شفقت رحمت رفاقت اور خدمت

”پاکستان آرفن کیئر فورم“ کے پلیٹ فارم سے ہر سال 15 رمضان المبارک کو لاوارث و یتیم بچوں کا دن منایا جاتا ہے

اس وقت دنیا میں 150 لاکھ سے زائد یتیم بچے اور بچیاں ہیں۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

دو سال قبل والد محترم کے انتقال کے بعد زندگی جم سی گئی تھی، ایسا محسوس ہوتا تھا گویا پنجاب کی گرمی اور کشمیر کی سردی میری جان نکال دے گی۔ یوں لگ رہا تھا کہ میں چھت اور سائبان سے محروم ہوگیا ہوں۔ لیکن ایک سہارا میرے پاس موجود تھا، میری ماں کی دعائیں۔ وہ دعائیں جو گرم موسم میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھیں۔ وہ التجائیں جو یخ بستہ سردی میں مجھے اپنے آنچل میں سمیٹ لیتی تھیں۔ محبت کا وہ احساس جس کی لمس کشمیر کی سردی میں سکون اور پنجاب کی گرمی میں اوس کی مانند تھی۔ لیکن گزشتہ سال امی جان بھی مجھے چھوڑ کر دارفانی سے دار بقا کی جانب روانہ ہوگئیں۔ والدین کے سائے سے محروم ہونے کے بعد ہی زندگی کی تلخی کا احساس ہوا۔ اندازہ ہوا کہ کمزور ہڈیوں والا جسم اولاد کے مسائل کے سامنے کیسے مضبوط ڈھال بن جاتا تھا۔ یقیناً والدین گھر کے صحن میں اگے مضبوط جڑوں والے اس پیڑ کی مانند ہوتے ہیں جو گرمی اور سردی، آندھی و طوفان، دھوپ اور برسات کی تمام شدت خود برداشت کرکے اہل چمن کو ہمیشہ راحت مہیا کرتے ہیں۔

زندگی اور موت نظام قدرت کا حصہ ہے۔ اس نظام کے تحت بعض افراد بچپن میں اور بعض بڑھاپے میں اپنے والدین کے سائے سے محروم ہوتے ہیں۔ لیکن میری نظر میں انسان جس بھی عمر میں اس نعمت سے محروم ہو، اس کی تکلیف میں کمی نہیں ہوتی۔



اس وقت دنیا بھر میں 150 لاکھ سے زائد یتیم بچے اور بچیاں ہیں، جو والدین کی شفقت سے محروم ہیں۔ جن کی زندگیاں وقت کے بے رحم پینڈولم کے ساتھ جھول رہی ہیں۔ لیکن سب سے خطرناک اعداد و شمار ایشیا کے ہیں، جہاں 65 لاکھ بچے اس نعمت کو ترس رہے ہیں۔ پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو یونیسیف کے مطابق یہ تعداد 41 لاکھ سے زائد ہے۔ والدین کی نعمت سے محروم بچوں سے زندگی بہت کڑے امتحان لیتی ہے۔ کبھی ان کے صبر کو چائلڈ لیبر کی صورت میں آزمایا جاتا ہے۔ کبھی جنسی درندے اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر ان کی قوت برداشت کا امتحان لیتے ہیں۔ کبھی ان کے معصوم ہاتھوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ مختلف اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں مظلومیت کا استعارہ سمجھے جانے والے بچوں میں سے اکثریت یتیموں کی ہوتی ہے۔

پاکستان میں جہاں یتیم بچوں کے حوالے سے تکلیف دہ خبریں سامنے آتی ہیں، وہیں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ان بچوں کی کفالت اپنا دینی فریضہ سمجھ کر کرتے ہیں۔ ان میں الخدمت فاؤنڈیشن بھی شامل ہے، جس کا منشور کفالت یتیم سے، رفاقت رسول اور جنت کا حصول ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے تحت یتیم بچوں کی کفالت کے تین بڑے منصوبے چلائے جارہے ہیں۔ جن میں سے پہلا منصوبہ کفالت یتامیٰ ہے۔ اس منصوبے کے تحت ملک بھر میں 12 ہزار 934 یتیم بچے اور بچیوں کے تعلیمی اخراجات، فیس، وردی، کتابوں کے علاوہ انہیں 3 ہزار 500روپے ماہانہ بھی ادا کیے جاتے ہیں۔ یہ رقم بچوں کے سربراہ کے اکاؤنٹ میں براہ راست جمع کرائی جاتی ہے جبکہ اس کے استعمال کی نگرانی بھی کی جاتی ہے۔ اس طرح ایسی بیوہ خواتین جو وسائل نہ ہونے کے باعث اپنے بچوں کی کفالت سے قاصر ہوتی ہیں، ان کےلیے باہمت ماں کے نام سے پروگرام شروع کیا گیا ہے، جس کے تحت خواتین کو روزگار شروع کرنے اور ان کی فنی تربیت کےلیے معاونت کی جاتی ہے۔ اس منصوبے کے تحت سیکڑوں باہمت مائیں کوکنگ، کڑھائی، سلائی کے کاروبار کے علاوہ بیوٹی پارلر، کریانہ اسٹور اور اسٹیشنری شاپس چلا رہی ہیں۔




