ناممکن ہے
گورے انگریزوں نے ہندوستان پر سو سال تک بڑے ٹھاٹ سے حکومت کی۔ وہ بالائی کھاتے تھے اور دودھ میں پانی ڈال کر۔۔۔
گورے انگریزوں نے ہندوستان پر سو سال تک بڑے ٹھاٹ سے حکومت کی۔ وہ بالائی کھاتے تھے اور دودھ میں پانی ڈال کر رعایا کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔ وہ جاتے جاتے ہم پر کالے انگریز چھوڑ گئے۔ جو بالائی فریزر میں، دودھ فریج میں رکھ کر دودھ کا برتن دھو کر پی جاتے ہیں۔ رعایا کبھی ان کو کبھی دودھ کے چمچماتے برتن کو دیکھتی رہ جاتی ہے۔
پاکستان کی 66 سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ کرپشن مآب غنچہ شاہی دور میں ''جمہوریت کی نرسری'' (بلدیاتی نظام) حسرت ان غنچوں پر ہے کا نمونہ بنی رہتی ہے۔ اس پر بہار صرف جرنیلی جمہوریت کے دور میں آتی ہے آج پھر غریبوں کی جمہوریت (بلدیاتی نظام) انتخابات کے لیے غنچہ شاہی کے رحم و کرم پر ہے۔ نتیجہ کیا نکلے گا اوپر والا جانے، آثار ملاحظہ کیجیے۔
سپریم کورٹ نے صوبائی حکومتوں کو ہدایت دی کہ جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کے لیے تاریخ دیں تا کہ جمہوری سیٹ اپ مکمل ہو جو آئینی ضرورت ہے۔
صوبائی حکومتیں اپنی رائے کا اظہار کرنے لگیں۔ اتنی جلدی انتخابات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا انتخابات کے لیے یہ وقت مناسب نہیں ہے۔ نئی حلقہ بندیاں کرنی ہیں۔ جس کے لیے کم از کم تین مہینے درکار ہیں کسی نے کہا سپریم کورٹ نے جنرل الیکشن میں بھی مداخلت کی تھی۔ ہر ادارے کو اپنی حد میں رہنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ سپریم کورٹ نے کہا ججز نے الیکشن نہیں لڑنا ہے، اگر حالات اتنے ہی خراب ہیں تو کیا پچھلا منتخب بلدیاتی نظام بحال کر دیں؟
سندھ حکومت نے کہا ہم 27 نومبر کو انتخابات کرانے کو تیار ہیں۔ پنجاب حکومت نے کہا کہ ہم 7 دسمبر کو انتخابات کرانے کو تیار ہیں۔ سندھ حکومت نے بھی 7 دسمبر کو انتخابات کرانے کی درخواست دے دی۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے فائنل جواب آیا کہ وہ جنوری 2014ء میں انتخابات کرائیں گے۔ اب سندھ حکومت کی خواہش ہے انتخابات کے لیے مارچ کا مہینہ مناسب رہے گا۔ تازہ ترین صورت حال کے مطابق سندھ حکومت نے 18 جنوری کو انتخابات کرانے کے لیے مطلوبہ (سندھ کی حلقہ بندیوں اور قانون سازی کی) رپورٹ جمع کرا دی ہے لیکن پنجاب کی رپورٹ موصول نہیں ہوئی اور نہ کوئی وجہ بتائی گئی۔
پچھلے جنرل الیکشن کے مقابلے میں حال کے بلدیاتی انتخابات میں جو خامیاں درپیش ہوں گی اس کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے!
(1)۔ پچھلے جنرل الیکشن میں ایک غیر جانبدارانہ عبوری حکومت تھی اب نہیں ہو گی۔
(2)۔ پچھلے جنرل الیکشن میں ریٹرننگ آفیسر ججز تھے اب انتظامیہ کے افسر ہوں گے جو جاری حکومت کے ماتحت ہوں گے۔
(3)۔ مقناطیسی روشنائی کی عمر 6 گھنٹے ہوتی ہے جب کہ پولنگ کا دورانیہ 8 سے 10 گھنٹے۔ 22 لاکھ ہیڈ درکار ہوں گے۔ خرچہ چھ ارب روپے آئے گا۔ اب نادرا کا خیال ہے کہ اس کے بغیر کام چل سکتا ہے (کس کے کہنے پر؟ کیوں؟)
نئی حلقہ بندیوں پر حکمران جماعتوں کے علاوہ ساری جماعتیں معترض ہیں۔ قانونی، اخلاقی، جغرافیائی تقاضوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ مثلاً (A)۔ ملیر کو دیہی سے شہری کا درجہ دیا گیا۔ جس کے حلقے میں 50-40 ہزار ووٹر ہوتے ہیں بلکہ پرانے حلقے دیہی کے برقرار رکھے گئے جن میں ووٹرز کی تعداد 50 ہزار نہیں 20 ہزار ہو گی۔ یعنی کراچی کے ایک شہری حلقے کے مقابلے میں ملیر کے تین شہری حلقے۔ حیثیت سب کی برابر۔ (B)۔ شاہ لطیف U-C کی آبادی صرف 1200 ہے۔ (C)۔ بھٹائی آباد U-C کے درمیان پورا کراچی ایئرپورٹ ہے اور ایک قومی شاہراہ۔
