نیا سپہ سالار‘ نئی توقعات

2013ء پاکستان میں بڑی اہم تبدیلیوں کا سال رہا ہے۔ اس سال ملک میں ’’شریف دور‘‘ کا آغاز ہوا۔ شریف خاندان ملک۔۔۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

لاہور:
2013ء پاکستان میں بڑی اہم تبدیلیوں کا سال رہا ہے۔ اس سال ملک میں ''شریف دور'' کا آغاز ہوا۔ شریف خاندان ملک میں برسر اقتدار آ گیا اور میاں نواز شریف ملک کے وزیر اعظم بنے، سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بری فرج کے 14 ویں سربراہ کی حیثیت سے اپنی 40 سالہ پیشہ ورانہ خدمات کے بعد سبکدوش ہو گئے اور لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف نے پاک فوج کے نئے سربراہ اور لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود نے نئے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے وزیر اعظم نواز شریف کے صوابدیدی اختیارات کی بدولت فوج کی کمان سنبھال لی ہے اس طرح جنرل راحیل شریف بری فوج کے 15 ویں سربراہ ہیں جن کی ترقی اور تقرری وزیر اعظم کے انتخاب اور صدر مملکت کے آئین کے آرٹیکل 243/4 (اے) اور 243/4 (بی) کے اختیارات کی بدولت عمل میں آئی ہے۔ وہ پاک فوج میں مختلف عہدوں پر خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ 57 سالہ جنرل راحیل شریف 1956ء کو کوئٹہ میں میجر محمد شریف کے گھر پیدا ہوئے۔

وہ نشان حیدر حاصل کرنے والے شہید میجر شبیر شریف ستارہ جرأت اور کیپٹن ممتاز شریف ستارہ بسالت کے چھوٹے بھائی ہیں۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور اور پاکستان ملٹری اکیڈمی سے تعلیم حاصل کی جہاں انھوں نے 54 واں کورس پاس کیا۔ راحیل شریف نے اکتوبر 1976ء میں کمیشن حاصل کیا۔ نوجوان کی حیثیت سے انھوں نے انفنٹری بریگیڈ گلگت میں اپنے فرائض سر انجام دیے اور پاکستان ملٹری اکیڈمی میں ایجوٹنٹ کے طور پر بھی کام کیا۔ انھوں نے کمپنی کمانڈر کا کورس جرمنی سے کیا اور بعدازاں اسکول آف انفٹری میں انسٹرکٹر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ انھوں نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کینیڈا سے اعزاز کے ساتھ اعلیٰ تعلیم پائی۔ وہ کمانڈ اسٹاف اور انسٹرکشنل تقرریوں کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ انفنٹری بریگیڈ میجر رہے اور 2 انفنٹری یونٹوں کی کمانڈ کی جن میں کشمیر میں 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ سیالکوٹ بارڈر پر 26 فرنٹیئر فورس رجمنٹ شامل ہیں۔

وہ کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کی فیکلٹی میں شامل تھے اور انھوں نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں 1998ء میں آرمڈ فورسز وار کورس میں شرکت کی۔ بریگیڈیئر کی حیثیت سے انھوں نے انڈیپنڈنٹ انفنٹری بریگیڈ گروپ سمیت 2 انفنٹری بریگیڈز کی کمانڈ کی۔ انھیں 2 کور کے چیف آف اسٹاف ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے جن میں 30 کور اور 12 کور شامل ہیں۔ وہ برطانیہ کے رائل کالج آف ڈیفنس اسٹڈیز کے گریجویٹ ہیں۔ وہ انفنٹری ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کے کمانڈنٹ رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل کی حیثیت سے انھوں نے انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایویلوایشن سے قبل دو سال تک 30 کور کے کمانڈر کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ انھیں مطالعے، پیراکی اور شکار کا شوق ہے۔ نئے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود ہلال امتیاز ملٹری نے مئی 1975ء میں بلوچ رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔

انھوں نے فرانس میں کمپنی کمانڈر کورس میں شرکت حاصل کی۔ وہ کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کینیڈا اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد گریجویٹ ہیں۔ ان کی بڑی تقرریوں میں پاکستان ملٹری اکیڈمی میں پلاٹون کمانڈر، بریگیڈ میجر انفنٹری بریگیڈ، کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج اور نیشنل ڈیفنس کالج میں انسٹرکٹر کی حیثیت سے خدمات شامل ہیں۔ وہ کور کمانڈر لاہور اور صدر مملکت کے ملٹری سیکریٹری رہے۔ جنرل آفیسر نے دو انفنٹری بٹالینز، دو انفنٹری بریگیڈز، کانگو میں اقوام متحدہ کے دستے، جہلم میں انفنٹری ڈویژن کی کمان کی۔ انٹرسروسز انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل رہے اور لاہور کور کے کمانڈر کے بطور خدمات انجام دیں۔ کور کی کمانڈ کے بعد انھوں نے جنوری 2013ء میں چیف آف جنرل اسٹاف کا عہدہ سنبھالا۔ انھیں ہلال امتیاز ملٹری عطا کیا گیا۔


