مہنگائی پر کنٹرول کیوں نہیں ہوتا
بڑے بڑے اجلاس ، مارکیٹوں کے دورے کرنا، ریٹ لسٹ بنانا ، مارکیٹ میں دوکانوں پر ریٹ لسٹ چسپاں کرنا وغیرہ وغیرہ
یوں تو مہنگائی کا رونا دنیا بھر میں زمانہ قدیم سے موجود رہا ہے مگر ہمارے ملک میں یہ مسئلہ کچھ زیادہ ہی شدید رہا ہے خاص طور پر رمضان کے ماہ ِ مقدس کے دوران تو جیسے تاجروں کو بے جا مہنگائی کرنے کا لائسنس مل جاتا ہے اور وہ ناجائز منافع خوری کو اپنا حق سمجھتے ہوئے بلا کسی روک ٹوک کے اشیاء کے دام بڑھاتے ہی چلے جاتے ہیں۔
محکمہ شماریات کی گذشتہ ہفتے کی رپورٹ کے مطابق دودھ ، دہی ، چاول ، آلو ، دالیں اور مرغی سمیت اشیائے خورد و نوش کی 13چیزوں کے نرخ میں بے تحاشہ اضافہ نظر آیا ۔ حالانکہ پاکستان کی پہچان بنیادی طور پر زرعی ملک کی ہے ۔ یہاں بڑے پیمانے پر گندم ، چاول ، گنا، سویا بین ، سبزیاں اور پھل کی پیداوار ہوتی ہے (یہاں تک کہ بیرون ملک ایکسپورٹ بھی کی جاتی ہے ) ، تو کسی حد تک دالیں اور مصالحے وغیرہ کی پیداوار بھی ہوتی ہے لیکن اُس کے باوجود یہاں اکثر و بیشتر آٹے اور چینی جیسی بنیادی چیزیں بھی غریب و نچلے طبقے کے لوگوں کو تو چھوڑیں ، متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی دور ہوجاتی ہیں۔
ایسا بھی نہیں کہ ملک میں ان اشیاء کی پیداوار میں کوئی کمی آگئی ہے یا ہمارے یہاں ان چیزوں کو محفوظ کرنے کے لیے ذخیرہ کاری کا انتظام نہیں ہے بلکہ دونوں ہی باتوں میں ہم خود کفیل ہیں لیکن یہاں ذخیرہ کاری کی جگہ ذخیرہ اندوزی عام ہے ۔ یہاں منافع کی جائز و ناجائز شرح کی مانیٹرنگ اور روک تھام کا کوئی مؤثر انتظام نہیں ہے ۔ یوں تو ملک میں پرائس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ بھی ہے تو یونین کونسل سطح پر مارکیٹ کمیٹیاں بھی ہیں اور وہ سب مسلسل فعال بھی رہتی ہیں ۔
بڑے بڑے اجلاس ، مارکیٹوں کے دورے کرنا، ریٹ لسٹ بنانا ، مارکیٹ میں دوکانوں پر ریٹ لسٹ چسپاں کرنا وغیرہ وغیرہ ۔ یعنی وہ سب کام کرتی ہیں لیکن نہیں کرتیں تو بس نرخوں پر کنٹرول پر سختی سے عمل کروانے کا کام نہیں کرتیں ۔ جس کی بنیادی وجہ ان کا خود بدعنوان ہونا ہے ۔ مارکیٹ کے دورے کے دوران اُن کی توجہ ریٹ لسٹ کے مطابق نرخوں پر عمل کروانے کے بجائے ناجائز منافع خور دوکانداروں سے حصہ بٹورنے پر ہوتی ہے ۔جہاں بڑے عملداران بڑے بڑے سپر اسٹورز و ہول سیلرز سے معاملات طے کرتے نظر آتے ہیں ، وہیں چھوٹے ملازمین کے گھر کے کچن کی تمام ضرورتیں مفت پوری کرنے کے لیے مرغی و گوشت کی دوکان سے لے کر پرچون کی دوکانوں تک سارے پابند ہوتے ہیں ۔
وزیر اعظم سے صوبائی وزراء تک ذخیرہ اندوزی کرنیوالوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف کارروائی کے اعلان کرتے نظر آتے ہیں اور عملداروں کو سخت ہدایات کرتے رہتے ہیں لیکن عملی طور پر گراؤنڈ پر کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس کی ایک وجہ کابینہ اراکین کی انتظامی اُمور پر فنی و ماہرانہ دسترس نہ ہونا ہے جب کہ اس کی بڑی وجہ ملکی نظام کی وہ تشکیل ہے جس میں بیوروکریسی کو فیصلوں میں فوقیت حاصل ہے ۔ ملک میں عوام کے سامنے ہر وقت جوابدہ رہنے والے وزیر کا کردار صرف سمری پر نوٹ لگانے اورزبانی ہدایات( جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی) دینے تک محدود ہے جب کہ قانون نافذ کرنے اور اُس پر عملدرآمد کرنے کے اختیارات ڈپارٹمنٹ کے سیکریٹری کے پاس ہیں ۔ اس کے درست یا غلط ہونے پر اگر بحث نہ بھی کی جائے تو بھی دونوں صورتوں میں بنیادی طور پر ان سب اُمور کے ذمے دار سرکاری عملداران یعنی بیورو کریسی ہے ، جو قانونی ڈرافٹ تیار کرنے سے قانون نافذ کروانے اور اُس کی مانیٹرنگ کے فرائض سرانجام دیتے ہیں ۔
پھر نظام کا ایک Failure یہ بھی ہے کہ ملکی تجارتی پالیسیاں بنانے والوں میں اکثر وبیشتر تاجروں کے نمائندے ہوتے ہیں یا پھر تاجروں کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے ، جو کہ ایسا ہے ، جیسے چوری روکنے کے لیے چوروں سے مشورے طلب کرنا ۔ریاست یا حکومت کا بنیادی کام عوام کو جانی و مالی تحفظ کی فراہمی کے ساتھ ساتھ بہترین و معیاری زندگی کی وہ تمام تر سہولیات فراہم کرنا بھی ہے ۔ جن میں اولیت غذائی تحفظ اور اشیائے خوردو نوش تک سستے نرخوں پر آسان رسائی کو حاصل ہے ۔ یعنی سرکار کا ہر عمل عوام کی سہولت کے لیے اور ریاست کے تمام اُمور میں عوام کو ہی فوقیت حاصل ہونی چاہیے ۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے ۔ ہوسکتا ہے قانونی کتابوں اور دستاویزات میں یہی لکھا ہو ( اور کسی حد تک ایسا ہے بھی ) مگر عملاً ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔
یہاں سب سے پہلے سرکار اور اُس کے عملداران کی اولیتیں دیکھی جاتی ہیں ، اُس کے بعد مختلف شعبوں کی یونینز کی شکل میں موجود مافیاؤں کے مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے اور پھر آخر میں عوام کا سوچا جاتا ہے ، اور وہ بھی اس لیے کہ کیسے اپنے ان مشترکہ گروہی مفادات پر مبنی پالیسیوں پرعوام کو عمل کرنے کا پابند کیا جائے ؟
ہمارے ملک میں دیکھا گیا ہے کہ بیوپاری و دوکاندار ملک میں ''طلب و رسد '' کا توازن خراب کرکے مارکیٹ کو غیر متوازن کرکے اپنے مذموم مقاصد پورے کرتے ہیں اور انتظامیہ معاشی دہشت گردی کو روکنے کے بجائے عوام کے اطمینان کے لیے سطحی سے اقدامات کرتی ہے جب کہ پس پردہ وہ تاجروں کی اُس لوٹ مار میں سہولت کار کے فرائض سرانجام دیتی رہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت کے اعلانات کا کوئی اثر ہوتا دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی صوبائی حکومتیں مہنگائی روکنے کا کوئی طریقہ کار تشکیل دے سکتی ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ کچھ دوکانوں اور گوداموں پر چھاپے (وہ بھی پسند ناپسند کی بنیاد پر ) مارکر اُن پر کچھ جرمانہ عائد کیا جاتا ہے اور پھر وہی دوکان، وہی دوکاندار اور وہی کاروبار ، 'جوں کا توں' چلتا ہی رہتا ہے بلکہ اس جرمانے کا حساب بھی عوام سے ہی نکال لیا جاتا ہے ، بالکل اسی کہاوت کی طرح کہ ''تِلوں کا تیل تو تِلوں سے ہی نکلتا ہے ناں''۔۔!
ایک طرف تو ہمارا ملک عیدا الاضحی پر جانوروں کی قربانی کرنے ، حج و عمرے کرنے اور روزے رکھنے وغیرہ میں سب سے آگے ہے لیکن انھی روزوں کے مقدس ماہ میں مہنگائی بالخصوص اشیائے خورد و نوش کے نرخ بڑھانے میں بھی دنیا بھر سے آگے ہے ۔ دنیا میں جہاں کینیڈا ، ڈنمارک ، نیوزی لینڈ اور جرمنی جیسے غیر مسلم ممالک مسلمانوں کے اس ماہ ِ مقدس میں اشیاء کے نرخ کم کرنے کے خصوصی پیکیجز دیتے نظر آتے ہیں،یہاں تک کہ یہودی بھی اپنی پروڈکٹ پر رمضان پیکیج دیکر نرخ کم کردیتے ہیں وہیں ہم خود کو اشرف المخلوقات میں سے بھی سب سے افضل یعنی '' مسلم ایمان کے حامل'' تصور کرنے والے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کرنا اپنا حق اور شاید اپنا ایمان سمجھتے ہیں ۔
موجودہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان اپنے حکومتی قیام سے بارہا یہ اعلان کرچکے ہیں کہ ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزی کرنیوالوں کو کسی صورت بخش نہیں کیا جائے گا ۔لیکن ابھی وہ کوئی حکمت عملی اور کوئی طریقہ کار بنا ہی نہ پائے تھے کہ منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کی مافیا نے وزیر اعظم کے اپنے ہی وزیروں مشیروں کواپنے ساتھ ملاکر اُن کو ہی داغدار کرکے اُن کے سامنے کردیا اور وزیر اعظم بے چارے ہکا بکا ہوکر سر کھجاتے رہ گئے ۔
کراچی میں صارفین کی جانب سے اورصارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم کنزیومر رائٹس پروٹیکشن کونسل آف پاکستان کی مسلسل شکایات پرسندھ حکومت کے ماتحت بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز کے عملداروں نے نئی سبزی و پھل منڈی کا دورہ کیا تو انتہائی حیرت انگیز حقائق سامنے آئے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کھیتوں و باغات سے منڈی تک سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں اس وقت 60%تک کمی دیکھنے میں آئی ہے ، ٹماٹر جو دو ماہ قبل 400روپے کلو فروخت ہورہا تھا وہ آج منڈی میں5روپے فی کلو تک بک رہا ہے لیکن یہ کمی صرف منڈی تک ہی محدود ہے ۔
عوام کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ پا رہا ، جس کی وجہ منڈی سے بروکر، اور بروکر سے ریٹیلر تک سطح پر موجود تاجر مافیا ہے جو رواں صدی کی کم ترین سطح پر سستے داموں سبزیاں و پھل خرید کر آسمان کو چھوتی قیمتوں میں فروخت کرکے راتوں رات لکھ پتی بلکہ کروڑ پتی بننے کے چکر میں ہیں جب کہ ہمیشہ کی طرح انتظامیہ کہیں نظر نہیں آرہی ۔ پھرملک میں تو پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں پر بھی شور برپا ہے ۔ کورونا کی وبائی صورتحال کے باعث عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں انتہائی نچلی سطح تک گرگئی ہیں ۔
امریکا میں تو پیٹرول کی ایک لیٹر خریداری پرپیسے لینے کے بجائے اوپر سے 37ڈالر دیے بھی جاتے ہیں ۔ ایسے میں ہمارے ملک میں اب بھی پیٹرول 80روپے فی لیٹر سے زیادہ قیمت پر بک رہا ہے جوکہ عوام کے ساتھ سراسر ظلم ہے ۔ حالانکہ ملکی ضرورتوں کا نصف پیٹرول ہماری اپنی آئل فیلڈوں سے نکلتا ہے ۔
ملک میں مہنگائی کا حالیہ دورانیہ کوئی اچانک بھی نہیں ہے بلکہ اس میں 80کے عشرے سے مسلسل تیزی سے اضافہ ہوتا آیا ہے لیکن جو مہنگائی کا طوفان گزشتہ دو برس سے برپا ہے اُس نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔
ابھی رواں سال کے جنوری میں ہی 60%تک بڑھی ہوئی مہنگائی کی شرح کو تسلیم کرتے ہوئے اکنامک انٹیلی جنس یونٹ یہ دعوے کرتا نظر آیا تھا کہ مہنگائی کی اس شرح میں کمی نہیں آ پائے گی بلکہ اس سے بھی قبل ستمبر 2019میں ایشن ڈویلپمنٹ بینک نے ہی مذکورہ 60%تک مہنگائی کی شرح ہونے کی پیش گوئی کی تھی لیکن ہم نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور مہنگائی پر کنٹرول کے تناظر میں کوئی مثبت معاشی اقدامات نہیں کیے ، بس وزیر خزانہ کی تبدیلی اور قرضوں میں اضافے کو ہی تدارک جانا اور یہ سب حکومت کی اس معاشی ٹیم کی کارستانی ہے جو عوام تو چھوڑیں خود حکومت کو بھی گمراہ کرتے رہے ہیں اور جس پر وزیر اعظم کابینہ اجلاسوں کے دوران بارہااپنی معاشی ٹیم پر تنقید کرتے ہوئے اپنی برہمی کا اظہار کرچکے ہیں ۔ اب مہنگائی پر کنٹرول پر بے بسی کے اس عالم کے بعد بھلا عوام کیا اُمید رکھے ؟
لیکن آئینی و قانونی لحاظ سے عوام کومہنگائی کے اس عذاب سے نجات دلانا خصوصاً اشیائے خورد و نوش کی جائزقیمتوں میں فراہمی کو یقینی بنانا حکومت کا اولین فرض ہے ، مگرفرض کو ہم صرف ''فرض نمازوں '' تک ہی سمجھ پائے ہیں ۔ تو فرض و ذمے داریوں کی باتیں چھوڑ کر حکومت اقتداری مسند پر اپنے قائم رہنے کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے ہی یہ کام کرے ، تو بھی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام اور مفلسی و غریبی کے باعث خورد و نوش کی اشیاء تک دسترس نہ رکھنے والے لوگوں کو کچھ عزت سے خرید کر کھانے کا موقع میسرآجائے گا۔