امریکا کیا کرے گا ’’گیم پلان‘‘
امریکا اور مغرب کی پوری کوشش ہوگی کہ موجودہ عالمی معاشی نظام کو بچایا جائے۔
گیم پلان کیا ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جو سازش کا نظریہ دینے والے پیش کر رہے ہیں۔ اس نظریے کے حامی یہ کہتے ہیں کہ اس '' اجنبی غیر معروف کورونا وائرس''سے پھیلنے والی وبائی بیماری Covid-19 ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد کسی مخصوص گروہ یا کسی ملک کا دنیا پر تسلط حاصل کرنا ہے۔ یہ وائرس فطری یا قدرتی نہیں ہے بلکہ انسان کی ایجاد ہے۔
پہلے یہ وائرس چین میں پھیلایا گیا اس کے بعد اسے دنیا بھر میں پھیلایا گیا۔ دنیا بھر میں غیر ضروری خوف و ہراس پیدا کیا۔ اس طرح پوری دنیا کے لوگوں کو گھروں میں چھپ جانے پر مجبورکیا گیا اور دنیا کو بے بس کردیا گیا اور یہ گروہ اپنی کمپنیوں کے ذریعے ایک نئے نظام کے تحت دنیا پر تسلط حاصل کرلے گا۔ بے شمار ملک دیوالیہ ہوجائیں گے۔ مختلف ممالک تقسیم ہوجائیں گے ترقی پذیر ممالک بہت زیادہ متاثر ہوں گے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے پاس جدید انفرااسٹرکچر نہیں ہے، صحت اور تعلیم کا موثر نظام نہیں ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی وہ آگے نہیں ہیں ان کا کافی دارومدار مغرب کے ممالک اور امریکا پر ہے جو دولت کے مراکز ہیں۔ ان کی آمدنی کا ذریعہ امیر ممالک کی دولت ہے۔ اب امیر ممالک اس قابل نہیں رہیں گے وہاں بے روزگاری کا بحران ہے۔ بیرونی ملکوں سے آکر یہاں کام کرنے والے واپس اپنے ملکوں میں لوٹ رہے ہیں ترقی پذیر ممالک میں بھی صنعت اورکاروبار کا بہت بڑا حصہ مفلوج ہوکر بند ہوجائے گا۔
کروڑوں لوگ بے روزگار ہوں گے ،کئی سرکاری محکمے بند ہوجائیں گے کمپنیاں اپنے غیر ضروری اور غیر پیداواری اخراجات بند کردیں گی۔ عام لوگ بھی سادہ زندگی گزاریں گے۔ امرا بھی اپنے اخراجات کم کر دیں گے۔ مستقبل میں معاشی سرگرمیوں اور ترقی کی رفتار سست روی کا شکار ہوگی ایسی صورت میں ایک مخصوص گروپ اپنے سرمائے کے بل پر دنیا پر اپنا سکہ جمائے گا۔
ایک نظریہ یہ ہے کہ یہ وائرس ایک نئی ٹیکنالوجی فائیو جی سے پیدا ہونے والی الیکٹرو میگنیٹک لہروں کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ ان لہروں کے ارتعاش سے کرہ ارض کا قدرتی نظام متاثر ہوا اور یہ وائرس پیدا ہوا۔ اس سے پہلے بھی کئی وائرس مختلف ٹیکنالوجی کی آمد پر انھی وجوہات کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ مختلف حلقوں اور میڈیا میں بحث جاری ہے، لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں ہے، جو بات اب تک سامنے آئی ہے، اس میں سائنس دانوں کا خیال ہے۔ اس وائرس کی بناوٹ اور جینز یہ ظاہر کر رہی ہے کہ یہ لیبارٹری میں تیار ہی نہیں ہوا بلکہ یہ قدرتی ہے اور یہ ایک اور وائرس ''سارس'' فیملی کی نئی نسل ہے۔
