شاہینوں کے درمیان

پاکستان فضائیہ سے میری محبت تو کم و بیش میری عمر جتنی پرانی ہے لیکن اس سے براہ راست تعلق اور تعارف 1985۔۔۔

Amjadislam@gmail.com

MELBOURNE:
پاکستان فضائیہ سے میری محبت تو کم و بیش میری عمر جتنی پرانی ہے لیکن اس سے براہ راست تعلق اور تعارف 1985 کے لگ بھگ ہوا جب فضائیہ نے اپنے بارے میں ایک فیچر فلم بنانے کا ارادہ کیا اور مجھے اس کا اسکرپٹ لکھنے کی دعوت دی گئی۔ بوجوہ یہ پروگرام ٹیک آف سے پہلے ہی لینڈ کر گیا اور یہ بات بیچ میں ہی رہ گئی لیکن اس کی وساطت سے دو ایک یادیں ایسی ہیں جو مجھے بہت عزیز ہیں ایک تو یہ کہ مجھے پشاور ایئر بیس کی کلب میں ایم ایم عالم مرحوم سے ایک تفصیلی ملاقات کا موقع ملا جو ریٹائرمنٹ کے بعد وہیں مقیم تھے اور دوسرے اس کی معرفت سرگودھا کیڈٹ اسکول' رسالپور' کراچی اور پشاور میں فضائیہ کے ماحول اور اس کے ریٹائرڈ' موجودہ اور متوقع افسران سے ملنے اور ان کے کام کے مختلف مراحل کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کی صورت بھی نکل آئی جس میں مشاق نامی تربیتی ہوائی جہازوں سے لے کر C-130 کے کئی یاد گار سفر بھی شامل ہیں۔

پاک فضائیہ سے دوسرا باضابطہ رابطہ بھی ایک ٹی وی سیریل کی وساطت سے ہوا جو چند برس قبل ''شیر دل'' کے نام سے ٹیلی کاسٹ ہوا جب کہ اس کا اصل ٹائٹل ''وسعتیں'' تھا۔ بدقسمتی سے یہ منصوبہ گوناگوں غیر متوقع حالات کی وجہ سے مطلوبہ نتائج پیدا نہ کر سکا جس کا مجھے زندگی بھر افسوس رہے گا لیکن اس کا ایک فائدہ ضرور ہوا اور وہ یہ کہ (ریٹائرڈ) ایئر وائس مارشل ساجد حبیب اور ایئر کموڈور خالد چشتی کی صورت میں دو بہت اچھے انسانوں سے ملاقات ہو گئی اور پھر یہ رشتہ گہری محبت اور دوستی میں بدلتا چلا گیا افسوس کہ ان دونوں احباب کے پر خلوص اور پیشہ ورانہ تعاون کے باوجود یہ ڈرامہ سیریل مطلوبہ نتائج نہ پیدا کر سکی چونکہ اس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں اس لیے اس بات کو یہیں چھوڑتے ہوئے میں حال ہی میں شاہینوں کے ساتھ گزارے ہوئے ایک دن کی طرف آتا ہوں جسے میرا پاک فضائیہ سے تیسرا براہ راست رابطہ بھی کہا جا سکتا ہے۔

ہوا یوں کہ کچھ عرصہ قبل مجھے مری کے قریب واقع لوئر ٹوپہ کے ایئر فورس اسکول کی طرف سے دعوت ملی کہ میں وہاں آ کر اقبال ڈے کے حوالے سے ان کے طلبہ سے خطاب کروں۔ میں نے برادرم ساجد حبیب سے جو حال ہی میں سرگودھا کیڈٹ اسکول کے پرنسپل مقرر ہوئے ہیں اس اسکول کا مزاج اور حدود اربعہ معلوم کرنا چاہا تھا تو انھوں نے نہ صرف اسکول کی بے حد تعریف کی بلکہ اصرار کیا کہ میں وہاں ضرور جائوں کیونکہ وہاں منتخب شدہ بچوں کو ایف ایس سی کے دوران تک جو عمدہ اور ہمہ جہت تعلیم و تربیت دی جاتی ہے اس کی وجہ سے ان میں سے بیشتر نوجوان GD پائلٹ بننے کے مراحل نسبتاً آسانی سے طے کر جاتے ہیں۔

اسلام آباد سے لوئر ٹوپہ تک کا سفر مری ایکسپریس وے کے ذریعے ہوا جو پرانی سڑک کی نسبت نہ صرف بہت بہتر اور دو رویہ ہے بلکہ اس کی اونچائیاں اور موڑ بھی بڑے سلیقے سے تعمیر کیے گئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ اسکول بھی ایک طویل بندش کے بعد دوبارہ کھولا گیا ہے سارے ملک سے منتخب شدہ 350 طلبہ یہاں چار برس تعلیم حاصل کرتے ہیں اور سب کے سب اسکول کے ہاسٹل میں رہتے ہیں۔ پرنسپل ایئر وائس مارشل ریٹائرڈ امتیاز حیدر صاحب نے بتایا کہ طلبہ کا انتخاب بہت ہی سخت اور مساویانہ بنیادوں پر انٹرویوز کے ذریعے کیا جاتا ہے اور سسٹم ایسا ہے کہ کوئی چاہے بھی تو میرٹ کے ساتھ کسی قسم کی گڑ بڑ کر ہی نہیں سکتا کم و بیش یہی حال اساتذہ کا ہے کہ وہ بھی خالص میرٹ پر منتخب ہوتے ہیں اور طلبہ ہی کی طرح اسکول سے ملحق خاص طور پر تعمیر کردہ رہائشی کالونی میں رہتے ہیں۔


