بچے سقوں کی تلاش میں

عبوری دور کا وزیر اعظم تو ایک ہی ہو گا لیکن وہ کئی ساتھیوں کو بھی وزیر بنا کر خوش کر دے گا

Abdulqhasan@hotmail.com

ISLAMABAD:
کہانی یوں بیان کی جاتی ہے کہ ایک بادشاہ جب دریا عبور کرتے ہوئے گھوڑے سے گر کر پانی میں ڈوبنے لگا تو دریا کے کنارے ایک ماشکی یہ سب دیکھ رہا تھا۔

وہ فوراً مدد کو پہنچا اور اس نے اپنی مشک کے ذریعے بادشاہ کو ڈوبنے سے بچا لیا۔ بادشاہ نئی زندگی پا کر اس قدر خوش ہوا کہ اس نے ماشکی 'بچے سقے' کو اپنی ایک دن کی بادشاہت انعام میں دے دی۔ اس کے بعد یہ عجیب کہانی کئی موڑ لیتی ہے اور ایک موڑ وہ پاکستان میں بھی یوں لیتی ہے کہ یہاں ایسے بچے سقوں کی ایک معقول تعداد پیدا یا تلاش کر لیتی ہے جو ایک دن یعنی تین ماہ تک کی عبوری حکومت لے لیتے ہیں اور نئے الیکشن کرا کے اس حکومت کی یاد میں زندگی بسر کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں ماضی کے ان ایک دن کے بادشاہوں کی کچھ تعداد ابھی زندہ ہے۔

اب چونکہ الیکشن ہونے والے ہیں اس لیے نئے بچے سقوں کی فہرستیں تیار ہو رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے ایسے نو عدد ایک دن کے بادشاہوں کی فہرست تیار کی ہے۔ حکمران پارٹی نے اس سے کم تعداد میں بچے سقوں کی فہرست دی ہے۔ بہرحال یہ سیاسی بچے سقے وہ ہیں جو باقاعدہ الیکشن نہیں جیت سکتے اور اس طرح کے داؤ پیچ لڑا کر اندر خانے حکمرانی کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ عبوری دور کا وزیر اعظم تو ایک ہی ہو گا لیکن وہ کئی ساتھیوں کو بھی وزیر بنا کر خوش کر دے گا۔ اس طرح بڑے اور چھوٹے بچے سقوں کی ایک کھیپ ملک میں موجود ہو گی۔ یوں کہیں کہ پہلے سے موجود کھیپ میں اضافہ ہو گا یوں چند طفیلی سیاستدان اور سہی۔

بعض جماعتوں نے اپنے وزرائے اعظم کے نام بھی دیے ہیں جن کے نام سنتے ہی ان کے مخالف بھڑک اٹھے ہیں یعنی جو چیز موجود ہی نہیں اس پر تنازع کھڑا کر دیا گیا ہے۔ مایوس اور منتشر قومیں ایسی بے سود حرکتیں کرتی رہتی ہیں۔ عبوری حکومت ایک چل چلاؤ وقتی حکومت ہوتی ہے اور روزمرہ کے ملکی معاملات چلاتی ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ الیکشن کی کوئی سچی امید ہے یا نہیں پھر بھی نئے الیکشن ایک عبوری حکومت کرائے گی لیکن جیسا کہ عرض کیا ہے یہ تو سب بعد کی باتیں ہیں پہلے الیکشن کا فیصلہ اور اعلان تو ہو جائے جس کے امکانات بہت محدود ہیں۔

یہ جو اچکوں سے کہا جا رہا ہے کہ پنڈ آباد ہونے سے پہلے ہی اس میں پہنچ جاؤ تو یہ سب سیاسی فریب ہیں جو عوام کے علاوہ ان کے بعض لیڈر بھی کھا رہے ہیں لیکن میں ان متوقع بچے سقوں کو پیشگی مبارک باد دیتا ہوں' ہمارا کیا جاتا ہے کسی کا دل خوش کرنا بھی تو عبادت ہے۔


یہ عبوری حکومت کوئی تین ماہ کی ہو گی جب عوام کی مشکلات اور مطالبات عروج پر ہوں گے۔ عبوری حکمرانوں کے پاس یہ بہانہ موجود ہو گا کہ وہ تو عارضی ہیں لیکن پھر بھی ہیں تو حکمران اور حکمرانی کی ذمے داریوں سے بچ نہیں پاتے۔ ان سے بہتر تو وہ تاریخی بچہ سقہ تھا جسے ایک دن کی حکومت ملی تو اس نے اپنی خوش قسمت مشک کے کئی ٹکڑے کرائے اور ان چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں سونے کے کیل جڑوا کر یوں ہر ٹکڑا ایک سکہ بنا دیا گیا۔

