نظام تعلیم کی زبوں حالی
کسی بھی معاشرے کے مہذب ہونے کے لیے اس کی اولین ترجیح اور ضرورت تعلیم ہوتی ہے جس کی وجہ سے حسن اخلاق اور ۔۔۔
کسی بھی معاشرے کے مہذب ہونے کے لیے اس کی اولین ترجیح اور ضرورت تعلیم ہوتی ہے جس کی وجہ سے حسن اخلاق اور رواداری کو فروغ ملتا ہے اور قومی تشخص کی تعمیر ہوتی ہے۔ تعلیم کی اہمیت سے دنیا کا کوئی ملک یا معاشرہ انکار نہیں کر سکتا، کیوں کہ اس کی بدولت اقوام ترقی کی منازل طے کرتی ہیں، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تعلیمی پسماندگی کی صورتحال جدید دور میں بھی انتہائی تشویشناک حد تک تجاوز کر چکی ہے، کرپشن و بد عنوانی کے باعث دیگر شعبوں کی طرح تعلیم کا شعبہ بھی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ جب کہ اس کا پرسان حال کوئی نہیں۔ ہم اور ہمارے سیاست دان اس کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ واحد ذریعہ ہے جس کے مرہون منت معاشرہ اجتماعی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
اہل مغرب کے ترقی یافتہ ہونے کا راز فقط تعلیم کے شعبے کی بہتری میں پنہاں ہے گو کہ اسلام نے علم کو ہر شے پر فوقیت دی ہے اور مسلمانوں نے علم کی بدولت دنیا بھر میں راج بھی کیا۔ ریاضی، کیمیا، فزکس اور ثقافت کے علوم نے انھیں اعلیٰ مقام و مرتبے پر فائز کیا لیکن ملوکیت یعنی اقتدار کے نشے میں مدہوش حکمرانوں نے اسے تنے سمیت جڑوں تک کو جلا کر بھسم کر ڈالا، نبی محترمؐ کی بعثت سے قبل زمانہ عرب جہالت میں غرق تھا مگر لفظ ''اقرأ'' سے آپؐ نے نبوت کی ابتدا کرتے ہوئے علم کو عام کرنے کا اعلان کیا۔ قرآن کریم نے انسانیت کا درس دیتے ہوئے ہر دور میں تعلیم ہی کو معاشرے کی اعلیٰ اقدار کا ضامن قرار دیا۔ برصغیر میں علمائے دین نے اسلامی اقدار و تعلیمات کو قائم کرنے کی بھرپور کوششیں کیں اور ان کے ہم پلہ ادیب، شعراء اور دانشور بھی تھے، قیام پاکستان کے بعد آہستہ آہستہ وقت اور حالات کی دشواریوں سے تعلیم کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہوا۔
سربراہان مملکت نے اسے بہت زیادہ تکریم دی ہے تو اس قدر کہ اسے باقاعدہ محکمے کی شکل دی لیکن خاطر خواہ اقدامات بہر کیف نہیں کیے گئے۔ دفاع کے لیے بجٹ میں خطیر رقم ہر حکومت نے مختص کی جب کہ تعلیم کے لیے فقط 2 فیصد سے 5 فیصد تک فنڈز کا اعلان ہوتا رہا۔ دوسری جانب اس میں طبقاتی نظام بھی دیکھا گیا جس میں اعلیٰ طبقہ اور ادنیٰ طبقہ الگ الگ طرز تعلیم سے استفادہ کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں ہم نے تعلیم کا حصول ملازمت کا ذریعہ بنا ڈالا ہے۔ اس معتبر شعبے سے وابستہ افراد خصوصاً اساتذہ نے اپنی قدر و منزلت کی پرواہ کیے بغیر بد عنوانی اور اقربا پروری کو میرٹ پر مقدم کر دیا۔ اساتذہ نے تعلیم کے فروغ کی بجائے گھر بیٹھے مراعات کے حصول کو ترجیح دے رکھی ہے اور دیگر ذرایع آمدنی میں بھی مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ انتظامیہ کا حال یہ ہے کہ وہ گھوسٹ اسکول بنا کر سرکاری خزانے پر موج میلا کر رہے ہیں۔ جس سے نہ صرف تعلیمی پسماندگی میں بے انتہا اضافہ ہو رہا ہے بلکہ لوگوں کا رجحان بھی اس سے مخالف ہو رہا ہے، ماضی میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے تعلیم کے فروغ کے لیے نئی روشنی اسکولز کا منصوبہ تیار کیا تھا تا کہ علم کی روشنی سے جہالت کے اندھیرے کو شکست دی جائے۔ پڑھا لکھا پنجاب کا نعرہ بھی اسی ضمن میں سننے کو ملا لیکن صورت حال یہ ہے کہ اس وقت بھی پورے ملک میں ڈھائی کروڑ سے زیادہ ایسے بچے موجود ہیں کہ جن کی عمریں اسکول جانے کو پہنچ چکی ہیں لیکن وہ گلی محلوں یا کارخانوں اور دکانوں میں کام کر رہے ہیں۔
