مرحلہ وار کاروبار کھولنے کا فیصلہ
بدقسمتی سے تاحال ملکی سیاسی جماعتیں ایک پیج پر نظر نہیں آرہی ہیں
وفاقی حکومت کے فیصلے کے نتیجے میں ملک بھرمیں مرحلہ وارکاروباری سرگرمیوں کا آغاز ہوا چاہتا ہے، دوسری جانب وزیراعظم نے کہا ہے کہ اقتصادی مشکلات سے نمٹنے کے لیے غیرمعمولی حل نکالنا ہوں گے۔ وفاقی حکومت عوامی مطالبات اورخواہشات پر پورا اترنے کی پوری کوشش کررہی ہے، اور اسی اقدامات اٹھا رہی ہے، جس سے عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔اب ملک کے ہر باشندے پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بازاروں میں جاتے ہوئے ذمے دار شہری ہونے کا ثبوت دیں۔
وہ تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں جوطبی لحاظ سے ضروری ہیں۔ یہ بات کسی طور بھولنی نہیں چاہیے کہ عملا ہم اس وائرس کے انتہائی خطرناک ترین اسٹیج سے گزر رہے ہیں۔ اموات کا سلسلہ رکا نہیں، بلکہ اس میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، دوسری جانب ملکی معیشت لاک ڈاؤن کی وجہ دگرگوں ہے، بے روزگاری کا آسیب لاکھوں مزدوروں کونگل رہا ہے۔ ایک طرف موت کا بھیانک رقص جاری ہے تودوسری جانب معاشی مسائل کے پہاڑکھڑے ہوچکے ہیں۔ ایسی سنگین صورتحال قیام پاکستان سے لے آج تک پہلے کبھی پیش نہیں آئی ہے۔
یہ ایک اعصاب شکن جنگ ، طویل اور صبر آزما ہے، اس کا اختتام کب ہوگا،کوئی نہیں جانتا، صرف اور صرف احتیاطی تدابیرکو اختیارکرکے ہم اپنی اوراپنے پیاروںکی جانیں بچاسکتے ہیں۔لاپرواہی برتنے کا نتیجہ انتہائی بھیانک نکلے گا۔ شعوروآگہی کی کمی ہمارا قومی المیہ ہے، وائرس کے حوالے سے بحیثیت قوم ہم نے جوغیرسنجیدہ رویہ اختیارکر رکھا ہے وہ کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی تناظر میں ملک بھرکے ڈاکٹرز باہر باہر اپیل کررہے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلے پر وزیراعظم نظر ثانی کریں۔ اب سارا دارومدار عوام کے رویے پر منحصر ہے کہ وہ اس نرمی کو نقصان میں تبدیل کرنے سے باز رہیں۔
ملک بھرمیں نادرا سینٹرزکوکھولنے کے احکامات کے بعد عوام کا بے پناہ رش دیکھنے میں آیا، ان سینٹرزکے باہر سماجی فاصلے اورکورونا وائرس سے بچاؤکے لیے ایس او پیز پر عملدرآمدکو یکسر نظراندازکردیا گیا۔ عوام ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیارکریں، ورنہ اس غفلت کے بھیانک نتائج برآمد ہوںگے۔
کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کے حوالے سب سے پہلے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا جائزہ لیا جائے تو حکومتِ پنجاب نے وفاق کو لاہور،گوجرانوالہ ، فیصل آباد سمیت دیگربڑے شہروں میں لاک ڈاؤن میں نرمی نہ کرنے کی تجویزدی ہے، جس پرحتمی فیصلہ ایک، دو روز میں متوقع ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران لاک ڈاؤن میں پیرسے مرحلے وار نرمی کا اعلان کیا، وفاق کے فیصلوں پرقومی ہم آہنگی کے لیے99 فیصد عملدرآمدکر رہے ہیں ، ہفتہ اور اتوار مکمل لاک ڈاؤن ہوگا، کراچی کی صورت حال بہتر نہیں۔ جب کہ دوسری جانب حکومت سندھ ، تاجروں کے دباؤ پر مارکیٹیں پیر سے مرحلہ وارکھولنے پر بمشکل راضی ہوئی ہے۔
خیبرپختونخواحکومت نے 47 دنوں کے لاک ڈاؤن کے بعد صنعتیں اور دکانیں ہفتے میں چاردن کھولنے کی اجازت دے دی ہے جب کہ بلوچستان میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی و تاجر تنظیموں نے اتفاق رائے سے اسمارٹ لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے صبح 3سے شام 5بجے تک مشروط طورپربازار کھلے رہیں گے۔ عوامی مشکلات کے پیش نظر لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ صوبائی حکومتوں نے کیا ہے۔ لیکن دوسری جانب پبلک ٹرانسپورٹ کی بحالی کے لیے حتمی فیصلہ نہ ہونے کے سبب عوامی مشکلات برقرارہیں، اس سلسلے میں باہمی مشاورت سے کوئی سبیل پیدا کی جائے تو بہتر ہوگا۔
