اپنے مسائل ’’لائیو اسٹریم‘‘ نہ کریں
حیرت ہوتی ہے کہ چن چن کر انہی سابق کرکٹرز کو کیوں عہدے سونپے گئے جن کا ماضی انھیں آخری دم تک منفی خبروں میں رکھے گا
چیئرمین احسان مانی خود جسٹس قیوم رپورٹ کو ماننے سے انکار کر چکے فوٹو: فائل
مارچ کی بات ہے، ایک دن میں آفس میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ واٹس ایپ پیغام موصول ہوا،میں نے اسے پڑھا تو وہ ایک اسکرین شاٹ تھا، بغور دیکھنے سے علم ہوا کہ وہ جوئے کی ایک ویب سائٹ پر پی ایس ایل میچز پر شرطوں سے متعلق تھا، پھر ایک فون آیا، دوسری لائن پر پیغام بھیجنے والے میرے دوست تھے، انھوں نے معنی خیز لہجے میں کہا ''دیکھا میرا میسیج، پاکستان کی سپر لیگ میں یہ کیا ہو رہا ہے'' میں نے جواب دیا کہ جناب شرطیں تو کہیں بھی لگ سکتی ہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے، اس پر ان کی اگلی بات نے مجھے حیران کر دیا کہ ''جوئے کی یہ ویب سائٹ کھول کر دیکھو لائیو پی ایس ایل میچز دیکھائے جا رہے ہیں'' میں نے ان سے پوچھا کہ کیا پی سی بی کے دیگر افراد کو بھی اس کا علم ہے تو وہ کہنے لگے ''یہ تو تم خود معلوم کرو'' پھر انھوں نے فون رکھ دیا۔
اگلے دن میں نے سوچاکہ ملک میں اتنا بڑا ایونٹ چل رہا ہے، اگر میں نے یہ خبر شائع کی تو منفی اثر پڑے گا، یقیناً بورڈ کو بھی اس کا پتا چل ہی گیا ہوگا اور انھوں نے لائیو اسٹریمنگ رکوا دی ہو گی، چند روز بعد جب کورونا کے سبب ایونٹ کو ملتوی کر دیا گیا تو میں نے یہ خبر شائع کر دی،ایک ذمہ دار صحافی کی حیثیت سے پی سی بی کا موقف بھی لیا، کرکٹ کے حلقوں میں طوفان برپا ہونے پر بورڈکو وضاحت کرنا پڑی جس میں موقف اختیار کیا کہ ''ہم سے پوچھے بغیر میڈیا پارٹنر نے لائیو اسٹریمنگ حقوق بیٹنگ ویب سائٹ کو بیچے جس پر ایکشن لیتے ہوئے اسے نوٹس بھیج دیا گیا ہے''اس بات کو 50 روز بیت چکے ہیں مگر اب تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا، میں نے معاہدہ دیکھا تو پتا چلا کہ لائیو اسٹریمنگ میں جوئے کی تشہیر کے حوالے سے مشروط اجازت شامل ہے۔
شق نمبر 4.4 بی کے مطابق میچز میں بیٹنگ، گیمبلنگ، پریڈکشن گیمز اور سروسز کی پروموشن، اسپانسر شپ اور ایڈورٹائزنگ کی صرف اس صورت میں اجازت ہوگی اگر اس ملک کا قانون اسے نہ روکتا ہو، ایک طرف بورڈ کہہ رہا ہے کہ میڈیا پارٹنر نے اس سے پوچھے بغیر بیٹنگ کی ویب سائٹ کو حقوق بیچے دوسری جانب خود اپنے معاہدے میں جہاں بیٹنگ لیگل ہو وہاں تشہیر کی اجازت دے دی، یہ تو کھلا تضاد ہے، اس طرح اگر کل کوئی پاکستانی کرکٹر انگلینڈ میں شراب یا آسٹریلیا میں جوئے کے اشتہار میں کام کر لے کہ وہاں چونکہ یہ لیگل ہے اس لیے کر لیا تو کیا بورڈ اسے معاف کر دے گا، جہاں تک مجھے لگتا ہے ایسا پہلی بار نہیں ہوا لیکن میڈیا کو اب علم ہوا ہے۔
