جب وبا فلمائی گئی۔۔۔۔

 خطرناک وائرس اور عالمی وبا پر بننے والی ہالی وڈ کی فلمیں

 خطرناک وائرس اور عالمی وبا پر بننے والی ہالی وڈ کی فلمیں

رواں سال کی ابتدا میں جب لوگ نئے سال کا جشن مناکر ذرا سکون سے بیٹھے ہی تھے کہ چین کے صوبے ہوبی کے شہر ووہان میں ایک ایسا پراسرار وائرس پھیل گیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا۔

صرف چند ہی دنوں میں اس پراسرار وائرس نے ووہان کے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بالآخر چینی حکومت کو پورے شہر کو لاک ڈاؤن کرنا پڑا۔ نہ کوئی شہر میں آسکتا تھا اور نہ ہی اس شہر سے باہر جاسکتا تھا۔ 25 جنوری تک چین میں اس پراسرار وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 56 اور 27 جنوری تک 80 تک پہنچ چکی تھی جب کہ ہزاروں افراد اس مہلک اور جان لیوا وائرس سے متاثر ہوچکے تھے۔

چینی حکام اور ماہرین صحت مسلسل یہ پتا لگانے میں مصروف تھے کہ آخر یہ جان لیوا وائرس آیا کہاں سے اور پھر انکشاف ہوا کہ یہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔ جب سائنس دانوں نے ایک مریض کے جسم سے لیے جانے والے وائرس کا جائزہ لیا تو سیدھا اشارہ چمگادڑ وں کی جانب گیا۔

اس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ چمگادڑوں کے ذریعے یہ مہلک وائرس دیگر جانوروں میں منتقل ہوا اور ان جانوروں کے انسانوں کے ساتھ رابطے میں آنے سے یہ انسانوں میں منتقل ہوگیا۔ یہ انکشاف سامنے آنے کے بعد ووہان کا زندہ جانوروں کی فروخت سے حوالے سے مشہور بازار جہاں زندہ مینڈک، سانپ، بچھو، چوہے، گلہری، لومڑی، کچھوے، مگرمچھ، کتے، گدھے، ریچھ کے گوشت سے لے کر ہر طرح کے زندہ اور مردہ جانور کا گوشت ملتا ہے، کو بند کردیا گیا۔

اب تو صورت حال یہ ہے کہ یہ جان لیوا مہلک کورونا وائرس جسے کووڈ- 19 کا نام دیا گیا ہے پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ اب تک اس وائرس سے 8000 سے زائد لوگ ہلاک اور لاکھوں متاثر ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک اس وائرس کی کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوئی یہ وائرس ہاتھ ملانے، دوسروں سے رابطہ کرنے سے ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔ لہذٰا کورونا وائرس میں مبتلا شخص کو لوگوں سے دور الگ تھلگ رکھا جاتا ہے جسے قرنطینہ یا آئسولیشن کہا جاتا ہے تاکہ یہ وائرس دوسروں کو نہ لگے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اس وائرس کو عالمی وبا قرار دے چکا ہے۔

حیرت انگیز طور پر کورونا وائرس جیسے وائرس اور ان سے ہونے والی ہلاکت خیزی پر ہالی ووڈ میں کئی فلمیں بن چکی ہیں جن میں سے فلم کونٹیجن میں دکھائے گئے مناظر تو اس حد تک کورونا وائرس سے مماثلت رکھتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

کونٹیجن (Contagion)

2011 میں ریلیز ہونے والی ہالی وڈ کی اس فلم کونٹیجن Contagion کی کہانی حیرت انگیز طور پر کورونا وائرس اور اس کی وجہ سے دنیا بھر میں پیدا ہونے والی ہنگامی اور تشویش ناک صورت حال سے مماثلت رکھتی ہے۔ حالاںکہ فلم کونٹیجن آج سے 9 برس قبل ریلیز ہوئی تھی لیکن فلم میں دکھائے جانے والے حالات و واقعات ذہن کو گھمادیتے ہیں اور انسانی عقل سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہے کہ کیا واقعی ایسا ممکن ہے کہ 9 برس قبل جو کچھ فلم میں دکھایا گیا آج ہوبہو ویسے ہی حالات پیدا ہوجائیں؟ یا پھر 9 برس قبل فلم کونٹیجن کے ذریعے آج کے دور میں پیدا ہونے والی صورت حال کی پیش گوئی کی گئی تھی؟ اس فلم کو دیکھ کر بہت سارے سوالات ذہن میں آتے ہیں۔