اگرچہ نواز شریف نے ایک سے زیادہ مرتبہ اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ سینئر ترین فوجی افسر کو آرمی چیف بنائیں گے تاہم چونکہ یہ ان کا صوابدیدی اختیار تھا اور قانونی و آئینی طور پر ایسی کوئی پابندی نہیں کہ وہ سینئر ترین افسر کو نظرانداز نہیں کر سکتے لہٰذا انھوں نے سینئر ترین جنرل ہارون اسلم کو نظر انداز کر کے ایک بار پھر اپنے ہی عزم کو توڑ ڈالا، جس کے بعد جنرل ہارون اسلم نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا اور وزیر اعظم کے عشائیے کو نظرانداز کر دیا، حکومت کی جانب سے بھی اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی جنرل ہارون اسلم کو نظرانداز کرنے کی آخر کیا وجوہات تھیں۔ اگر اس کی وجہ یہ تھی کہ 12 اکتوبر 1999ء کو جب نواز شریف کی حکومت ہٹائی گئی تھی اس وقت جنرل ہارون اسلم کو ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ میں مقرر کیا گیا تھا تو پوری فوج ہی اس عمل میں مشترکہ طور پر شریک تھی۔ 1998ء میں پرویز مشرف کو جس وقت آرمی چیف بنایا گیا تو اس وقت ان کے سینئر کو نظرانداز کر دیا گیا تھا تاہم جس طرح جنرل ضیا الحق نے سینئر نظرانداز کر کے آرمی چیف لگائے جانے کے بعد بھٹو حکومت کے ساتھ کیا، بالکل ویسا ہی کام پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کے ساتھ کیا اور شریف خاندان کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی تھی۔ بہر حال اس وقت ملک کی سب سے بااثر اور بااختیار شخصیت کوئی فوراسٹار نہیں بلکہ خود نواز شریف ہیں۔

سبکدوش ہونے والے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ملکی تاریخ میں کئی منفرد اعزاز بھی حاصل ہوئے اور انھیں ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ پانچ وزرائے اعظم کے ساتھ بطور آرمی چیف کام کرنے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اس طرح نومنتخب آرمی چیف جنرل راحیل شریف ملک کے پندرھویں آرمی چیف ہیں اور یہ پاک فوج کے ساتویں سربراہ ہیں جو نواز شریف کے دور اقتدار میں ان کے ساتھ کام کریں گے اور 2016ء میں اگلے آرمی چیف کے تقرر کا فیصلہ بھی نواز شریف ہی کریں گے اور اس وقت موجودہ لیفٹیننٹ جنرلز میں سے سنیارٹی کے اعتبار سے لیفٹیننٹ جنرل مقصود احمد، لیفٹیننٹ جنرل زبیر احمد اور لیفٹیننٹ جنرل وجاہت حسین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔

آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا انتخاب ایسے وقت عمل میں آیا ہے جب افغانستان سے غیر ملکی افواج 2014ء میں انخلا کی تیاریاں کر رہی ہیں اور حکومت پاکستان اندرون ملک شدت پسندانہ کارروائیوں کی روک تھام کے لیے تحریک طالبان پاکستان کو امن مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کوشاں ہے تو دوسری طرف بھارتی فوج کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر آئے دن فائرنگ کر کے پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی کر کے مسائل پیدا کر رہی ہے، بہر حال جنرل راحیل شریف پاکستانی فوج کو درپیش اندرونی مسائل اور بیرونی چیلنجز سے نمٹنے اور نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کرنے کے بارے میں برسوں پر محیط کوششوں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں اور اس وقت بلاشبہ دنیا اور بالخصوص خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں ملکی سیاسی اور عسکری قیادت کو کئی اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔

جنرل راحیل شریف کے ان ہی امتحانات میں سے ایک مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کے دوران فوجی دخل اندازی کو باہر رکھنا بھی ہے، جنرل راحیل شریف شاندار فوجی کیریئر کے حامل اور وطن عزیز کے لیے قربانیاں دینے والی اعلیٰ اور عظیم فوجی روایات کے حامل خاندان کے سپوت ہیں امید ہے کہ وہ اندرونی و بیرونی مسائل و چیلنجز سے بخیر و خوبی نبرد آزما ہونے، جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھنے، جمہوری اقدار کی بالادستی کو یقینی بنانے اور وطن عزیز کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں کلیدی کردار ادا کریں گے، رواں سال کی ایک اور اہم تبدیلی افتخار محمد چوہدری صاحب کی 11 دسمبر کو ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس تصدق حسین جیلانی کی بطور چیف جسٹس تقرری ہے گویا آرمی چیف کے ساتھ ساتھ وطن عزیز میں انصاف کے ضمن میں بھی ایک نئے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ دعا ہے کہ یہ تمام تبدیلیاں ملک و قوم کے لیے خوش آیند ثابت ہوں۔
Load Next Story