چین سے آنے والی رپورٹ کے مطابق یہ آبی حیات اور دیگر جانوروں کی مارکیٹ میں کام کرنے والی خاتون کو چمگادڑ سے لگ گیا تھا اور اس سے دیگر لوگوں کو لگا۔ بعدازاں چین کے شہر ووہان میں پھیل گیا۔ اب یہ دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔ کہا جا رہا ہے دنیا کی بڑی خفیہ ایجنسیوں نے اپنے اپنے ملکوں کو نومبر ، دسمبر کے مہینے میں تنبیہ کردی تھی کہ یہ وائرس وبائی مرض کا باعث بن رہا ہے جس میں بڑے پیمانے پر اموات ہوسکتی ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر میڈیا کے ایک حلقے کی جانب سے مسلسل تنقید ہو رہی ہے کہ انھوں نے وائرس سے پیدا ہونے والی وبا کو روکنے کے اقدامات میں تاخیر کی جس کی وجہ سے امریکا میں بڑے پیمانے پر اموات ہوئیں۔چونکہ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان کو منتقل ہوتا ہے اور ابتدائی دنوں میں اس کی علامات بھی نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے اکثر ممالک کی انتظامیہ نے انسانی سرگرمیوں اور اجتماعات پر پابندی لگا دی ۔پوری دنیا جامد ہوگئی۔ اس جمود نے بین الاقوامی تجارت کو تباہ کردیا، 80 فیصد صنعت مفلوج ہوگئی۔ بے روزگاری کے طوفان کا آغاز ہو گیا، وائرس کا اثر امریکا اور مغرب میں زیادہ تھا جو دولت کے مراکز تھے اور ترقی پذیر ممالک کی معیشت کا دار و مدار بھی یہی دولت تھی۔
سعودی عرب اور روس کی جانب سے تیل کی قیمت میں کمی نے خلیجی ممالک کے تیل کو پانی کردیا۔ بیرون ملک کام کرنے والے بے روزگار ہوکر اپنے ممالک میں واپس لوٹنے لگے۔ غریب ممالک میں بے روزگار ہونے والے مزدور شہری علاقوں سے نکل کر اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ رہے ہیں۔ یہ بحران غریب ممالک کی صنعت اور تجارت کو لے کر ڈوب سکتا ہے۔ بحران نے ثابت کردیا کہ دنیا کی ترقی پائیدار نہ تھی۔ یہ ایک ایسی عمارت تھی جس کی بنیادیں کھوکھلی تھیں۔ جو معمولی جھٹکے سے گر سکتی تھی۔
امریکا اور مغرب کی پوری کوشش ہوگی کہ موجودہ عالمی معاشی نظام کو بچایا جائے۔ امریکا نے اس سلسلے میں بھرپور اقدامات شروع کردیے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس سال کی آخری سہ ماہی میں وہ موجودہ بحران پر قابو پالیں گے۔ یہ عالمی سطح کا ایسا بحران ہے جس میں سارے بڑے بڑے پہلوان ہار گئے ہیں۔
گلوبلائزئشن کی وجہ سے دنیا کا ایک دوسرے پر دارو مدار بڑھ گیا ہے۔ لوگ جسے امریکا یا کسی اور طاقتور کاگیم پلان سمجھ رہے تھے، وہ غلط ثابت ہوا۔ اب یقینی طور پر ایک نیا گیم پلان سامنے آئے گا۔ دنیا کو تصادم اور محاذ آرائی کو ختم کرنا ہوگا اور تعاون کی راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔ عام آدمی کی صحت، تعلیم، روزگار اور خوشحالی پر توجہ دینی ہوگی دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کے نظام پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ یہ بچاؤ کا راستہ ہے۔ پرانے نظام کو دوبارہ کھڑا کرنے کی کوششیں خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔ جس کے لیے دنیا کو موثر طبقہ اپنا بھرپور زور لگا سکتا ہے۔
