غزوۂ بدر یوم عظمت اسلام
ایک اور ایمان افروز واقعہ کہ قیدیوں میں سہل بن عمرو بے مثل مقرر تھا
غزوہ کے معنی ایسی جنگ کہ جس میں آنحضور ؐ نے بہ نفس نفیس شرکت فرمائی ہو ایسے غزوات کی تعداد تاریخ اسلام میں 27لکھی ہوئی ہے پہلا غزوہ ''ابواء'' جب کہ آخری غزوہ ''تبوک '' ہے حیرت ناک بات یہ ہے کہ یہ تمام غزوات02ھسے 08ھ ہجری تک یعنی 7 سالوں کے اندر لڑے گئے۔ تاریخ میں غزوۂ بدر اولیٰ کا ذکر غزوات کی فہرست میں تیسرے نمبر پر جب کہ غزوۂ بدر عظمی کا ذکر پانچویں نمبر پر ہے۔ (دیکھیے تاریخ اسلام صفحہ 78)
بدر ایک کنویں کا نام ہے جس کی وجہ سے اس آبادی یا وادی کا نام بھی بدر پڑ گیا جغرافیائی اعتبار سے یہ وادی مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک شاہراہ پر واقع ہے جو عثمانی دورحکومت میں تعمیر ہوئی تھی علامہ شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ بدر ایک گاؤں کا نام ہے جہاں سال کے سال میلہ لگتا تھا یہ مقام اس نقطے کے قریب ہے جہاں شام سے مدینہ جانے کا راستہ دشوارگزار گھاٹیوں سے ہوکر گزرتا ہے۔ یہ مدینہ منورہ سے 80 میل کے فاصلے پر ہے بس اسی مقام پر کفار مکہ اور مسلمانوں کے درمیان 02ھ مطابق 17رمضان اور عیسوی کیلنڈر کے مطابق 14 مارچ 623ھمعرکۂ حق و باطل ہوا۔ اسی لئے اس جنگ کا نام غزوۂ بدر معروف ہوگیا۔ (سیرت النبی جلد ۱)
مسلمانوں کو ہجرت کیے ابھی دو سال بھی مکمل نہ ہونے پائے تھے اور ابھی تو مسلم معاشرہ تشکیلی مراحل سے گزر رہا تھا۔ اپنے آپ کو وہ ابھی سیٹ بھی نہ کر پائے تھے کہ کفار مکہ نے انہیں بے چین کردیا۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمان مدینہ میں رہ کر ایک عظیم طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں اس لیے ابھی سے ان کی افرادی اور معاشی طاقت کو کچل کر رکھ دیا جائے تاکہ وہ آئندہ کے لیے ہمارے مقابل خطرہ بن کر نہ ابھر سکیں۔ انہوں نے مسلمانوں کی قوت کو کچلنے کی خاطر پہلے ہی دن سے ہر ممکن کو شش کی جس کی وجوہات ہماری تمام دینی اور تاریخی کتب میں یہ بیان کی گئی ہیں۔
۱۔ ان کا دعوٰی تھا کہ کعبے کے پاسبان صرف اور صرف ہم ہیں کسی اور قبیلے یا گروہ کا تسلط ہمیں منظور نہیں۔ ان کا مذہب بت پرستی تھا اور کعبۃ اللہ میں 360 بت نصب تھے یعنی ہر دن کا ایک بت۔ ان بتوں کی عبادت وحفاظت کو وہ اپنا فرض منصبی گردانتے تھے جب کہ مسلمان اسکے مخالف تھے۔
۲۔کعبۃ اللہ کا متولی خاندان قریش ہی سے ہوتا تھا اور حج کے موقع پر بے شمار مال ودولت حاصل ہوتا تھا۔ اسلام کی مخالفت نہ کرکے وہ اس دولت و ثروت سے محروم نہیں ہونا چاہتے تھے اور نہ ہی کعبے کی تولیت کسی اور کے ہاتھوں دینا چاہتے تھے۔
۳۔مسلمانوں کی ہجرت مدینہ ان کی اولین شکست تھی کیوںکہ وہ انہیں روکنے میں بری طرح ناکام ہوئے۔ اس لیے اس شکست کا بدلہ بھی وہ قرض جانتے تھے۔