اگرچہ تقریب کا موضوع یوم اقبال کے حوالے سے ایک خصوصی لیکچر تھا مگر منتظمین نے اسے دو حصوں میں یوں تقسیم کر دیا کہ ابتدا میں صاحب لیکچر یعنی میرے بارے میں کچھ آئٹمز رکھ دیں جن میں میرے ضرورت سے زیادہ مفصل اور توصیفی تعارف کے علاوہ میری شاعری کی Readings اور میرے ڈرامہ ''وارث'' کا ایک سین بھی شامل تھا جسے اگرچہ بہت عمدگی سے پیش کیا گیا تھا مگر ایک تو چوہدری حشمت کے لیے منتخب کے جانے والے نوجوان کی آواز بھی اس کی طرح پتلی تھی اور دوسرے اس کا مائیکرو فون بھی صحیح طریقے سے Adjust نہیںکیا گیا تھا جس کی وجہ سے کچھ غیر ضروری Sound effects بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے مگر اس کے باوجود مجموعی تاثر اگر بہت زور دار نہیں تو گوارا ضرور تھا۔

دوسرے حصے میں علامہ اقبال کا مفصل با تصویر تعارف (Slide show) نمونہ کلام اور میرا لیکچر شامل تھے جس کے آخر میں سوال و جواب کا ایک وقفہ رکھا گیا تھا جس کی خاص بات یہ تھی کہ طلبہ اور اساتذہ دونوں نے بہت اچھے اور بامعنی سوالات کیے اور یوں مجھے موقع مل سکا کہ میں سوالات کے جواب دینے کے ساتھ ساتھ ان مفروضوں اور روایتوں پر بھی بات کر سکوں جو اقبال اور فکر اقبال سے متعلق دانستہ یا غیر دانستہ طور پر پھیلا دیے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ محفل دلچسپ بھی تھی اور پرلطف بھی کہ ایسا زبردست ڈسپلن آج کل تعلیمی اداروں اور خصوصاً لڑکوں کے تعلیمی اداروں میں تو ایک خواب و خیال بن کر رہ گیا ہے۔

لیکچر اور لنچ کے درمیان جمعے کی نماز کا وقفہ تھا خاصی وسیع مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ اس نماز سے متعلق ایک بات ایسی ہے جس کا ذکر میں ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ امام صاحب نے عربی خطبے سے پہلے اس کا مفہوم بہت آسان لفظوں میں اردو میں بھی بیان کیا میرے لیے یہ ایک انوکھا تجربہ تھا کیونکہ کم از کم میری حد تک یہ ایک بالکل نئی بات تھی۔ مجھے یہ بات بہت بھلی لگی اور یہ ترجمہ یا مفہوم سننے کے دوران بار بار خیال آیا کہ اگر تمام مسجدوں میں اس کی پیروی کی جائے تو کیا ہی اچھا ہو کہ مفہوم جان لینے کے بعد خطبے کی عربی بہت حد تک مجھے آپ سے آپ سمجھ میں آنے لگی۔

میرے کمرے میں ایک میز پر میری بیس پچیس کتابوں کا ڈھیر لگا تھا معلوم ہوا کہ یہ اسکول کی لائبریری کے لیے خریدی گئی ہیں اور مجھے ان پر اپنے دستخط کرنا ہیں جو میں نے خوشی خوشی کر دیے کہ میں ذاتی طور پر اسکولوں میں لائبریری کلچر کی تجدید کا زبردست حامی ہوں کتاب سے محبت اور مطالعے کا شوق اگر تعلیم و تربیت کا عملی حصہ بن جائیں تو ہمارے معاشرتی رویوں میں انقلابی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔ کھانے کی میز پر اساتذہ نے سوالات اور تصویروں کا ایک ایسا سلسلہ شروع کر دیا کہ مجھے مجبوراً پلیٹ ہاتھ سے رکھنا پڑی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جب کبھی مجھے کھانے کے دوران لی گئی تصویروں کی البم پیش کی جاتی ہے تو اسے دیکھتے ہوئے پہلا خیال میرے دل میں یہی آتا ہے کہ شاید میں بہت زیادہ کھاتا ہوں کیونکہ کم و بیش ہر تصویر میں نوالہ میرے منہ میں ہوتا ہے اب یہ کون پتہ کرتا پھرے کہ دس بارہ تصویروں میں دکھائی دینے والا نوالہ اصل میں ایک ہی ہے، خیر یہ تو محض تفنن کی بات تھی کھانا بہت اچھا تھا اور میزبانوں کے خلوص نے اسے دو بلکہ سہ آتشہ کر دیا تھا۔ ایک بات تو میں بتانا ''بھول ہی گیا کہ میری آمد سے لے کر رخصت کے لمحے تک (لیکچر اور نماز کے وقت کو چھوڑ کر) بینڈ کی دھنیں کبھی نزدیک اور کبھی دور سے ہمارے ساتھ ساتھ چلتی رہیں جس کا اختتام کھانے کے بعد اس لفافے سے ہوا جو پرنسپل صاحب نے بینڈ کے لیڈر کو پیش کیا کہ یہ ہماری افواج کے کلچر کا ایک حصہ ہے۔

اگر سفر کے دورانیے کو بیچ میں سے نکال دیا جائے تو کہنے کو تو شاید مستقبل کے شاہینوں کی اس بستی میں چار پانچ گھنٹے ہی گزرے مگر اس کی فضا میں امید' اعتماد' محنت' لگن اور بلند پروازی کے جو منظر دیکھنے اور محسوس کرنے میں آئے ان کا مجموعی تاثر بہت حوصلہ افزا تھا کہ یہاں کی زمین پتھریلی ہونے کے باوجود نمدار بھی تھی اور زرخیز بھی۔
Load Next Story