کورونا پر قومی اتفاق رائے ناگزیر

صوبائی حکومتوں کے اقدامات اور وفاقی حکومت کے فیصلوں کو دیکھا جائے تو ان میں کھلا تضاد نظر آتا ہے۔


Editorial May 07, 2020
صوبائی حکومتوں کے اقدامات اور وفاقی حکومت کے فیصلوں کو دیکھا جائے تو ان میں کھلا تضاد نظر آتا ہے۔ فوٹو: فائل

وفاقی کابینہ نے لاک ڈاؤن میں مزید نرمی کرنے پر اتفاق کر لیا ہے، جب کہ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ حفاظتی اقدامات پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے، غفلت نہیں ہونی چاہیے۔

دوسری جانب وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کو بلایا جائے گا۔ اس اہم ترین بات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ طویل اورصبر آزما ہے۔ اس میں بروقت فیصلوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔

فکر کی بات یہ ہے کہ ملک میں اموات کی شرح اتنی بھی کم نہیں ہے کہ اس پر کسی کوکوئی پریشانی لاحق نہ ہو، لیکن ہمیں بتدریج ملکی معیشت کی بحالی کی طرف بھی جانا ہے، ایک جانب کورونا وائرس کی وجہ سے مسلسل لاک ڈاؤن نے روزمرہ معمولات سمیت کاروبار زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے اور دوسری جانب بھوک اور افلاس کی بڑھتی ہوئی شرح ہے۔ دونوں کے درمیان ایک درمیانی راستہ ملک وقوم کی بقا کے لیے نکالنا ہم سب کی قومی ذمے داری بنتی ہے، ہمیں ایک ایک قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہوگا، ہمیں ہر لمحے چوکنا رہنا پڑے گا۔

عید سے قبل حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز کے مطابق مخصوص اوقات میں کاروبارکھولنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے تشویش ناک صورتحال میں روزبروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، تئیس ہزار کیسز سامنے آچکے ہیں جب کہ پانچ سو سے زائد افراد جان کی بازی ہارگئے ہیں۔

سب کی نظریں قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس پر لگی ہیں کہ قومی اتفاق رائے سے کیا فیصلہ سامنے آتا ہے۔ یہ خبر بھی انتہائی خوش آیند ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس پیرکے دن بلایا گیا ہے۔ حکومتی اقدامات اپنی جگہ لیکن یہ بات عوام بہت زیادہ شدت سے محسوس کر رہے تھے کہ قومی سیاسی جماعتیں کورونا وائرس کے حوالے سے ایک پیج پر نہیں ہیں، صوبوں اور وفاق کے درمیان سیاسی تلخی کا عنصر نمایاں نظر آرہا ہے، قومی اسمبلی کے اجلاس کا انعقاد ایک بہتر اور مثبت تاثرکو تقویت دینے کا سبب بنے گا اور یہی پوری قوم کی ترجمانی اور اتحاد واتفاق کا بہترین پلیٹ فارم ہے۔

یہ امر بھی درست سمت میں ہے کہ اجلاس میں صرف کورونا وائرس پر بات ہوگی تاکہ قومی اتفاق رائے پیدا ہو سکے۔ فیصلے پر اپوزیشن جماعتوں نے بھی اتفاق کر لیا ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ سندھ اور وفاق میں لاک ڈاؤن پر نقطہ نظر کا اختلاف ہے، صورتحال کو دیکھ کر لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ کیا جائے گا۔

ملک بھر میں 10 مئی سے شرائط کے ساتھ محدود ریلوے آپریشن شروع کرنے کے اعلان بھی ایک مثبت قدم قرار دیا جاسکتا ہے،کیونکہ ذرایع آمدورفت کے بند ہونے سے بھی شدید ترین مسائل نے جنم لیا ہے، ایمرجنسی کی صورت میں سفر کی ضرورت پیش آنے پر پرائیویٹ کاروں والے منہ مانگے کرائے ہزاروں روپے کی صورت میں وصول کرتے ہیں۔ ریلوے کے کرائے مہنگائی کے اس دور میں بھی انتہائی کم ہیں، یہ وسیلہ سفر سستا، آسان اور آرام دہ بھی ہے۔

