کورونا اور ہم ایک جائزہ

اگر یونہی چلتا رہا تو آئندہ تین سے چار ہفتوں میں حکومت کے پاس کرفیو لگانے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں رہے گا


اگر یونہی چلتا رہا تو آئندہ تین سے چار ہفتوں میں حکومت کے پاس کرفیو لگانے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں رہے گا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مجھے گھر سے نکلنا ہے، معاشرے کے نچلے طبقات کو اپنی روزی روٹی کی فکر ہے، تاجروں کو اپنی دکانداری کا غم کھائے جا رہا ہے اورعلماء کو صرف اور صرف مساجد کو کھولنا مقصود ہے جبکہ حکومت کو

اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا


کے مصداق کرنے کو اور بھی کئی کام ہیں۔

اپنے ایک پچھلے مضمون میں مساجد کے حوالے سے کورونا کے پھیلاؤ کے خدشات پر بات کی تھی، اسی دوران حکومت نے ملک گیر لاک ڈاؤن کا نفاذ کرکے اس وبا کے پھیلاؤ کو سمیٹنے کی کوشش کی۔ یہ مکمل لاک ڈاؤن کے اثرات ہمیں ماہرین کے اندازوں کے برعکس نظر آرہے ہیں جن میں انہوں نے اپریل کے اختتام تک پچاس ہزار مریضوں کی پیشنگوئی کی تھی۔ اُس وقت سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کورونا وائرس کے تقریباً بارہ ہزار مریض رپورٹڈ تھے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ صرف اس لاک ڈاؤن کی وجہ تقریباً اڑتیس ہزار میرے اور آپ کے جیسے عام لوگ اس وبا سے بچ گئے ہیں۔

ہمیشہ وقت کی کمی کا رونا رونے والے ہم آج سکون سے گھر میں ٹِک کر بیٹھ نہیں سکتے ہیں۔ اس جلد بازی کی عادت نے لاک ڈاؤن کو بھی ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کے مترادف وقت سے پہلے ہی جزوی کروا کر اس کے فوائد کو تقریباً ضائع کر ہی دیا ہے۔ محبوب کی کمر کی طرح کا یہ لاک ڈاؤن بقولِ شاعر

تمہارے، لوگ کہتے ہیں، کمر ہے
کہاں ہے، کس طرح کی ہے، کدھر ہے


کورونا اور لاک ڈاؤن کے حوالے سے چند اہم نکات ہیں جن کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔

ہم خواہ تاجر ہوں یا سرکاری ملازم، اسکول کالج کے طالبِ علم ہوں یا مزدور، اساتذہ ہوں یا علماء کرام، معاشرے کے تمام طبقات کی جڑوں میں ایک عجیب سی بے چینی، حکومت اور ایک دوسرے کے خلاف بد اعتمادی اور جلدبازی رچی بسی ہوئی ہے۔ کوئی شخص کسی دوسرے کی بات سمجھنے کی غرض سے نہیں بلکہ جواب، وہ بھی ''دنداں شکن جواب'' دینے کےلیے سنتا ہے۔ اگر کوئی ماہر کسی کو کوئی بات سمجھانے کی کوشش کرے تو سمجھنا تو درکنار اپنی مرضی کے خلاف بات سنے کو کوئی تیار نہیں۔ سونے پہ سہاگہ حکومتیں چاہے وفاقی ہوں یا صوبائی، اس صورتحال کو قابو کرنے میں ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔

سائنسی طریقہِ کار میں تجربہ کی مدد سے حاصل کیا گیا علم نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ سائنسدان مختلف قسم کے سوالات اور معموں کا حل ڈھونڈنے کےلیے روزانہ کئی تجربات میں مشغول رہتے ہیں۔ جیسا کہ آج کل کورونا کے پھیلاؤ، علاج اور بچاؤ کی خاطر دوائیں اور ویکسینز کی دریافت کےلیے تجربات ہو رہے ہیں۔ ان تجربات سے حاصل ہونے والی معلومات کو اعداد و شمار میں ڈھال کر سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