دنیا میں معمولات زندگی کی بحالی کے لیے اس بیماری کی انتہائی موثر دوا اور ویکسین کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کے کونے کونے سے اس بیماری کو ختم کیا جائے۔ یہ ذمے داری دنیا کے طاقتور ممالک کی قیادت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپنے گیم پلان کے بجائے پائیدار ترقی کا مشترکہ گیم پلان بنائے اور ترقی پذیر ممالک کا خاص خیال رکھیں تاکہ آیندہ کوئی وبا پوری دنیا میں خوفناک تباہی نہ پھیلائے۔
پہلے یہ وائرس چین میں پھیلایا گیا اس کے بعد اسے دنیا بھر میں پھیلایا گیا۔ دنیا بھر میں غیر ضروری خوف و ہراس پیدا کیا۔ اس طرح پوری دنیا کے لوگوں کو گھروں میں چھپ جانے پر مجبورکیا گیا اور دنیا کو بے بس کردیا گیا اور یہ گروہ اپنی کمپنیوں کے ذریعے ایک نئے نظام کے تحت دنیا پر تسلط حاصل کرلے گا۔ بے شمار ملک دیوالیہ ہوجائیں گے۔ مختلف ممالک تقسیم ہوجائیں گے ترقی پذیر ممالک بہت زیادہ متاثر ہوں گے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے پاس جدید انفرااسٹرکچر نہیں ہے، صحت اور تعلیم کا موثر نظام نہیں ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی وہ آگے نہیں ہیں ان کا کافی دارومدار مغرب کے ممالک اور امریکا پر ہے جو دولت کے مراکز ہیں۔ ان کی آمدنی کا ذریعہ امیر ممالک کی دولت ہے۔ اب امیر ممالک اس قابل نہیں رہیں گے وہاں بے روزگاری کا بحران ہے۔ بیرونی ملکوں سے آکر یہاں کام کرنے والے واپس اپنے ملکوں میں لوٹ رہے ہیں ترقی پذیر ممالک میں بھی صنعت اورکاروبار کا بہت بڑا حصہ مفلوج ہوکر بند ہوجائے گا۔
کروڑوں لوگ بے روزگار ہوں گے ،کئی سرکاری محکمے بند ہوجائیں گے کمپنیاں اپنے غیر ضروری اور غیر پیداواری اخراجات بند کردیں گی۔ عام لوگ بھی سادہ زندگی گزاریں گے۔ امرا بھی اپنے اخراجات کم کر دیں گے۔ مستقبل میں معاشی سرگرمیوں اور ترقی کی رفتار سست روی کا شکار ہوگی ایسی صورت میں ایک مخصوص گروپ اپنے سرمائے کے بل پر دنیا پر اپنا سکہ جمائے گا۔
ایک نظریہ یہ ہے کہ یہ وائرس ایک نئی ٹیکنالوجی فائیو جی سے پیدا ہونے والی الیکٹرو میگنیٹک لہروں کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ ان لہروں کے ارتعاش سے کرہ ارض کا قدرتی نظام متاثر ہوا اور یہ وائرس پیدا ہوا۔ اس سے پہلے بھی کئی وائرس مختلف ٹیکنالوجی کی آمد پر انھی وجوہات کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ مختلف حلقوں اور میڈیا میں بحث جاری ہے، لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں ہے، جو بات اب تک سامنے آئی ہے، اس میں سائنس دانوں کا خیال ہے۔ اس وائرس کی بناوٹ اور جینز یہ ظاہر کر رہی ہے کہ یہ لیبارٹری میں تیار ہی نہیں ہوا بلکہ یہ قدرتی ہے اور یہ ایک اور وائرس ''سارس'' فیملی کی نئی نسل ہے۔
چین سے آنے والی رپورٹ کے مطابق یہ آبی حیات اور دیگر جانوروں کی مارکیٹ میں کام کرنے والی خاتون کو چمگادڑ سے لگ گیا تھا اور اس سے دیگر لوگوں کو لگا۔ بعدازاں چین کے شہر ووہان میں پھیل گیا۔ اب یہ دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔ کہا جا رہا ہے دنیا کی بڑی خفیہ ایجنسیوں نے اپنے اپنے ملکوں کو نومبر ، دسمبر کے مہینے میں تنبیہ کردی تھی کہ یہ وائرس وبائی مرض کا باعث بن رہا ہے جس میں بڑے پیمانے پر اموات ہوسکتی ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر میڈیا کے ایک حلقے کی جانب سے مسلسل تنقید ہو رہی ہے کہ انھوں نے وائرس سے پیدا ہونے والی وبا کو روکنے کے اقدامات میں تاخیر کی جس کی وجہ سے امریکا میں بڑے پیمانے پر اموات ہوئیں۔چونکہ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان کو منتقل ہوتا ہے اور ابتدائی دنوں میں اس کی علامات بھی نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے اکثر ممالک کی انتظامیہ نے انسانی سرگرمیوں اور اجتماعات پر پابندی لگا دی ۔پوری دنیا جامد ہوگئی۔ اس جمود نے بین الاقوامی تجارت کو تباہ کردیا، 80 فیصد صنعت مفلوج ہوگئی۔ بے روزگاری کے طوفان کا آغاز ہو گیا، وائرس کا اثر امریکا اور مغرب میں زیادہ تھا جو دولت کے مراکز تھے اور ترقی پذیر ممالک کی معیشت کا دار و مدار بھی یہی دولت تھی۔
سعودی عرب اور روس کی جانب سے تیل کی قیمت میں کمی نے خلیجی ممالک کے تیل کو پانی کردیا۔ بیرون ملک کام کرنے والے بے روزگار ہوکر اپنے ممالک میں واپس لوٹنے لگے۔ غریب ممالک میں بے روزگار ہونے والے مزدور شہری علاقوں سے نکل کر اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ رہے ہیں۔ یہ بحران غریب ممالک کی صنعت اور تجارت کو لے کر ڈوب سکتا ہے۔ بحران نے ثابت کردیا کہ دنیا کی ترقی پائیدار نہ تھی۔ یہ ایک ایسی عمارت تھی جس کی بنیادیں کھوکھلی تھیں۔ جو معمولی جھٹکے سے گر سکتی تھی۔
امریکا اور مغرب کی پوری کوشش ہوگی کہ موجودہ عالمی معاشی نظام کو بچایا جائے۔ امریکا نے اس سلسلے میں بھرپور اقدامات شروع کردیے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس سال کی آخری سہ ماہی میں وہ موجودہ بحران پر قابو پالیں گے۔ یہ عالمی سطح کا ایسا بحران ہے جس میں سارے بڑے بڑے پہلوان ہار گئے ہیں۔
گلوبلائزئشن کی وجہ سے دنیا کا ایک دوسرے پر دارو مدار بڑھ گیا ہے۔ لوگ جسے امریکا یا کسی اور طاقتور کاگیم پلان سمجھ رہے تھے، وہ غلط ثابت ہوا۔ اب یقینی طور پر ایک نیا گیم پلان سامنے آئے گا۔ دنیا کو تصادم اور محاذ آرائی کو ختم کرنا ہوگا اور تعاون کی راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔ عام آدمی کی صحت، تعلیم، روزگار اور خوشحالی پر توجہ دینی ہوگی دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کے نظام پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ یہ بچاؤ کا راستہ ہے۔ پرانے نظام کو دوبارہ کھڑا کرنے کی کوششیں خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔ جس کے لیے دنیا کو موثر طبقہ اپنا بھرپور زور لگا سکتا ہے۔
دنیا میں معمولات زندگی کی بحالی کے لیے اس بیماری کی انتہائی موثر دوا اور ویکسین کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کے کونے کونے سے اس بیماری کو ختم کیا جائے۔ یہ ذمے داری دنیا کے طاقتور ممالک کی قیادت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپنے گیم پلان کے بجائے پائیدار ترقی کا مشترکہ گیم پلان بنائے اور ترقی پذیر ممالک کا خاص خیال رکھیں تاکہ آیندہ کوئی وبا پوری دنیا میں خوفناک تباہی نہ پھیلائے۔