بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں

بولی وڈ کے گگن سے ایک ساتھ ٹوٹ جانے والے دو تاروں رشی کپور اور عرفان خان کا تذکرہ

بولی وڈ کے گگن سے ایک ساتھ ٹوٹ جانے والے دو تاروں رشی کپور اور عرفان خان کا تذکرہ

وہ چراغ تھے اور اپنے فن و ہنر سے جگمگاتے تھے۔ بولی وڈ کے دو روشن چراغ عرفان خان اور رشی کپور اب ہم میں نہیں رہے۔ دونوں کی اوپر تلے بے وقت اور اچانک موت کا بہانہ کینسر بنا۔ یہ خلا شاید کبھی نہ بھرے لیکن بقول وسیم بریلوی

جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا

کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا

''ابھی تک اپنے سفر میں، میں تیزگامی سے چلتا چلا جا رہا تھا... میرے ساتھ میرے منصوبے، توقعات، خواب اور منزلیں تھیں۔ میں ان میں مگن بڑھتا ہی جا رہا تھا کہ اچانک ٹکٹ چیکر نے پیٹھ تھپ تپائی اور کہا اتریے آپ کا اسٹیشن آگیا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا...نہیں نہیں، میرا اسٹیشن ابھی نہیں آیا لیکن بے نیازی سے جواب ملا آپ کو اسی اسٹاپ پر اترنا ہوگا... اچانک احساس ہوا کہ ہم تو کسی بوتل کے ڈھکن کی طرح وسیع اور اجنبی سمندر میں غیرمتوقع لہروں کے رحم و کرم پر بہہ رہے ہیں جس پر ہمارا کوئی اختیار بھی نہیں اگر کچھ ہے تو بے یقینی ہی بے یقینی ہے۔''

عرفان خان کے یہ الفاظ دوست کے نام لکھے گئے خط کے ہیں جو انہوں نے 2018 میں پہلی مرتبہ نیورو اینڈو کرائن کینسر میں مبتلا ہونے کا علم ہونے پر لکھا تھا۔

دنیا کی بے ثباتی شاعروں کا محبوب موضوع رہا ہے لیکن اس نثر میں عرفان خان نے دنیا کی بے ثباتی اور بے رحم موت کو جس طرح بیان کیا اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ بہترین اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے لکھاری بھی تھے۔

عرفان نے انڈر 23 ٹیم سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی، روزی روٹی کے لیے معمولی کام کیے، لوگوں کے اے سی مرمت کرنے لگے اور ایک دن اے سی ٹھیک کرنے اپنے پسندیدہ اداکار آنجہانی راجیش کھنہ کے گھر جانے اور ان سے ملاقات کا موقع ملا۔ یہ ان کی زندگی کا کام یاب موڑ ثابت ہوا۔ عرفان خان نے ایک پشتون خاندان میں آنکھ کھولی تو پہلی پہچان صاحبزادہ عرفان خان بنی، لیکن انہیں اپنے بل بوتے پر کام یابی کی سیڑھیاں چڑھنی تھیں اور وہ روایت شکن بھی تھے۔

اس لیے خاندانی جاہ و حشمت کی نمائندہ شناخت ''صاحبزادہ '' کو نام سے ہٹا کر اپنی راہ خود چننے کا فیصلہ کیا۔ 'خان' کے سرنام کی بولی وڈ پر دھاک ہے لیکن یہ عجیب شخص خود کو صرف عرفان کہلوانا چاہتا تھا۔

نائن الیون کے واقعے کے بعد انہیں دو بار لاس اینجلس ایئرپورٹ پر کچھ دیر کے لیے حراست میں بھی لیا گیا تھا کیوں کہ امریکا کو کسی عرفان خان نامی دہشت گرد کی تلاش تھی جس کے بعد عرفان نے اپنے نام کے حروف کو تھوڑا تبدیل کیا اور Irrfan لکھنے گے۔ بولی وڈ سے ہالی وڈ کا سفر سبک رفتاری سے طے کیا، کہاں ایک وقت تھا کہ ٹکٹ کے پیسے نہ ہونے کے باعث وہ جراسک پارک نہیں دیکھ پائے اور کہاں ایک وقت ایک ایسا ا?یا کہ وہ خود جراسک پارک کا حصہ بنے۔ وہ ہیرو نہیں تھا۔ نہ اسے ویلن کہا جا سکتا ہے۔ وہ نہ صرف کامیڈی میں ملکہ رکھتا تھا بلکہ وہ ایک اداکار تھا۔ ایک ایسا اداکار جس نے بھانت بھانت کے کردار ادا کیے۔