فلم کا آغاز ایک شادی شدہ خاتون بیتھ ایمہوف Emhoff Beth سے ہوتا ہے جو بزنس کے سلسلے میں ہانک کانگ گئی تھی اور اب واپس اپنے شہر مینیا پولس Minneapolisآرہی ہوتی ہے، لیکن راستے میں وہ کچھ دیر کے لیے اپنے سابق دوست سے ملنے شکاگو چلی جاتی ہے اور اس سے ملاقات کے بعد واپس مینیا پولس آجاتی ہے لیکن ایک عجیب و غریب بیماری کے ساتھ۔ بیتھ جیسے ہی اپنے گھر پہنچتی ہے اچانک بیمار پڑجاتی ہے اور اسپتال جانے کے کچھ ہی دیر بعد وہ اس پراسرار بیماری کی وجہ سے مرجاتی ہے۔

اس کا شوہر مچ ایمہوف Emhoff Mitch جب اسپتال سے گھر آتا ہے تو اس کا 6 سال کا بیٹا بھی اسی انفیکشن کی وجہ سے مرچکا ہوتا ہے جس سے اس کی بیوی مری تھی۔ اور پھر دنیا بھر سے خبریں آنے لگتی ہیں کہ لوگ اسی پراسرار بیماری میں مبتلا ہورہے ہیں اور مررہے ہیں۔

فلم میں دکھا یا جاتا ہے کہ ڈاکٹر اور ماہرین صحت اس وائرس کے بارے میں پتا لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر یہ وائرس جسے فلم میں ایم ای وی1 - کا نام دیا گیا ہے آیا کہاں سے ہے اور انسانوں میں کیسے منتقل ہوا؟ جس نے چند ہی دنوں میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ شاید یہ وائرس یہ ایک بائیو کیمیکل ہتھیار ہے جسے دہشت گردوں کی ایک تنظیم نے جان بوجھ کر دنیا بھر میں پھیلایا ہے امریکا اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کو ٹارگٹ کرنے کے لیے۔ تاہم ایک امریکی ڈاکٹر ایلی Ally یہ پتا لگانے میں کام یاب ہوجاتی ہے کہ دراصل یہ وائرس چمگادڑ اور سُوّر کے جینیاتی مٹیریل سے ڈویلپ ہوکر بنا ہے اور ان جانوروں کے ذریعے یہ وائرس انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔

فلم میں دکھایا گیا ہے محض چند دنوں میں اس وائرس سے دنیا بھر کے 8 ملین لوگ متاثر ہوجاتے ہیں جس کے بعد عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے اسے عالمی وبا قرار د ے دیا جاتا ہے۔ یہ بالکل وہی صورت حال ہے جو کورونا وائرس کے سبب پیدا ہوئی اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دے چکا ہے۔ فلم میں دکھایا جانے والا وائرس انسانوں میں ایک دوسرے سے رابطہ کرنے سے منتقل ہورہا تھا جیسے ہاتھ ملانے سے، ایک دوسرے کے کپڑے استعمال کرنے سے۔ اور پھر اس وائرس پر کام کرنے والی ایک ڈاکٹر کی موت اسی وائرس کی وجہ سے ہوجاتی ہے۔

