کورونا وباء بلدیاتی انتخابات کا انعقاد موخر کردیا گیا
سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے تجاویز کوحتمی شکل دے دی گئی ہے
خیبرپختونخواحکومت نے کورونا وبا کے باعث بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کردیا ہے۔ خیبرپختونخوا میں آخری مرتبہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد 2015 میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں اس وقت ہوا تھا جب صوبہ میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور پرویز خٹک صوبہ کے وزیراعلیٰ تھے۔ پی ٹی آئی حکومت اس وقت پہلے سے رائج بلدیاتی انتخابات کے برعکس نیا نظام سامنے لے کر آئی تھی جس کے تحت یونین کونسلوں کی بجائے ویلیج اور نیبرہڈ کونسلوں کا نظام لایا گیا جس سے بلدیاتی نظام مزید نچلی سطح تک گیا۔ سابق صدر پرویزمشرف کی جانب سے 2001 میں ملک میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیاگیا تھا جسے ضلعی حکومتوں کے نظام کا نام دیاگیا ۔
2001 اور2005 میں دو مرتبہ بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے جن کے ذریعے ناظمین کی صورت میں پوری نئی سیاسی قیادت سامنے آئی جن میں سے کئی بعد میں قومی اورصوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2009 میں جب مذکورہ بلدیاتی نظام نے اپنا دوسرا دورانیہ مکمل کیا تب صوبہ میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت تھی اور اے این پی نے اس وقت اپنے طور پرجس بلدیاتی نظام کی تیاری کی اس کے تحت وارڈز،چیئرمین اور میئرز کا نظام بحال کیا گیا تاہم اے این پی نے جس نظام کی صوبائی اسمبلی سے منظوری حاصل کی اس کا عملی طور پر نفاذ نہ ہوسکا کیونکہ اس وقت مرکز میں برسراقتدار پیپلزپارٹی کی مرکزی حکومت اپنے پورے دورانیے میں ملک بھر کے کسی بھی حصے میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہ کرسکی۔
گوکہ پاکستان تحریک انصاف نے2013 کے انتخابات سے قبل اعلان کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے نوے دنوں کے اندر ہی وہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرائے گی لیکن نیا نظام بنانے میں انھیں دو سال لگ گئے اور پھر سپریم کورٹ کے احکامات پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیاگیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ صوبہ میں پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت نے پھر ایک نیا تجربہ کرنے کافیصلہ کیاہے جس کے لیے پہلے ہی سے قانون سازی ہوچکی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت نے جس نئے نظام کی اسمبلی سے منظوری لے رکھی ہے اس میں ضلع کا بنیادی یونٹ ختم کرتے ہوئے سارے اختیارات تحصیلوں ،ویلیج اور نیبر ہڈ کونسلوں کو منتقل کردیئے گئے ہیں،وہ اختیارات جو اضلاع استعمال کرتے آئے ہیں ان میں کمی لاتے ہوئے تحصیلوں کو ان کی منتقلی کی گئی ہے۔ گوکہ پی ٹی آئی کی جانب سے توجہیہ پیش کی گئی ہے کہ بلدیاتی نظام کے تحت عوامی نمائندوں کو مزید مضبوط کرنے اور عوام کو سہولیات کی بہتر انداز میں فراہمی کی غرض سے یہ تبدیلی لائی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اراکین اسمبلی اور صوبائی وزراء ضلعی ناظمین کواپنے حریف کے طور پر دیکھتے آئے تھے اسی لیے اس نئے بلدیاتی نظام کے تحت ضلع کا بنیادی یونٹ ہی ختم کردیا گیا ہے ۔مذکورہ تحصیل یونٹس پر مشتمل بلدیاتی نظام کے تحت ہی خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوناتھا تاہم اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے ایسے حالات نہیں ہیں کہ ان میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جاسکتا۔
گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے ملک بھر میں لاک ڈاون جاری ہے جس کی وجہ سے ہر قسم کا کاروبار،تجارتی مراکز ،دکانیں اور ٹرانسپورٹ بند ہے جس سے عوام کی معاشی صورت حال اب خراب ہونا شروع ہوگئی ہے۔ معاملہ بقاء کی جدوجہد کی حدود میں داخل ہوچکا ہے۔کورونا گوکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی زیر صدارت صوبائی ٹاسک فورس کے اجلاس میں سخت فیصلے کرتے ہوئے لاک ڈاون میں 15مئی تک توسیع بھی کی گئی اورعام تعطیل میں بھی اضافہ کیا گیا ہے تاہم اب محسوس کیا جا رہا ہے کہ اس صورت حال کو زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھاجا سکتا۔ عوام مزید کاروبار بند رکھنے کے لیے تیار نہیں جس کی جھلک پشاور کے مختلف بازاروں میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں دکانداروں نے ازخود اپنی دکانیں کھول لی ہیں۔
