آئین اور ترامیم
ہمارا آئین ترامیم کا مجموعہ ہے اور اب آئین کا حصہ بنائی گئی اٹھارویں ترمیم میں مزید ترمیم کے لیے بات چیت جاری ہے۔
اس وقت پاکستان میں جو آئین اپنی تمام تر ترمیموں کے ساتھ نافذ ہے وہ کسی حکمران کو اسلام کے اصولوں کے مطابق حکمرانی سے نہیں روکتا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اس آئین میں کوئی ایک شوشہ بھی ایسا نہیں جو حکمرانوں کو کسی بدی پر مجبورکرتا ہو ، بینکوں سے قرض لے کر کھانے سے لے کر ناجائز ٹھیکوں اور کمیشنوں پر مجبور کرتا ہو، مقروض اور مفلس قوم پر حکومت کے لیے اربوں روپے کے ذاتی اخراجات کی اجازت دیتا ہو ، غرض کوئی ایسی بدی نہیں جس پر موجودہ آئین کسی کو مجبور کرتا ہو بلکہ اگر کوئی نیکی کرنا چاہے اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہے اور خلق خدا کی خدمت کی خواہش کرے تو یہ آئین اس کے راستوں کو آسان بناتا ہے قدم قدم پر اس کی مدد کرتا ہے اور اسلام کے مکمل نفاذ کا مطالبہ کرتا ہے۔
اگر اس آئین میں کوئی شق اور دفعہ کتاب و سنت کے خلاف ہے یا اس پر پوری نہیں اترتی تو اس کی اصلاح کا آئین میں حکم موجود ہے ۔ ملک میں اسلامی نظریاتی کونسل بھی موجود ہے جو ایسی کسی اصلاح کے لیے اپنی سفارشات پیش کرتی ہے اور ان سفارشات کو اسمبلی بڑی آسانی کے ساتھ اور کسی اختلاف کے بغیر آئین میں شامل کر سکتی ہے ۔ یہ ایک حقیقت کہ آئین پاکستان کو مزید اسلامیانے سے کہیں زیادہ ضرورت ایسے حکمرانوں اور مشینری کی ہے جو اسلام کو عملاً نافذ کر سکے۔ آئین میں وہ سب کچھ موجود ہے جو ایک مسلمان ملک کو درکار ہے لیکن آئین تو کاغذ کی ایک کتاب ہے اگر کوئی اس کا احترام کرنے والا نہ ہوتو یہ کتاب کسی کام کی نہیں مثلاً آئین میں مارشل لاء لگانا ناجائز ہے مگر مارشل لاء لگتے رہے ۔
دنیا میں کئی طرح کے نظام حکومت چل رہے ہیں، ہماری طرح کے پارلیمانی بھی ہیں صدارتی ہیں نیم صدارتی ہیں نیم پارلیمانی ہیں ۔ہر قوم نے اپنی ضرورت کے مطابق آئین تیار کیے ہیں اور کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں اس لیے کہ ان کو چلانے والے نیک نیت ہیں ذمے دار ہیں اور عہد کے پابند ہیںان کی وجہ سے ان ملکوں کے نظام کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ہم مسلمان ہیں اور ہمارا یہ ملک تو پہلے سے موجود کوئی مسلمان ملک نہیں تھا ہم نے بڑے دعوئوں کے ساتھ یہ ملک اسلام کے نام پر قائم کیا تھا ۔ اس لیے قدرتی طور پر اس کا آئین تو ایک مسلمان ملک کا آئین ہونا تھا لیکن اس کے لیے بھی پاکستان کے مسلمانوں کو جد وجہد کرنی پڑی جو بہر حال کامیاب رہی اور آج ہم دعوے کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آئینی لحاظ سے ہمارا ملک ایک مکمل مسلمان ملک ہے یہاں بادشاہت نہیں ہے جو اسلام کی سراسر نفی ہے یہاں کسی دوسری طرح کی کوئی آمریت نہیں ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں جمہوریت ہے اور یہاں کے حکمرانوں کو منتخب کیا جاتا ہے یعنی ان کے ساتھ بیعت کی جاتی ہے ۔ یہ بیعت تھی جسے بعد کے زمانوں میں ووٹ کا نام دیا گیا جس طرح ایک سوشل ویلفیئر اسٹیٹ کاپہلا تصور اسلام نے دیا اور اس کو قائم کر کے دکھایا اسی طرح الیکشن اور ووٹ کی بنیاد بھی اسلام نے رکھی اور کسی ریاست کے لیے آئین کے بنیادی نکات بھی طے کیے۔
