کورونا اور انسانیت کے مشترکہ مقاصد

حالات اس نہج پر پہنچائے جارہے ہیں کہ انسانیت کی مشترک اقدار تباہی کے دہانے پر آجائیں

کورونا وائس کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی دنیا کے مختلف علاقوں میں نسلی منافرت اور تؑعصبات کی آندھی چلی ہے فوٹو: فائل

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ ملک میں کورونا کے کیسز اور اموات بڑھ رہی ہیں لیکن لوگوں سے ان کا روزگار نہیں چھینا جا سکتا۔ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے انھوں نے کہا ہر روز ٹیسٹنگ کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، گزشتہ روز ساڑھے تیرہ ہزار کورونا ٹیسٹ کیے گئے۔

ملک بھر میں 70 لیبارٹریاں ٹیسٹ کر رہی ہیں۔ بڑے فیصلے ہو چکے، اب عمل درآمد کا مرحلہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی، لاہور اور پشاور میں کورونا کیس بڑھ رہے ہیں۔ ہمیں زندگی کا پہیہ چلانے کے ساتھ ساتھ وبا سے اپنی حفاظت بھی کرنی ہے۔ پورا ملک بند کرنے کے بجائے متاثرہ علاقوں کو بند کیا جائے گا۔ اسمارٹ لاک ڈاؤن کے نظام نے کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہمیں نشاندہی کرنی ہے کس علاقے میں کیس زیادہ ہیں اور وائرس پھیل رہا ہے۔

لاک ڈاؤن میں نرمی کرکے حکومت نے صائب فیصلہ کیا ہے، عوام نے اسے حقیقت پسندانہ اقدام قرار دیا ہے تاہم نرمی سے تساہل اور تن آسانی کا کوئی پہلو سامنے نہیں آنا انھوں، اب قوم بھی اپنی خرید وفروخت کے سابقہ فرسودہ کلچر کو خیرباد کہے، رات بھر شاپنگ اور دن بھر سونے کی عادت سے جان چھڑائے، نئے عہد کے تقاضوں کا ادراک کرتے ہوئے شہریوں کو معمولات زندگی میں باقاعدگی لانی پڑیگی، لاک ڈاؤن میں نرمی سے عبوری مشکلات ضرور ہونگی مگر صبروتحمل، شہریت کے احساس اور ایس او پیز پر عملدرآمد میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم ایک نئے سماجی، معاشی، اور صحت سسٹم کی روایت ڈالنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔

کورونا کے پیدا کردہ مسائل بے شمار ہیں، صحت کے ملکی نظام کے بکھرے انفرا اسٹرکچر کو منظم طریقے سے سمیٹنے، بیروزگاری، مہنگائی اور اعصابی اضمحلال سے چھٹکارہ پانے کے لیے لاک ڈاؤن اور کورونا کے نئے چیلنجز سے نمٹنا اہل وطن کے لیے تو ایک نیا تجربہ ہوگا مگر وقت نے ثابت کیا ہے کہ جب بھی آزمائش کی گھڑی آئی تو قوم تعمیر وطن میں قربانی اور ایثار میں کبھی پیچھے نہیں رہی۔

یہ حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر کورونا وائرس نے لاک ڈاؤن میں نرمی کی متفرق پیش رفتوں کے ساتھ ہی دوبارہ سر اٹھایا ہے، عالمی ادارہ صحت نے کہا کہ کورونا وائرس ویکسین2021 تک تیار نہیں ہوسکتی، ماہرین صحت پہلے سے اندیشہ ظاہر کر رہے تھے کہ کورونا سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاؤن میں عجلت نہیں کرنی چاہیے، اس سے معاملات بگڑ سکتے ہیں، مگر حکومت کی رائے اور اس کا استدلال بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ طویل لاک ڈاؤن ممکن نہیں، معاشی صورتحال اس کی متحمل نہیں ہوسکتی، یوں پیر کو ملک بھر میں لاک ڈاؤن کھولنے کا فیصلہ کیاگیا۔

لیکن صورتحال افقی و عمودی طور پر خاصی پریشان کن ہے، میڈیا کے مطابق چین، جنوبی افریقہ اور ایران میں کورونا کیسز میں اضافہ ہوا ہے، جرمنی،آسٹریلیا اور سوئٹزر لینڈ میں شہریوں نے لاک ڈاؤن ختم نہ کرنے پر احتجاجی مظاہرے کیے، فرانس، نیندرلینڈ اور اسپین میں آج سے مزید پابندیاں نرم کی جارہی ہیں، برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے لاک ڈاؤن میں یکم جون تک توسیع کرنے کا اعلان کیا ہے، روس میں مزید 10ہزار کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، تعداد 2 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، بھارت میں آج سے ریلوے کی جزوی بحالی کا اعلان ہوا ہے، دنیا بھر میں کورونا وائرس کے 41 لاکھ مریض ہیں۔