چمڑے کے یہ سکے اس ایک دن کی بادشاہت کی یادگار کے طور پر اس ایک دن کے بعد بھی چلتے رہے کیونکہ نہ تو ان سکوں میں کوئی کھوٹ تھا نہ سکے چلانے والے میں اور جب کھوٹ نہیں ہوتا تو کام رکتا نہیں چلتا رہتا ہے' تاریخ بن جاتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں ہمارے ان تین ماہ کے حکمرانوں کے دل صاف ہوں گے یا کھوٹ والے ہیں۔ ہمارے قائد کی جیب میں جو کھوٹے سکے تھے ان کا اعلان اس ملک کے سب سے بڑے اس شخص نے کیا تھا۔ ان کے بعد ہم اب تک کھوٹے سکوں پر چل رہے ہیں اور جن کے پاس یہ کھوٹے سکے ہیں وہ اس قدر بے رحم اور بے حس ہیں کہ پوری قوم اب چیخ چلا رہی ہے مگر ان کے سروں میں شاید جوئیں ہیں ہی نہیں جو اس کے باوجود رینگتی نہیں ہیں۔

ہمارے ملک میں کسی بھی چیز کی کمی نہیں تھی' وسائل بے شمار اور افرادی قوت محنتی اور ذہین لوگوں کی لیکن چند چور اچکے اور لٹیرے ہمارے ملک میں گھس آئے اور نہ صرف لوٹ مار میں لگ گئے بلکہ اپنی لوٹ مار کے لیے ملک کی ترقی پر توجہ بھی نہ دی تا کہ لوٹ مار کا مزید سامان میسر ہو سکے۔ وہ صرف جو موجود تھا اسے ہی لوٹتے رہے اور ستم یہ کہ اس ملک کے عوام اپنی روزی کا جو سامان کرتے رہے اس کے حصہ دار بھی بن گئے۔

میں اس وقت ایمرجنسی روشنی میں یہ کالم گھسیٹ رہا ہوں۔ پسینے کے ساتھ ساتھ تو خیالات بھی بہہ رہے ہیں اور رنج اس بات کا ہے کہ جو ہو رہا ہے ایسا ہونا ہرگز نہیں چاہیے تھا۔ میں تنگ آ کر کبھی سلطان عادل کی بات کرتا ہوں لوگ اس پر ناراض ہوتے ہیں۔ وہ سلطان جابر اور ظالم کے عادی ہو گئے ہیں اور عدل سے گھبراتے ہیں۔ یہ کوئی بات ہے کہ کوئی اوباش کسی پاکستانی بچی کی عصمت لوٹ لے لیکن وہ ضمانت پر رہا ہو جائے۔ کوئی کسی کا ناک کان کاٹ لے اور اس چاقو چھری کو یادگار بنا کر اپنے پاس رکھ لے۔

ہمارے ہاں ایک مدت سے جرم کی سزا کا تصور مٹ گیا ہے۔ صرف ضمانت رہ گئی ہے یا جیل میں کچھ خرچ کر کے آرام دہ قید۔ اب مغربی دنیا کی پیروی میں سزائے موت ختم کرنے کا منصوبہ ہے تا کہ قتل جیسا جرم بھی آسان ہو جائے۔ خلفائے راشدین اور عمر بن عبدالعزیز کے دور میں مجرموں کو ان کے جرم کے برابر سزائیں دی گئیں۔ بڑے چھوٹے میں تمیز نہیں کی گئی۔ اس دور کے جرائم کے واقعات تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ آج کسی جرم کی سزا کے واقعے کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔

بات عارضی اور کرائے کے حکمرانوں بچے سقوں کی ہو رہی تھی کہ قومی حالات اپنے ساتھ گھسیٹ کر لے گئے۔ کیا ان میں کوئی بچہ سقہ ایسا ہو سکتا ہے جو ایک دن کے لیے ہی سہی اپنا سکہ چلا سکے اور کسی نیکی کو اپنی یادگار کے طور پر چھوڑ جائے مگر ہماری ایسی قسمت کہاں۔ یہ عارضی حکمران بھی اسی طبقے سے ہوں گے جس نے ہمیں اس حال تک پہنچا دیا ہے۔ وہ اس سفر کو جاری رکھیں گے ہمیں بچے سقے بھی کرائے کے جعلی ملیں گے۔
Load Next Story