ہمارا آئین ان بنیادی نکات کے مطابق ہے اور ہم پاکستانیوں سے زیادہ اسلامی ہے اس لیے اگر مقصدیہ ہے کہ ایک مکمل اسلامی ریاست کے قیام کی خواہش پوری کرنے کے لیے آئین کو اس کے مطابق بناناہے تو اس کے لیے کسی مزید زحمت اور تردد کی چنداں ضرورت نہیں ہے جو آئین موجود ہے اس پر عمل شروع کر دیجیے اور جہاں کہیں اسلام کی طرف جانے سے یہ آئین کوئی رکاوٹ پیداکرے تو اسے وہاں سے دور کر دیجیے ۔ عدل و انصاف پر نظام زندگی قائم کرنے کے لیے حکومت کو کسی اپوزیشن کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ بھلائی کا کوئی کام کیا جائے اور اپوزیشن یا کوئی دوسرا اس میں رکاوٹ پیدا کرے۔
گزشتہ سات دہائیوں سے جو گند ڈالا گیا ہے کبھی سوشل ازم کے نام پر ، کبھی احتساب کے نام پراور کبھی اسلام کے نام پر ،کبھی بنیادی جمہوریت کے نام پر اور کبھی عام جمہوریت کے نام پر معاشرے میں اس قدر الجھنیں اور پیچیدگیاں پیدا کر دی گئی ہیں کہ عوام ذرا ذرا سی بات پر بدک جاتے ہیں انھیں ہر بات میں فریب دکھائی دیتا ہے اور حکمرانوں کی نیتوں میں کھوٹ محسوس ہوتا ہے۔
ہمارا آئین ترامیم کا مجموعہ ہے اور اب آئین کا حصہ بنائی گئی اٹھارویں ترمیم میں مزید ترمیم کے لیے بات چیت جاری ہے جس کی وجہ سے پارلیمانی اور سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے بلکہ ایک انتشار کی کیفیت ہے اور وجہ ایک ہی ہے کہ کسی کو بھی ایک دوسرے پر اعتبار نہیں ہے کیونکہ ماضی میں آئین میں جو بھی ترمیم کی گئی اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی مفاد چھپا ہوا تھا اور ان آئینی ترامیم کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کیے گئے اس لیے اب جب ایک بار پھر ترمیم کی بات ہو رہی ہے تو ماضی کی تلخیاں ایک بار پھر سامنے آگئی ہیں اور لوگ مشکوک ہو گئے ہیں، کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ مزید کسی ترمیم کے بغیر آئین کا وجود قائم رہے اور اس کو متنازعہ نہ بنایا جائے۔
اپوزیشن کی بڑی جماعت نواز لیگ اس ترمیم کے حق میں نہیں اور حکومت کے ردعمل کا انتظار کر رہی ہے ۔حکومت کو بھی تمام فریقین کواعتماد میں لے کر نئی ترمیم کا ڈول ڈالنا چاہیے کیونکہ بہت سارے معاملات مشاورت کے ساتھ خوش اسلوبی سے حل ہو جاتے ہیں لیکن ہماری حکومت مشاورت سے دور بھاگتی ہے اور جب معاملہ بگڑ جاتا ہے تو پھر مدد کے لیے مہربانوں کو پکارا جاتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام فریقین باہمی مشاورت سے آئینی ترمیم پر ہم آہنگی پیدا کریں اور اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کر لیں ۔
اگر اس آئین میں کوئی شق اور دفعہ کتاب و سنت کے خلاف ہے یا اس پر پوری نہیں اترتی تو اس کی اصلاح کا آئین میں حکم موجود ہے ۔ ملک میں اسلامی نظریاتی کونسل بھی موجود ہے جو ایسی کسی اصلاح کے لیے اپنی سفارشات پیش کرتی ہے اور ان سفارشات کو اسمبلی بڑی آسانی کے ساتھ اور کسی اختلاف کے بغیر آئین میں شامل کر سکتی ہے ۔ یہ ایک حقیقت کہ آئین پاکستان کو مزید اسلامیانے سے کہیں زیادہ ضرورت ایسے حکمرانوں اور مشینری کی ہے جو اسلام کو عملاً نافذ کر سکے۔ آئین میں وہ سب کچھ موجود ہے جو ایک مسلمان ملک کو درکار ہے لیکن آئین تو کاغذ کی ایک کتاب ہے اگر کوئی اس کا احترام کرنے والا نہ ہوتو یہ کتاب کسی کام کی نہیں مثلاً آئین میں مارشل لاء لگانا ناجائز ہے مگر مارشل لاء لگتے رہے ۔