سائنس کے ایک طالبِ علم کی حیثیت سے میں بھی ذاتی طور پر تجربات کی افادیت و اہمیت کا قائل ہوں اور اسی لیے ہمیشہ کوشاں رہتا ہوں کہ اپنی زندگی میں بھی درپیش آنے والے مسائل کے حل کےلیے سائنسی طریقہِ کار اور تجربات کی جتنی مدد ہوسکے، حاصل کروں۔ آئیے آج دنیا بھر کے مشاہدات و تجربات سے حاصل ہونے والی معلومات کورونا کی وبا اور ہماری روزمرہ زندگی کے معمولات کو جاری رکھنے کی ضد کو پرکھنے کےلیے استعمال کرتے ہیں۔

اس وقت اگر آپ کورونا کے مریضوں کی تعداد کو روزانہ کی بنیاد پر مانیٹر کر رہے ہوں تو آپ کو مریضوں کی تعداد میں ایک اٹھان اب واضح نظر آنے لگی ہے۔ جیسا کہ آپ زیرِ نظر گراف میں دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی کل تعداد میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔ اضافے کا یہ رجحان وبا کے بے قابو ہوتے پھیلاؤ کی نشاندہی کررہا ہے جو کہ تشویشناک امر ہے۔ اس گراف میں پاکستان میں اس وقت کورونا کے مریضوں کی کل تعداد دکھائی گئے ہے جس میں صحتیاب ہونے والے مریض شامل نہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ 14 مارچ سے شروع ہونے والی اٹھان کا سفر اوپر کی طرف جاری ہے۔



اگر ہم چین سے اس کا موازنہ کریں، کہ جہاں اس وبا پر تقریباً مکمل قابو پالیا گیا ہے، تو ہمیں ایک خاص رجحان نظر آتا ہے۔ وہاں جنوری کے آخری ہفتے میں مریضوں کی تعداد میں اٹھان شروع ہوئی جو 16 فروری کو اپنی انتہا کو پہنچی۔ پھر چینی حکومت کے سخت لاک ڈاؤن کے اقدامات کے باعث مارچ میں مریضوں کی تعداد میں کمی آںے لگی اور 23 اپریل کو محض 6 نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔



اسی طرح اگر دنیا کے دیگر ممالک کا جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی یہی صورتحال نظر آتی ہے۔ امریکا، برطانیہ اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک جن کے پاس وسائل کی وافر فراہمی ہے، ان میں بھی حکومتی سطح پر بد انتظامی اور لاپرواہی کے سبب وبا بے قابو ہوچکی ہے۔ زیرِ نظر جدول میں آپ پاکستان سمیت مختلف ممالک کے اعداد و شمار دیکھ سکتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کا جائزہ ایک ایسی تصویر پیش کرتا ہے جہاں امریکا اور چین جیسے امیر ممالک بھی غیر سنجیدگی کا مطاہرہ کرتے ہوں تو اپنے بے پناہ وسائل کے باوجود بھی اس پر قابو پانے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں جبکہ انہی کہ مقابلے میں اگر حکومتی سطح پر مؤثر حکمتِ عملی مرتب کی جائے اور پوری سنجیدگی اور تندہی کے ساتھ کی جانے والی کوششوں سے ویت نام جیسا پاکستان سے کم جی ڈی پی اور محدود وسائل کا حامل ملک جو کہ چین کا ہمسایہ بھی ہے اس وبا کو قابو کیے ہوئے ہے۔



ہمیں بطور پاکستانی اور باقی ساری دنیا کو ویت نام کی اپنائی گئی حکمتِ عملی کا مطالعہ کرنے اور اس سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
اور ہاں! اتنا یاد رکھیے کہ پاکستان میں کورونا کی پارٹی تو ابھی شروع ہوئی ہے اور اگر اس وبا کے تدارک کےلیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے تو پھر آئندہ تین سے چار ہفتوں میں حکومت کے پاس کرفیو لگانے کے سوا کوئی اور راستہ موجود نہیں ہوگا چاہے وہ حکمتِ عملی کے تحت لگائے یا بادلِ نخواستہ لگایا جائے۔

اگر آپ سے آج گھر میں نہیں بیٹھا جا رہا تو اس وقت کیا کریں گے جب نہ تو بازار کھل سکیں گے، نہ فیکٹریاں اور نہ ہی مساجد...

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں