دل کا اعتبار کیا کیجیے
پاکستان میں دل کے بڑھتے ہوئے امراض مستقل تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ تیس سے چالیس فیصد اموات دل کی۔۔۔
KARACHI:
پاکستان میں دل کے بڑھتے ہوئے امراض مستقل تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ تیس سے چالیس فیصد اموات دل کی بیماری کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق کورونری ہارٹ ڈیزیز میں 200,000 افراد کی اموات ہر سال وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ دل کی مختلف بیماریوں کا جال ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ درحقیقت سب سے ناقابل اعتبار شے انسان کا اپنا دل ہے جو اس کے اختیار سے نکل کر اس کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی دل کو پاگل قرار دیا جاتا ہے تو کبھی اسے چور کے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ دل مستقل تبدیلی کے زیر اثر رہتا ہے۔ جس کی پسند بارہا بدلتی رہتی ہے۔ انسانی زندگی کے بہت سے حوالے دل سے منسوب ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو انسان کا دل ایک کرشماتی تخلیق ہے۔ دل کی نسیں، شریانیں، رگیں و مہین نالیاں 60,000 میلوں جتنی پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ اتنی طویل ہیں کہ اگر سفر پر نکلیں تو دو بار دنیا گھوم کر آ جائیں، یہی وجہ ہے کہ اس دل ناتواں میں پوری کائنات سمٹی ہوئی ہے۔ یہ ہمارا دل دن میں 100,000 بار دھڑکتا ہے اور اگر آپ ستر سال کے ہو چکے ہیں تو آپ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ آپ کے پہلو میں دھڑکتا دل 205 ملین سے زیادہ بار دھڑک کر آپ کو زندگی کی نوید دیتا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دل کی دھڑکنوں کا اتار چڑھاؤ سماجی رویوں سے لے کر، ذہن و جسم کی فعال کارکردگی اور جذباتی توازن کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کم اور معدوم ہوتی دھڑکنیں ڈپریشن و ذہنی پیچیدگی کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ جب کہ بڑھتی ہوئی پرتغیر دھڑکنیں سماجی رویوں پر عبور، مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت و رہنمائی سے منسوب ہیں۔
دل کے امراض سے پوری دنیا کی آبادی متاثر ہو رہی ہے۔ برطانیہ میں ہر سال 300,000 برطانوی لوگ دل کے دورے کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں دل کے امراض کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سگریٹ نوشی، ہائی کولیسٹرول لیول، موٹاپا، ذیابیطس وغیرہ ہیں یا اگر دل کا مرض والدین میں سے کسی کو پچپن سال سے پہلے ہو چکا ہے تو باقی افراد کے متاثر ہونے کے دس گنا امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ جدید دور میں کھانے پینے کی عادات و اوقات بدل چکے ہیں۔ سادہ اور صحت بخش غذا کی جگہ فاسٹ فوڈ، جنک فوڈ، مرغن غذاؤں، سوڈا نے لے لی ہے۔ الکوحل اور وافر مقدار میں استعمال ہونے والی کافی کے بھی دل پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑھتا ہوا کولیسٹرول بھی دل کے امراض کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ کولیسٹرول ایک چکنا مادہ ہے جو جسم کے مختلف حصوں میں موجود رہتا ہے۔ ویسے تو کولیسٹرول جسم میں بنتا ہے مگر مرغن غذا سے بھی اس کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کولیسٹرول جگر میں بنتا ہے، جس کی وجہ سے جسم معمول کے مطابق کام کرتا ہے۔ کولیسٹرول کی مدد سے جسم کے معمولات میں ہارمونز، بائل ایسڈ اور وٹامن ڈی کا بنانا شامل ہے۔ جو خون میں شامل ہو کر جسم کے مختلف حصوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔
کولیسٹرول ڈیری مصنوعات، گوشت، انڈے کی زردی، کلیجی، مغز اور میٹھی ڈبل روٹی سے حاصل ہوتا ہے۔ شریانوں میں خون کے لوتھڑے جمنے کی وجہ سے فالج اور دل کے دورے کے امکان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں مناسب غذا کے استعمال سے کافی فائدہ ہوتا ہے۔ ہزاروں سال پرانی کہاوت ہے کہ اپنی غذا کو اپنی دوا بنائیے۔ قدیم مصر، یونان و روم میں پیاز اور لہسن کو دل کی بیماری میں وافر مقدار میں استعمال کیا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں چین، جاپان، ملائشیا اور انڈونیشیا میں سبزی کے سوپ دسترخوان کی زینت بنائے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان ملکوں میں دل کی بیماری کا تناسب کم پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بیج، بادام و اخروٹ کی تھوڑی سی مقدار، لہسن، ادرک، ہلدی، پھل و سبزیاں احتیاطی تدابیر میں شامل ہیں۔ خاص طور پر ادرک کی چائے، ناریل کا پانی و انناس کا جوس Inflamation (سوجن) میں موثر قرار پائے ہیں۔ کینولا و زیتون کا تیل کھانے میں شامل کرنے سے بھی صحت افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔ جدید محققین کے مطابق دلیے کے استعمال سے بھی کولیسٹرول میں کمی واقع ہوتی ہے۔
اس پر آشوب دور میں ذہنی دباؤ، افسردگی، خوف، بے خوابی، ذہنی و جسمانی تھکن، تشویش، غصہ، چڑچڑا پن، عجلت میں کام کرنا ایسی عادتیں ہیں جو روزمرہ کے معمولات کا حصہ بن چکی ہیں۔ دور جدید کے انسان نے منفی رویے اپنا لیے ہیں اور ذات کو خود ساختہ انا کے خول میں قید کر لیا ہے۔ جس کی وجہ سے مدافعتی نظام تباہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر مثبت انداز فکر اپنا لیا جائے تو دل کے عارضے سے بچا جا سکتا ہے۔ دوسرے اسباب میں دانت کا ضایع جانا، مسوڑھوں کی بیماری، نمک کا زیادہ استعمال، ناشتہ نہ کرنا، رات کو دیر سے کھانا کھانا، ٹیکی کارڈیا (دل کا تیز دھڑکنا) اور زیادہ دیر بیٹھے رہنا بھی دل کی صحت کو متاثر کر سکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں گہری سانسیں لے کر کھانسنا اور اس عمل کو کچھ دیر تک کرتے رہنے سے منتشر دھڑکنیں معمول پر آ جاتی ہیں۔ آج کل ٹی وی اور کمپیوٹرز کے استعمال سے جسمانی سرگرمیاں معطل نظر آتی ہیں۔ جس کی وجہ سے وزن بھی بڑھ جاتا ہے۔ ہفتے میں تین بار تیس منٹ تک پیدل چلنا اس حوالے سے مفید ثابت ہوا ہے۔ اس کے علاوہ گھر کے کاموں میں حصہ لینا، باغبانی، سائیکلنگ، کھیل کود بھی جسمانی صحت میں بہتری پیدا کر دیتے ہیں۔
انسان کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل احساس کی وسیع دنیا اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ وہ خوبصورت احساس جس سے عہد حاضر کے انسان نے منہ موڑ لیا ہے۔ ایک مکتبہ فکر یہ بھی کہتا ہے کہ انسان کے جسم پر فقط ذہن کی حکمرانی ہے۔ ذہن کے منقسم دو حصوں میں دایاں ذہن انسان کی جذباتی زندگی، خواہشات، تخلیق و خوابوں سے جڑا ہے جب کہ بایاں ذہن منطق و زندگی کے حقائق سے وابستہ ہے۔ جو دائیں ذہن کی تمام ترغیبات کو حقیقت کا آئینہ دکھا کر سمجھاتا رہتا ہے جب کہ قدیم مفکر یہ بھی کہتے آئے ہیں کہ دل خوابوں کا خاکہ بناتا ہے اور ذہن اس میں تعبیر کے رنگ بھرتا ہے۔ دل، طلب کی شہ پر مچلتا ہے اور ذہن تکمیل کے تانے بانے بنتا ہے۔ دل کی نفسیات کے ماہرین سے یہ بھی سنتے آئے ہیں کہ دل انسان کی سوچ کے ہر ایک زاویے کو گہرائی سے محسوس کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بدلتی ہوئی کیفیات کے ساتھ دل کا آہنگ بھی مختلف نہیں ہوتا۔ خوف سے دھڑکنیں رکنے سے گریز کرتیں اور محبوب کے تصور سے تلاطم نہ برپا کر دیتیں۔
غرض کہ دل ایک سرکش گھوڑے کی طرح ہے، جسے سدھانے کے لیے انسان کو سو جتن کرنے پڑتے ہیں۔ انسانی تہذیب و تمدن کو ترتیب و توازن کے دائرے میں لانے کے لیے انسان کو فلسفے، معاشرتی آداب و تعمیری سوچ کا سہارا لینا پڑا۔ کیونکہ زندگی کی بے ترتیبی، افراتفری، جھوٹ، دھوکا، نفرت اور تعصب دل کی منفی ترغیب کا آئینہ ہیں۔ دل جو کہ محبت سے عبارت ہے۔ یہ ایک ایسا گھر ہے، جو محبت کی روشنی سے ہمہ وقت منور رہتا ہے۔ انسان خود محبت سے منہ موڑ لے یا محبت کا حق اس سے چھین لیا جائے دونوں صورتوں میں دل خزاں رسیدہ درخت کی خالی ٹہنیوں جیسا ہو جاتا ہے وہی لوگ ایک طویل عمر جیتے ہیں جن کے دل اپنائیت و رفاقتوں کے سحر میں ڈوبے رہتے ہیں۔