دنیا میں کئی طرح کے نظام حکومت چل رہے ہیں، ہماری طرح کے پارلیمانی بھی ہیں صدارتی ہیں نیم صدارتی ہیں نیم پارلیمانی ہیں ۔ہر قوم نے اپنی ضرورت کے مطابق آئین تیار کیے ہیں اور کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں اس لیے کہ ان کو چلانے والے نیک نیت ہیں ذمے دار ہیں اور عہد کے پابند ہیںان کی وجہ سے ان ملکوں کے نظام کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ہم مسلمان ہیں اور ہمارا یہ ملک تو پہلے سے موجود کوئی مسلمان ملک نہیں تھا ہم نے بڑے دعوئوں کے ساتھ یہ ملک اسلام کے نام پر قائم کیا تھا ۔ اس لیے قدرتی طور پر اس کا آئین تو ایک مسلمان ملک کا آئین ہونا تھا لیکن اس کے لیے بھی پاکستان کے مسلمانوں کو جد وجہد کرنی پڑی جو بہر حال کامیاب رہی اور آج ہم دعوے کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آئینی لحاظ سے ہمارا ملک ایک مکمل مسلمان ملک ہے یہاں بادشاہت نہیں ہے جو اسلام کی سراسر نفی ہے یہاں کسی دوسری طرح کی کوئی آمریت نہیں ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں جمہوریت ہے اور یہاں کے حکمرانوں کو منتخب کیا جاتا ہے یعنی ان کے ساتھ بیعت کی جاتی ہے ۔ یہ بیعت تھی جسے بعد کے زمانوں میں ووٹ کا نام دیا گیا جس طرح ایک سوشل ویلفیئر اسٹیٹ کاپہلا تصور اسلام نے دیا اور اس کو قائم کر کے دکھایا اسی طرح الیکشن اور ووٹ کی بنیاد بھی اسلام نے رکھی اور کسی ریاست کے لیے آئین کے بنیادی نکات بھی طے کیے۔
ہمارا آئین ان بنیادی نکات کے مطابق ہے اور ہم پاکستانیوں سے زیادہ اسلامی ہے اس لیے اگر مقصدیہ ہے کہ ایک مکمل اسلامی ریاست کے قیام کی خواہش پوری کرنے کے لیے آئین کو اس کے مطابق بناناہے تو اس کے لیے کسی مزید زحمت اور تردد کی چنداں ضرورت نہیں ہے جو آئین موجود ہے اس پر عمل شروع کر دیجیے اور جہاں کہیں اسلام کی طرف جانے سے یہ آئین کوئی رکاوٹ پیداکرے تو اسے وہاں سے دور کر دیجیے ۔ عدل و انصاف پر نظام زندگی قائم کرنے کے لیے حکومت کو کسی اپوزیشن کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ بھلائی کا کوئی کام کیا جائے اور اپوزیشن یا کوئی دوسرا اس میں رکاوٹ پیدا کرے۔
گزشتہ سات دہائیوں سے جو گند ڈالا گیا ہے کبھی سوشل ازم کے نام پر ، کبھی احتساب کے نام پراور کبھی اسلام کے نام پر ،کبھی بنیادی جمہوریت کے نام پر اور کبھی عام جمہوریت کے نام پر معاشرے میں اس قدر الجھنیں اور پیچیدگیاں پیدا کر دی گئی ہیں کہ عوام ذرا ذرا سی بات پر بدک جاتے ہیں انھیں ہر بات میں فریب دکھائی دیتا ہے اور حکمرانوں کی نیتوں میں کھوٹ محسوس ہوتا ہے۔
ہمارا آئین ترامیم کا مجموعہ ہے اور اب آئین کا حصہ بنائی گئی اٹھارویں ترمیم میں مزید ترمیم کے لیے بات چیت جاری ہے جس کی وجہ سے پارلیمانی اور سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے بلکہ ایک انتشار کی کیفیت ہے اور وجہ ایک ہی ہے کہ کسی کو بھی ایک دوسرے پر اعتبار نہیں ہے کیونکہ ماضی میں آئین میں جو بھی ترمیم کی گئی اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی مفاد چھپا ہوا تھا اور ان آئینی ترامیم کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کیے گئے اس لیے اب جب ایک بار پھر ترمیم کی بات ہو رہی ہے تو ماضی کی تلخیاں ایک بار پھر سامنے آگئی ہیں اور لوگ مشکوک ہو گئے ہیں، کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ مزید کسی ترمیم کے بغیر آئین کا وجود قائم رہے اور اس کو متنازعہ نہ بنایا جائے۔
اپوزیشن کی بڑی جماعت نواز لیگ اس ترمیم کے حق میں نہیں اور حکومت کے ردعمل کا انتظار کر رہی ہے ۔حکومت کو بھی تمام فریقین کواعتماد میں لے کر نئی ترمیم کا ڈول ڈالنا چاہیے کیونکہ بہت سارے معاملات مشاورت کے ساتھ خوش اسلوبی سے حل ہو جاتے ہیں لیکن ہماری حکومت مشاورت سے دور بھاگتی ہے اور جب معاملہ بگڑ جاتا ہے تو پھر مدد کے لیے مہربانوں کو پکارا جاتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام فریقین باہمی مشاورت سے آئینی ترمیم پر ہم آہنگی پیدا کریں اور اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کر لیں ۔