ارباب اختیار کو کیسز میں اضافہ تشویش بھی ہے اور اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ لاک ڈاؤن کھولنے کا حکومت نے کوئی لائسنسں جاری نہیں کیا بلکہ یہ آزادی مشروط ہے، یہ عوام کے گہرے شعور، فرض شناسی، قومی ذمے داری اور کورونا کی لائی ہوئی بندشوں کو صدق دل سے قبول کرنے سے عبارت ہے، سماجی فاصلہ برقرار رکھنا، ماسک پہننا، اس کی ethics کا خیال کرنا اور بازاروں میں ہجوم اکھٹا کرنے سے گریز کو لازماً اپنے رویے میں شامل کرنا ہے۔

حکومتی ہدایات کے تحت پنجاب میں 359 مقامات جب کہ خیبر پختونخوا کے177علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی کے مطابق اسپتالوں میں بستروں کی کمی نہیں ہے، کورونا سے متعلق صحت کے ڈیٹا کے لیے ایک پورٹل بن چکا ہے، پنجاب حکومت نے کورونا سے متعلق ایپ تیار کر لی ہے، ایپ سے شہری معلوم کر سکیں گے انھیں کس اسپتال جانا ہے جب کہ ٹیکنالوجی کے ذریعے وائرس ہاٹ اسپاٹس کی نشاندہی کرلی گئی۔ اسد عمر نے کہا کہ لاڑکانہ، کوئٹہ میں بھی کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔


ایسے نظام کی ضرورت ہے کہ معیشت کا پہیہ بھی چلے اور لوگوں کا تحفظ بھی ہو، انھوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ کورونا علامات پر ٹیسٹ کرائیں یہ سب کے لیے ضروری ہے۔ تمام اقدامات ایک طرف، کورونا کی روک تھام ہر شخص کی انفرادی ذمے داری ہے۔ حکومت غیر معینہ مدت کے لیے لاک ڈاؤن نافذ نہیں کر سکتی کیونکہ اس کے کم آمدنی والے طبقے پر تباہ کن اثرات سامنے آئیں گے۔ علاوہ ازیں این سی او سی کا اجلاس اسد عمر کی صدارت میں ہوا۔ معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹرکو بتایا کہ وائرس سے بچاؤ کے لیے سپرے کے طریقہ کار اور مقامات کے تعین کے لیے کوئی مناسب حکمت عملی نہیں ہے، اس سلسلے میں رہنما اصول وضع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

کاروبارحفاظتی قواعد و ضوابط کے تحت بلاشبہ آج سے کھل گئے ہیں تاہم بڑے تجارتی مراکز، ریستوران، شادی ہال، تفریحی مقامات، پروازیں اور پبلک ٹرانسپورٹ وغیرہ بدستور بند رہے گی۔ وفاقی دارالحکومت میں لاک ڈاؤن میں 31 مئی تک توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا، جس کے مطابق پہلے مرحلے میں تعمیراتی شعبہ کھول دیا گیا، اسٹیل، پلاسٹک پائپ، الیکٹرونک آلات، پینٹ انڈسٹری کھولی گئی، سینٹری ورکس اور ہارڈ ویئر کی دکانیں صبح 9 سے شام 5 بجے تک 5 دن کھولنے کی اجازت ہوگی۔ پارکس، پولو کلب، ٹینس کورٹ بھی ایس او پیز پر عمل درآمد کرتے ہوئے کھولے جاسکیں گے۔

جنرل اسٹورز، بیکری، آٹا چکی، ڈیری شاپس،گوشت، فروٹ شاپس، اور تندور7 دن کھلے رہیں گے۔ ٹائر پنکچر شاپس، ڈرائیور ہوٹل، پٹرول پمپ، ریسٹورنٹس 24 گھنٹے کھولے جا سکتے ہیں، پوسٹل کوریئرز، پک اینڈ ڈراپ سروس بھی اب کھل جائیں گی تاہم حجام کی دکانیں بند رہیں گی۔ ٹائیگر فورس اور رضا کاروں کو ایس او پیز کے ساتھ کام کرنے کی اجازت ہوگی۔ لاہور سمیت پنجاب بھر میں چھوٹی مارکٹیں، دکانیں اور مخصوص کاروبار کھل جائیں گے۔ ہفتے میں 4 دن صبح8 سے شام 5 بجے تک کاروبار کیا جاسکے گا۔ جمعہ، ہفتہ، اتوار مکمل لاک ڈاؤن ہوگا۔ کوشش ہونی چاہیے کہ فیصلوں میں کوئی ابہام سامنے نہ آئے۔

وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے تمام اداروں کو لاک ڈاؤن ایس اوپیز کی سخت نگرانی کی ہدایات جاری کی ہیں۔ حکومت سندھ نے کورونا وائرس کے باعث 49 روزہ لاک ڈاؤن کے بعد نرمی کرتے ہوئے مخصوص کاروبارکھولنے کی اجازت دے دی۔ سندھ اسمبلی میں تاجروں کے ساتھ خصوصی اجلاس بلایا گیا، وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے انھیں کورونا وائرس صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ لاک ڈاؤن کا مشکل فیصلہ وفاق اورصوبوں کا متفقہ تھا، تاہم کاروباری مشکلات سے بھی آگاہ ہیں لیکن عوام کی صحت اولین ترجیح ہے۔

ایس او پیز پر سختی سے عمل کیا جائے گا، انھوں نے کہا کہ تاجروں نے قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرتے ہوئے کہا یہ ہماری اور شہریوں کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ بلوچستان میں بھی لاک ڈاؤن کھولنے پر عوام نے مسرت کا اظہار کیا ہے۔ صوبوں میں کچھ عملی دشواریوں کی نشاندہی کی گئی ہے، امید ہے کہ حکام ''سموتھ سیلنگ'' کے لیے مزید اقدامات کو یقینی بنائیں گے، ضرورت اسٹیک ہولڈرز میں مستقل باہمی مشاورت کی ہے۔

بہر کیف یہ تو کورونا وائرس،لاک ڈاؤن میں ملک گیر بتدریج نرمی، عوامی ردعمل اور تعاون کی ملی جلی صورتحال ہے لیکن کورونا کا بین الاقوامی افق بھی خطرات سے خالی نہیں، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کورونا وائس کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی دنیا کے مختلف علاقوں میں نسلی منافرت اور تؑعصبات کی آندھی چلی ہے، انھوں نے کہا کہ کورونا کے بیچ نفرتوں کی سونامی نے انسانیت کو مضمحل کردیا ہے، صورتحال تشویشناک ہے، نفرت و دشمنی پر مبنی جرائم بڑھ رہے ہیں، اس منافرت کے بیج تو بہت پہلے سے بوئے گئے تھے، جس میں اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں نے مقبولیت کی خاطر انسانوں کو تقسیم کیا، پھر لوگوں نے اس کو نسل پرستی اور جنون کا نام دیا،گوتریس کے مطابق خصوصی طور پر چین میں ایشائی نژاد تارکین وطن کو زبانی اور جسمانی طور پر نشانہ بنایاگیا۔

امریکا میں میانمار سے آئے ایک شخص کے دو بچوں کو ایک نوجوان نے چاقو سے زخمی کیا، جس کا خیال تھا کہ وہ کورونا یہاں لانے کے ذمے دار ہیں، آسٹریلیا میں ایک خاتون کو ویڈیو میں دکھایاگیا کہ وہ ہذیانی کیفیت میں دو بہنوں کو لاتیں مارتے ہوئے ان پر تھوک رہی ہے، انتونیو نے بتایا کہ اٹلی میں نسل پرستانہ نعرے راتوںرات نوشتہ دیوار نظر آئے، جب کہ ایک ویڈیو میں دکھایا گیا کہ ایک ایشائی جوڑے کا پیچھا کرتے ہوئے ایک شخص انھیں چیختا ہوئے ''گندے لوگو''کہہ کر نازیبا فقرے کس رہا ہے۔

دوسری جانب چین میں افریقی تارکین وطن کو طعنے دئے گئے کہ وہ کورونا پھیلانے کے ذمے دار ہیں، گوتریس نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کو شدید مذہبی منافرت، تضحیک اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ڈس انفارمیشن، جدید ٹیکنالوجی اور سازشی تھیوریز کے ذریعے حالات اس نہج پر پہنچائے جارہے ہیں کہ انسانیت کی مشترک اقدار تباہی کے دہانے پر آجائیں، انھوں نے کہا کہ ہوش سے کام لیا جائے کہیں دیر نہ ہوجائے۔ انتونیو گوتریس نے فکر انگیز بات کہی کہ کورونا وائرس نے انسانیت کو ایک موقع بھی دیا ہے اتحاد، اشتراک عمل اور انسانیت کی مشترک اقدار کو اپنانے کا۔ اب دیکھنا ہے کہ ان کی فریاد کہاں تک پہنچتی ہے؟
Load Next Story