الخدمت کے سب سے بڑے منصوبے ''الخدمت آغوش'' کا آغاز 2005 میں کیا گیا۔ یہ منصوبہ ایک عمارت سے شروع کیا گیا تھا، مگر پاکستان کے مخیر حضرات کے تعاون سے اس کی جڑیں نہ صرف پاکستان کے طول و عرض میں پھیل چکی ہیں بلکہ جنگ زدہ شامی مہاجر بچوں کےلیے ترکی میں بھی الخدمت آغوش سینٹر قائم کیا گیا ہے۔ جہاں 350 کے قریب شامی یتیم بچے پرورش پا رہے ہیں۔

الخدمت آغوش کا آغاز اکتوبر 2015 میں اس وقت کیا گیا جب زمین کی جنبش نے ہزاروں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، کئی گھر مٹی کے ڈھیر میں بدل گئے، متعدد گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے، سیکڑوں خاندانوں کے ارمان زمین بوس ہوگئے۔ ایسے میں معصوم کلیوں کی زندگی کا ایک امتحان شروع ہوگیا۔ یہ معصوم کلیاں جو والدین کے سایے سے محروم ہوگئیں تھیں۔ زمانے کی بے رحم موجیں انہیں تنکوں کی مانند بہا لے جانے کو بے تاب تھیں، لیکن الخدمت نے آگے بڑھ کر انہیں اپنایا اور اٹک کی ایک عمارت میں 200 بچوں کےلیے ''آغوش'' کے نام سے منصوبہ شروع کیا۔ منصوبے کے تحت والدین کی شفقت سے محروم بچوں کی پرورش، تعلیم و تربیت، صحت، نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ آغوش ایک منصوبہ ہی نہیں بلکہ حقیقت میں یتیم بچوں کےلیے ماں کی ممتا، باپ کی شفقت، بہنوں اور بھائیوں کے پیار کا نمونہ ہے۔ یہ وہ آغوش ہے جہاں یتم بچوں کو گھر سے دور رہ کر بھی گھر سے دوری کا احساس نہیں ہوتا۔

الخدمت کی جانب سے اٹک میں لگائے گئے اس پودے کی جڑیں اس وقت تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ راولپنڈی، راولاکوٹ، باغ، پشاور، مانسہرہ، دیر، ڈیرہ اسماعیل خان، گوجرانوالہ، شیخوپورہ میں الخدمت آغوش سینٹرز پوری طرح فعال ہیں، الخدمت فاؤنڈیشن نے اسلام آباد میں یتیم بچیوں کےلیے بھی ایک آغوش سینٹر قائم کر رکھا ہے، جبکہ مری میں 65 کینال پر محیط آغوش سینٹر فائیو اسٹار سہولیات سے آراستہ ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ آغوش کی چھاؤں ترکی تک پہنچ چکی ہے۔ الخدمت کے زیر اہتمام اس وقت کراچی، لاہور، مری، کوہاٹ، ہالا، ہری پور اور شیخوپورہ میں آغوش سینٹرز کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے جبکہ اگلے چند مہینوں میں لاہور، کوئٹہ، گلگت اور کوٹلی سمیت دیگر شہروں میں بھی الخدمت آغوش سینٹرز قائم کیے جائیں گے۔ الخدمت فاؤنڈیشن کا یہ منصوبہ یقیناً مخیر حضرات اور اداروں کےلیے ایک قابل تقلید مثال ہے۔

رمضان المبارک کی بابرکت ساعتیں اپنے اختتام کی جانب گامزن ہیں۔ فرزندان توحید اس ماہ مقدس میں دل کھول کر عطیات کرتے ہیں، اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے او آئی سی نے ہر سال 15 رمضان المبارک تمام مسلم دنیا میں ''یومِ یتامیٰ'' کے طور پر منانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ جس کا مقصد یتیم بچوں کے حقوق اور من حیث القوم معاشرے کی اجتماعی ذمے داریوں کا شعور اجاگر کرنا ہے۔ پاکستان میں بھی یتیم بچوں کی فلاح وبہبود کےلیے سرگرم رفاہی ادارے "پاکستان آرفن کیئر فورم" کے پلیٹ فارم سے ہر سال 15 رمضان المبارک کو لاوارث و یتیم بچوں کے دن کے طور پر مناتے ہیں۔ اس کے ساتھ 29 مئی 2018 سے سرکاری سطح پر بھی یہ دن منایا جارہا ہے جس کی مرکزی تقریب ایوانِ صدر میں منعقد ہوتی ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں کورونا وائرس وبا کے پھیلاؤ کے باعث مخیر افراد کی ترجیحات بدل چکی ہیں، یہی حال مسلم ممالک میں بھی ہے۔ ہر فرد کی کوشش ہے کہ لاک ڈاؤن کے باعث متاثر ہونے والے افراد کی مدد کی جائے، لیکن اس بدلتے رجحان سے یتیم بچوں کےلیے کام کرنے والے ادارے اور تنظیمیں مالی بحران کا شکار ہیں۔

آئیے! اس یوم یتامیٰ پر عہد کیجئے کہ ہم کسی ایک یتیم بچے کےلیے سائبان بنیں گے۔ ان معصوم کلیوں کو مرجھانے سے بچانے کےلیے آب حیات بنیں گے۔ آئیے! وعدہ کیجئے کہ اس یوم یتامیٰ پر وہ دیا بنیں گے جو کسی یتیم بچے کی اندھیری کٹیا میں چراغاں کا باعث بنے۔ ایک شمع آپ جلائیے، اجالے خود اپنا پتا دیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story