فکسنگ کے خلاف بولنے پر میرا کیریئر جلد ختم ہوگیا عاقب جاوید

صرف کرکٹرز ہی نہیں بکیز اور مافیا پر بھی ہاتھ ڈالنا ہوگا، سابق ٹیسٹ کرکٹر

صرف کرکٹرز ہی نہیں بکیز اور مافیا پر بھی ہاتھ ڈالنا ہوگا، سابق ٹیسٹ کرکٹر

لاہور:
سابق ٹیسٹ کرکٹر عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ فکسنگ کے خلاف بولنے پر میرا کیریئر جلد ختم ہوگیا۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ فکسنگ کے خلاف آواز اٹھانے پر مجھے فون کالز موصول ہوئیں کہ عدالت میں کچھ کہا تو بوٹی بوٹی کر دیں گے، جان سے مار ڈالیں گے۔

ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ پہلے بھی شور اٹھتا تھا اب بھی اٹھ رہا ہے لیکن فکسنگ کے پیچھے موجود مافیا کے بارے میں بھی تو سوچیں، کوئی کرکٹر ایک بار اس کاروبار میں شامل ہوجائے تو اس کو واپسی کا راستہ نہیں ملتا، بہت بڑا مافیا ہے کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ ان کے خلاف ایکشن لے سکے، یہ لوگ کرکٹرز سے کام لیتے رہے ہیں، لے رہے ہیں اور لیتے رہیں گے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ جو کوئی بھی ان کے خلاف بولے ایک حد تک کام کر سکتا ہے، اس سے آگے نہیں جا سکتا، فکسنگ کے خلاف بولنے پر میرا کیریئر قبل از وقت ختم ہوگیا، مجھے 27 سال کی عمر میں کرکٹ چھوڑنا پڑی،میں دیگر ملکوں کیلیے کام کرتے کرتے تھک گیا تھا، 2012 میں ہی دائیں بائیں سے پیغام مل گیا تھا کہ تم ہیڈ کوچ نہیں بن سکتے۔


عاقب جاوید نے کہا کہ صرف سلیم ملک کی بات ہوتی ہے لیکن میچ کے نتائج کو متاثر کرنے کیلیے 5 یا 6 کرکٹرز چاہئیں اور اتنے ہوتے بھی تھے، سنگر کپ 1994 کی کہانیاں سنیں یا اس کے بعد کئی چیزیں سامنے آجاتی ہیں، اس وقت پاکستان ٹیم میں بڑی صلاحیت تھی لیکن بڑے ایونٹس میں مفادات بھی بڑے ہوتے ہیں، مافیا کے لیے بھی کمائی کے یہی دن ہوتے ہیں۔

سابق کرکٹر عاقب جاوید نے کہا کہ جسٹس قیوم کمیشن کے سامنے میں نے تمام حقائق بیان کردیے، سلیم ملک کا نام نمایاں تھا، مجھ سے کہا گیا کہ آپ کئی دیگر کھلاڑیوں کے بھی نام لے رہے ہیں، میرا جواب تھا کہ ٹینس کا کھلاڑی نہیں ہوں، ایک ٹیم میں کھیلتا رہا جو کچھ سنا اور آنکھوں سے دیکھا وہی بتا رہا ہوں یقین کرنا یا نہ کرنا آپ کی مرضی ہے، اس کمیشن میں بھی بہت کچھ چھپایا گیا جس کا اعتراف خود جسٹس قیوم نے بعد ازاں ایک انٹرویو بھی کیا، سابق جج نے یہ بھی تسلیم کیا کہ چند کرکٹرز بڑے نام ہیں، ان کو جرمانے اور وارننگ کے ساتھ دوسرا موقع دے رہے ہیں تاکہ آئندہ ایسی حرکت نہ کریں۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر نے کہا کہ جوئے کا اصل گڑھ بھارت ہے،پاکستان، دبئی اور جنوبی افریقہ میں بھی ان کے لوگ موجود ہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ کئی بڑے اسکینڈل سامنے آنے کے باوجود بھارت میں بھی کریمنل ایکٹ بنانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، کئی ادوار گزر گئے، پاکستان اب سوچ رہا ہے، اگر تاحیات پابندی کے ساتھ 10 سال قید کی سزا بھی ہو تو کسی کو کرپشن کی جرات نہیں ہو گی،اب تو ہر کوئی سوچتا ہے کہ تھوڑی بہت سزا بھگت کر واپس آجائے گا، جسٹس قیوم کی رپورٹ میں جنھیں جرمانے ہوئے اور کرکٹ میں کوئی عہدہ نہ دینے کا کہا گیا ان سب کی واپسی ہوگئی، ان میں وسیم اکرم، وقار یونس اور مشتاق احمد کے نام شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ محمد عامر کی واپسی کرائی گئی اور ان کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا، اب اگر سلیم ملک کہتے ہیں کہ میرے اور دوسروں کیلیے الگ قانون ہے تو یہ غلط تو نہیں، اگر سب کو موقع دیا تو ان کا کیا قصور ہے، جسٹس قیوم نے خود کہا تھا کہ زیادہ تر لوگوں نے سلیم ملک پر الزامات عائد کیے، اگر لوگ کھل کر بولتے، عطاء الرحمن اپنے بیان سے نہ مکرتے تو مزید کئی کھلاڑیوں کو بھی سخت سزائیں ہو سکتی تھیں،اگر یہ سب لوگ بورڈ میں آسکتے ہیں تو سلیم ملک کو باہر کیوں رکھا گیا ہے۔
Load Next Story