وزیراعظم آفس کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے جاری پیغام میں کہا گیا کہ دکاندار انفرا ریڈ تھرمامیٹرزکے ذریعے گاہکوں کا درجہ حرارت لیں، داخلی راستوں پر سینی ٹائزر یقینی بنائیں،گاہکوں کے لیے ماسک کا استعمال لازمی قرار دیں، سماجی فاصلے برقرار رکھنے کے لیے انتظامات کریں۔ اسٹورز میں موجود ٹرالیوں کو جراثیم سے پاک کریں،ملازمین کے لیے ماسک اور گلوز کا استعمال یقینی بنائیں، صفائی کاخیال رکھیں،خود بھی محفوظ رہیں، دوسروں کو بھی محفوظ رکھیں۔
وطن عزیزمیں عیدالفطربڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے، لیکن اس بار صورتحال یکسر مختلف ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بازار بند ہیں،خریداری کے وہ مواقعے ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ اسی وجہ سے لاکھوں افراد بے روزگاری کا شکار ہیں۔البتہ بہت محدود پیمانے پر عید کے کپڑوں کی آن لائن خریداری کا عمل جاری ہے جس سے یقینا کچھ لوگوں کے روزگارکے نئے مواقعے پیدا ہوںگے۔ وزیر ریلوے شیخ رشید نے ایکسپریس سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرینیں چلانے کے لیے صوبوں کی سپورٹ حاصل نہیں ہے، اگر جہاز چلے توٹرینیں بھی چلنی چاہیئیں۔
ریلوے کو پانچ ارب روپے کا خسارہ ہورہا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ ریلوے غریب کی سستی سواری ہے، لوگ ٹرینیں چلنے کا انتظارکررہے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ وزیرریلوے کی بات میں وزن ہے اور ان کی گزارشات کی روشنی میں حکومت کو ٹرینیں چلانے کے لیے فوری فیصلہ کرنا چاہیے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہاہے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل کیے گئے بغیراسمارٹ لاک ڈاؤن کا کوئی فائدہ نہیں،حکومتی وضع کردہ ضابطہ اخلاق اور ایڈوائزی عوامی مفاد کے لیے ہوتی ہیں، بات تو معاون خصوصی درست کہہ رہے ہیں عوام کو چاہیے کہ وہ ہجوم والی جگہوں پرجانے سے پہلے لازمی ماسک لگائیںتاکہ ممکنہ خطرے سے بچا جاسکے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی بڑھتی وبا کے باعث مسلمانوں پر حملوں کے واقعات اور دنیا میں نفرت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بزرگوں کے خلاف توہین آمیز میمز بنائی جارہی ہیں جب کہ صحافیوں، طبی عملے اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو نشانا بنایا جارہا ہے۔ اس عالمی وبا کی تباہ کاریوں کے مشاہدہ کرنے کے باوجود اگر بھارت مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے میں مصروف ہے تو اس عمل کوبرملا انسانیت کی توہین قرار دیا جاسکتا ہے۔
رمضان المبارک میں مہنگائی کی شرح روزبروز بڑھ رہی ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے حکومتی اقدامات ناکافی نظرآرہے ہیں۔ وفاقی ادارہ برائے شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمارمیں بتایا گیا ہے کہ پچھلے ہفتے کے مقابلہ میں گزشتہ ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح 0.36 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے کورونا وائرس کے باعث چین کے شہر وہان میں پھنسے پاکستانی طلبا کو واپس لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی آئی ے کی 4 خصوصی پروازوں کے ذریعے 1 ہزار سے زائد پاکستانی طلبا کو وطن واپس لایا جائے گا، یہ خبر انتہائی خوش آئند ہے۔
کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ہیلتھ کیئر ورکرز اور ڈاکٹرز وہ ہیں جوآئسولیشن وارڈ کے باہر ڈیوٹی کررہے ہیں۔ ڈاکٹرز پرزورمطالبہ کررہے ہیں کہ حکومت طبی عملے کی حفاظت کے لیے اقدامات کرے کیونکہ متاثر ہونے والے ہیلتھ کیئر پروفیشنلز میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جنھیں حفاظتی سامان فراہم نہیں کیا ہے۔
ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو این 95 ماسک، فیس شیٹ، گلوز اور کٹس فراہمی کو یقینی بنانا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں سب سے اہم فیصلہ او پی ڈیز کھولنے کا ہے، ایک دم او پی ڈیز کھولنے سے رش اورکیسوں میں اضافے کا امکان ہے، لہذا محکمہ صحت کو اس ضمن میں فوری حفاظتی اقدامات اٹھائے۔
یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں علامات ظاہر ہوئے بغیر اور مقامی سطح پر کورونا وائرس منتقلی کیسزکی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ خواتین کے مقابلے میں مرد زیادہ تعداد میں متاثر ہورہے ہیں۔یہ اس بات کی گواہی ہے کہ ہم خطرے میں ہیں اور آنے والے دن مزید مشکلات کا سبب بنیں گے۔اسی تناظر میں ڈاکٹرزکا موقف ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے سے کورونا وائرس کا پھیلاؤ ہوگا۔
بدقسمتی سے تاحال ملکی سیاسی جماعتیں ایک پیج پر نظر نہیں آرہی ہیں۔ باہمی اختلافات اور سیاسی بیان بازی کا عمل رک نہیں سکا ہے، یہی وجہ ہے کہ قوم مایوس کے دلدل میں دھنستی جارہی ہے۔ قومی سیاسی قیادت کو یاد رکھنا چاہیے کہ آنے والے دورکا مورخ لکھے گا کہ ملک پر وبا کا خطرناک ترین حملہ جاری تھا اور اس کی سیاسی قیادت باہم دست وگریباں تھی۔ فیصلہ سیاسی قیادت نے کرنا ہے کہ وہ تاریخ کے اوراق میں زندہ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
ہم ایک بار پھر ان سطورکے ذریعے قومی سیاسی جماعتوں سے دردمندانہ اپیل کررہے ہیں کہ وہ اپنے سیاسی اختلافات کو بھلا کر باہمی اتفاق واتحاد کا عملی مظاہرہ کریں، تاکہ قوم ان کی پیروی کرتے ہوئے ایک پیج پر نظر آئے ، کورونا وائرس کے خلاف ہمیں ابھی ایک طویل جنگ لڑنی ہے، قومی یکجہتی اور اتفاق رائے ہونے کی صورت میں ہی ہم یہ جنگ جیت سکیں گے، ورنہ ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔
حرف آخرلاک ڈاؤن میں نرمی کے ثمرات احتیاطی تدابیر پرسختی سے عمل کرنے پر عوام کوحاصل ہوسکتے ہیں۔ فیصلہ اب عوام نے کرنا ہے کہ وہ کس قدر احتیاط اور ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
وہ تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں جوطبی لحاظ سے ضروری ہیں۔ یہ بات کسی طور بھولنی نہیں چاہیے کہ عملا ہم اس وائرس کے انتہائی خطرناک ترین اسٹیج سے گزر رہے ہیں۔ اموات کا سلسلہ رکا نہیں، بلکہ اس میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، دوسری جانب ملکی معیشت لاک ڈاؤن کی وجہ دگرگوں ہے، بے روزگاری کا آسیب لاکھوں مزدوروں کونگل رہا ہے۔ ایک طرف موت کا بھیانک رقص جاری ہے تودوسری جانب معاشی مسائل کے پہاڑکھڑے ہوچکے ہیں۔ ایسی سنگین صورتحال قیام پاکستان سے لے آج تک پہلے کبھی پیش نہیں آئی ہے۔
یہ ایک اعصاب شکن جنگ ، طویل اور صبر آزما ہے، اس کا اختتام کب ہوگا،کوئی نہیں جانتا، صرف اور صرف احتیاطی تدابیرکو اختیارکرکے ہم اپنی اوراپنے پیاروںکی جانیں بچاسکتے ہیں۔لاپرواہی برتنے کا نتیجہ انتہائی بھیانک نکلے گا۔ شعوروآگہی کی کمی ہمارا قومی المیہ ہے، وائرس کے حوالے سے بحیثیت قوم ہم نے جوغیرسنجیدہ رویہ اختیارکر رکھا ہے وہ کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی تناظر میں ملک بھرکے ڈاکٹرز باہر باہر اپیل کررہے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلے پر وزیراعظم نظر ثانی کریں۔ اب سارا دارومدار عوام کے رویے پر منحصر ہے کہ وہ اس نرمی کو نقصان میں تبدیل کرنے سے باز رہیں۔
ملک بھرمیں نادرا سینٹرزکوکھولنے کے احکامات کے بعد عوام کا بے پناہ رش دیکھنے میں آیا، ان سینٹرزکے باہر سماجی فاصلے اورکورونا وائرس سے بچاؤکے لیے ایس او پیز پر عملدرآمدکو یکسر نظراندازکردیا گیا۔ عوام ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیارکریں، ورنہ اس غفلت کے بھیانک نتائج برآمد ہوںگے۔
کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کے حوالے سب سے پہلے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا جائزہ لیا جائے تو حکومتِ پنجاب نے وفاق کو لاہور،گوجرانوالہ ، فیصل آباد سمیت دیگربڑے شہروں میں لاک ڈاؤن میں نرمی نہ کرنے کی تجویزدی ہے، جس پرحتمی فیصلہ ایک، دو روز میں متوقع ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران لاک ڈاؤن میں پیرسے مرحلے وار نرمی کا اعلان کیا، وفاق کے فیصلوں پرقومی ہم آہنگی کے لیے99 فیصد عملدرآمدکر رہے ہیں ، ہفتہ اور اتوار مکمل لاک ڈاؤن ہوگا، کراچی کی صورت حال بہتر نہیں۔ جب کہ دوسری جانب حکومت سندھ ، تاجروں کے دباؤ پر مارکیٹیں پیر سے مرحلہ وارکھولنے پر بمشکل راضی ہوئی ہے۔
خیبرپختونخواحکومت نے 47 دنوں کے لاک ڈاؤن کے بعد صنعتیں اور دکانیں ہفتے میں چاردن کھولنے کی اجازت دے دی ہے جب کہ بلوچستان میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی و تاجر تنظیموں نے اتفاق رائے سے اسمارٹ لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے صبح 3سے شام 5بجے تک مشروط طورپربازار کھلے رہیں گے۔ عوامی مشکلات کے پیش نظر لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ صوبائی حکومتوں نے کیا ہے۔ لیکن دوسری جانب پبلک ٹرانسپورٹ کی بحالی کے لیے حتمی فیصلہ نہ ہونے کے سبب عوامی مشکلات برقرارہیں، اس سلسلے میں باہمی مشاورت سے کوئی سبیل پیدا کی جائے تو بہتر ہوگا۔
وزیراعظم آفس کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے جاری پیغام میں کہا گیا کہ دکاندار انفرا ریڈ تھرمامیٹرزکے ذریعے گاہکوں کا درجہ حرارت لیں، داخلی راستوں پر سینی ٹائزر یقینی بنائیں،گاہکوں کے لیے ماسک کا استعمال لازمی قرار دیں، سماجی فاصلے برقرار رکھنے کے لیے انتظامات کریں۔ اسٹورز میں موجود ٹرالیوں کو جراثیم سے پاک کریں،ملازمین کے لیے ماسک اور گلوز کا استعمال یقینی بنائیں، صفائی کاخیال رکھیں،خود بھی محفوظ رہیں، دوسروں کو بھی محفوظ رکھیں۔
وطن عزیزمیں عیدالفطربڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے، لیکن اس بار صورتحال یکسر مختلف ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بازار بند ہیں،خریداری کے وہ مواقعے ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ اسی وجہ سے لاکھوں افراد بے روزگاری کا شکار ہیں۔البتہ بہت محدود پیمانے پر عید کے کپڑوں کی آن لائن خریداری کا عمل جاری ہے جس سے یقینا کچھ لوگوں کے روزگارکے نئے مواقعے پیدا ہوںگے۔ وزیر ریلوے شیخ رشید نے ایکسپریس سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرینیں چلانے کے لیے صوبوں کی سپورٹ حاصل نہیں ہے، اگر جہاز چلے توٹرینیں بھی چلنی چاہیئیں۔
ریلوے کو پانچ ارب روپے کا خسارہ ہورہا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ ریلوے غریب کی سستی سواری ہے، لوگ ٹرینیں چلنے کا انتظارکررہے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ وزیرریلوے کی بات میں وزن ہے اور ان کی گزارشات کی روشنی میں حکومت کو ٹرینیں چلانے کے لیے فوری فیصلہ کرنا چاہیے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہاہے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل کیے گئے بغیراسمارٹ لاک ڈاؤن کا کوئی فائدہ نہیں،حکومتی وضع کردہ ضابطہ اخلاق اور ایڈوائزی عوامی مفاد کے لیے ہوتی ہیں، بات تو معاون خصوصی درست کہہ رہے ہیں عوام کو چاہیے کہ وہ ہجوم والی جگہوں پرجانے سے پہلے لازمی ماسک لگائیںتاکہ ممکنہ خطرے سے بچا جاسکے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی بڑھتی وبا کے باعث مسلمانوں پر حملوں کے واقعات اور دنیا میں نفرت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بزرگوں کے خلاف توہین آمیز میمز بنائی جارہی ہیں جب کہ صحافیوں، طبی عملے اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو نشانا بنایا جارہا ہے۔ اس عالمی وبا کی تباہ کاریوں کے مشاہدہ کرنے کے باوجود اگر بھارت مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے میں مصروف ہے تو اس عمل کوبرملا انسانیت کی توہین قرار دیا جاسکتا ہے۔