فلم میں معاشرے کے ان چند مفادپرستوں کو بھی دکھایا گیا ہے جو ملک میں پیدا ہونے والی ہنگامی صورت حال میں بھی صرف اپنا ہی مفاد دیکھتے ہیں۔ فلم میں دکھایا جانے والا ایک کردار بلاگر ایلن اپنے فالوورز بڑھانے کے لیے لوگوں کو اس بیماری کے علاج اور دوا سے متعلق غلط معلومات دیتا ہے جس کے بعد لوگ اس دوا کو حاصل کرنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں اور فارمیسیز کو لوٹ لیتے ہیں اور اسی ہڑ بڑی میں وہ لوگ بھی اس وائرس کا شکار ہوجاتے ہیں جو اب تک اس سے محفوظ تھے۔ بعد میں ایلن قبول کرتا ہے کہ دوا بنانے والی کمپنی نے اسے اس سب کے پیسے دیے تھے تاکہ لوگ بڑی تعداد میں اس کمپنی کی دوا خریدیں حالاںکہ اس دوا کا اس وائرس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔

فلم میں دکھا یا گیا ہے کہ یہ وائرس ایک چمگادڑ سے چینی مارکیٹ میں فروخت ہونے والے سور تک پہنچا بعدازاں متاثرہ سور کو ایک ہوٹل میں لایا جاتا ہے جہاں ایک شیف اسے پکانے کی تیاری کررہا ہوتا ہے۔ تاہم یہ وائرس سور سے شیف میں منتقل ہوجاتا ہے اور یہ شیف بغیر ہاتھ دھوئے اس خاتون سے ہاتھ ملالیتا ہے جسے فلم کے شروع میں دکھایا گیا تھا جس کی نامعلوم اور پراسرار وائرس کے باعث موت ہوجاتی ہے اور یہیں سے یہ وائرس پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے۔

حیرت انگیز طور پر کورونا وائرس کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے کہ یہ وائرس چمگادڑ سے چین کی اس مارکیٹ تک پہنچا جہاں زندہ اور مردہ جانور فروخت کیے جاتے ہیں اور وہاں سے یہ دنیا بھر میں پھیل گیا۔

فلم میں آگے دکھایا جا تا ہے ایم ای وی 1- نامی وائرس تیزی سے دنیا بھر میں پھیل رہا ہوتا ہے لہٰذا حکومت ان تمام شہروں کو مکمل طور پر لاک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کرتی ہے جہاں اس وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے یعنی نہ تو کوئی شخص اس شہر سے باہر جاسکتا ہے اور نہ ہی باہری دنیا سے اس شہر میں آسکتا ہے۔

دنیا بھر کے ماہرین اس پراسرار وائرس کا توڑ کرنے والی دوا بنانے میں مصروف ہیں لیکن انہیں کام یابی نہیں مل رہی جب کہ اس جان لیوا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا ویران ہوگئی ہے، آفسز، اسکول، کالج، یونیورسٹیز، ایئرپورٹس جم سب کچھ بند ہوکر رہ گئے ہیں، سڑکیں اور گلیاں سنسان ہوگئی اور سب لوگ وائرس کے خوف کے باعث اپنے گھروں میں بند ہوکر رہ گئے۔ بالآخر ڈاکٹرز اس وائرس کی ویکسین بنانے میں کام یاب ہوجاتے ہیں تاہم اس دوران دنیا بھر میں اس وائرس کی وجہ 26 ملین لوگ مارے جاچکے ہوتے ہیں۔


فلم میں دکھائے جانے والے مناظر حیران کن طور پر آج کے حالات سے حیرت انگیز مشابہت رکھتے ہیں۔ کورونا وائرس پھیلنے کے بعد گوگل پر اس فلم کی سرچ میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور لوگ بڑی تعداد میں 9 سال پرانی اس فلم کو سرچ کررہے ہیں جب کہ آئی ٹیونز پر یہ فلم رینٹڈ فلموں کی ٹاپ 10 فہرست میں بھی شامل ہوگئی ہے۔

ہالی وڈ کی پروڈکشن کمپنی وارنربروس اسٹوڈیو Warner Brosکا کہنا ہے کہ جب چین میں کورونا وائرس کی بیماری کوویڈ- 19 پھیلنے کی پہلی خبر سامنے آئی اس وقت یہ فلم 270 ویں پوزیشن پر تھی تاہم وائرس پھیلنے کے بعد اس کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ یہ سب کچھ دنیا میں پھیلنے والی کورونا وبا اور اس فلم کے مرکزی خیال کے درمیان مماثلت کی وجہ سے ہوا ہے۔

