گا۔مذہبی انتہا پسندی کی ایک شکل دہشت گردی ہے جو انسانیت کے تمام مدارج کو پھلانگتی ہوئی حیوانیت کے اس مرحلے میں داخل ہوگئی ہے جہاں انسانیت سر نگوں ہوجاتی ہے۔
انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے اس وصف سے انسان تہی دامن ہے اور عملاً حیوان سے بدتر بن کر رہ گیا ہے۔ انسانی اوصاف میں ایک بڑا وصف اعتدال ہے، انسان جب اعتدال سے نکل کر انتہا پسندی کی طرف چلا جاتا ہے تو پھر وہ انسان کم حیوان زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے اگر ہم ہندوتوا پر نظر ڈالیں تو اس ''توا'' میں انسانیت دم توڑتی نظر آتی ہے۔
عام آدمی خواہ اس کا کسی مذہب سے تعلق ہو وہ نہ مذہب کی لاجک پر نظر ڈالتا ہے نہ یہ دیکھتا ہے کہ اس کی انتہا پسندی انسانیت کے لیے کتنا بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے۔ جب کوئی انسان کسی حوالے سے بھی انتہا پسند ہو جاتا ہے تو پھر وہ اشرف المخلوقات کے درجے سے نیچے گر جاتا ہے۔ ہم نے اس کالم میں بی جے پی کی بے اعتدالی کا جائزہ لینے کی کوشش کی تھی کہ ہندوتوا کی حیثیت مذاہب کے حوالے سے کتنی گہری ہوئی ہے۔ بھارت میں ادیب رہتے ہیں شاعر رہتے ہیں، مفکر رہتے ہیں، دانشور رہتے ہیں ان کی ذمے داری ہے کہ وہ بھارت کو ایک انتہا پسند ملک کے بجائے اعتدال پسند اور لبرل ملک بنانے کی کوشش کریں۔