بورڈ سمجھتا ہو گا کسی کو کیا پتا چلے گا لیکن اب معاملہ الٹ ہو گیا، کورونا کے سبب حکومت اگر مصروف نہ ہوتی تو شاید اب تک کوئی ایکشن بھی لیا جا چکا ہوتا، اب سارا ملبہ میڈیا پارٹنر پر ڈالا جا رہا ہے لیکن کیا بورڈ آفیشل بری الزمہ ہیں؟ انھیں کیوں نہیں اس معاہدے کا علم ہوا؟ اب تک کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ پی ایس ایل لائیو اسٹریمنگ رائٹس کا کنٹریکٹ 10 لاکھ ڈالر (تقریباً 16 کروڑ پاکستانی روپے) کا ہے، اس میں سے آدھی رقم بورڈ کو مل بھی چکی ہو گی، اب اگر کنٹریکٹ ختم کیا تو اس میں کئی ایسے سقم ہیں جس کی وجہ سے میڈیا پارٹنر مسائل پیدا کر سکتا ہے، پھر یہ خدشات بھی حکام کے ذہنوں میں ہیں کہ مارکیٹ ویسے ہی عالمی وبا کی وجہ سے ڈاؤن ہے، اتنے پیسے اور کون دے گا؟ دوسری جانب میڈیا اور سابق کرکٹرز کی جانب سے کارروائی کیلیے دباؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
اگر پی سی بی نے کچھ نہ کیا تو ''زیرو ٹولیرنس'' پالیسی پر پھر سوال اٹھیں گے، پاکستان کرکٹ کے نئے میڈیا رائٹس بھی بیچنے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی کنسلٹنسی سروسز کی بڈ دستاویز میں بھی اہلیت کے معیارمیں ''جوئے کی ڈیل'' کا تجربہ شامل کرلیا گیا، بورڈ آفیشلزکے مطابق ''ایسا مستقبل میں کسی کنفیوڑن سے بچنے کیلیے کیا، میڈیا رائٹس گیملنگ کیلیے دستیاب نہیں ہیں''۔ سچ بتاؤں تو مجھے تو پورا پی سی بی ہی کنفیوڑ لگتا ہے، محسن خان، عامر سہیل اور شعیب اختر سمیت کئی سابق اسٹارز نے لائیو اسٹریمنگ تنازع پر سوال اٹھائے لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
ان دنوں لاک ڈاؤن کے سبب دنیا گھروں میں محدود ہے، مگر پاکستان کرکٹ مسلسل منفی خبروں کی زد میں ہے، چاہے وہ نائنٹیز کا فکسنگ پنڈورا باکس دوبارہ کھلنا، شعیب اختر کیخلاف بورڈ کے قانونی مشیر کا نوٹس یا عمر اکمل کیس جو بھی خبر ہو، افسوس اس بات کا ہے کہ حکام نے تمام معاملات پر خاموشی اختیار کر لی، فکسنگ ایشو پر یہ کہہ کر بات نہیں کی جاتی کہ ماضی کا قصہ ہے، وسیم اکرم پر کئی کرکٹرز نے سنگین الزامات لگائے اور وہ پی سی بی کرکٹ کمیٹی کا حصہ ہیں، وقار یونس کیخلاف بھی باتیں ہوئیں وہ قومی ٹیم کے بولنگ کوچ ہیں، مشتاق احمد نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے اسپن بولنگ کنسلٹنٹ ہیں، قانونی مشیر کیخلاف شعیب کی باتوں پر بورڈ بیحد خفا ہو گیا اوراپنی طرف سے دوسرا نوٹس تک بھیجنے کا عندیہ دے دیا، یہ لوگ بھی تو ادارے سے منسلک ہیں ان کے حوالے سے بھی وضاحت کریں ورنہ انگلیاں اٹھتی رہیں گی، افسوس چیئرمین احسان مانی خود جسٹس قیوم رپورٹ کو ماننے سے انکار کر چکے وہ کیا ایکشن لیں گے۔
اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ چن چن کر انہی سابق کرکٹرز کو کیوں عہدے سونپے گئے جن کا ماضی انھیں آخری دم تک منفی خبروں میں رکھے گا، جہاں آپ کے ذہن میں ''زیرو ٹولیرنس'' کی بات آتی ہے تو یہ سب کچھ دیکھ کر قہقہہ لگانے کا دل ضرور چاہے گا، مجھے یقین ہے کہ لائیو اسٹریمنگ والا تنازع اگر نجم سیٹھی کے دور میں سامنے آتا تو اپوزیشن میں ہوتے ہوئے عمران خان پورا بورڈ ہی تبدیل کرنے اور انکوائری کا مطالبہ کر چکے ہوتے، اب وہ وزیراعظم اور پی سی بی کے سرپرست اعلیٰ ہیں، ان کے پاس مکمل اختیار ہے، غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائیں جس میں قصور وار کو سزا بھی ہو، دیکھتے ہیں کورونا کا مسئلہ ختم ہونے کے بعد حکومت کیا ایکشن لیتی ہے، فی الحال تو بورڈ کو چاہیے کہ اپنے مسائل ''لائیو اسٹریم''نہ کرے،کچھ اچھے اقدامات بھی کیے جائیں تاکہ منفی خبروں کا سلسلہ ختم ہو۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)