منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
جیسے جیسے کورونا پھیل رہا ہے، ویسے ویسے میڈیا کی آزادی سکڑ رہی ہے۔
لگتا ہے کئی برس سے آزاد صحافت شہری حقوق کے کھاتے سے نکال کر جرائم کی فہرست میں ڈال دی گئی ہے۔حکومتی کارندوں کی ایک اہم ذمے داری یہ بھی قرار پائی ہے کہ کس طرح میڈیا کو پابندِ سلاسل کر کے منہ سی دیا جائے۔
جیسے جیسے کورونا پھیل رہا ہے، ویسے ویسے میڈیا کی آزادی سکڑ رہی ہے۔ایک ایسے موڑ پر جب صحت عامہ کے حالات مسلسل بگڑ رہے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے کہ نسبتاً زیادہ شفاف و موثر اطلاعاتی نظام کے فروغ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔الٹا خبر کی آزادنہ و غیر جانبدار فراہمی ہی مشکل تر بنائی جا رہی ہے۔
انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے دائرے میں اب دھیرے دھیرے دبے پاؤں ہر طرح کا اختلافِ رائے آ گیا ہے۔جب کوئی اور ٹھوس الزام نہیں ملتا تو پھر سوشل میڈیا کے غلط استعمال اور افواہیں پھیلانے کے جرم سے متعلق قانونی شقوں کو حرکت میں لا کر انھیں صحافیوں کی زباں بندی کے لیے کھلم کھلا یا غیر اعلانیہ طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔جب متعلقہ حکام سے اس طرح کے اقدامات کی وضاحت کے لیے رابطہ کرنے کی کوشش کی جائے تو اول تو وہ جواب ہی نہیں دیتے اور اگر زیادہ دباؤ پڑے تو ایک لگی بندھی تیار شدہ وضاحت جاری کر دی جاتی ہے کہ ملک میں میڈیا کو پوری آزادی میسر ہے۔اس بارے میں چند مٹھی بھر عناصر ہی ملک دشمنوں کے آلہِ کار بن کر بے بنیاد پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔
حکومت صرف اس موقع پر کارروائی کے لیے مجبور ہوتی ہے جب غیرذمے داری کامظاہرہ کرتے ہوئے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے، یا سماج کے مختلف طبقات میں نفرتیں پھیلانے یا بے بنیاد بے سروپا پروپیگنڈے کے ذریعے سرکار کے خلاف عام لوگوں کو اکسانے کی سوچی سمجھی کوشش کی جائے۔
جب سے موجودہ حکومت برسرِاقتدار آئی ہے تب سے اکثر ٹی وی چینلوں اور اخبارات نے یا تو سرکار نواز پالیسی بلا چوں و چرا اختیار کر لی ہے۔جن معدودے چند چینلز اور اخبارات نے ابتدا میں اس رجحان کی مزاحمت کی ان کو اپنا ہی گلا گھونٹنے یا میدان سے خارج ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔
اس دوران بہت سے نجی چینلوں اور اخبارات کو خاموشی کے ساتھ ان نجی اداروں یا افراد نے خرید لیا جن کے ڈانڈے انٹیلی جینس ایجنسیوں سے ملتے ہیں۔مگر سرکاری یا سرکار نواز نجی چینلز میں کام کرنا بھی سلامتی کی ضمانت نہیں ہے۔اس وقت ایسے اخبارات و نیوز چینلز سے تعلق رکھنے والے درجن بھر صحافی سوشل میڈیا پر اپنے دلی خیالات ظاہر کرنے یا اپنی مرضی کا تجزیہ کرنے کی پاداش میں مختلف قانونی دفعات کے تحت جیلوں میں بند ہیں۔
مثلاً ایک نیوز ویب سائٹ کے ایڈیٹر عاطف حسب اللہ نے گذشتہ ماہ جب اپنے فیس بک پیج پر کورونا وائرس متاثرین سے متعلق وزارتِ صحت کے اعداد و شمار کو چیلنج کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی تو اسی دن عاطف کو ایک پولیس گاڑی میں آنے والے کچھ افراد اپنے ساتھ لے گئے۔
عاطف حسب اللہ پر دہشت گرد تنظیموں سے روابط سے متعلق قانونی دفعات لگا دی گئیں۔حال ہی میں سرکاری پبلک پراسکیوٹر نے خبردار کیا ہے کہ اگر کسی نے کورونا سے متعلق کسی بھی میڈیا پلیٹ فارم پر غلط اعداد و شمار پیش کیے اور افواہیں پھیلانے کی کوشش کی تو اسے پانچ برس قیدِ بامشقت اور بھاری جرمانے کا سامنا ہو سکتا ہے۔
پچھلے دنوں برطانوی اخبار گارجئین کے لیے کام کرنے والے ایک نامہ نگار کو بھی مختصر نوٹس پر ملک چھوڑنا پڑا۔کیونکہ گارجئین میں شایع ہونے والے ایک مضمون میں کورونا سے متعلق سرکاری اعداد و شمار اور اقدامات کی صحت پر تنقیدی سوالات اٹھانے کی کوشش کی گئی تھی۔
حکام گذشتہ ہفتوں کے دوران ایسی کئی نیوز ویب سائٹس بلاک کر چکے ہیں جن کے ذریعے متعدد سماجی تنظیموں اور کارکنوں نے توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی کہ ملک کی گنجان جیلوں میں کورونا وائرس بڑے پیمانے پھر پھیلنے کے خطرے کے پیشِ نظر نہ صرف عام قیدیوں کو نئی اور کھلی جگہوں پر منتقل کیا جائے بلکہ جو لوگ سیاسی اختلافِ رائے یا حکومتی موقف سے مختلف سوچ رکھنے کے سبب جیلوں میں بند ہیں انھیں عارضی طور ہی سہی مگر رہا کر دیا جائے۔
زیادہ تر میڈیا اگرچہ حکومت نواز ہے یا ہو گیا ہے۔پھر بھی سرکار کو حالات و واقعات کی مجموعی کوریج کے تناظر میں مسلسل شکوک و شبہات اور عدم اطمینان لاحق ہے۔متعدد صحافیوں نے نام نہ بتانے کی شرط پر نجی حیثیت میں بتایا کہ یہ تو روزمرہ کا معمول اور ایک نارمل بات ہے کہ وٹس ایپ پر ادارتی عملے کو تواتر سے ہدایات موصول ہوتی ہے کہ آج کیا شایع اور نشر ہونا ہے اور کس مقدار میں اور کن الفاظ میں ہونا ہے یا بالکل نہیں ہونا۔
اگر کسی میڈیائی ادارے یا صحافی کے بارے میں شبہہ ہو جائے کہ وہ خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری میں سرکاری ہدایات پر بالجبر عمل کر رہا ہے یا اس کے دل میں حکومت مخالفوں کے لیے نرم گوشہ ہے یا پھر وہ دوہرے خیالات کا مالک ہے تو پھر اسے راہِ راست پر رکھنے کے لیے بلاواسطہ پیغامات بھیجنے یا گپ شپ کے بہانے طلب کر کے دھمکی آمیز نصیحتوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔
( تین روز پہلے آزادیِ صحافت کے عالمی دن کے موقع پر انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مصر میں صدر ابوالفتح السسی کے دورِ حکومت میں میڈیا کے احوال پر مندرجہ بالا رپورٹ شایع کی )۔
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ (میر)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)