وزارت ریلوے کے مطابق ملک کے مختلف حصوں میں 15 ٹرینیں چلائی جائیں گی، سفرکے دوران مسافروں میں مناسب فاصلہ رکھنا لازم ہے جب کہ سفرکے دوران مسافر اپنا ٹکٹ سامنے رکھیں گے اور ٹکٹ چیکنگ کے دوران عملہ اور مسافر ایک دوسرے کو چھونے سے گریزکریں گے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ریل کے ٹکٹوں کی 50 فیصد بکنگ آن لائن ہوگی۔ اس فیصلے پر عملدر آمد سے عوام سفری سہولت حاصل ہوگی اور انھیں ریلیف بھی ملے گا۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر میں ہونے والے اجلاس میں لاک ڈاؤن میں نرمی اور تجارتی مراکز کھولنے سے متعلق جو سفارشات مرتب کی گئی ہیں ان کے مطابق بین الصوبائی ٹرانسپورٹ کھولنا، ایس او پیز پر عملدرآمد سے مشروط کیا گیا ہے۔ تعمیراتی صنعت میں مزید سہولیات میں اضافے کی تجویز بھی سامنے آئی،اسلام آباد کے اسپتالوں میں مخصوص او پی ڈیز کو فعال کرنے کا فیصلہ کیا گیا، تجارتی مراکز کے اوقات کار صبح نو سے شام پانچ بجے اور پھر رات آٹھ سے دس بجے کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ بلاشبہ ان تجاویز پر عملدرآمد سے صورتحال میں خاصی بہتری پیدا ہوگی۔

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں کپڑے کی دکانیں 15رمضان سے 6 گھنٹے کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، پارکس کو بھی کھولا جائے گا، تاہم پارکس میں لگے جھولے بند رہیں گے، جب کہ بلوچستان حکومت کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے صوبہ بھر میں دفعہ 144نافذ کردی گئی ہے جب کہ لاک ڈاؤن کو 19مئی تک بڑھا دیا گیا ہے۔ صوبہ بھر میں بین الاضلاعی و بین الصوبائی پبلک ٹرانسپورٹ بند رہے گی، دس یا دس سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی ہوگی۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ کے عوام پر زور دیا کہ وہ ایس او پی پر عمل کریں ورنہ مقامی پھیلاؤ پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔

صوبائی حکومتوں کے اقدامات اور وفاقی حکومت کے فیصلوں کو دیکھا جائے تو ان میں کھلا تضاد نظر آتا ہے، سیاسی درجہ حرارت بھی نقطہ عروج پر ہے۔ اس کے باوجود عوام کی غالب اکثریت چاہتی ہے کہ معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروبارکھولنے کی اجازت ملک بھر میں دے دی جائے۔ اگرچہ وفاق اور صوبوں نے ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود لاک ڈاؤن پر عمل درآمد یقینی بنایا ہے اسی طرح اگر احتیاطی تدابیر پر عملدرآمدکو یقینی بنانے کا لائحہ عمل مرتب کیا جائے تو ملکی معیشت کا جام پہیہ پھر سے رواں دواں ہوجائے گا۔ یہ بھی سچائی ہے کہ یہ وبا ہمارے ہاں آئی ضرور ہے مگر امریکا، اسپین، اٹلی، جرمنی اور برطانیہ کی نسبت ہمارے ہاں صورتحال بہت بہتر ہے۔