۴۔انہیں یہ بھی ڈر تھا کہ مسلمانوں کی طاقت بڑھ جانے سے مکہ پر حملہ یقینی ہو سکتا ہے۔
۵۔کرزبن فہری نے مدینہ کی چراگاہ پر قبضے کی کوشش کی۔آنحضور ؐ کو علم ہوا تو آپؐ نے بذات خود اس کا تعاقب فرمایا مگر وہ بھاگ نکلا۔
۶۔اس واقعے کے بعد آپؐ نے عبداللہ بن جحشؓ کی قیادت میں ایک دستہ روانہ کیا کہ وہ مدینہ کی سرحد کی حفاظت بذریعہ گشت کرے اور دشمن کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھے اس دستے نے ایک تجارتی قافلہ جو کہ قریش کا تھا۔ ان میں سے ایک فرد عبداللہ بن الحضری کو قتل کردیا اس فعل کو آنحضرت ؐ نے بری نظر سے دیکھا اور ناپسند فرمایا قریش نے عبداللہ حضری کے قتل کو جواز بناتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف خوب پروپیگنڈا کیا اور زبردست جنگی تیاریاں شروع کردیں ۔
۷۔اہل اسلام پر مکہ اور اس کے اطراف تجارت بند تھی اس کے باوجود مسلمان تاجروں نے جنوبی اطراف عرب اپنی تجارتی دھاک بٹھا رکھی تھی اور اہل قریش کو اس پس منظر میں اپنی تجارت ڈوبتی نظر آئی یہ بھی جنگ کا ایک جواز بنی ۔
آنحضوؐر کو دشمن کے منصوبوں کا علم ہوا تو آپ نے صحابہ کرامؓ کو یکجا کرکے مشاورت فرمائی۔ اس موقع پر سب سے پہلے حضرت ابوبکرصدیق ؓ اور پھر حضرت عمرؓ نے تقاریر کیں انصار کی جانب سے حضرت عبادہؓ بن صامت نے نمائندگی کرتے ہوئے نہایت پُرجوش انداز میں فرمایا، یارسول اللہ! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر آپؐ ہمیں حکم دیں کہ اپنی سواری کے جانوروں کو دریا میں ڈال دیں تو ہم ایسا ہی کریں گے، ہمیں یہ حکم دیں کہ اپنی سواری برک غماد تک ماردیں تو ہم ایسا ہی کریں گے، واضح ہوکہ برک غماد یمن کا شہر ہے۔ اسی جوش اور جذبے کے تحت مسلمانوں کا مختصر سا قافلہ جس کی کل تعداد تین سو تیرہ تھی بدر کے مقام پر آنحضور ؐ کی قیادت میں پہنچے۔ ان میں انصار اور مہاجر مشترکہ تھے ایک مقام پر تعداد کے اعتبار سے 314بھی لکھے ہوئے ہیں جس کی تفصیل یوں ہے: مہاجرین 83اور231 انصار تھے جو قبائل کے اعتبار سے اس طرح تھے اوس11، خزرج 70 تھے اس مختصر سے قافلے کے پاس سامان حرب یہ تھا: 60اونٹ اور 3گھوڑے 60 زر ہیں اور چند تلواریں۔
مسلمانوں کے مقابلے میں دشمنان اسلام 3گنا زائد تھے۔ یعنی 1000نفوس پر مشتمل یہ قافلہ بڑے طمطراق کیساتھ بدر کے قریب صفرا کے مقام پر مسلمانوں کے مقابل صف آراء ہوا۔ ان کے پاس 700زر ہیں 70گھوڑے لاتعداد اونٹ جو سواری اور غذا کے لیے لائے گئے تھے۔ اسی طرح بے شمار تلواریں اور نیزے تھے حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ جب ہم لوگ بدر کے مقام پر پہنچے تو آپ ؐ نے فرمایا، ''(لوگودیکھو) یہ جگہ فلاں شخص کی نعش کی ہے اور یہ جگہ فلاں شخص کے قتل کی ہے۔ اس طرح آپؐ نے 70مقامات تعین کرکے بتلائے پھر جو مقام آپؐ نے تعین فرمائے ان میں سے ایک بھی متجاوز نہ ہوا جہاں آپؐ نے ہاتھ رکھا تھا وہ کافر وہیں ہلاک ہوا۔'' (صحیح مسلم)