پاکستان میں دل کے بڑھتے ہوئے امراض مستقل تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ تیس سے چالیس فیصد اموات دل کی بیماری کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق کورونری ہارٹ ڈیزیز میں 200,000 افراد کی اموات ہر سال وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ دل کی مختلف بیماریوں کا جال ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ درحقیقت سب سے ناقابل اعتبار شے انسان کا اپنا دل ہے جو اس کے اختیار سے نکل کر اس کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی دل کو پاگل قرار دیا جاتا ہے تو کبھی اسے چور کے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ دل مستقل تبدیلی کے زیر اثر رہتا ہے۔ جس کی پسند بارہا بدلتی رہتی ہے۔ انسانی زندگی کے بہت سے حوالے دل سے منسوب ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو انسان کا دل ایک کرشماتی تخلیق ہے۔ دل کی نسیں، شریانیں، رگیں و مہین نالیاں 60,000 میلوں جتنی پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ اتنی طویل ہیں کہ اگر سفر پر نکلیں تو دو بار دنیا گھوم کر آ جائیں، یہی وجہ ہے کہ اس دل ناتواں میں پوری کائنات سمٹی ہوئی ہے۔ یہ ہمارا دل دن میں 100,000 بار دھڑکتا ہے اور اگر آپ ستر سال کے ہو چکے ہیں تو آپ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ آپ کے پہلو میں دھڑکتا دل 205 ملین سے زیادہ بار دھڑک کر آپ کو زندگی کی نوید دیتا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دل کی دھڑکنوں کا اتار چڑھاؤ سماجی رویوں سے لے کر، ذہن و جسم کی فعال کارکردگی اور جذباتی توازن کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کم اور معدوم ہوتی دھڑکنیں ڈپریشن و ذہنی پیچیدگی کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ جب کہ بڑھتی ہوئی پرتغیر دھڑکنیں سماجی رویوں پر عبور، مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت و رہنمائی سے منسوب ہیں۔
دل کے امراض سے پوری دنیا کی آبادی متاثر ہو رہی ہے۔ برطانیہ میں ہر سال 300,000 برطانوی لوگ دل کے دورے کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں دل کے امراض کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سگریٹ نوشی، ہائی کولیسٹرول لیول، موٹاپا، ذیابیطس وغیرہ ہیں یا اگر دل کا مرض والدین میں سے کسی کو پچپن سال سے پہلے ہو چکا ہے تو باقی افراد کے متاثر ہونے کے دس گنا امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ جدید دور میں کھانے پینے کی عادات و اوقات بدل چکے ہیں۔ سادہ اور صحت بخش غذا کی جگہ فاسٹ فوڈ، جنک فوڈ، مرغن غذاؤں، سوڈا نے لے لی ہے۔ الکوحل اور وافر مقدار میں استعمال ہونے والی کافی کے بھی دل پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑھتا ہوا کولیسٹرول بھی دل کے امراض کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ کولیسٹرول ایک چکنا مادہ ہے جو جسم کے مختلف حصوں میں موجود رہتا ہے۔ ویسے تو کولیسٹرول جسم میں بنتا ہے مگر مرغن غذا سے بھی اس کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کولیسٹرول جگر میں بنتا ہے، جس کی وجہ سے جسم معمول کے مطابق کام کرتا ہے۔ کولیسٹرول کی مدد سے جسم کے معمولات میں ہارمونز، بائل ایسڈ اور وٹامن ڈی کا بنانا شامل ہے۔ جو خون میں شامل ہو کر جسم کے مختلف حصوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔
کولیسٹرول ڈیری مصنوعات، گوشت، انڈے کی زردی، کلیجی، مغز اور میٹھی ڈبل روٹی سے حاصل ہوتا ہے۔ شریانوں میں خون کے لوتھڑے جمنے کی وجہ سے فالج اور دل کے دورے کے امکان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں مناسب غذا کے استعمال سے کافی فائدہ ہوتا ہے۔ ہزاروں سال پرانی کہاوت ہے کہ اپنی غذا کو اپنی دوا بنائیے۔ قدیم مصر، یونان و روم میں پیاز اور لہسن کو دل کی بیماری میں وافر مقدار میں استعمال کیا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں چین، جاپان، ملائشیا اور انڈونیشیا میں سبزی کے سوپ دسترخوان کی زینت بنائے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان ملکوں میں دل کی بیماری کا تناسب کم پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بیج، بادام و اخروٹ کی تھوڑی سی مقدار، لہسن، ادرک، ہلدی، پھل و سبزیاں احتیاطی تدابیر میں شامل ہیں۔ خاص طور پر ادرک کی چائے، ناریل کا پانی و انناس کا جوس Inflamation (سوجن) میں موثر قرار پائے ہیں۔ کینولا و زیتون کا تیل کھانے میں شامل کرنے سے بھی صحت افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔ جدید محققین کے مطابق دلیے کے استعمال سے بھی کولیسٹرول میں کمی واقع ہوتی ہے۔
اس پر آشوب دور میں ذہنی دباؤ، افسردگی، خوف، بے خوابی، ذہنی و جسمانی تھکن، تشویش، غصہ، چڑچڑا پن، عجلت میں کام کرنا ایسی عادتیں ہیں جو روزمرہ کے معمولات کا حصہ بن چکی ہیں۔ دور جدید کے انسان نے منفی رویے اپنا لیے ہیں اور ذات کو خود ساختہ انا کے خول میں قید کر لیا ہے۔ جس کی وجہ سے مدافعتی نظام تباہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر مثبت انداز فکر اپنا لیا جائے تو دل کے عارضے سے بچا جا سکتا ہے۔ دوسرے اسباب میں دانت کا ضایع جانا، مسوڑھوں کی بیماری، نمک کا زیادہ استعمال، ناشتہ نہ کرنا، رات کو دیر سے کھانا کھانا، ٹیکی کارڈیا (دل کا تیز دھڑکنا) اور زیادہ دیر بیٹھے رہنا بھی دل کی صحت کو متاثر کر سکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں گہری سانسیں لے کر کھانسنا اور اس عمل کو کچھ دیر تک کرتے رہنے سے منتشر دھڑکنیں معمول پر آ جاتی ہیں۔ آج کل ٹی وی اور کمپیوٹرز کے استعمال سے جسمانی سرگرمیاں معطل نظر آتی ہیں۔ جس کی وجہ سے وزن بھی بڑھ جاتا ہے۔ ہفتے میں تین بار تیس منٹ تک پیدل چلنا اس حوالے سے مفید ثابت ہوا ہے۔ اس کے علاوہ گھر کے کاموں میں حصہ لینا، باغبانی، سائیکلنگ، کھیل کود بھی جسمانی صحت میں بہتری پیدا کر دیتے ہیں۔
انسان کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل احساس کی وسیع دنیا اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ وہ خوبصورت احساس جس سے عہد حاضر کے انسان نے منہ موڑ لیا ہے۔ ایک مکتبہ فکر یہ بھی کہتا ہے کہ انسان کے جسم پر فقط ذہن کی حکمرانی ہے۔ ذہن کے منقسم دو حصوں میں دایاں ذہن انسان کی جذباتی زندگی، خواہشات، تخلیق و خوابوں سے جڑا ہے جب کہ بایاں ذہن منطق و زندگی کے حقائق سے وابستہ ہے۔ جو دائیں ذہن کی تمام ترغیبات کو حقیقت کا آئینہ دکھا کر سمجھاتا رہتا ہے جب کہ قدیم مفکر یہ بھی کہتے آئے ہیں کہ دل خوابوں کا خاکہ بناتا ہے اور ذہن اس میں تعبیر کے رنگ بھرتا ہے۔ دل، طلب کی شہ پر مچلتا ہے اور ذہن تکمیل کے تانے بانے بنتا ہے۔ دل کی نفسیات کے ماہرین سے یہ بھی سنتے آئے ہیں کہ دل انسان کی سوچ کے ہر ایک زاویے کو گہرائی سے محسوس کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بدلتی ہوئی کیفیات کے ساتھ دل کا آہنگ بھی مختلف نہیں ہوتا۔ خوف سے دھڑکنیں رکنے سے گریز کرتیں اور محبوب کے تصور سے تلاطم نہ برپا کر دیتیں۔
غرض کہ دل ایک سرکش گھوڑے کی طرح ہے، جسے سدھانے کے لیے انسان کو سو جتن کرنے پڑتے ہیں۔ انسانی تہذیب و تمدن کو ترتیب و توازن کے دائرے میں لانے کے لیے انسان کو فلسفے، معاشرتی آداب و تعمیری سوچ کا سہارا لینا پڑا۔ کیونکہ زندگی کی بے ترتیبی، افراتفری، جھوٹ، دھوکا، نفرت اور تعصب دل کی منفی ترغیب کا آئینہ ہیں۔ دل جو کہ محبت سے عبارت ہے۔ یہ ایک ایسا گھر ہے، جو محبت کی روشنی سے ہمہ وقت منور رہتا ہے۔ انسان خود محبت سے منہ موڑ لے یا محبت کا حق اس سے چھین لیا جائے دونوں صورتوں میں دل خزاں رسیدہ درخت کی خالی ٹہنیوں جیسا ہو جاتا ہے وہی لوگ ایک طویل عمر جیتے ہیں جن کے دل اپنائیت و رفاقتوں کے سحر میں ڈوبے رہتے ہیں۔