فلم Contagion کا بجٹ 60 ملین ڈالرز تھا اور اس نے باکس آفس پر 136.5 ملین ڈالرز کی کمائی کی تھی۔ فلم کی کاسٹ میں میرین کوٹیلارڈ، میٹ ڈیمن، لارنس فش برن، جوڈی لا، گیونتھ پالٹرو اور کیٹ ونسلیٹ شامل ہیں۔

12 منکیز ( Monkeys 12)

صرف کونٹیجن Contagionہی نہیں ہالی ووڈ میں اور بھی فلمیں ہیں جو جان لیوا وائرس یا عالمی وبا جیسے موضوع پر بنائی گئی ہیں۔ 1995 میں ریلیز ہوئی سائنس فکشن فلم 12 منکیز بھی ایک وبا کے موضوع پر مبنی فلم ہے۔ اس فلم میں 2035 کا دور دکھایا گیا ہے۔ فلم کی کہانی جان لیوا وائرس کے گرد گھومتی ہے جس نے دنیا بھر میں تباہی پھیلادی ہے بہت سارے لوگ اس وائرس کے ہاتھوں اپنی زندگیاں گنواچکے ہیں اور جو لوگ بچ گئے ہیں وہ زندہ رہنے کے لیے زمین کے نیچے پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ اس فلم میں ٹائم ٹریول کے ذریعے سائنس داں یہ پتہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ا?خر یہ وائر س پھیلا کیسے۔ اس فلم میں ماضی اور مستقبل کی کہانی ساتھ ساتھ چل رہی ہوتی ہے۔



فلم میں دکھایا گیا ہے کہ 1996 میں دنیا سے نالاں ایک سائنس داں ایک جان لیوا وائرس کو دنیا کے مختلف شہروں میں جاکر پھیلادیتا ہے ان شہروں میں سان فرانسسکو، نیوآرلنز، ریوڈی جنیرو، روم، کراچی، کنشاسا اور بنکاک وغیرہ شامل ہیں۔ ان شہروں سے یہ وائرس دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے اور لاکھوں لوگوں کی زندگیاں نگل لیتا ہے۔ اب کہانی میں مستقبل دکھایا جاتا ہے جس کے تحت 2035 میں سائنس داں ایک ٹائم مشین بناتے ہیں اور ٹائم میں پیچھے جاکر اس وائرس کی ابتدائی معلومات اکھٹا کرتے ہیں تاکہ اس کی دوا بنائی جاسکے۔

ایکشن اور تھرلر سے بھرپور یہ سائنس فکشن فلم لوگوں کو بے حد پسند آئی تھی۔ فلم کی کاسٹ میں ہالی ووڈ سپر اسٹار بروس ولس نے مرکزی کردار ادا کیا تھا جب کہ میڈلین اسٹوو اور بریڈ پٹ بھی فلم کی کاسٹ میں شامل تھے۔ اس فلم کو نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ فلم کا بجٹ 29.5 ملین ڈالرز تھا جب کہ اس نے باکس آفس پر 168.8 ملین ڈالرز کی کمائی کی تھی۔

آؤٹ بریک ( Break Out)

1995 میں ہی ریلیز ہوئی ایک اور فلم آؤٹ بریک ایک میڈیکل ڈیزازٹر فلم ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ افریقا میں ایبولا Ebola Virus وائرس جیسا موٹابا Motaba نامی وائرس 1967 میں پھوٹ پڑتا ہے۔ اس وائرس کی وجہ سے متعدد لوگ جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں جس کے بعد امریکی آرمی کی ایک ٹیم افریقا میں اس حوالے سے ریسرچ کرتی ہے جب کہ اس وائرس کو خفیہ رکھنے کے لیے امریکی آرمی کے دو آفیسرز ڈونلڈ مک کلنٹوک اور بلی فورڈ فوجیوں کے اس کیمپ کو جلادیتے ہیں جہاں وائرس سے متاثرہ فوجی موجود ہوتے ہیں۔