اس عظیم معرکے کا ذکر قرآن حکیم میں 2 مقامات پر آیا ہے جب کہ احادیث مبارکہ میں ان غزوات پر الگ باب ترتیب دیے گئے ہیں۔ قرآن میں غزوۂ بدر پر بطور خاص تفصیلی ذکر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ ''اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتا رچلے آئیں گے اور اللہ تعالیٰ نے یہ مدد محض اس لیے کی کہ بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دلوں کو قرار آجائے اور مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو کہ زبردست حکمت والا ہے۔
اس وقت کو یاد کرو جب کہ اللہ تم پر اونگھ طاری کررہا تھا اپنی طرف سے چین دینے کے لیے اور تم پر آسمان سے پانی برسا رہا تھا کہ اس پانی کے ذریعے سے تم کو پاک کردے اور تم سے شیطانی وسوسے کو دفع کر دے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کردے اور تمہارے پاؤں جمادے اس وقت کو یاد کرو جب کہ آپ کا رب فرشتوں کو حکم دے رہا تھا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں سو تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ میں ابھی کفار کے قلوب میں رعب ڈالے دیتا ہوں سو تم گردنوں پر مارو اور ان کے پورپور کو مارو یہ اس بات کی سزا ہے کہ انہوں نے اللہ کے اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے سو بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔'' (سور ہ انفال آیات9تا13)
اس غزوۂ کی مزید تفصیلات اسی سورہ کی آیت2 سے 19تک اور 41تا46پڑھی جا سکتی ہیں۔ ایک اور مقام پر فرمایا ترجمہ ''جب آپ مومنوں کو تسلی دے رہے تھے کہ کیا آسمان سے 3ہزار فرشتے اتار کر اللہ کا تمہاری مدد کرنا تمہیں کافی نہ ہوگا کیوں نہیں بلکہ اگر تم صبر کرو پرہیز گاری کرو اور یہ لوگ اسی دم تمہارے پاس آجائیں تو تمہارا رب تمہاری امداد پانچ ہزار فرشتوں سے کرے گا۔'' (سورہ آل عمران 122تا128) مفسرین ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ پہلے پہنچنے کے سبب کفار نے اپنے لیے بہترین ہموار، صاف ستھری جگہ کا انتخاب کیا، یہاں تازہ دم کمک بھی آسانی سے پہنچ سکتی تھی۔
دوسری جانب مسلمانوں کو ریتیلا اور ناہموار میدان میسر آیا تھا، جہاں سامان رسد کی ترسیل بھی انتہائی دشوارگزار تھی۔ انسان اور جانور سب کے پیر مٹی میں دھنسے جا رہے تھے۔ آنحضورؐ نے مسلمانوں کی اس تکلیف کو محسوس فرمایا، صفوں کو درست فرما کر ایک جھونپڑی میں گئے جو بہ طور خاص آپ کے لیے بنائی گئی تھی۔ آج کی اصطلاح میں اسے کمانڈر انچیف کا ہیڈ کواٹر کہا جا سکتا ہے۔ یہاں آپؐ نے گڑگڑا کر اپنے رب کے حضور دعا کی یااللہ اگر آج یہ مٹھی بھر مسلمان شہید ہوگئے تو آئندہ کے لیے تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔
استغراق کا یہ عالم تھا کہ شانۂ مبارک سے چادر ڈھلک گئی جسے حضرت ابوبکرصدیقؓ نے درست کرتے ہوئے ہمت و حوصلہ بڑھایا۔ اسی اثناء آپؐ نے ایک مٹھی سنگریزے لیے اور ان پر شاہت الوجوہ پڑھ کر دم کیا اور دشمنوں کی جانب پھینک دیا۔ وہ سنگریزے آندھی کی شکل میں اڑے اور ہر دشمن کی آنکھ میں گئے۔ یہ میدان کارزار کا آپؐ کا پہلا معجزہ ہے۔ عین لڑائی کے دوران بارش ہوگئی جس کی وجہ سے دشمن کا میدان تالاب کی شکل اختیار کرگیا۔ وہ اور ان کے جانور پھسل پھسل کر منہ کے بل گر رہے تھے جب کہ ریتیلی زمین ہونے کی بنا پر مجاہدین کے قدم جم گئے اور پھر مسلمانوں کی صفوں میں وعدے کے مطابق فرشتوں کا نزول ہوا، جو مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے۔ کفار کو مسلم فوج کثرت میں نظر آنے لگی جس کی وجہ سے ان پر ہیبت طاری ہوگئی اور ان کے پاؤں اکھڑگئے۔
یہ دنیا کی عجیب و غریب جنگ تھی جس میں بھائی بھائی کے خلاف اور بیٹا باپ کے خلاف تلوار سونتے ہوئے تھا۔ ابوجہل کو دو انصاری نوجوانوں نے قتل کیا، یہ حضرت معوؓذ و معاذ ؓ تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بھی اسی کی تلاش میں تھے۔ ابوجہل نے ایک موقع پر آپؓ کو ایک تھپڑ مارا تھا۔ ابو جہل نے جب دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ سرکاٹنے آ رہے ہیں۔ اس کے غرور کا یہ عالم تھا کہ کہنے لگا سردار کا سر کاٹنے آئے ہو ذرا لمبی گردن سے کاٹنا تاکہ سر بلند رہے۔ پھر وہ سر کاٹ کر حضور ؐ کے قدموں میں ڈال دیا گیا۔ آپ نے اس کو دیکھ کر فرمایا ''یہ آج کے فرعون کا سر ہے۔''
حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کا بیان ہے کہ ''خدا کی قسم میں نے ان سب لوگوں کو جن کے لیے آنحضرت نے بددعا فرمائی تھی، مردہ دیکھا پھر انہیں میدان سے کھینچا اور بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔ پھر آنحضورؐ نے فرمایا اس جماعت پر جو کنویں میں ڈال دی گئی ہے اللہ کی لعنت پڑگئی ہے۔'' (مشکوٰۃ) حضرت ابن عباسؓ کے مطابق اس جنگ میں 70کفار قتل ہوئے اور 70ہی گرفتار ہوئے جو بچ گئے راہ فرار اختیار کی (صحیح مسلم) جب کہ اس معرکے میں14صحابۂ کرام منصب شہادت پر فائز ہوئے۔
اس معرکے میں سب سے پہلے حضرت عبیدہؓ بن الحارث نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور شہید کہلائے۔ آپؓ کو مقام صفرا میں دفن کیا گیا۔ اس معرکہ کے بہت دنوں کے بعد حضور اکرمؐ ایک قافلے کے ساتھ اس مقام سے گزرتے ہوئے خیمہ زن ہوئے تھے تو ساری وادی سے مشک کی خوش بو پھوٹ رہی تھی۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا یا رسول اللہ یہ مشک کی خوشبو کیسی؟ آپؐ نے فرمایا تمہیں معلوم نہیں کہ یہاں میرے عبیدہ بن حارث کی قبر ہے۔
ایک اور ایمان افروز واقعہ کہ قیدیوں میں سہل بن عمرو بے مثل مقرر تھا۔ وہ آنحضور ؐ کے خلاف تقریریں کیا کرتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے آپ ؐ سے اس کے دانت اکھاڑنی کی اجازت چاہی تو آپؐ نے یہ کہہ کر اجازت دینے سے انکار فرمایا کہ اگر میں اس کا بدن بگاڑوں گا تو اللہ تعالیٰ میرا بدن بگاڑدے گا۔ شاید یہ کسی مجلس میں ایسی گفتگو کرے جو تمہیں بری نہ لگے۔ آنحضور ؐ کی یہ پیش گوئی آپؐ کی وفات کے بعد پوری ہوئی فتنۂ ارتداد کے بعد پُرجوش اور مؤثر خطبے حضرت سہیل ؓ ہی نے دیے تھے۔
