وینٹی لیٹرخالی ہونے کے باوجودڈاکٹر فرقان کی جان نہیں بچائی گئی

اگر بروقت طبی امداد مل جاتی تو جان بچائی جاسکتی تھی، اہلخانہ

اگر بروقت طبی امداد مل جاتی تو جان بچائی جاسکتی تھی، اہلخانہ

کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے علاج کے لیے سرکاری و نجی اسپتالوں میں آئی سی یو، بستروں اور وینٹی لیٹرز میسر ہونے کے باوجود معروف ڈاکٹر فرقان الحق کی جان نہیں بچائی جاسکی۔

اسپتال انتظامیہ کے مطابق سب سے بڑے سرکاری اسپتال جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے آئسولیشن وارڈ 8 کمروں،80 بستروں اور 12 وینٹی لیٹرز پر مشتمل ہے اور جناح اسپتال کے 3 وینٹی لیٹرز خالی ہیں۔

ڈاکٹر روتھ فائو سول اسپتال میں آئسولیشن وارڈ میں 64 بستر ہیں اور 12 وینٹی لیٹرز میں سے 8 خالی ہیں، انڈس اسپتال میں آئسولیشن وارڈ کے 26 بیڈز موجود ہیں اور 15 وینٹی لیٹرز موجود ہیں جن پر مریض زیر علاج ہیں۔

ڈاؤ میڈیکل اوجھا کیمپس کے آئیسولیشن وارڈ 46 میں بستر ہیں، 8 سنگل روم اور10 وینٹی لیٹرز پر مشتمل ہے جس میں سے3 وینٹ خالی ہیں، لیاری جنرل اسپتال کا آئیسولیشن وارڈ 98 بیڈز پر مشتمل ہے جہاں موجود 10 وینٹی لیٹرز میں سے صرف 5 وینٹی لیٹرز فعال ہیں۔

کراچی کے سرکاری اور نجی اسپتالوں کے کورونا آئیسولیشن وارڈز میں مجموعی طور پر 381 بستر موجود ہیں، شہر کے مختلف اسپتالوں میں دستیاب 64 وینٹی لیٹرز میں سے 19 خالی پڑے ہیں، کورونا وائرس سے متاثرہ سندھ میں اب تک 3 ڈاکٹرز جان کی بازی ہار چکے ہیں۔


مرحوم ڈاکٹر فاروق کی بیوہ کا کہنا ہے کہ وہ انہیں انڈس، آغا خان اور ایس آئی یو ٹی ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال میں داخل کرانے کی کوشش کرتی رہیں لیکن کسی اسپتال میں انہیں جگہ نہیں ملی اور اسی دوران وہ وفات پاگئے، جبکہ ایمبولینس کے ڈرائیور نے بھی نامناسب رویہ اختیار کیا، اگر بروقت طبی امداد مل جاتی تو جان بچائی جاسکتی تھی۔

ترجمان محکمہ صحت سندھ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ہمارے مختلف اسپتالوں میں 48 آئی سی یو بیڈز موجود تھے، مرحوم ڈاکٹر فرقان کو 3 اسپتالوں کو ریفر کیا گیا تھا جہاں آئی سی یو کی سہولیات موجود تھیں لیکن وہ اسپتال جانے پر آمادہ نہیں تھے جبکہ ایمبولینس ڈاکٹر فرقان کے گھر بروقت پہنچ گئی تھی، ڈاکٹر فرقان خود اپنی مرضی سے اسپتال نہیں گئے تاہم واقعے کی مزید تحقیقات کی جارہی ہے۔

ترجمان سندھ حکومت بیرسٹر مرتضی وہاب نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے معاملے کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے اور اس حوالے سے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، انکوائری رپورٹ عوام کے ساتھ شیئر کی جائیگی۔ بیرسٹر مرتضی وہاب کے مطابق کورونا مریضوں کے لئے آج بھی 283 وینٹیلیٹرز موجود ہیں۔

ادھر ایس آئی یوٹی کے ترجمان نے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ ایس آئی یوٹی نےانٹرنل انکوائری کی ہے لیکن ایس آئی یوٹی کی ایمرجنسی یا کوروناریسیپشن پر ڈاکٹرفرقان کےآنےکاکوئی ثبوت نہیں ملا۔

علاوہ ازیں کورونا وائرس میں مبتلا ڈاکٹر فرقان الحق کی ہلاکت کے معاملے پر محکمہ صحت سندھ نے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی، جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق تین رکنی کمیٹی کے چئیرمین اسپیشل سیکریرٹری صحت ڈاکٹر فیاض احمد ہونگے، تین رکنی کمیٹی میں پرنسپل ڈاو میڈیکل ڈاکٹر امجد سراج اور ڈاکٹر سکندر میمن شامل ہیں، تحقیقاتی کمیٹی معاملے کی مکمل وجہ معلوم کرے گی، کمیٹی انکوائری کرے گی کہ مکمل ایس او پی پر عملدرآمد کیا گیا یا نہیں؟ کمیٹی 24 گھنٹے میں سیکریٹری صحت کو رپورٹ پیش کرے گی۔
Load Next Story