کچھ سال بعد اس وائرس میں مبتلا ایک بندر کو افریقا سے امریکا اسمگل کردیا جاتا ہے جہاں سے یہ وائرس انسانوں میں منتقل ہوجاتا ہے جس کے بعد کیلیفورنیا میں یہ وائرس وبا بن کر پھوٹ پڑتا ہے اور پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اس فلم کا بجٹ 50 ملین ڈالرز تھا جب کہ اس نے باکس آفس پر 189.8 ملین ڈالرز کی کمائی کی تھی۔ فلم میں ڈسٹن ہوف مین، رینی روسو، مورگن فری مین، ڈونلڈ، کیوبا گوڈنگ جونیئر، کیون اسپیسی اور پیٹرک ڈیمپسی نے اداکاری کے جوہر دکھا ئے تھے۔



ورلڈ وار -زی (Z War World)

ہالی ووڈ میں زومبی کے موضوع پر کئی فلمیں بنی ہیں۔ یہ زومبیز دراصل ایک قسم کا وائرس ہوتا ہے جو انسانوں میں منتقل ہو کر انہیں حیوانوں میں تبدیل کردیتا ہے اور بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔ ہالی ووڈ سپر اسٹار بریڈ پٹ کی میں ریلیز ہوئی فلم ورلڈ وار- زی بھی زومبی وائرس پر مبنی فلم ہے۔ یہ وائرس دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ اس پراسرار وائرس کی وجہ سے لوگوں کو گھروں میں رہنے اور راشن جمع کرنے کی تاکید کی جاتی ہے جب کہ شہر کے شہر اس وائرس کے پھیلنے کی وجہ سے اجڑ جاتے ہیں۔

فلم میں بریڈپٹ اقوام متحدہ کے سابق رکن کا کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں جو اس بات کا پتا لگاتا ہے کہ ا?خر اس زومبی وبا کو کس طرح روکا جاسکتا ہے۔ بریڈ پٹ کے علاوہ فلم میں میرلی اینوس، ڈینیلا کرٹیز، جیمز بیج ڈیل ، لودی بوکن، ڈیوڈ مورس وغیرہ نے اہم کردار اداکررہے ہیں۔ فلم کا بجٹ 190 سے 269 ملین ڈالرز تھا اور فلم نے باکس آفس پر 540 ملین ڈالرز کی کمائی کی تھی۔

آئی ایم لیجنڈ (I Am Legend)

2007 میں آئی اس فلم کی کہانی بھی ایک خطرناک وائرس کے گرد گھومتی ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ اس وائرس کے پھیلنے کی وجہ سے دنیا کی 90 فی صد آبادی ختم ہوچکی ہے اور 9.8 فی صد لوگ زومبی بن گئے ہیں جنہیں فلم میں ڈارک سیکرز کہا گیا ہے، یعنی یہ لوگ صرف رات کے اندھیرے میں شکار کرنے کے لیے باہر نکلتے ہیں۔ اور دنیا میں صرف ایک ہی آدمی بچا ہے جس کا نام ڈاکٹر رابرٹ ہے۔ اس کردار کو ہالی وڈسپراسٹار ول اسمتھ نے ادا کیا ہے۔ فلم میں یہ جان لیوا وائرس کینسر کے علاج کی دوا کے سائیڈ ایفیکٹ کے طور پر سامنے آتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

اس وائرس کے خطرے کے پیش نظر واحد بچ جانے والے ڈاکٹر رابرٹ خود کو قرنطینہ کرلیتے ہیں تاکہ وائرس سے متاثرہ افراد کے رابطے میں نہ آئیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ اس وائرس کا علاج بھی ڈھونڈنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ ول اسمتھ کی جان دار اداکاری کے باعث یہ فلم وائرس کے موضوع پر بنائی گئی فلموں میں سے بہترین فلموں میں شمار ہوتی ہے اور لوگوں نے بھی اس فلم کو بے حد پسند کیا تھا۔ اس فلم کا ٹوٹل بجٹ 150 ملین ڈالر تھا جب کہ اس نے 585.3 ملین ڈالر کی کمائی کی تھی۔
Load Next Story