بدر ایک کنویں کا نام ہے جس کی وجہ سے اس آبادی یا وادی کا نام بھی بدر پڑ گیا جغرافیائی اعتبار سے یہ وادی مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک شاہراہ پر واقع ہے جو عثمانی دورحکومت میں تعمیر ہوئی تھی علامہ شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ بدر ایک گاؤں کا نام ہے جہاں سال کے سال میلہ لگتا تھا یہ مقام اس نقطے کے قریب ہے جہاں شام سے مدینہ جانے کا راستہ دشوارگزار گھاٹیوں سے ہوکر گزرتا ہے۔ یہ مدینہ منورہ سے 80 میل کے فاصلے پر ہے بس اسی مقام پر کفار مکہ اور مسلمانوں کے درمیان 02ھ مطابق 17رمضان اور عیسوی کیلنڈر کے مطابق 14 مارچ 623ھمعرکۂ حق و باطل ہوا۔ اسی لئے اس جنگ کا نام غزوۂ بدر معروف ہوگیا۔ (سیرت النبی جلد ۱)
مسلمانوں کو ہجرت کیے ابھی دو سال بھی مکمل نہ ہونے پائے تھے اور ابھی تو مسلم معاشرہ تشکیلی مراحل سے گزر رہا تھا۔ اپنے آپ کو وہ ابھی سیٹ بھی نہ کر پائے تھے کہ کفار مکہ نے انہیں بے چین کردیا۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمان مدینہ میں رہ کر ایک عظیم طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں اس لیے ابھی سے ان کی افرادی اور معاشی طاقت کو کچل کر رکھ دیا جائے تاکہ وہ آئندہ کے لیے ہمارے مقابل خطرہ بن کر نہ ابھر سکیں۔ انہوں نے مسلمانوں کی قوت کو کچلنے کی خاطر پہلے ہی دن سے ہر ممکن کو شش کی جس کی وجوہات ہماری تمام دینی اور تاریخی کتب میں یہ بیان کی گئی ہیں۔
۱۔ ان کا دعوٰی تھا کہ کعبے کے پاسبان صرف اور صرف ہم ہیں کسی اور قبیلے یا گروہ کا تسلط ہمیں منظور نہیں۔ ان کا مذہب بت پرستی تھا اور کعبۃ اللہ میں 360 بت نصب تھے یعنی ہر دن کا ایک بت۔ ان بتوں کی عبادت وحفاظت کو وہ اپنا فرض منصبی گردانتے تھے جب کہ مسلمان اسکے مخالف تھے۔
۲۔کعبۃ اللہ کا متولی خاندان قریش ہی سے ہوتا تھا اور حج کے موقع پر بے شمار مال ودولت حاصل ہوتا تھا۔ اسلام کی مخالفت نہ کرکے وہ اس دولت و ثروت سے محروم نہیں ہونا چاہتے تھے اور نہ ہی کعبے کی تولیت کسی اور کے ہاتھوں دینا چاہتے تھے۔
۳۔مسلمانوں کی ہجرت مدینہ ان کی اولین شکست تھی کیوںکہ وہ انہیں روکنے میں بری طرح ناکام ہوئے۔ اس لیے اس شکست کا بدلہ بھی وہ قرض جانتے تھے۔
۴۔انہیں یہ بھی ڈر تھا کہ مسلمانوں کی طاقت بڑھ جانے سے مکہ پر حملہ یقینی ہو سکتا ہے۔
۵۔کرزبن فہری نے مدینہ کی چراگاہ پر قبضے کی کوشش کی۔آنحضور ؐ کو علم ہوا تو آپؐ نے بذات خود اس کا تعاقب فرمایا مگر وہ بھاگ نکلا۔
