تحریک انصاف کا معاشی ایجنڈا
ارکان اسمبلی کی نظر وزارتوں، اور طاقت کے حصول کے مناصب پر ہے
ایک پارٹی، صرف ایک پارٹی کو خیال آیا ہے کہ اگر اگلا الیکشن لڑنا ہے تو ووٹروں سے کیا وعدہ کرنا ہے، لوگوں کے مصائب کو کس طرح کم کرنا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس پارٹی میں زیادہ تر جوان نسل ہے، پڑھی لکھی، سوجھ بوجھ کی مالک، خالی خولی نعرے بازی سے متنفر، ٹھوس پروگرام تشکیل دینے کی حامی، جذبوں اور امیدوں سے معمور مگر ان کی رہنمائی کے لیے جہاندیدہ لیڈرشپ بھی ان کے سر پر موجود ہے، خود عمران خان مجھ سے صرف پانچ سال چھوٹے ہیں، میاں اظہر، خورشید قصوری، جاوید ہاشمی، آصف احمد علی، آپا مہناز رفیع، محمود مرزا، رانا نذرالرحمان، تجربے سے مالامال۔ مڈل ایج قائدین کی تو بھرمار ہے، جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، علیم خان، میاں محمودالرشید، ابرارالحق اور ایک لمبی قطار ہے جن کے چہرے آنے والے وقت کے تصور سے دمک رہے ہیں۔
ان دنوں پی ٹی آئی کی دو رکنی ٹیم اپنا معاشی ایجنڈا شہر شہر لیے گھوم رہی ہے۔ اس وقت ملک کی تصویر کیسی ہے، اس کی زیادہ وضاحت کی ضرورت تو نہیں کہ ہر شخص سراپا احتجاج ہے اور دو وقت کی روٹی کمانے کے چکر میں الجھا دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اس صورت حال کی ذمے دار وہ غلط انرجی پالیسی ہے جو برسوں سے ملک میں رائج ہے۔ شکر یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے بلیم گیم کا سہارا لے کر اسے صدر زرداری کے کھاتے میں نہیں ڈال دیا۔
اگلا نکتہ ہے کہ جی ڈی پی کے شرح کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح کم ہے، امیر اور بالا دست طبقات ٹیکس ادا نہیں کرتے، تجارت کا توازن درہم برہم ہے اور روپے کی قدر تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ تعلیم، صحت اور ہنرمندی کے شعبوں میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت اور انتظامیہ نئے دور کی چیلنجوں سے ناآشنا ہے۔ کمزور ریاستی ادارے کمزور تر ہو رہے ہیں، بیوروکریسی اور سیاستدان ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں، شفافیت عنقا ہے، کرپشن بڑھتی جا رہی ہے، احتساب مفقود ہے، عوام کو کرپشن کی کوئی فکر نہیں جیسے وہ اس صورت حال کے عادی ہو گئے ہوں،
سیاسی قیادت دوراندیشی سے محروم ہے، اسٹیٹس کو بدلنے کی ان میں سوچ ہی نہیں، چند خاندان سیاسی طور پر چھائے ہوئے ہیں، مقامی سیاست پر برادری ازم کی چھاپ ہے، ارکان اسمبلی کی نظر وزارتوں، اور طاقت کے حصول کے مناصب پر ہے، اپنے حلقے پر قبضہ جمائے رکھنے کی تدبیریں ہوتی رہتی ہیں، پچھلی تین دہائیوں میں جی ڈی پی کی شرح تیزی سے گری ہے۔ 1980میں اس کا گراف نو کے ہندسے کو چھو رہا تھا جو اب چار سے نیچے ہے، پچھلے پچاس برس میں شرح نمو انتہائی کم ہو کر تین فی صد سالانہ تک آ گئی ہے،
اسی عرصے میں بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھارت کی شرح نمو سات، چھ اور آٹھ فی صد تک پہنچ گئی۔ غریب اور پس ماندہ افریقی ممالک کے مقابلے میں بھی پاکستان کی شرح نمو کم ہے جہاں گراف پانچ فی صد سے اوپر ہے اور ہم تین فی صد تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ بھارت میں فی کس آمدنی چھ فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے اور اسے دگنا ہونے کے لیے صرف بارہ سال درکار ہیں جب کہ پاکستان میں ایک فی صد شرح کے پیش نظر فی کس آمدنی دگنی ہونے میں ستر برس لگیں گے۔
ہمارے ہاں پندرہ سال سے اوپر صرف 55 فی صد لوگ لکھ پڑھ سکتے ہیں جب کہ ویت نام میں یہ شرح نوے فی صد کے قریب ہے اور قحط سے مارے ہوئے ملک روانڈا میں ستر فیصد۔ قرضوں کا بوجھ دگنا ہو کر 72162 روپے فی کس ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق بجٹ کا خسارہ 1720 بلین تک پہنچ گیا ہے، حکومتی اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے اور صنعت و زراعت کے لیے دستیاب وسائل میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ معاملات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔
فی کس قرضوں کا بوجھ اگلے پانچ سالوں میں145000 روپے ہو جائے گا۔ افراط زر کی وجہ سے لاکھوں نئے خاندان خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔ بجلی کی موجودہ چھ ہزار میگاواٹ کی کمی بڑھ کر گیارہ ہزار میگاواٹ تک ہو جائے گی۔ گیس کی کمی دگنی ہو جائے گی اور بے روزگاری کا شکنجہ لاکھوں نوجوانوں کو اپنے گھیرے میں لے لے گا۔ سوال یہ ہے کہ اصلاح احوال کی تدبیر کیا ہے، صرف اور صرف وسیع اصلاحات، ہر شعبے میں دور رس اصلاحات۔
پی ٹی آئی کا وعدہ ہے کہ وہ شرح نمو کو تین سے چھ فی صد تک لے جائے گی، افراط زر کو کنٹرول کر کے بارہ سے سات فی صد تک لایا جائے گا۔ صنعت کی شرح نمو کو موجودہ ایک فی صد سے بڑھا کر نو فی صد کیا جائے گا، ٹیکسوں کی آمدنی کو دس سے بڑھا کر پندرہ فیصد تک لے جایا جائے گا، فلاحی منصوبوں پر اس وقت صرف اعشاریہ نو ٹریلین خرچ کیے جا رہے ہیں جنھیں چار اعشاریہ چھ ٹریلین تک بڑھایا جائے گا۔ بجٹ کے خسارے کو کم کر کے ساڑھے چار فی صد تک محدود کیا جائے گا۔ احتساب کو موثر بنانے کے لیے نیب کے اختیارات میں اضافہ کیا جائے گا، اسے آزاد اور خودمختار حیثیت دی جائے گی۔ نیب جو مخفی دولت ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گا اسے تعلیم پر خرچ کیا جائے گا۔
ریلوے کی وزارت ختم کر دی جائے گی، پی آئی اے کو وزارت دفاع سے نکال دیا جائے گا، دونوں ادارے خود مختار اور آزاد حیثیت میں کام کریں گے اور ان کے سربراہ وزیر اعظم کی طرف سے نہیں، ایک بورڈ کے ہاتھوں مقرر کیے جائیں گے۔ جواریوں، ذخیرہ اندوزوں، بجلی اور گیس چوروں اور کارٹلز پر سختی کی جائے گی۔ زمین مالکان کو قبضہ گیروں اور پراپرٹی مافیا سے محفوظ بنایا جائے گا۔ حکومت کو نچلی سطح پر طاقتور بنایا جائے گا تا کہ مقامی لوگ اپنی ترقی کی منصوبہ بندی خود کر سکیں۔
گورنر ہائوسوں، وزیر اعظم ہائوس اور پُرشکوہ دفتروں کو عوامی خدمات کے لیے وقف کر دیا جائے گا۔ ایوان صدر کے اخراجات نصف کر دیے جائیں گے، وفاقی وزیروں کی تعداد سترہ تک محدود کی جائے گی، وزرا، ارکان اسمبلی اور افسر شاہی کی مراعات میں بھی کمی کی جائے گی، بلاقیمت یا کم قیمت پر پلاٹوں کی الاٹمنٹ پالیسی ختم کر دی جائے گی۔ صوابدیدی فنڈز ختم کر دیے جائیں گے، فوج سمیت تما م اداروں کے اخراجات کم کیے جائیں گے۔
ارکان اسمبلی کو ترقیاتی بجٹ نہیں ملے گا۔ بورڈ آف ریونیو کو مکمل خود مختاری حاصل ہو گی، حکومت صرف ٹیکس پالیسی تشکیل دے گی اور بورڈ آف ریونیو اس پر عمل درآمد کا پابند ہو گا۔ اس وقت نو سو بلین ٹیکس چوری ہو رہی ہے، اس کا خاتمہ کیا جائے گا۔ ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس نافذ ہوں گے جس میں زرعی، ریئل اسٹیٹ، اسٹاک مارکیٹ شامل ہیں۔ ٹیکس ریٹ بڑھائے بغیر ٹیکس کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے گا۔ ٹیکس اصلاحات پر مکمل عمل درآمد کے بعد ٹیکسوں کی شرح میں کمی کر دی جائے گی۔
بڑے زمینداروں پر بھی ٹیکس نافذ ہو گا، صوبوں کو ٹیکس اکٹھے کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، ٹیکس چوروں کو ایک موقع دیا جائے گا پھر ان کے خلاف پوری طاقت استعمال ہو گی۔ غریب آدمی کے علاج کے لیے موجودہ بجٹ کی شرح 0.86 فیصد کو بڑھا کر2.6 فیصد کیا جائے گا۔ تمام دیہی مراکز صحت میں مستند ڈاکٹر تعینات کیے جائیں گے، ضلعی اور تحصیل اسپتالوں کو جدید آلات سے لیس کیا جائے گا۔ تعلیم کے شعبے میں یکساں نصاب روشناس کرایا جائے گا۔ پانچ برس میں لڑکیوں کے اسکولوں کی تعداد دگنی کر دی جائے گی، تمام عملہ مقامی سطح پر بھرتی کیا جائے گا۔
مقامی لوگوں کو ان کے انتظامی امور سونپے جائیں گے۔ دو سال کے اندر بیس لاکھ نوجوانوں کو ہنرمند بنا دیا جائے گا۔ غریب طلبہ کو وظائف دیے جائیں گے، غربت کو اعلیٰ تعلیم کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا۔ زراعت، صنعت اور سرمایہ کاری کے لیے نئی ترغیبات دی جائیں گی، اس طرح غربت میں کمی ہو گی اور افراط زر پر کنٹرول کرنے سے ایک صحت مند معیشت تشکیل دینے میں مدد ملے گی۔ یہ ہیں اس پالیسی کے خدوخال جو تحریک انصاف نے پیش کی ہے، اب اس پالیسی پر بحث کا دروازہ کھلنا چاہیے اور اس کے کارآمد ہونے کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور دوسری پارٹیوں کو بھی اس کے مقابل اپنا پروگرام لانا چاہیے، ویسے ن لیگ کا یہ کہنا کہ پی ٹی آئی نے اس کا منشور چوری کر لیا ہے، اس امر کا اعتراف ہے کہ پالیسی سازی کی حد تک پی ٹی آئی اپنے مدمقابل بڑی پارٹی کے برابر کھڑی ہے۔