اغوا کا ڈرامہ رچانے والا چینی باشندہ کے پی کے سے بازیاب
کراچی پولیس کی بروقت کارروائی نے بھانڈا پھوڑ دیا، ملزم کا ویزہ ختم اور کئی افراد کا مقروض تھا
کہتے ہیں کہ جھوٹ اور دھوکہ دہی کسی بھی معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں، پھر اس معاشرے میں انسان بچتا ہے نہ انسانیت، لوگ اپنے چھوٹے سے فائدہ کے لئے کسی کا بڑا نقصانے کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے یعنی اپنی جھونپڑی کے لئے کسی کے محل کو آگ لگانا معمولی بات بن چکا ہے، جو بلاشبہ ایک نہایت غلط رجحان ہے، لیکن افسوس! کہ پاکستانی معاشرے میں جھوٹ اور دھوکہ دہی اتنی عام ہو گئی ہے کہ اب تو وہ غیر ملکی بھی، جن کے ممالک میں جھوٹ اور دھوکہ دہی جیسے جرائم کا وجود ہی نہیں یا وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں، ان جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں، جس کی ایک واضح مثال ہمیں کراچی میں اس وقت ملی جب ایک چینی باشندے نے اپنے اغوا کا ڈرامہ رچا دیا، تاہم پولیس نے چینی باشندے کی نہ صرف یہ کوشش ناکام بنائی بلکہ حقائق بھی سامنے لے آئی کہ ایسا کیوں کر کیا گیا۔
ساؤتھ زون پولیس نے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اغوا کا ڈرامہ رچا کر زمینی راستے چین جانے کی کوشش کرنے والے چینی باشندے ووچینگ کو خیبر پختونخوا سے بحفاظت بازیاب کرایا۔ چینی باشندے کے مبینہ اغوا کی اطلاع پر پولیس کے اعلیٰ افسران میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی، جو بلاشبہ ایک فطری عمل تھا کیوں کہ چینی سمیت ہر غیر ملکی ہمارا مہمان ہے اور مہمان کے ساتھ ایسا سلوک بحیثیت قوم ہمارے منہ پر طمانچہ کے مترادف ہے۔
واقعہ کی اطلاع پر کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن نے فوری طور پر ڈی آئی جی ساؤتھ شرجیل کھرل سے رابطہ کیا اور چینی باشندے کو بازیاب کرنے کا ٹاسک دیا، جس پرڈی آئی جی ساؤتھ نے ایس ایس پی ساؤتھ شیراز نذیر اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن امیر سعود مگسی سمیت دیگر پولیس افسران پر مشتمل ایک خصوصی ٹیم تشکیل دے کر انہیں سخت احکامات جاری کر دیئے۔
چینی باشندے ووچینگ کی جانب سے اغوا کا ڈرامہ گزشتہ ماہ 21 اپریل کو اس وقت سامنے آیا جب ووچینگ کے دوست وانگ وے نے رات ساڑھے بارہ بجے پولیس کو اطلاع دی کہ ووچینگ دوستوں سے ملنے کے لیے رینٹ اے کار کی گاڑی میں گھر سے باہر گیا تھا اور تاحال واپس نہیں آیا جبکہ اس کی کار مین خیابان اتحاد راحت پارک کے قریب لاوارث حالت میں کھڑی ملی ہے۔
واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس کے افسران نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر حالات کا جائزہ لیا اور بعدازاں چینی باشندے کے اغوا کا مقدمہ گزری تھانے میں درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ تحقیقات کے دوران پولیس کو معلوم ہوا کہ چینی باشندہ ووچینگ 25 فروری کو کاروبار کی غرض سے پاکستان آیا تھا اور اپنے چائنیز دوست وانگ وے کے گھر ڈیفنس میں اس کے ہمراہ رہائش پذیر تھا ، پولیس کی خصوصی تفتیشی ٹیم نے ابتدائی طور پر مغوی کے تمام دوستوں اور ملنے جلنے والوں سے رابطہ کیا اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے 72 گھنٹوں میں ہی مغوی چینی باشندے کا سراغ لگا لیا، مغوی کی لوکیشن خیبر پختونخوا کے علاقے لوئر دیر میں آئی، جس پر پولیس نے فوری طور پر کے پی کے پولیس کے اعلیٰ افسران سے رابطہ کر کے انھیں صورتحال سے آگاہ کیا جس پر کے پی کے کی مقامی پولیس نے کامیاب کارروائی کرتے ہوئے چینی باشندے ووچینگ کو اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا۔