۶۔اس واقعے کے بعد آپؐ نے عبداللہ بن جحشؓ کی قیادت میں ایک دستہ روانہ کیا کہ وہ مدینہ کی سرحد کی حفاظت بذریعہ گشت کرے اور دشمن کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھے اس دستے نے ایک تجارتی قافلہ جو کہ قریش کا تھا۔ ان میں سے ایک فرد عبداللہ بن الحضری کو قتل کردیا اس فعل کو آنحضرت ؐ نے بری نظر سے دیکھا اور ناپسند فرمایا قریش نے عبداللہ حضری کے قتل کو جواز بناتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف خوب پروپیگنڈا کیا اور زبردست جنگی تیاریاں شروع کردیں ۔
۷۔اہل اسلام پر مکہ اور اس کے اطراف تجارت بند تھی اس کے باوجود مسلمان تاجروں نے جنوبی اطراف عرب اپنی تجارتی دھاک بٹھا رکھی تھی اور اہل قریش کو اس پس منظر میں اپنی تجارت ڈوبتی نظر آئی یہ بھی جنگ کا ایک جواز بنی ۔
آنحضوؐر کو دشمن کے منصوبوں کا علم ہوا تو آپ نے صحابہ کرامؓ کو یکجا کرکے مشاورت فرمائی۔ اس موقع پر سب سے پہلے حضرت ابوبکرصدیق ؓ اور پھر حضرت عمرؓ نے تقاریر کیں انصار کی جانب سے حضرت عبادہؓ بن صامت نے نمائندگی کرتے ہوئے نہایت پُرجوش انداز میں فرمایا، یارسول اللہ! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر آپؐ ہمیں حکم دیں کہ اپنی سواری کے جانوروں کو دریا میں ڈال دیں تو ہم ایسا ہی کریں گے، ہمیں یہ حکم دیں کہ اپنی سواری برک غماد تک ماردیں تو ہم ایسا ہی کریں گے، واضح ہوکہ برک غماد یمن کا شہر ہے۔ اسی جوش اور جذبے کے تحت مسلمانوں کا مختصر سا قافلہ جس کی کل تعداد تین سو تیرہ تھی بدر کے مقام پر آنحضور ؐ کی قیادت میں پہنچے۔ ان میں انصار اور مہاجر مشترکہ تھے ایک مقام پر تعداد کے اعتبار سے 314بھی لکھے ہوئے ہیں جس کی تفصیل یوں ہے: مہاجرین 83اور231 انصار تھے جو قبائل کے اعتبار سے اس طرح تھے اوس11، خزرج 70 تھے اس مختصر سے قافلے کے پاس سامان حرب یہ تھا: 60اونٹ اور 3گھوڑے 60 زر ہیں اور چند تلواریں۔
مسلمانوں کے مقابلے میں دشمنان اسلام 3گنا زائد تھے۔ یعنی 1000نفوس پر مشتمل یہ قافلہ بڑے طمطراق کیساتھ بدر کے قریب صفرا کے مقام پر مسلمانوں کے مقابل صف آراء ہوا۔ ان کے پاس 700زر ہیں 70گھوڑے لاتعداد اونٹ جو سواری اور غذا کے لیے لائے گئے تھے۔ اسی طرح بے شمار تلواریں اور نیزے تھے حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ جب ہم لوگ بدر کے مقام پر پہنچے تو آپ ؐ نے فرمایا، ''(لوگودیکھو) یہ جگہ فلاں شخص کی نعش کی ہے اور یہ جگہ فلاں شخص کے قتل کی ہے۔ اس طرح آپؐ نے 70مقامات تعین کرکے بتلائے پھر جو مقام آپؐ نے تعین فرمائے ان میں سے ایک بھی متجاوز نہ ہوا جہاں آپؐ نے ہاتھ رکھا تھا وہ کافر وہیں ہلاک ہوا۔'' (صحیح مسلم)