یونیسیف اور دیگر سماجی و فلاحی اداروں کی جانب سے بچوں کی تعلیم کے لیے فنڈز دیے جا رہے ہیں اور سرکاری اسکولوں میں درسی کتب اور دیگر سہولیات کے اقدامات کیے جا رہے ہیں لیکن خورد برد اور کرپشن کے بازار کی عروج کی وجہ سے ان پر بہتر انداز میں عمل در آمد ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ پاکستان کے شہری علاقوں میں عمومی جب کہ دیہی علاقوں میں خصوصی طور پر اسکولوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ طلباء کے لیے تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی تو کجا عمارتیں ہی موجود نہیں۔ بچے درختوں اور دیواروں کے سائے میں گھر سے لایا ہوا ٹاٹ یا کپڑا بچھا کر پڑھائی کر رہے ہیں اور اس حالت میں بھی اساتذہ کی اکثریت اسکولوں سے غیر حاضر رہتی ہے۔
موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ جب اسکولوں کی صورت حال پتھر کے زمانے جیسی ہو تو جدید ٹیکنالوجی ایک سراب ہی سمجھی جا سکتی ہے جب کہ حکومت کے بلند بانگ دعوے اس سے استفادہ کرنے کے خواب میں عوام کو پہنچا رہی ہے اور ہر شعبے میں اس کے ذریعے اصلاحات کی متمنی ہے۔ اس ضمن میں قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ بلوچستان جس نے سال 2013-14ء کے صوبائی بجٹ میں تعلیم کے لیے خطیر رقم مختص کی ہے، حالانکہ گزشتہ چند برسوں کے دوران بد امنی و دہشت گردی نے جہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا وہیں محکمہ تعلیم بھی خراب ترین صورت حال سے دو چار ہے۔ حکومتی ذرایع کے مطابق بہترین معیار تعلیم کے فروغ کے لیے اصلاحات پر مبنی تعلیمی پالیسی وضع کر رہا ہے اور بہت جلد اس پر عمل درآمد کے لیے اقدامات کا آغاز کر دیا جائے گا۔ جس کے بعد جلد ہی مثبت نتائج بر آمد ہونے کی توقع ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے مشیر برائے تعلیم سردار رضا محمد بڑیچ کا کہنا ہے کہ تعلیم کے شعبے میں سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ اساتذہ کی غیر حاضری ہے۔ وہ اول تو اسکول ہی نہیں آتے اور ان کے حاضر ہونے کے تناسب کا جائزہ لیا جائے تو نہایت تشویشناک ہے جب کہ اکثر اساتذہ نے اپنی جگہ تھوڑے سے روپوں کے عوض دوسرے افراد کو رکھا ہوا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے انتظامی ڈھانچوں میں پائی جانے والی خرابیوں کو دور کیا جائے۔ صوبائی حکومت کے پاس مستند معلومات نہیں ہیں کہ کن مقامات پر گھوسٹ اساتذہ، اسکول یا اعلیٰ تعلیمی اداروں کی موجودگی کی تصدیق ہو سکے کہ جن کا وجود صرف کاغذوں کی حد تک ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ہم ایسی اصلاحات لا رہے ہیں جن میں اساتذہ کی خصوصاً اور طلباء کی عمومی طور پر حاضری کو یقینی بنایا جا سکے لہٰذا اس کام کے لیے جدید آلات یعنی بائیو میٹرک سسٹم کا استعمال ناگزیر ہے۔
اساتذہ کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہے لیکن وہ اس کی تکریم بھول چکے ہیں۔ وہ معاشرے میں اعلیٰ مرتبہ رکھنے کے باوجود بد عنوانی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان کے اس اقدام کے خلاف کارروائی عمل میں آتی ہے تو وہ احتجاج کرتے ہوئے اپنی قدر و منزلت کی پامالی کا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں۔ لہٰذا حکومتی سطح پر دانشمندانہ اقدام کی اشد ضرورت ہے تا کہ ہر صورت تکریم و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تعلیم کو فروغ دیا جائے، امید قومی ہے کہ اس طرح کے اقدامات کو ہر صوبہ اپنائے گا جس سے علامہ محمد اقبالؔکے شاہینوں کو علم کی شمع سے محبت ہو گی اور وہ گلی گلی، کوچے کوچے یہی کہتے ہوئے دکھائی دیں گے کہ:
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب