ہمیں جیون کو پلٹ کر دیکھنے کی فرصت مل گئی

جہاں سب کچھ بہت ترتیب سے ’بے ترتیب‘ سا ہوا پڑا ہے۔۔۔

جہاں سب کچھ بہت ترتیب سے ’بے ترتیب‘ سا ہوا پڑا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کیا ہمارے جیون میں 'غم روزگار' کے سوا اور کوئی 'کام' نہیں۔۔۔؟

ایک ماہ کے مسلسل 'لاک ڈاؤن' کے دوران ہمیں تو اس کا جواب اثبات میں ملا ہے، کیوں کہ اس دوران خلقت اکتاہٹ اور بیزاری کی ایک شدید کیفیت سے دوچار دیکھی۔۔۔

شاید روزی روٹی کی فرصت سے ملنے والی تعطیلات کا مقصد ہمارے نزدیک، گھومنے پھرنے اور کھانے پینے سے آگے بڑھا ہی نہیں۔۔۔ یا شاید کچھ کھیل کود۔۔۔ لیکن اب وقت ایسا ہے کہ 'کورونا' کی وبا کے سبب گھر سے باہر نکلنے اور غیر ضروری سفر پر پابندی ہے، تو یہ کھیل بھی فقط 'چھت تلے' والے ہی باقی رہے ہیں، یہ امر ہمارے عوام کے لیے کسی شدید قید تنہائی جیسا ثابت ہو رہا ہے۔

دوسری طرف باقیوں سے مختلف 'ہم' ہیں۔۔۔ ایک ماہ کی 'فرصت' میں بھی ہمیں دراصل کوئی خاص فرصت نہیں ملی۔۔۔ ہر چند کہ صحافی ہونے کے باوجود ہمارے پیشہ وارانہ معمولات بھی کافی اتھل پتھل ہیں۔۔۔ اس کی تفصیل میں جائے بغیر ہم یہ بات ضرور ریکارڈ کا حصہ بنانا چاہیں گے، کہ ہمارے کچھ نام نہاد 'ہمدرد'، 'باشعور' اور 'اہل درد' گنے جانے والے بھی بارہا اس امر کا اظہار کرتے رہے کہ ''جب ہمری دُکانوا بند ہے تو اُونو اخبار والے کیوں چالو ہیں۔۔۔؟''

بہرحال ہماری زبان میں اثر ہو تو ایسوں کے لیے فقط دعا ہی کی جا سکتی ہے۔۔۔ ہم واپس اپنی 'فرصت' پر آتے ہیں، تو ہم تو کئی برسوں سے خواہاں ہیں کہ ہمیں ایسی 'بامعاوضہ' بابرکت اور 'اطمینان بخش' فرصت عطا ہو کہ ہم اپنی زندگی کے بہت سے بکھیروں کو سمیٹ سکیں۔۔۔

ان 'بکھیروں' کا 'دفتر' کھولنے کا بھی یہاں وقت نہیں، فی الحال یوں سمجھ لیجیے کہ 'ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دَم نکلے' لیکن اس میں گھومنے پھرنے اور موج مستی ٹائپ کوئی چیز شامل نہیں ہے، اور ظاہر ہے کھانے اڑانے کا کوئی معاملہ تو بالکل بھی نہیں ہو سکتا۔۔۔ سو ہمارے دفتری معمولات جو ڈھیلے ڈھالے ہوئے تو 24 گھنٹوں میں کسی بھی پہر انہیں نبٹا کر ہم وقت میں جتنا بھی نقب لگا سکے، اس میں اپنی الماری کے نہاں خانوں میں برسوں سے رکھی ہوئی بہت سی 'چیزیں' سمیٹ لیں۔۔۔ اور ان کی خاک صاف کر کے کچھ وقت کی 'گَرد' پالی۔۔۔ اور ہماری الماری کیا ہے، یہاں ہمارے روزوشب کے موافق سب کچھ بہت ترتیب سے 'بے ترتیب' ہوا پڑا ہے۔۔۔


ہمارے کمرے میں کتابوں، رسالوں اور اخباروں کے سوا بھی بہت کچھ ہے، لیکن سمیٹا، سمٹائی کو زیادہ تر چیزیں انہی سے تعلق رکھتی ہیں، سو اخباری کالموں اور مضامین کے وہ صفحے جن کا مطالعہ برسوں سے 'ادھار' تھا، وقت پا کر انہیں چُکتا کرنے لگے۔۔۔ کیوں کہ ہماری عادت ہے کہ اہم اور قابل حوالہ اخباری مضامین محفوظ کرلیتے ہیں، اس لیے کسی بھی اخبار یا رسالے پر نظر ڈالے بغیر تلف یا خارج نہیں کرتے۔۔۔ سو یوں ہوا کہ زندگی آگے بڑھی تو اس کے جھمیلے بھی بڑھتے گئے، اور اس معمول میں بار بار اور طویل بے قاعدگیاں در آتی رہیں۔۔۔ نتیجتاً ایسے اخباری صفحات کا اچھا خاصا پلندہ ہوگیا۔۔۔ جو کافی طویل فرصت کا متقاضی تھا، کہ اسے توجہ سے دیکھا جائے اور پھر اچھی طرح کاٹ چھانٹ کر دی جائے۔۔۔

انتہا ہوگئی جب ہم نے دیکھا کہ اسی میں کچھ اخباری صفحات کی 'عمر 10 برس تک نکل آئی۔۔۔! یہ واقعی بہت حیرت زدہ کرنے والی بات تھی، یہ اس بات کی خبر بھی تھی کہ ہماری زندگی کی شدید 'بے نظمی' کو اب قریب قریب اتنا ہی عرصہ بیت چکا ہے۔۔۔ کتنی ذمہ داریاں بڑھیں، کیا پڑھے کیا نہ پڑھ سکے، کتنے گھاؤ لگے، کتنے خواب بدلے، کتنے سبق ملے، کتنی مشکلات سے نبردآزما ہونا پڑے، کتنی نئی جدوجہد شروع کرنا پڑیں۔۔۔ دوسری طرف 'ایکسپریس' کے کالموں کے کچھ صفحے ایسے بھی نکل آئے، جس پر چھے میں سے چار، چار کالم نگار اب اس دنیا سے ہی کوچ کر چکے تھے۔۔۔ ایک صفحے میں دیکھیے تو اوپر تلے حمید اختر، کلدیب نیر، اردشیر کاؤس جی اور انور احسن صدیقی جلوہ افروز ہیں، تو ایک دوسرے صفحے میں 'کاؤس جی' کی جگہ 'انتظار حسین' کسی یاد کی صورت میں جگمگاتے ہیں۔۔۔ کہیں ان کے ساتھ 'صدائے جرس' کے مستقل عنوان تلے لکھنے والے مقتدا المنصور بھی ماضی کی یاد کی صورت زندگی کی بے ثباتی کی خبر دے رہے ہیں۔۔۔

اس عرصے میں ویسے بھی ہمیں کتنے لوگ ملے، اور کتنے بچھڑے اور کتنے مل کر ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔۔۔ کتنوں کو اَجل نے لپک لیا، تو کتنوں کے راستے الگ ہوگئے، بہت سوں نے 'مصروفیت' کا عذر کیا، تو کچھ نے 'ترجیحات' کا غیر اعلانیہ عَلم بلند کر دیا۔۔۔ ہماری الماری کی بہت سی چیزوں سے ان سب 'ہم راہیوں' اور مبینہ 'دوستوں' کی خبر بھی برابر ملتی رہی۔۔۔ گویا اس دوران وقت نے بار بار ماضی میں سفر کیا اور یہ بتایا کہ یہ دنیا اور یہ زندگی کس قدر عجیب ترین شے ہے۔۔۔

ساتھ ہی کچھ تحریروں میں اپنا ہی لکھا اس قدر بچکانہ اور 'احمقانہ' سا لگا کہ خود ہی سوچ میں پڑ گئے، کہ یہ بھی ہم ہی تھے۔۔۔ کہیں برسوں پہلے کوئی مضمون لکھ لکھ کر تلف کرنے کو رکھے گئے ورقے باقی رہ گئے، اور تیزی سے بہتے سمے کی گرد میں اَٹ کر ایک دم کتنے بیش قیمت ہوگئے۔۔۔ اب اِسے ردی کی ٹوکری کی نذر کرنے کو تو جی نہیں چاہتا۔۔۔ ایسے ہی کالج اور جامعہ کی کلاسوں میں لکھے ہوئے 'لیکچر' جن کو شاید اس وقت ایک 'رف' سی چیز سمجھ لیا تھا، آج وہ 'نادر و نایاب' شے کی طرح پرکشش اور پراسرار سے معلوم ہوتے ہیں۔۔۔

ہم نے 'نونہال' اور 'ہمدرد' کی کہانیوں اور معلوماتی کتب، جگہ کی تنگی کے سبب اپنے بھانجے بھانجی کو منتقل کیں، تو آشکار ہوا کہ اسکول کے زمانے میں اپنے ہاتھوں سے مجلد کی جانے والی کتب اور رسالوں کی تعداد لگ بھگ 200 ہے۔۔۔ یہ امر آج حیران کرتا ہے کہ کتابوں سے کتنا جنون تھا اور پھر اتنی مشقت کے لیے وقت بھی تو خوب تھا۔۔۔ باقاعدہ ایک رجسٹر میں ان کتابوں اور رسائل کا اندراج کرنا، ان کی تاریخِ خرید، صفحات، قیمت اور نمبر وغیرہ لکھنا۔۔۔

کتنی ہی کتابوں میں 'عیدی' کی پونجی صرف ہوئی اور کتنی ہی کتابوں میں روزانہ کے جمع کیے ہوئے جیب خرچ ایک دم لُٹا دیے۔۔۔ پھر اُس زمانے میں تین ہندسوں کی انتہا کو چھوتی ہوئی ڈھیر ساری کتابوں کی بے شمار رسیدیں۔۔۔ یہ کسی بھی برگر، پیزے اور کسی بھی مرغن پکوان سے کئی گنا زیادہ پرلطف چیز تھی، اور جب یہ کتابیں آتیں تو حقیقت میں بھوک اُڑ جاتی۔۔۔ اچانک یاد آتا، ارے کیا ہم نے کھانا نہیں کھایا؟ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ کھانا کھا چکے ہیں۔۔۔ تب جی چاہتا کہ رات سونے کا وقت کبھی نہ ہو بلکہ یہ شام ٹھیری رہے اور ہم یوں ہی تادیر اِن نئی کتابوں کے ورقوں میں دنیا و مافیہا سے بے خبر کھوئے رہیں۔۔۔

مگر وقت نہیں رکا، شاید اِس 'وبا' کی مشکل صورت میں کہیں 'مثبت' نکتہ ملا تو وہ یہی تھا کہ ہم نے قدرے فرصت سے زندگی کو ایک بار پلٹ کر دیکھ لیا۔۔۔
Load Next Story