کورونا لاک ڈاؤن کے باعث گندم کے کاشتکاروں کو مشکلات کا سامنا
فصل کی کٹائی کے لئے افرادی قوت کی کمی اور اسے منڈیوں تک پہنچانے میں مشکلات پیش ہیں، کاشتکاروں کا شکوہ
کورونا وائرس اور اس کی وجہ سے لگائے گئے لاک ڈاون کی وجہ سے جہاں ملک بھرمیں کاشت کاروں کو گندم کی کٹائی کے لئے افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے وہیں فصل کو منڈیوں تک پہنچانے میں بھی مشکلات پیش آرہی ہیں۔
لاہور کے ایک مقامی کاشتکار رانا مبشر حسن نے بتایا کہ ان کی گندم کی فصل تیار ہوچکی ہے، انہوں نے تقریباً 40 ایکڑ رقبے پر گندم کاشت کی ہے۔ لاک ڈاون کی وجہ سے اب انہیں گندم کی کٹائی کے لئے مزدور نہیں مل رہے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں مجبوراً کمبائنڈ ہارویسٹر مشین کے ذریعے گندم کی کٹائی کرنا پڑے گی لیکن اس عمل سے گندم کا بھوسہ ضائع جائے گا جو سال بھر ان کے مویشیوں کی خوراک بنتا ہے۔
زرعی ماہرین کے مطابق گندم پاکستانیوں کی خوراک کا 60 فیصد ہے جبکہ ایک پاکستانی اوسطاً 125 کلوگرام گندم سالانہ استعمال کرتا ہے۔ اس لیے گندم پاکستان میں اہم غذائی فصل ہے۔ نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کی وزارت کے مطابق گندم مجموعی طور پر 8.7 ملین ہیکٹرز رقبے پر کاشت کی جاتی ہے۔ جو کسی بھی فصل کے زیر کاشت رقبے سے زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ گندم صوبہ پنجاب میں کاشت کی جاتی ہے، جہاں گندم کا زیر کاشت رقبہ چھ ملین ہیکٹرز ہے۔ اس سال گندم کی پیداوار کا ہدف 27 ملین ٹن رکھا گیا ہے۔ یہ ہدف پورا ہو جائے گا جب کہ گزشتہ سال کی گندم میں سے بھی ایک آدھ ملین ٹن بچ جائے گا۔ پاکستان میں گندم کی سالانہ کھپت مجموعی طور پر 26 ملین ٹن ہے۔
پنجاب کے وزیر زراعت ملک نعمان لنگڑیال نے بتایا کہ پنجاب میں گندم کی کٹائی 15 اپریل سے شروع ہوگئی تھی جو مئی کے وسط تک جاری رہے گی ، حالیہ دنوں ہونے والی بارشوں اور آندھی سے کٹائی کا سیزن چند روز آگے جاسکتا ہے۔ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے گندم کی پیداوار پر تو کوئی اثرنہیں پڑا البتہ بارش اور تیز ہواؤں نے فصلوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ ہم نے لاک ڈاؤن کے باوجود صوبے میں کسی بھی جگہ فصلوں کی کٹائی پر کوئی پابندی نہیں لگائی تھی ،محکمہ زراعت نے باقاعدہ ایس او پیز جاری کیے تھے اورہماری ٹیمیں مختلف اضلاع میں جاکر کاشتکاروں کو آگاہ کرتی رہی ہیں کہ وائرس سے بچنے کے لیے کس قدر سماجی فاصلہ رکھنا ہے۔
زرعی ماہرعامرحیات بھنڈارا کہتے ہیں موجودہ حالات میں چھوٹے کاشتکار متاثر ہوئے ہیں اور انہیں حکومت سے فوری طور پر مالی امداد کی ضرورت ہے، جیسے زرعی بلوں میں چھوٹ اور سود سے پاک قرضوں کی فراہمی۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاونت موبائل ادائیگی کے نظام کے ذریعے بھیجی جانی چاہیے۔ انہوں نے حکام پر زور دیا کہ آئندہ فصل کے لیے بیج ، کھاد اور کیڑے مارادویات کی فراہمی یقنی بنائی جائے۔
عامر بھنڈارہ کہتے ہیں کہ ابھی تک زرعی ماہرین نے پاکستان میں غذائی قلت کی پیش گوئی نہیں کی ہے مگر انہیں یقین نہیں ہے کہ اس سال کی پیداوار موسمیاتی تبدیلیوں، بیماریوں اور بے موسمی بارشوں سے مقامی ضروریات کوپوری کرنے کے لئے کافی ہوں گی۔ کورونا وائرس اورلاک ڈاون نے زراعت کے شعبے سے جڑے کسانوں ، مارکیٹرز ، پروسیسرز ، ٹرانسپورٹرز ، فروخت کنندگان اور صارفین کو متاثر کیا ہے۔
لاہور کے ایک مقامی کاشتکار رانا مبشر حسن نے بتایا کہ ان کی گندم کی فصل تیار ہوچکی ہے، انہوں نے تقریباً 40 ایکڑ رقبے پر گندم کاشت کی ہے۔ لاک ڈاون کی وجہ سے اب انہیں گندم کی کٹائی کے لئے مزدور نہیں مل رہے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں مجبوراً کمبائنڈ ہارویسٹر مشین کے ذریعے گندم کی کٹائی کرنا پڑے گی لیکن اس عمل سے گندم کا بھوسہ ضائع جائے گا جو سال بھر ان کے مویشیوں کی خوراک بنتا ہے۔
زرعی ماہرین کے مطابق گندم پاکستانیوں کی خوراک کا 60 فیصد ہے جبکہ ایک پاکستانی اوسطاً 125 کلوگرام گندم سالانہ استعمال کرتا ہے۔ اس لیے گندم پاکستان میں اہم غذائی فصل ہے۔ نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کی وزارت کے مطابق گندم مجموعی طور پر 8.7 ملین ہیکٹرز رقبے پر کاشت کی جاتی ہے۔ جو کسی بھی فصل کے زیر کاشت رقبے سے زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ گندم صوبہ پنجاب میں کاشت کی جاتی ہے، جہاں گندم کا زیر کاشت رقبہ چھ ملین ہیکٹرز ہے۔ اس سال گندم کی پیداوار کا ہدف 27 ملین ٹن رکھا گیا ہے۔ یہ ہدف پورا ہو جائے گا جب کہ گزشتہ سال کی گندم میں سے بھی ایک آدھ ملین ٹن بچ جائے گا۔ پاکستان میں گندم کی سالانہ کھپت مجموعی طور پر 26 ملین ٹن ہے۔
پنجاب کے وزیر زراعت ملک نعمان لنگڑیال نے بتایا کہ پنجاب میں گندم کی کٹائی 15 اپریل سے شروع ہوگئی تھی جو مئی کے وسط تک جاری رہے گی ، حالیہ دنوں ہونے والی بارشوں اور آندھی سے کٹائی کا سیزن چند روز آگے جاسکتا ہے۔ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے گندم کی پیداوار پر تو کوئی اثرنہیں پڑا البتہ بارش اور تیز ہواؤں نے فصلوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ ہم نے لاک ڈاؤن کے باوجود صوبے میں کسی بھی جگہ فصلوں کی کٹائی پر کوئی پابندی نہیں لگائی تھی ،محکمہ زراعت نے باقاعدہ ایس او پیز جاری کیے تھے اورہماری ٹیمیں مختلف اضلاع میں جاکر کاشتکاروں کو آگاہ کرتی رہی ہیں کہ وائرس سے بچنے کے لیے کس قدر سماجی فاصلہ رکھنا ہے۔
زرعی ماہرعامرحیات بھنڈارا کہتے ہیں موجودہ حالات میں چھوٹے کاشتکار متاثر ہوئے ہیں اور انہیں حکومت سے فوری طور پر مالی امداد کی ضرورت ہے، جیسے زرعی بلوں میں چھوٹ اور سود سے پاک قرضوں کی فراہمی۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاونت موبائل ادائیگی کے نظام کے ذریعے بھیجی جانی چاہیے۔ انہوں نے حکام پر زور دیا کہ آئندہ فصل کے لیے بیج ، کھاد اور کیڑے مارادویات کی فراہمی یقنی بنائی جائے۔
عامر بھنڈارہ کہتے ہیں کہ ابھی تک زرعی ماہرین نے پاکستان میں غذائی قلت کی پیش گوئی نہیں کی ہے مگر انہیں یقین نہیں ہے کہ اس سال کی پیداوار موسمیاتی تبدیلیوں، بیماریوں اور بے موسمی بارشوں سے مقامی ضروریات کوپوری کرنے کے لئے کافی ہوں گی۔ کورونا وائرس اورلاک ڈاون نے زراعت کے شعبے سے جڑے کسانوں ، مارکیٹرز ، پروسیسرز ، ٹرانسپورٹرز ، فروخت کنندگان اور صارفین کو متاثر کیا ہے۔