پولیس کی سختیوں کا سامنے کرتے ہوئے وہ اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔ اس صورت حال کو حکومتی سطح پر مانیٹر بھی کیا جا رہا ہے قرائن بتا رہے ہیں کہ آئندہ چند دنوں میں صوبائی حکومت بھی لاک ڈاون میں نرمی کرتے ہوئے کاروبار کھولنے کی اجازت دے دے گی۔ جس کے لیے طریقہ کار وضع کرتے ہوئے اوقات مقرر کیے جائیں گے جس کے حوالے سے پشاور کی تاجر برادری کے کمشنر پشاور کے ساتھ مذاکرات کی ایک نشست ہوچکی ہے۔ صوبائی حکومت عمومی ہدایات دیتے ہوئے یہ معاملہ کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کے حوالے کرے گی تاکہ وہ کاروبار اور دکانوں کے لیے مقرر کردہ اوقات کار پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔
سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے تجاویز کوحتمی شکل دے دی گئی ہے اوراسی رواں ماہ مئی کے تیسرے عشرے تک اے ڈی پی کا فائنل ڈرافٹ تیار کر لیا جائے گا لیکن اے ڈی پی کی تیاری میں اپوزیشن کو ایک مرتبہ پھر نظر انداز کیا گیا ہے حالانکہ اسمبلی کے آخری سیشن میں اپوزیشن کی جانب سے جس انداز میں احتجاج کیاگیا اسے دیکھتے ہوئے بظاہر لگ یہ رہا تھا کہ حکومت مستقبل میں اس قسم کے احتجاج کی راہ روکنے کے لیے اپوزیشن کے ساتھ اے ڈی پی کی تیاری کے دوران ان کے حلقوں سے متعلق ترجیحات ضرور لے گی تاکہ انھیں شامل کرنے پر غور کیاجا سکے لیکن ایسا نہیں ہوسکا جس میں یقینی طور پر کورونا وائرس کی وجہ سے پیداہونے والی موجودہ صورت حال کا بھی عمل دخل ہے۔
تاہم کچھ کوتاہی حکومتی حلقوں سے بھی ہوئی ہے جو گزشتہ سالوں کی طرح اس مرتبہ بھی اپنے روایتی انداز میں چلتے ہوئے بجٹ اور اے ڈی پی کی تیاری کررہے ہیں اور کوشاں ہیں کہ کسی طریقے سے اپوزیشن کو رام کرتے ہوئے بجٹ کا مرحلہ طے کرلیں تاہم اپوزیشن نے بھی ٹھان رکھی ہے کہ وہ نہ تو حکومت کو اسمبلی کا ورچوئل سیشن منعقد کرتے ہوئے بجٹ پاس کرنے کا موقع دے گی اور نہ ہی اسمبلی میں کسی قسم کا تعاون کرے گی کیونکہ حکومت کی جانب سے تعاون پر آمادہ نہ ہونے کی وجہ سے اپوزیشن بھی ہر قسم کے تعاون سے دستبردار ہوچکی ہے ۔
2001 اور2005 میں دو مرتبہ بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے جن کے ذریعے ناظمین کی صورت میں پوری نئی سیاسی قیادت سامنے آئی جن میں سے کئی بعد میں قومی اورصوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2009 میں جب مذکورہ بلدیاتی نظام نے اپنا دوسرا دورانیہ مکمل کیا تب صوبہ میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت تھی اور اے این پی نے اس وقت اپنے طور پرجس بلدیاتی نظام کی تیاری کی اس کے تحت وارڈز،چیئرمین اور میئرز کا نظام بحال کیا گیا تاہم اے این پی نے جس نظام کی صوبائی اسمبلی سے منظوری حاصل کی اس کا عملی طور پر نفاذ نہ ہوسکا کیونکہ اس وقت مرکز میں برسراقتدار پیپلزپارٹی کی مرکزی حکومت اپنے پورے دورانیے میں ملک بھر کے کسی بھی حصے میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہ کرسکی۔
گوکہ پاکستان تحریک انصاف نے2013 کے انتخابات سے قبل اعلان کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے نوے دنوں کے اندر ہی وہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرائے گی لیکن نیا نظام بنانے میں انھیں دو سال لگ گئے اور پھر سپریم کورٹ کے احکامات پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیاگیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ صوبہ میں پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت نے پھر ایک نیا تجربہ کرنے کافیصلہ کیاہے جس کے لیے پہلے ہی سے قانون سازی ہوچکی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت نے جس نئے نظام کی اسمبلی سے منظوری لے رکھی ہے اس میں ضلع کا بنیادی یونٹ ختم کرتے ہوئے سارے اختیارات تحصیلوں ،ویلیج اور نیبر ہڈ کونسلوں کو منتقل کردیئے گئے ہیں،وہ اختیارات جو اضلاع استعمال کرتے آئے ہیں ان میں کمی لاتے ہوئے تحصیلوں کو ان کی منتقلی کی گئی ہے۔ گوکہ پی ٹی آئی کی جانب سے توجہیہ پیش کی گئی ہے کہ بلدیاتی نظام کے تحت عوامی نمائندوں کو مزید مضبوط کرنے اور عوام کو سہولیات کی بہتر انداز میں فراہمی کی غرض سے یہ تبدیلی لائی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اراکین اسمبلی اور صوبائی وزراء ضلعی ناظمین کواپنے حریف کے طور پر دیکھتے آئے تھے اسی لیے اس نئے بلدیاتی نظام کے تحت ضلع کا بنیادی یونٹ ہی ختم کردیا گیا ہے ۔مذکورہ تحصیل یونٹس پر مشتمل بلدیاتی نظام کے تحت ہی خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوناتھا تاہم اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے ایسے حالات نہیں ہیں کہ ان میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جاسکتا۔
گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے ملک بھر میں لاک ڈاون جاری ہے جس کی وجہ سے ہر قسم کا کاروبار،تجارتی مراکز ،دکانیں اور ٹرانسپورٹ بند ہے جس سے عوام کی معاشی صورت حال اب خراب ہونا شروع ہوگئی ہے۔ معاملہ بقاء کی جدوجہد کی حدود میں داخل ہوچکا ہے۔کورونا گوکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی زیر صدارت صوبائی ٹاسک فورس کے اجلاس میں سخت فیصلے کرتے ہوئے لاک ڈاون میں 15مئی تک توسیع بھی کی گئی اورعام تعطیل میں بھی اضافہ کیا گیا ہے تاہم اب محسوس کیا جا رہا ہے کہ اس صورت حال کو زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھاجا سکتا۔ عوام مزید کاروبار بند رکھنے کے لیے تیار نہیں جس کی جھلک پشاور کے مختلف بازاروں میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں دکانداروں نے ازخود اپنی دکانیں کھول لی ہیں۔
پولیس کی سختیوں کا سامنے کرتے ہوئے وہ اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔ اس صورت حال کو حکومتی سطح پر مانیٹر بھی کیا جا رہا ہے قرائن بتا رہے ہیں کہ آئندہ چند دنوں میں صوبائی حکومت بھی لاک ڈاون میں نرمی کرتے ہوئے کاروبار کھولنے کی اجازت دے دے گی۔ جس کے لیے طریقہ کار وضع کرتے ہوئے اوقات مقرر کیے جائیں گے جس کے حوالے سے پشاور کی تاجر برادری کے کمشنر پشاور کے ساتھ مذاکرات کی ایک نشست ہوچکی ہے۔ صوبائی حکومت عمومی ہدایات دیتے ہوئے یہ معاملہ کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کے حوالے کرے گی تاکہ وہ کاروبار اور دکانوں کے لیے مقرر کردہ اوقات کار پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔
سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے تجاویز کوحتمی شکل دے دی گئی ہے اوراسی رواں ماہ مئی کے تیسرے عشرے تک اے ڈی پی کا فائنل ڈرافٹ تیار کر لیا جائے گا لیکن اے ڈی پی کی تیاری میں اپوزیشن کو ایک مرتبہ پھر نظر انداز کیا گیا ہے حالانکہ اسمبلی کے آخری سیشن میں اپوزیشن کی جانب سے جس انداز میں احتجاج کیاگیا اسے دیکھتے ہوئے بظاہر لگ یہ رہا تھا کہ حکومت مستقبل میں اس قسم کے احتجاج کی راہ روکنے کے لیے اپوزیشن کے ساتھ اے ڈی پی کی تیاری کے دوران ان کے حلقوں سے متعلق ترجیحات ضرور لے گی تاکہ انھیں شامل کرنے پر غور کیاجا سکے لیکن ایسا نہیں ہوسکا جس میں یقینی طور پر کورونا وائرس کی وجہ سے پیداہونے والی موجودہ صورت حال کا بھی عمل دخل ہے۔
تاہم کچھ کوتاہی حکومتی حلقوں سے بھی ہوئی ہے جو گزشتہ سالوں کی طرح اس مرتبہ بھی اپنے روایتی انداز میں چلتے ہوئے بجٹ اور اے ڈی پی کی تیاری کررہے ہیں اور کوشاں ہیں کہ کسی طریقے سے اپوزیشن کو رام کرتے ہوئے بجٹ کا مرحلہ طے کرلیں تاہم اپوزیشن نے بھی ٹھان رکھی ہے کہ وہ نہ تو حکومت کو اسمبلی کا ورچوئل سیشن منعقد کرتے ہوئے بجٹ پاس کرنے کا موقع دے گی اور نہ ہی اسمبلی میں کسی قسم کا تعاون کرے گی کیونکہ حکومت کی جانب سے تعاون پر آمادہ نہ ہونے کی وجہ سے اپوزیشن بھی ہر قسم کے تعاون سے دستبردار ہوچکی ہے ۔