اس عظیم معرکے کا ذکر قرآن حکیم میں 2 مقامات پر آیا ہے جب کہ احادیث مبارکہ میں ان غزوات پر الگ باب ترتیب دیے گئے ہیں۔ قرآن میں غزوۂ بدر پر بطور خاص تفصیلی ذکر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ ''اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتا رچلے آئیں گے اور اللہ تعالیٰ نے یہ مدد محض اس لیے کی کہ بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دلوں کو قرار آجائے اور مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو کہ زبردست حکمت والا ہے۔
اس وقت کو یاد کرو جب کہ اللہ تم پر اونگھ طاری کررہا تھا اپنی طرف سے چین دینے کے لیے اور تم پر آسمان سے پانی برسا رہا تھا کہ اس پانی کے ذریعے سے تم کو پاک کردے اور تم سے شیطانی وسوسے کو دفع کر دے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کردے اور تمہارے پاؤں جمادے اس وقت کو یاد کرو جب کہ آپ کا رب فرشتوں کو حکم دے رہا تھا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں سو تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ میں ابھی کفار کے قلوب میں رعب ڈالے دیتا ہوں سو تم گردنوں پر مارو اور ان کے پورپور کو مارو یہ اس بات کی سزا ہے کہ انہوں نے اللہ کے اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے سو بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔'' (سور ہ انفال آیات9تا13)
اس غزوۂ کی مزید تفصیلات اسی سورہ کی آیت2 سے 19تک اور 41تا46پڑھی جا سکتی ہیں۔ ایک اور مقام پر فرمایا ترجمہ ''جب آپ مومنوں کو تسلی دے رہے تھے کہ کیا آسمان سے 3ہزار فرشتے اتار کر اللہ کا تمہاری مدد کرنا تمہیں کافی نہ ہوگا کیوں نہیں بلکہ اگر تم صبر کرو پرہیز گاری کرو اور یہ لوگ اسی دم تمہارے پاس آجائیں تو تمہارا رب تمہاری امداد پانچ ہزار فرشتوں سے کرے گا۔'' (سورہ آل عمران 122تا128) مفسرین ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ پہلے پہنچنے کے سبب کفار نے اپنے لیے بہترین ہموار، صاف ستھری جگہ کا انتخاب کیا، یہاں تازہ دم کمک بھی آسانی سے پہنچ سکتی تھی۔
دوسری جانب مسلمانوں کو ریتیلا اور ناہموار میدان میسر آیا تھا، جہاں سامان رسد کی ترسیل بھی انتہائی دشوارگزار تھی۔ انسان اور جانور سب کے پیر مٹی میں دھنسے جا رہے تھے۔ آنحضورؐ نے مسلمانوں کی اس تکلیف کو محسوس فرمایا، صفوں کو درست فرما کر ایک جھونپڑی میں گئے جو بہ طور خاص آپ کے لیے بنائی گئی تھی۔ آج کی اصطلاح میں اسے کمانڈر انچیف کا ہیڈ کواٹر کہا جا سکتا ہے۔ یہاں آپؐ نے گڑگڑا کر اپنے رب کے حضور دعا کی یااللہ اگر آج یہ مٹھی بھر مسلمان شہید ہوگئے تو آئندہ کے لیے تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔
استغراق کا یہ عالم تھا کہ شانۂ مبارک سے چادر ڈھلک گئی جسے حضرت ابوبکرصدیقؓ نے درست کرتے ہوئے ہمت و حوصلہ بڑھایا۔ اسی اثناء آپؐ نے ایک مٹھی سنگریزے لیے اور ان پر شاہت الوجوہ پڑھ کر دم کیا اور دشمنوں کی جانب پھینک دیا۔ وہ سنگریزے آندھی کی شکل میں اڑے اور ہر دشمن کی آنکھ میں گئے۔ یہ میدان کارزار کا آپؐ کا پہلا معجزہ ہے۔ عین لڑائی کے دوران بارش ہوگئی جس کی وجہ سے دشمن کا میدان تالاب کی شکل اختیار کرگیا۔ وہ اور ان کے جانور پھسل پھسل کر منہ کے بل گر رہے تھے جب کہ ریتیلی زمین ہونے کی بنا پر مجاہدین کے قدم جم گئے اور پھر مسلمانوں کی صفوں میں وعدے کے مطابق فرشتوں کا نزول ہوا، جو مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے۔ کفار کو مسلم فوج کثرت میں نظر آنے لگی جس کی وجہ سے ان پر ہیبت طاری ہوگئی اور ان کے پاؤں اکھڑگئے۔
یہ دنیا کی عجیب و غریب جنگ تھی جس میں بھائی بھائی کے خلاف اور بیٹا باپ کے خلاف تلوار سونتے ہوئے تھا۔ ابوجہل کو دو انصاری نوجوانوں نے قتل کیا، یہ حضرت معوؓذ و معاذ ؓ تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بھی اسی کی تلاش میں تھے۔ ابوجہل نے ایک موقع پر آپؓ کو ایک تھپڑ مارا تھا۔ ابو جہل نے جب دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ سرکاٹنے آ رہے ہیں۔ اس کے غرور کا یہ عالم تھا کہ کہنے لگا سردار کا سر کاٹنے آئے ہو ذرا لمبی گردن سے کاٹنا تاکہ سر بلند رہے۔ پھر وہ سر کاٹ کر حضور ؐ کے قدموں میں ڈال دیا گیا۔ آپ نے اس کو دیکھ کر فرمایا ''یہ آج کے فرعون کا سر ہے۔''
حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کا بیان ہے کہ ''خدا کی قسم میں نے ان سب لوگوں کو جن کے لیے آنحضرت نے بددعا فرمائی تھی، مردہ دیکھا پھر انہیں میدان سے کھینچا اور بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔ پھر آنحضورؐ نے فرمایا اس جماعت پر جو کنویں میں ڈال دی گئی ہے اللہ کی لعنت پڑگئی ہے۔'' (مشکوٰۃ) حضرت ابن عباسؓ کے مطابق اس جنگ میں 70کفار قتل ہوئے اور 70ہی گرفتار ہوئے جو بچ گئے راہ فرار اختیار کی (صحیح مسلم) جب کہ اس معرکے میں14صحابۂ کرام منصب شہادت پر فائز ہوئے۔
اس معرکے میں سب سے پہلے حضرت عبیدہؓ بن الحارث نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور شہید کہلائے۔ آپؓ کو مقام صفرا میں دفن کیا گیا۔ اس معرکہ کے بہت دنوں کے بعد حضور اکرمؐ ایک قافلے کے ساتھ اس مقام سے گزرتے ہوئے خیمہ زن ہوئے تھے تو ساری وادی سے مشک کی خوش بو پھوٹ رہی تھی۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا یا رسول اللہ یہ مشک کی خوشبو کیسی؟ آپؐ نے فرمایا تمہیں معلوم نہیں کہ یہاں میرے عبیدہ بن حارث کی قبر ہے۔
ایک اور ایمان افروز واقعہ کہ قیدیوں میں سہل بن عمرو بے مثل مقرر تھا۔ وہ آنحضور ؐ کے خلاف تقریریں کیا کرتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے آپ ؐ سے اس کے دانت اکھاڑنی کی اجازت چاہی تو آپؐ نے یہ کہہ کر اجازت دینے سے انکار فرمایا کہ اگر میں اس کا بدن بگاڑوں گا تو اللہ تعالیٰ میرا بدن بگاڑدے گا۔ شاید یہ کسی مجلس میں ایسی گفتگو کرے جو تمہیں بری نہ لگے۔ آنحضور ؐ کی یہ پیش گوئی آپؐ کی وفات کے بعد پوری ہوئی فتنۂ ارتداد کے بعد پُرجوش اور مؤثر خطبے حضرت سہیل ؓ ہی نے دیے تھے۔