رمضان المبارک میں مہنگائی کی شرح روزبروز بڑھ رہی ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے حکومتی اقدامات ناکافی نظرآرہے ہیں۔ وفاقی ادارہ برائے شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمارمیں بتایا گیا ہے کہ پچھلے ہفتے کے مقابلہ میں گزشتہ ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح 0.36 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے کورونا وائرس کے باعث چین کے شہر وہان میں پھنسے پاکستانی طلبا کو واپس لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی آئی ے کی 4 خصوصی پروازوں کے ذریعے 1 ہزار سے زائد پاکستانی طلبا کو وطن واپس لایا جائے گا، یہ خبر انتہائی خوش آئند ہے۔
کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ہیلتھ کیئر ورکرز اور ڈاکٹرز وہ ہیں جوآئسولیشن وارڈ کے باہر ڈیوٹی کررہے ہیں۔ ڈاکٹرز پرزورمطالبہ کررہے ہیں کہ حکومت طبی عملے کی حفاظت کے لیے اقدامات کرے کیونکہ متاثر ہونے والے ہیلتھ کیئر پروفیشنلز میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جنھیں حفاظتی سامان فراہم نہیں کیا ہے۔
ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو این 95 ماسک، فیس شیٹ، گلوز اور کٹس فراہمی کو یقینی بنانا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں سب سے اہم فیصلہ او پی ڈیز کھولنے کا ہے، ایک دم او پی ڈیز کھولنے سے رش اورکیسوں میں اضافے کا امکان ہے، لہذا محکمہ صحت کو اس ضمن میں فوری حفاظتی اقدامات اٹھائے۔
یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں علامات ظاہر ہوئے بغیر اور مقامی سطح پر کورونا وائرس منتقلی کیسزکی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ خواتین کے مقابلے میں مرد زیادہ تعداد میں متاثر ہورہے ہیں۔یہ اس بات کی گواہی ہے کہ ہم خطرے میں ہیں اور آنے والے دن مزید مشکلات کا سبب بنیں گے۔اسی تناظر میں ڈاکٹرزکا موقف ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے سے کورونا وائرس کا پھیلاؤ ہوگا۔
بدقسمتی سے تاحال ملکی سیاسی جماعتیں ایک پیج پر نظر نہیں آرہی ہیں۔ باہمی اختلافات اور سیاسی بیان بازی کا عمل رک نہیں سکا ہے، یہی وجہ ہے کہ قوم مایوس کے دلدل میں دھنستی جارہی ہے۔ قومی سیاسی قیادت کو یاد رکھنا چاہیے کہ آنے والے دورکا مورخ لکھے گا کہ ملک پر وبا کا خطرناک ترین حملہ جاری تھا اور اس کی سیاسی قیادت باہم دست وگریباں تھی۔ فیصلہ سیاسی قیادت نے کرنا ہے کہ وہ تاریخ کے اوراق میں زندہ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
ہم ایک بار پھر ان سطورکے ذریعے قومی سیاسی جماعتوں سے دردمندانہ اپیل کررہے ہیں کہ وہ اپنے سیاسی اختلافات کو بھلا کر باہمی اتفاق واتحاد کا عملی مظاہرہ کریں، تاکہ قوم ان کی پیروی کرتے ہوئے ایک پیج پر نظر آئے ، کورونا وائرس کے خلاف ہمیں ابھی ایک طویل جنگ لڑنی ہے، قومی یکجہتی اور اتفاق رائے ہونے کی صورت میں ہی ہم یہ جنگ جیت سکیں گے، ورنہ ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔
حرف آخرلاک ڈاؤن میں نرمی کے ثمرات احتیاطی تدابیر پرسختی سے عمل کرنے پر عوام کوحاصل ہوسکتے ہیں۔ فیصلہ اب عوام نے کرنا ہے کہ وہ کس قدر احتیاط اور ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