ایک چراغ جو بجھ گیا
اس وقت ان کی آخری کتاب ’’ بقلم خود ‘‘ میرے ہاتھ میں ہے
2 مئی آٹھ رمضان المبارک بروز ہفتہ آزاد بن حیدر اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے۔ اللہ انھیں گوشۂ جنت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کی قبرکو پرنور بنائے۔ (آمین) کافی دن سے صاحبِ فراش تھے لیکن مکمل طور پر اپنے ہوش و حواس میں آخری وقت تک رہے، وہ اپنی ذات میں روشنی کا استعارہ تھے، عالم باعمل، سچے عاشقِ رسولؐ، تحریک پاکستان کے رکن، فلاحی کاموں کے حوالے سے ان کی اپنی شناخت ہے، ممتاز قانون دان اور ماہر تعلیم تھے انھوں نے صدر مرسی شہیدؒ پر ایک ایسا مجلہ ترتیب دیا جس میں ان کی زندگی کے ماہ و سال اور ان پر ہونیوالے مظالم کی داستان عیاں ہوگئی۔ علامہ اقبال اور دوسرے مشاہیر عالم پر قابل قدرکتب ان کی علمیت، قابلیت اور فراست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
کئی سال قبل جب میری ان سے فون پر بات ہوئی میں نے اپنا نام بتایا تو پرجوش لہجے میں گویا ہوئے بھلا آپ کو کون نہیں جانتا ہے، جو آپ کے نام سے واقف نہیں ہے اسے کراچی میں رہنے کا حق نہیں۔ ان کے ان جملوں نے مجھے روحانی خوشی عطا فرمائی، اس کے بعد باقاعدہ ملاقات بھی ہوئی، مجھے ان کے دولت کدہ پر حاضری دینے کا بھی اعزاز حاصل رہا ، انھوں نے تحفتاً مجھے بہت سی کتابیں عنایت کیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ پوری لائبریری ہی میرے حوالے کردی اور فرمایا جوکتابیں آپ کو پسند ہوں آپ لے لیجیے۔ سو ہم نے بھی ان کی سخاوت سے فائدہ اٹھایا اور اپنی پسند کی کافی کتابیں لائبریرین عامرکی مدد سے وصول کیں، پھر ہم نے جب ان کی شخصیت پر '' تحریکِ پاکستان کا سپاہی'' کے عنوان سے کالم لکھا تو وہ بہت خوش ہوئے۔
اس وقت ان کی آخری کتاب '' بقلم خود '' میرے ہاتھ میں ہے، انھوں نے بڑے خلوص سے لکھا ہے، محترمہ نسیم انجم ''بقلم خود'' میری آپ بیتی جگ بیتی آپ کی خدمت میں بصدِ خلوص پیش کی جا رہی ہے انھوں نے اپنے دستخط کیے ہیں۔ آزاد بن حیدر 25 دسمبر 2019 درج ہے۔ میں ان کی زندگی میں ہی مذکورہ کتاب پر خامہ فرسائی کرنا چاہتی تھی مگر وائے نصیب، مجھے دلی صدمہ ہے اتنی بڑی ہستی کے کوچ کر جانے کا، میرا دل دکھ رہا ہے کہ وہ اب ہم میں نہیں ہیں۔ ''بقلم خود'' میں انھوں نے اپنا تعارف خود کرایا ہے۔ لکھتے ہیں ''بقلم خود'' میری آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی، لیکن اس کے ساتھ پاکستان بیتی بھی ہے لیکن اس آپ بیتی پر کیا بیتی وہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔
1965 میں جب میں مشرق وسطیٰ کے دورے سے واپس آیا اس دورے میں مصر کے صدر جمال عبدالناصر، تیونس کے صدر حبیب بورقیبہ، لندن میں آغا ہلالی، نائیجریا کے وزیر اعظم احمد وبیلو، سعودی عرب میں شاہ فیصل، مقبوضہ کشمیر کے شیخ عبداللہ، مرزا افضل بیگ، عراق کے صدر عبدالسلام عارف، ترکی کے وزیر اعظم سلیمان دیمیرل اور کویت کے شیخ و وزیر تعلیم سے ملاقات کی۔ اس دورے کی تفصیلات روز نامہ ''حریت'' کے مدیر اعلیٰ فخر ماتری کو بتائیں تو انھوں نے کہا کہ ہم روزنامہ ''حریت'' میں قسط وار آپ کی آپ بیتی شہر اقبال سے شہر قائد تک شایع کریں گے۔
جس میں بچہ مسلم لیگ، مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن، مسلم لیگ میں آپ کی سرگرمیاں، تحریک ختم نبوت اور آپ کی تعلیمی و صحافتی خدمات کا ذکر ہوگا۔''لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ جناب آزاد بن حیدر کی یادداشتیں ''حریت'' میں اس وجہ سے شایع نہ ہو سکیں کہ حریت کے ایڈیٹر نیر علوی سے گھر کے سامان کی شفٹنگ کے دوران وہ تحریر اور تصاویر کہیں گم ہوگئیں لہٰذا 1977 میں کراچی سینٹرل جیل کے پولیٹیکل وارڈ میں ہفت روزہ ''تکبیر'' کے ایڈیٹر صلاح الدین سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے دوران گفتگو کہا کہ آپ کی آپ بیتی کو ''تکبیر'' پبلیکیشن کی طرف سے شایع کریں گے لیکن یہ کام پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ وکالت کی ذمے داری اور بچوں کی مستقبل سازی کے فرائض اس شعر کے مصداق:
مجھے جینے نہیں دیتا یہ مصیبت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
اس مضمون میں آزاد بن حیدر نے بہت اہم واقعات درج کیے ہیں کہ آخر میں اپنی دلی کیفیت کو اس شعر میں ڈھالا ہے:
منافقتوں کا نصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب لکھنا
بڑا کٹھن ہے خزاں کے موسم میں داستانِ گلاب لکھنا
اس وقت کی صورت حال اور اپنی کتب بینی کے بارے میں فرماتے ہیں جب میں سن شعور کو پہنچا تو تحریک پاکستان پر کتابیں پڑھنا اور لکھنا شروع کردیں تو مجھے تعجب ہوا کہ قائد اعظم ایک طرف تو تن تنہا کانگریس اور برطانوی حکومت سے لڑ رہے تھے اور دوسری طرف مسلمانوں کی بھی کچھ تنظیمیں پاکستان اور قائد اعظم کی مخالفت کر رہی تھیں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ نے قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان قائم کیا تھا لیکن اب اس کے قیام کے دعوے داروں میں وہ حضرات بھی شامل ہونے لگے، جنھوں نے زندگی بھر قائد اعظم اور مسلم لیگ پر کیچڑ اچھالا ، انھوں نے اپنی کتاب شایع کرالی تھی اس کتاب میں قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں کو بے دین اور جاہل ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا۔ آزاد بن حیدر نے پوری تفصیل درج کی ہے کہ کس کس طرح قائد اعظم کی مخالفت کی گئی اور جب پاکستان وجود میں آگیا تو نظریہ پاکستان کے خالق بن گئے۔
قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں کو حق کی راہ میں بے شمار مشکلات جھیلنی پڑیں لیکن اللہ کی مدد اور نصرت ساتھ تھی تو مخالفت کے باوجود ایک اسلامی ملک دنیا کے نقشے پر طلوع ہوا، اور آج ہم سب تحفظ، آزادی جیسے انمول خزانے کے حق دار بنے بیٹھے ہیں، الحمدللہ ۔آزاد بن حیدر کو اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب عطا فرمائے انھوں نے ساری عمر کام اور کام کیا۔ ان کی پیدائش سیالکوٹ کی تھی انھیں اس بات پر فخر تھا کہ وہ شہر اقبال میں پیدا ہوئے تاریخ 2 جنوری 1932 تھی اور وقت صبح صادق۔ ان کی صاحبزادی ایڈووکیٹ خولہ سے آزاد صاحب کے حوالے سے گفتگو ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ والد صاحب کا جس وقت انتقال ہوا فجر کا وقت تھا، فضا میں اذانوں کی آوازیں گونج رہی تھیں جب کہ کورونا وائرس چل رہا ہے، ان حالات میں بھی ان کے غسل و کفن اور تدفین میں قدرت کی طرف سے بے شمار سہولتیں میسر آئیں۔
''بقلم خود'' تقریباً 700 صفحات کا احاطہ کرتی ہے۔ مصنف کی ذاتی زندگی، والدین، بہن بھائی، مختلف علاقوں میں سکونت، تعلیمی سلسلہ، تحریک پاکستان میں شمولیت، سیاسی قائدین کے خوفناک بیانات اور ارادے، غرض جدوجہد آزادی اور پاکستان کے تلخ اور دل دہلا دینے والے انکشافات نے اس کتاب کو علمیت کے اعتبار سے وقیع کردیا ہے۔ ساتھ ہی تاریخ، ادب اور سیاسی قائدین کی رنگین تصاویر کے ذریعے قارئین کے لیے ایک سچی، جامعہ اور مدلل کہانی پیش کردی گئی ہے۔ اس کتاب کی نظرثانی پروفیسر خیال آفاقی نے کی ہے قائد اعظم رائٹرزگلڈ میں مصنف کا نمایاں کردار رہا ہے۔ اس تنظیم کے بانی جلیس سلاسل ہیں جو کئی اہم کتابوں کے مصنف اور ممتاز صحافی ہیں۔