لاک ڈاؤن کے باوجود پاکستان کے مختلف چھوٹے، بڑے شہروں میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ موٹرسائیکل اورموبائل چھیننے کی وارداتیں، دکانوں میں ڈکیتیوں اور نقدی چھیننے کی وارداتیں رونما ہورہی ہیں، یہ اس بات کی واضح نشاندہی ہے کہ مجرموں کے دلوں سے قانون کا خوف جاتا رہا ہے اور وہ انتہائی دیدہ دلیری سے عوام کولوٹنے میں مصروف ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس کیا کر رہی ہے؟ روایتی بے حسی اور غفلت سے سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں، ان مجرموں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ہر اول دستے کا کردار ادا کررہے ہیں، لیکن حکومتی سطح پر انھیں طبی حفاظتی سامان مہیا نہیں کیا جارہا ہے جس کی وجہ ایک بڑی تعداد خود اس مرض کا شکار ہوتی جارہی ہے، اب تک متعدد ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف اس وائرس کا شکار ہوکر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اگر خدانخوستہ ہماری یہ فرنٹ لائن نہ رہی تو ہمیں اس وائرس کی تباہ کاریوں سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ سڑکوں پر لاشیں پڑی ہونگی، اس حقیقت کو سوچ کر بھی جھرجھری آجاتی ہے۔ محکمہ صحت کو ہر صورت میں ان فرنٹ لائن فائٹرز کی زندگیاں بچانے کے لیے اقدامات اٹھانے ہونگے۔

پوری دنیا میں خوف وہراس کا عالم ہے، موت کا بھیانک رقص جاری ہے، لیکن ہماری قوم کے نوجوانوں کو دیکھیے وہ پتنگ بازی میں مصروف ہیں۔ دھاتی ڈور سے کئی لوگوں کی گردنیں کٹی ہیں، لیکن انھیں کوئی پرواہ نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ والدین اور معاشرہ اپنے فرائض سے غافل ہوچکے ہیں، نئی نسل تربیت کے فقدان کے باعث ایسی راہ پر چل نکلی ہے جو تباہی وبربادی سے عبارت ہے، گھروں پر رہنے کی ہدایات کو ہوا میں اڑا دیا گیا ہے، اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے والے دوسروں کی زندگیاں برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ہم کیسی لاپرواہ اور بے حس قوم ہیں، جو موت سامنے دیکھ کر بھی غیر ضروری مشاغل میں مصروف ہیں۔ ہمارا عقل وشعورکام نہیں کر رہا۔

کورونا وائرس کی وجہ سے قوموں کے رویوں میں بہت زیادہ مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، لیکن ہماری منافع خور مافیا کے دل سے خوف خدا جاتا رہا ہے، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں من مانے اضافوں کا سلسلہ جاری ہے، ماہ مبارک کوکمائی کا ذریعہ بنانے والوں کے دلوں سے ایمان جاچکا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک میں بیروزگاری کی شرح بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے، طویل لاک ڈاؤن کے باعث غربت اور تنگدستی میں اضافہ ہونے سے عام آدمی کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کورونا وائرس پر ہی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں حالانکہ ہر ادارے کو اپنا اپنا کام کرنا چاہیے۔ مہنگائی کی روک تھام کے لیے بھی ایک ٹاسک فورس تشکیل دی جائے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔

کورونا وائرس ایک عالمی وبا ہے، جو اب تک لاکھوں انسانوں کو نگل چکی ہے، یہ کوئی روایتی جنگ نہیں جو میزائلوں اور ہتھیاروں سے لڑی جائے۔ اعصاب شکن مراحل میںجو قومیں نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتی ہیں وہی اپنا وجود قائم رکھ سکتی ہیں، امید ہے کہ موجودہ بحران سے نکلنے کے بعد ہم ایک مضبوط قوم بن کر ابھریں گے۔ یہ بات درست سہی کہ پاکستان میں دوسرے ممالک کے مقابلے میںکورونا کیسز اور اموات کی شرح کم ہے لیکن ہم بحیثیت قوم آئی سی یو میں ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیارکریں، ورنہ غفلت اور لاپرواہی کا نتیجہ انتہائی بھیانک نکلے گا جو موت کے سوا کچھ نہیں۔ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم احتیاط برت کر اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیوں کو محفوظ بنائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