جسے بعدازاں 27 اپریل کو ساؤتھ زون پولیس کے پی کے پولیس سے اپنی تحویل میں لے کر کراچی آگئی۔ پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ چینی باشندے کے ویزے کی معیاد ختم ہوگئی تھی اور وہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم تھا جبکہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ وہ اپنی مرضی سے زمینی راستے چین واپس جانا چاہتا تھا، چینی باشندہ کئی افراد کا مقروض تھا اور قرض کی واپسی کے لیے بھی پریشان تھا، جس پر اس نے اپنے اغوا کا ڈرامہ رچا کر بھاگنے کی کوشش کی۔ ووچینگ نے مجسٹریٹ کے سامنے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ اسے کسی نے اغوا نہیں کیا تھا، جس پر عدالت نے پولیس کو قانونی کارروائی کا حکم دیا تو گزری پولیس نے چینی باشندے کے خلاف فارن ایکٹ کے تحت غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم رہنے کا مقدمہ درج کر کے مزید قانونی کارروائی کے لیے ایف آئی اے حکام کے حوالے کر دیا۔
ساؤتھ زون پولیس کی بروقت اور نتیجہ خیز کارروائی کے دوران چینی باشندے کی بازیابی پر چائنیز قونصلیٹ کی جانب سے بھی پولیس کے کام کی تعریف کی گئی اور ساؤتھ پولیس کی کارکردگی کو سراہا گیا جبکہ کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن نے بھی چینی باشندے کی بحفاظت بازیابی اور اغوا کے ڈراپ سین پر ساؤتھ زون پولیس کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ پولیس پیشہ وارانہ مہارت اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو بروئے کار لاتے ہوئے مشکل سے مشکل ٹاسک کو بھی احسن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچا سکتی ہے، جس کا منہ بولتا ثبوت چینی باشندے کی بحفاظت بازیابی ہے۔ کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس سے چینی باشندے کے اغوا کا واقعہ پولیس کے لیے کسی چینلج سے کم نہیں تھا جس کی وجہ ڈیفنس کے پوش علاقے سے 2 نوجوان لڑکیوں دعا منگی اور بسمہ کے اغوا برائے تاوان کے 2 واقعات نے پولیس کی کارکردگی پر کئی سوالیہ نشان لگائے تھے اور یہ دونوں واقعات درخشاں تھانے کی حدود میں پیش آئے تھے۔
بسمہ کو گزشتہ سال مئی میں خیابان سحر میں واقعے گھر کے باہر سے اغوا کیا گیا تھا جبکہ دعا منگی کو بھی گزشتہ سال 30 نومبر کی شب ڈیفنس کے علاقے سے اغوا کیا گیا تھا تاہم پولیس نے کئی ماہ کی سر توڑ کوششوں کے بعد اغوا برائے تاوان میں ملوث ایک گروہ کا سراغ لگا لیا جو کہ دعا منگی اور بسمہ کے اغوا میں ملوث تھا ، پولیس نے گروہ میں شامل 4 اغوا کاروں کو گرفتار کرلیا جبکہ گروہ کے ماسٹر مائنڈ برطرف پولیس اے ایس آئی آغا منصور کو پولیس تلاش کر رہی ہے۔
ساؤتھ زون پولیس نے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اغوا کا ڈرامہ رچا کر زمینی راستے چین جانے کی کوشش کرنے والے چینی باشندے ووچینگ کو خیبر پختونخوا سے بحفاظت بازیاب کرایا۔ چینی باشندے کے مبینہ اغوا کی اطلاع پر پولیس کے اعلیٰ افسران میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی، جو بلاشبہ ایک فطری عمل تھا کیوں کہ چینی سمیت ہر غیر ملکی ہمارا مہمان ہے اور مہمان کے ساتھ ایسا سلوک بحیثیت قوم ہمارے منہ پر طمانچہ کے مترادف ہے۔
واقعہ کی اطلاع پر کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن نے فوری طور پر ڈی آئی جی ساؤتھ شرجیل کھرل سے رابطہ کیا اور چینی باشندے کو بازیاب کرنے کا ٹاسک دیا، جس پرڈی آئی جی ساؤتھ نے ایس ایس پی ساؤتھ شیراز نذیر اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن امیر سعود مگسی سمیت دیگر پولیس افسران پر مشتمل ایک خصوصی ٹیم تشکیل دے کر انہیں سخت احکامات جاری کر دیئے۔
چینی باشندے ووچینگ کی جانب سے اغوا کا ڈرامہ گزشتہ ماہ 21 اپریل کو اس وقت سامنے آیا جب ووچینگ کے دوست وانگ وے نے رات ساڑھے بارہ بجے پولیس کو اطلاع دی کہ ووچینگ دوستوں سے ملنے کے لیے رینٹ اے کار کی گاڑی میں گھر سے باہر گیا تھا اور تاحال واپس نہیں آیا جبکہ اس کی کار مین خیابان اتحاد راحت پارک کے قریب لاوارث حالت میں کھڑی ملی ہے۔
واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس کے افسران نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر حالات کا جائزہ لیا اور بعدازاں چینی باشندے کے اغوا کا مقدمہ گزری تھانے میں درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ تحقیقات کے دوران پولیس کو معلوم ہوا کہ چینی باشندہ ووچینگ 25 فروری کو کاروبار کی غرض سے پاکستان آیا تھا اور اپنے چائنیز دوست وانگ وے کے گھر ڈیفنس میں اس کے ہمراہ رہائش پذیر تھا ، پولیس کی خصوصی تفتیشی ٹیم نے ابتدائی طور پر مغوی کے تمام دوستوں اور ملنے جلنے والوں سے رابطہ کیا اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے 72 گھنٹوں میں ہی مغوی چینی باشندے کا سراغ لگا لیا، مغوی کی لوکیشن خیبر پختونخوا کے علاقے لوئر دیر میں آئی، جس پر پولیس نے فوری طور پر کے پی کے پولیس کے اعلیٰ افسران سے رابطہ کر کے انھیں صورتحال سے آگاہ کیا جس پر کے پی کے کی مقامی پولیس نے کامیاب کارروائی کرتے ہوئے چینی باشندے ووچینگ کو اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا۔
جسے بعدازاں 27 اپریل کو ساؤتھ زون پولیس کے پی کے پولیس سے اپنی تحویل میں لے کر کراچی آگئی۔ پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ چینی باشندے کے ویزے کی معیاد ختم ہوگئی تھی اور وہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم تھا جبکہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ وہ اپنی مرضی سے زمینی راستے چین واپس جانا چاہتا تھا، چینی باشندہ کئی افراد کا مقروض تھا اور قرض کی واپسی کے لیے بھی پریشان تھا، جس پر اس نے اپنے اغوا کا ڈرامہ رچا کر بھاگنے کی کوشش کی۔ ووچینگ نے مجسٹریٹ کے سامنے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ اسے کسی نے اغوا نہیں کیا تھا، جس پر عدالت نے پولیس کو قانونی کارروائی کا حکم دیا تو گزری پولیس نے چینی باشندے کے خلاف فارن ایکٹ کے تحت غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم رہنے کا مقدمہ درج کر کے مزید قانونی کارروائی کے لیے ایف آئی اے حکام کے حوالے کر دیا۔
ساؤتھ زون پولیس کی بروقت اور نتیجہ خیز کارروائی کے دوران چینی باشندے کی بازیابی پر چائنیز قونصلیٹ کی جانب سے بھی پولیس کے کام کی تعریف کی گئی اور ساؤتھ پولیس کی کارکردگی کو سراہا گیا جبکہ کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن نے بھی چینی باشندے کی بحفاظت بازیابی اور اغوا کے ڈراپ سین پر ساؤتھ زون پولیس کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ پولیس پیشہ وارانہ مہارت اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو بروئے کار لاتے ہوئے مشکل سے مشکل ٹاسک کو بھی احسن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچا سکتی ہے، جس کا منہ بولتا ثبوت چینی باشندے کی بحفاظت بازیابی ہے۔ کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس سے چینی باشندے کے اغوا کا واقعہ پولیس کے لیے کسی چینلج سے کم نہیں تھا جس کی وجہ ڈیفنس کے پوش علاقے سے 2 نوجوان لڑکیوں دعا منگی اور بسمہ کے اغوا برائے تاوان کے 2 واقعات نے پولیس کی کارکردگی پر کئی سوالیہ نشان لگائے تھے اور یہ دونوں واقعات درخشاں تھانے کی حدود میں پیش آئے تھے۔
بسمہ کو گزشتہ سال مئی میں خیابان سحر میں واقعے گھر کے باہر سے اغوا کیا گیا تھا جبکہ دعا منگی کو بھی گزشتہ سال 30 نومبر کی شب ڈیفنس کے علاقے سے اغوا کیا گیا تھا تاہم پولیس نے کئی ماہ کی سر توڑ کوششوں کے بعد اغوا برائے تاوان میں ملوث ایک گروہ کا سراغ لگا لیا جو کہ دعا منگی اور بسمہ کے اغوا میں ملوث تھا ، پولیس نے گروہ میں شامل 4 اغوا کاروں کو گرفتار کرلیا جبکہ گروہ کے ماسٹر مائنڈ برطرف پولیس اے ایس آئی آغا منصور کو پولیس تلاش کر رہی ہے۔