عرفان خان کے ساتھ 'وہ آیا اس نے، دیکھا، اس نے فتح کرلیا' والا معاملہ بھی نہ تھا۔ ایک جہد مسلسل تھی۔ ٹیلی ویژن سے کام شروع کیا تو معروف شاعر اور مارکسی نظریے کے پرچاری غلام محی الدین کا کردار نبھایا۔ بھارت کی کھوج نامی ڈرامے میں مسلم خاندان کے ایک سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے اور اپنے والدین سے زرا ہٹ کر سوچنے والے نوجوان کا کردار ادا کیا۔ ڈراما سیریل 'ڈر' تو ان کی پہچان ہی بن گیا۔


وہ جن آنکھوں سے بولتا تھا وہ 29 اپریل کو ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔ اب اگر کچھ رہ گیا ہے تو وہ فلمی ڈائیلاگ ہیں جو زبان زد عام ہیں۔ جیسے فلم جذبہ کا مشہور ڈائیلاگ ''رشتوں میں بھروسا اور موبائل میں نیٹ ورک نہ ہو تو لوگ گیم کھیلنے لگتے ہیں۔'' ابھی وہ مزید کام کرنا چاہتا تھا لیکن وقت نے مہلت نہ دی۔ بقول غالب

ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

ابھی مداح عرفان خان کے صدمے سے نکل نہیں پائے تھے کہ رشی کپور بھی اگلے ہی دن داغ مفارقت دے گئے۔ کسے خبر تھی کہ فلم 'ڈی ڈے' میں ایک ساتھ جلوہ افروز ہونے والے عرفان خان اور رشی کپور محض ایک دن کے فرق سے اس دنیا سے منہ موڑ کر آسمانوں میں کہیں اپنی الگ بیٹھک بنائیں گے۔

کپور گھرانا بھارتی فلم انڈسٹری کا ایک ستون ہے اور ایسے مضبوط اور باہنر خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے جہاں رشی کپور کو فائدہ پہنچا وہیں خاندان کی ساکھ اور معیار کو برقرار رکھنے کے لیے کافی محنت کرنا پڑی۔ جلد ہی رشی کپور نے رومانوی ہیرو کے طور پر پہچان بنالی۔ مکالموں کی ادائیگی شان دار تھی، مزاح ان کی طبیعت میں شامل تھا، وہ منہ پھٹ واقع ہوئے تھے اور اسی وجہ سے ٹویٹر پر ٹرولنگ کا شکار بھی ہوتے رہتے تھے۔ وہ اکثر اپنے ا?بائی شہر پشاور کو یاد کیا کرتے تھے۔

زندہ دل اور جوان امنگیں رکھنے والے 67 سالہ رشی کپور نے ایک کتاب بھی لکھی اور کتاب کا نام بھی 'کھلم کھلا ' رکھا، یہ کتاب بھی اسم بامسمیٰ ثابت ہوئی ہے کیوں کہ اس کتاب میں رشی کپور نے فلم انڈسٹری، اپنے خاندان اور ذاتی زندگی کے حوالے سے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے 'کھلم کھلا' لکھ دیا ہے۔ اپنے والد کے غیرازدواجی تعلقات اور ماں کی ان سے ناراضی سے لے کر امیتابھ بچن پر کام یاب فلموں کا کریڈٹ لینے کے الزام تک اس کتاب میں نہ جانے کتنے تلخ مندرجات ہیں۔

رشی کپور نے اس کتاب میں بہترین اداکار کا ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے رشوت دینے کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا کہ ''مجھے یہ کہتے ہوئے شرم ا?تی ہے کہ میں نے فلم بوبی کے لیے بہترین اداکار کا ایوارڈ خریدا تھا۔ کسی نے کہا کہ سر 30 ہزار دیں تو میں یہ ایوارڈ ا?پ کو دلا دوں گا اور میں نے بغیر سوچے سمجھے رقم دے کر ایوارڈ لے لیا۔

یہی نہیں صاف گو رشی کپور نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا کہ ایک ایسا وقت بھی آیا جب میری فلمیں بری طرح فلاپ ہورہی تھیں اور میں اپنی ناکامی کا ذمے دار اپنی بیوی فلم اسٹار نیتو سنگھ کو ٹھہرا کر سارا غصہ اسی پر نکال لیا کرتا تھا۔ حالاں کہ اس وقت وہ حاملہ تھی۔ اب مجھے اپنے اس رویے پر بہت ندامت ہوتی ہے۔

سنیما اسکرین پر کبھی ہار نہ ماننے والے ستاروں کو کینسر نے ہمیشہ کے لیے کملا دیا ہے اب 'کُھلم کھلا' باتیں کرنے کو رشی کپور نہیں اور نہ بولتی آنکھوں والا اداکار رہا جو ہر کریکٹر میں ڈھل جایا کرتا تھا۔ادا جعفری نے کہا تھا

بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں

سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا
Load Next Story