کرپشن مآب غنچہ شاہی کی بلدیاتی انتخابات سے دشمنی کی وجہ یہ ہے کہ اگر بلدیاتی انتخابات نہیں ہوتے تو بلدیاتی دفاتر پر تالے لگ جاتے، ترقیاتی کام رک نہیں جاتے، فنڈز منجمد نہیں ہو جاتے، ٹھیکیدار سبزی کے ٹھیکے نہیں کھینچتے، گلشن کا کاروبار جیسے پہلے چلتا تھا اب بھی ویسے ہی چلے گا۔ پہلے منتخب عوامی نمایندوں کی نگرانی میں چلتا تھا اب غیر منتخب ایڈمنسٹریٹرز کی سرپرستی میں صرف عوام کے منتخب نمایندوں کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکا جائے گا۔ نتیجتاً کرپشن مآب غنچہ شاہی کی سرپرستی میں بیوروکریسی کی حکومت ہو گی قلم کے ذریعے، کاغذ پر۔ ترقیاتی کام دگنے ہوں گے، فنڈز تگنے خرچ ہوں گے، باکمال منصوبے کاغذ پر ہوں گے اور لاجواب گھپلے Under the Table ۔
ضیا دور میں جب بلدیاتی اداروں نے کام شروع کیا تو ترقیاتی کاموں کی بھرمار، ٹھیکیداروں کی لوٹ مار، ترقیاتی فنڈز کی بندر بانٹ دیکھ کر ارکان قانون ساز اسمبلیوں کے منہ سے رال ٹپکنے لگی۔ قبل اس کے کہ بہنے لگے ان کا منہ بند کرنا ضروری تھا۔ چنانچہ ترقیاتی فنڈز کے لفافے میں بند کر کے رشوت دی جانے لگی۔ دلچسپ صورت حال یہ تھی ندی پر ایک پل بنانا تھا بنانے والے دو ہو گئے۔ بلدیاتی ادارہ اور اس علاقے کے رکن قانون ساز اسمبلی۔ صحیح طریقہ تو یہ تھا کہ دو پل بنا دیے جاتے ایک ''زنانہ'' اور دوسرا ''مردانہ'' لیکن دونوں نے مک مکا کر لیا۔ بلدیاتی ادارے کے میئر نے اپنے فنڈ سے پل بنا دیا اور رکن قانون ساز اسمبلی نے اپنے فنڈز سے سنگ مرمر کی اپنے نام کی تختی لگا دی۔ جو تھوڑا بہت فنڈ بچ گیا وہ آدھا ادھر آدھا ادھر ہو گیا۔
اس سارے ٹنٹے سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر عوام کے منتخب نمایندے حلقہ بندیوں میں کی گئی دھاندلیوں کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو انتخابات کورٹ کا حتمی فیصلہ آنے تک ملتوی بھی ہو سکتے ہیں اور یہی قانون ساز ارکان اسمبلی کی تمنا بھی ہے۔ وہ تاریخ پر تاریخ لیتے رہیں گے اور منتخب نمایندوں کے جوتے گھستے رہیں گے۔ اگر عدالت نہیں جاتے تو منتخب بلدیاتی عہدیداروں کی حیثیت غیر منتخب انتظامیہ کے اہلکاروں کے آگے ''نمائشی'' رہ جائے گی۔ جس کا پنجاب نے پہلے ہی بندوبست کر کے رکھ لیا ہے۔ ایکسپریس فورم میں پنجاب کے قائد حزب اختلاف فرماتے ہیں ''تعلیم اور صحت (جو بنیادی ضرورت ہے) کو ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نظام سے نکال دیا گیا ہے۔ تمام اختیارات پنجاب لوکل گورنمنٹ کمیشن کے پاس ہوں گے جس کا سربراہ وزیر اعلیٰ ہو گا کمیشن میں سیکریٹری خزانہ اور سیکریٹری صحت سمیت 7 ارکان ہوں گے۔ جو سب کے سب غیر منتخب ہوں گے اور ان کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ منتخب نمایندوں سے (1)۔ وضاحت طلب کریں۔ (2)۔فنڈز روک دیں۔ (3)۔معطل کر دیں وغیرہ۔ پنجاب لوکل گورنمنٹ کمیشن کے آگے منتخب نمایندوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہو گی۔ بھلا قانون کی یہ مجال کہ وہ قانون ساز کے آگے سر اٹھا سکے؟ آخر شرم حیا بھی کوئی چیز ہے؟
لہٰذا ثابت ہوا کہ کرپشن مآب غنچہ شاہی اور منتخب لوکل گورنمنٹ نظام کا ساتھ، گویا آگ اور پانی کا ملاپ ہے، دودھ اور بلی کا رشتہ ہے، شیر اور بکری کی دوستی ہے، جو ناممکن ہے، ناممکن ہے اور ناممکن ہے!