تیل کا عالمی تنازعہ حقائق اور پس منظر بھی سمجھیے
سعودی عرب اور روس کے مابین شروع ہونے والے تنازعے سے خام تیل کی قیمت سر کے بل نیچے گرگئی
گزشتہ سال دسمبر میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے کورونا وائرس نے دنیا بھر میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق اب تک اس وبائی مرض سے 4 ملین کے لگ بھگ لوگ متاثرہوئے ہیں اور لاکھوں مر چکے ہیں۔ دنیا اس وقت دہری مشکلات سے دوچار ہے۔ ایک طرف تو کورونا وائرس کی تباہ کاریاں ہیں، جبکہ دوسری جانب تیل پر شروع ہونے والا تصادم ہے۔ سعودی عرب اور روس کے مابین شروع ہونے والے تنازعے سے خام تیل کی قیمت سر کے بل نیچے گرگئی اور دنیا کی معیشت کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔
یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب عالمی وبا کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی وجہ سے خام تیل کی طلب اور رسد کے مابین کوئی توازن نہیں بن پا رہا ہے، جس کے باعث سعودی عرب نے تیل کی قیمتوں میں اضافے کی غرض سے تیل کی پیداوار میں کمی کی تھی۔ سعودی عرب اس کے ذریعے کورونا سے پیدا ہونے والی مندی کو کم کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اسی دوران روس نے اپنا ردعمل ظاہر کردیا اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے ساتھ تعاون کرنا بند کردیا، جو کسی حد تک ایشیائی مارکیٹ میں تیل کی برآمد میں سعودی عرب کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔
اس معاملے کو درست انداز میں سمجھنے کےلیے ہمیں دسمبر 2016 میں جانا ہوگا، جب روس اور سعودی عرب نے ویانا میں غیر اوپیک ممالک اور اوپیک ممالک کے مابین ایک معاہدے اوپیک پلس پر دستخط کیے، جس کا مقصد تیل کی قیمتوں کو مستحکم رکھنا تھا اور اسے کم نہیں کرنا تھا۔
سعودی عرب نے روس کو تیل کی پیداوار میں کمی کی تجویز پیش کی تاکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت مستحکم رہے اور قیمتوں کا توازن برقرار رہے۔ تاہم روس نے نہ صرف اس مطالبے کو مسترد کیا بلکہ ویانا معاہدے سے بھی دستبرداری کا اعلان کردیا۔ روس کی جانب سے غیر متوقع ردعمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ اوپیک پلس ختم ہوا اور یہی وہ موقع تھا جہاں سے روس اور سعودی عرب میں تیل کی جنگ کے تنازعے کا آغاز ہوا۔
سعودی عرب اور روس کے درمیان عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں پر پیدا ہونے والے تنازعے کے مختلف زاویے اور اسباب ہوسکتے ہیں، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ روس معدنیات سے مالا مال ایک بہت بڑا ملک ہے لیکن اس کے باوجود سعودی عرب کے ساتھ تیل کے اس تنازعے کا جتنا نقصان روس کو ہوگا، اس کا نصف بھی سعودی عرب کو نہیں ہوگا۔ اور یہ میں کوئی خیالی بات نہیں کررہا، یہاں کچھ حقائق پیش کرنا چاہوں گا جو اس جانب واضح اشارہ کررہے ہیں کہ اگر اس تنازعے نے طول پکڑا تو روس کو اس کا غیر معمولی نقصان ہوگا۔
سعودی عرب کا تیل کی منڈی میں کنٹرول مارچ 1938 میں اس وقت شروع ہوا جب ایک امریکی کمپنی اسٹینڈرڈ آئل کمپنی آف کیلیفورنیا، جو بعد میں عریبیئن امریکن آئل کمپنی (آرامکو) بنی، کے اشتراک سے دمام آئل فیلڈ سے 1440 میٹر کی گہرائی سے نکالا گیا، جو 1949 تک یومیہ 500,000 بیرل خام تیل پیدا کرنے لگا تھا۔ 1958 میں آرامکو نے ایک کیلنڈر سال میں خام تیل کی پیداوار 10 لاکھ بیرل سے زیادہ کرلی اور اس طرح آرامکو کا سعودی عرب کے تیل پر کنٹرول بڑھتا رہا، یہاں سے تیل کی عالمی منڈی پر سعودی عرب کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔
اس وقت سعودی عرب کے پاس دنیا کے 18 فیصد پٹرولیم ذخائر ہیں، جو دنیا کے کسی بھی ملک کے انفرادی ذخائر میں سب سے زیادہ ہیں۔ جو سعودی عرب کو پٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں سب سے نمایاں بناتے ہیں۔ تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے 2015 کے اندازوں کے مطابق سعودی عرب کے پاس 267 ارب بیرل تیل کے ذخائر موجود ہیں، جس کے مطابق اگر سعودی عرب کا تیل روزانہ 12 لاکھ بیرل بھی نکالا جائے تو بھی آئندہ 70 سال میں ختم نہیں ہوگا اور اگر سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ اور بیرون ملک اثاثوں کا روس سے موازنہ کیا جائے تو اس صورت میں بھی سعودی عرب روس سے کہیں آگے ہے۔
اس صورت حال میں اگر روس کی معیشت کو دیکھا جائے تو وہ ایک بہت بڑا ملک ہونے کے باوجود مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کا شکار ہے، جبکہ اس کی سب سے اہم صنعت تیل ہے۔ روسی تیل کی پیداواری لاگت کا جائزہ لیا جائے تو سعودی عرب کے مقابلے میں روس کی پیداواری لاگت زیادہ ہے۔ اگر سرمائے اور پیداواری لاگت کو اکٹھا دیکھا جائے تو روس کی لاگت ایک بالکل مختلف شکل اختیار کر جاتی ہے، جو کسی بھی صورت سعودی عرب سے موازنہ کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی۔ تاہم اگر صرف پیداواری لاگت ہی کو ملحوظ رکھا جائے تو سعودی عرب کسی قسم کے مسئلے سے دوچار ہوئے بغیر تیل کی کم قیمتوں پربھی اپنے اہداف کو باآسانی پورا کرسکتا ہے۔
فنی اور عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو روس کی تیل کی پیداوار پہلے ہی بلند ترین سطح پر ہے، جبکہ تیل اور گیس کی مارکیٹوں تک ترسیل یا حمل ونقل اس کےلیے بدستور ایک بڑا مسئلہ ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ تیل کا تنازعہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے، جو فی الحال سعودی عرب کےلیے پریشانی کا باعث نہیں، لیکن اس تنازعے نے روسی حکومت کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
تنازعے کے بعد روسی صدر نے وزیر توانائی اور ملک کی انرجی فرموں کے نمائندوں سے ویڈیو کانفرس کے ذریعے ہنگامی اجلاس طلب کیا اور اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عالمی انرجی منڈی میں اس سے قبل کبھی ایسی صورتحال کا ہم نے سامنا نہیں کیا تھا۔ ایسا اتار چڑھاؤ ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ انہوں نے کورونا سے عالمی معیشت اور تیل کی مانگ میں سخت کمی آنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ توانائی منڈی میں توازن قائم کرنے کےلیے اوپیک اور تیل پیدا کنندگان ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی طرح کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
جہاں روسی حکومت اس غیر معمولی پشرفت سے پریشان ہے، وہیں سعودی حکومت کے کسی بیان اور اقدام سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ وہ اس تنازعے سے کسی معاشی پریشانی کا شکار ہے۔
روس اور اوپیک اس سپلائی کو روکنے کےلیے کسی نئے معاہدے پر راضی نہیں ہو سکے، جبکہ سعودی عرب نے تیل کی قیمت کم کرکے سپلائی بڑھانے کا اشارہ دیا ہے۔
دوسری جانب روس کی تیل اور گیس کی پیداوار کو برقرار رکھنے کےلیے مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ پیداوار میں ڈرامائی اضافے کےلیے بہت زیادہ نقدی اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے، جو فی الوقت روس کے پاس میسر نہیں۔ جبکہ روس پر عائد موجودہ اور نئی پابندیاں پہلے ہی دور دراز اور وسطی علاقوں میں پیداواری سرگرمیوں کو محدود کرنے کا موجب بن رہی ہیں۔
روسی کمپنیوں کو عالمی مالیاتی مارکیٹوں میں اس نوعیت کی رسائی حاصل نہیں، جس نوعیت کی رسائی سعودی آرامکو کو حاصل ہے۔ کیونکہ روس کے تیل، گیس اور مالیات کے شعبوں کی ترقی کو مغرب کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں سے روک دیا گیا ہے یا سعودی عرب اب بھی بڑی اعلیٰ سطح پر مالیاتی مارکیٹوں میں داخل ہونے کی صلاحیت کا حامل ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ سب سے زیادہ طاقتور ہے۔
دوسرے الفاظ میں اگر یہ کہا جائے کہ سعودی عرب کی سربراہی میں دنیا میں تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوگئی ہے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ ( واضح رہے کہ اوپیک تیل کی پیداوار والے تمام ممالک کی نمائندگی نہیں کرتا۔ کئی بڑے پیداواری ممالک ہیں جو اس کے رکن نہیں ہیں، جن میں امریکا، روس، چین اور کینیڈا شامل ہیں۔ لیکن یہ تنظیم جو عالمی سطح پر تقریباً 40 فیصد منڈی کی نمائندگی کرتی ہے، اور یہ پیداوار میں کمی سے اثرانداز ہوسکتی ہے۔ ماضی میں بھی تیل کی قیمتوں میں کمی کے جواب میں تیل کی پیداوار میں کمی کرتی رہی ہے)
سعودی عرب نے روس کی جانب سے قیمتوں میں کمی کی پیش کش کو مسترد کرنے کے بعد اپنی پیداوار میں مزید اضافہ کیا، اس کے بعد ابوظہبی نے بھی اس کی پیروی کی اور آرامکو کی طرح اس نے بھی اپنی پیداوار میں نمایاں اضافہ کردیا تھا۔ میرے اندازے کے مطابق روس کو سعودی عرب اور اوپیک ممالک کی جانب سے اس قسم کے ردعمل کی قطعی توقع نہیں تھی۔ روس کی توقعات کے برعکس اوپیک کے رکن ممالک اپنی پیداوار کو باضابطہ بنارہے ہیں، جس کے بعد عالمی مارکیٹ میں روس تیل کی کم قیمت سے عمومی اندازوں سے بھی زیادہ متاثر ہوگا۔
میرا خیال ہے کہ روس ایک بڑی طاقت ہے اور اس کے پاس یقیناً معاشی ماہرین، مشیر، عالمی سیاست اور معیشت پر نگاہ رکھنے والے ذہین دماغ ہوں گے، تاہم روس کے اب آنے والے ردعمل سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ماسکو نے اس بات کا کوئی اندازہ نہیں لگایا تھا کہ اگر خلیجی عرب ممالک اپنی پیداوار میں اضافہ کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف امریکا کے تیل پر اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ روس بھی اس کا شکار بنے گا۔
حالیہ معاشی اور سیاسی پس منظر اور پیش منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے الریاض نے ایک بہت ہی بہترین ماسٹر اسٹروک کھیلتے ہوئے امریکا سمیت یورپی ممالک کو سعودی خام تیل کی نہایت ارزاں نرخوں پر فروخت کی پیش کش کی ہے۔ یہ سعودی عرب کی دور اندیشی اور بہترین معاشی ماہرین کی جانب سے ایک ایسا بروقت فیصلہ ہے جس سے روس کی صارف مارکیٹ بری طرح متاثر ہوگی، جس کا اندازہ ماسکو کو ہوگیا ہے۔
جیسا میں نے پہلے عرض کیا کہ روس پر مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ معاشی پابندیوں کے باعث روس کی دسترس محدود ہوچکی ہے اور روس کو اپنی تیل کی پیداوار کو بڑھانے کےلیے بہت زیادہ لاگت کا استعمال کرنا پڑے گا، جو فی الحال روس کےلیے کوئی دانشمدانہ فیصلہ ہرگز نہیں۔ لیکن اگر سعودی عرب کو دیکھا جائے تو سعودی عرب اپنی پیداوار میں اضافے اور اس کو برآمد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ ماسکو کو بھی بخوبی عمل ہوگیا ہے کہ عمومی طور پر تیل کی قیمت میں اضافہ درست فیصلہ نہیں۔ کیونکہ اس سے یورپ اور دوسرے خطوں کو قدرتی گیس کی برآمد بھی متاثر ہوگی، کیونکہ گیس کے ٹھیکے جزوی طور پر تیل کی قیمت سے منسلک ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب عالمی وبا کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی وجہ سے خام تیل کی طلب اور رسد کے مابین کوئی توازن نہیں بن پا رہا ہے، جس کے باعث سعودی عرب نے تیل کی قیمتوں میں اضافے کی غرض سے تیل کی پیداوار میں کمی کی تھی۔ سعودی عرب اس کے ذریعے کورونا سے پیدا ہونے والی مندی کو کم کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اسی دوران روس نے اپنا ردعمل ظاہر کردیا اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے ساتھ تعاون کرنا بند کردیا، جو کسی حد تک ایشیائی مارکیٹ میں تیل کی برآمد میں سعودی عرب کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔
اس معاملے کو درست انداز میں سمجھنے کےلیے ہمیں دسمبر 2016 میں جانا ہوگا، جب روس اور سعودی عرب نے ویانا میں غیر اوپیک ممالک اور اوپیک ممالک کے مابین ایک معاہدے اوپیک پلس پر دستخط کیے، جس کا مقصد تیل کی قیمتوں کو مستحکم رکھنا تھا اور اسے کم نہیں کرنا تھا۔
سعودی عرب نے روس کو تیل کی پیداوار میں کمی کی تجویز پیش کی تاکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت مستحکم رہے اور قیمتوں کا توازن برقرار رہے۔ تاہم روس نے نہ صرف اس مطالبے کو مسترد کیا بلکہ ویانا معاہدے سے بھی دستبرداری کا اعلان کردیا۔ روس کی جانب سے غیر متوقع ردعمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ اوپیک پلس ختم ہوا اور یہی وہ موقع تھا جہاں سے روس اور سعودی عرب میں تیل کی جنگ کے تنازعے کا آغاز ہوا۔
سعودی عرب اور روس کے درمیان عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں پر پیدا ہونے والے تنازعے کے مختلف زاویے اور اسباب ہوسکتے ہیں، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ روس معدنیات سے مالا مال ایک بہت بڑا ملک ہے لیکن اس کے باوجود سعودی عرب کے ساتھ تیل کے اس تنازعے کا جتنا نقصان روس کو ہوگا، اس کا نصف بھی سعودی عرب کو نہیں ہوگا۔ اور یہ میں کوئی خیالی بات نہیں کررہا، یہاں کچھ حقائق پیش کرنا چاہوں گا جو اس جانب واضح اشارہ کررہے ہیں کہ اگر اس تنازعے نے طول پکڑا تو روس کو اس کا غیر معمولی نقصان ہوگا۔
سعودی عرب کا تیل کی منڈی میں کنٹرول مارچ 1938 میں اس وقت شروع ہوا جب ایک امریکی کمپنی اسٹینڈرڈ آئل کمپنی آف کیلیفورنیا، جو بعد میں عریبیئن امریکن آئل کمپنی (آرامکو) بنی، کے اشتراک سے دمام آئل فیلڈ سے 1440 میٹر کی گہرائی سے نکالا گیا، جو 1949 تک یومیہ 500,000 بیرل خام تیل پیدا کرنے لگا تھا۔ 1958 میں آرامکو نے ایک کیلنڈر سال میں خام تیل کی پیداوار 10 لاکھ بیرل سے زیادہ کرلی اور اس طرح آرامکو کا سعودی عرب کے تیل پر کنٹرول بڑھتا رہا، یہاں سے تیل کی عالمی منڈی پر سعودی عرب کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔
اس وقت سعودی عرب کے پاس دنیا کے 18 فیصد پٹرولیم ذخائر ہیں، جو دنیا کے کسی بھی ملک کے انفرادی ذخائر میں سب سے زیادہ ہیں۔ جو سعودی عرب کو پٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں سب سے نمایاں بناتے ہیں۔ تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے 2015 کے اندازوں کے مطابق سعودی عرب کے پاس 267 ارب بیرل تیل کے ذخائر موجود ہیں، جس کے مطابق اگر سعودی عرب کا تیل روزانہ 12 لاکھ بیرل بھی نکالا جائے تو بھی آئندہ 70 سال میں ختم نہیں ہوگا اور اگر سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ اور بیرون ملک اثاثوں کا روس سے موازنہ کیا جائے تو اس صورت میں بھی سعودی عرب روس سے کہیں آگے ہے۔
اس صورت حال میں اگر روس کی معیشت کو دیکھا جائے تو وہ ایک بہت بڑا ملک ہونے کے باوجود مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کا شکار ہے، جبکہ اس کی سب سے اہم صنعت تیل ہے۔ روسی تیل کی پیداواری لاگت کا جائزہ لیا جائے تو سعودی عرب کے مقابلے میں روس کی پیداواری لاگت زیادہ ہے۔ اگر سرمائے اور پیداواری لاگت کو اکٹھا دیکھا جائے تو روس کی لاگت ایک بالکل مختلف شکل اختیار کر جاتی ہے، جو کسی بھی صورت سعودی عرب سے موازنہ کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی۔ تاہم اگر صرف پیداواری لاگت ہی کو ملحوظ رکھا جائے تو سعودی عرب کسی قسم کے مسئلے سے دوچار ہوئے بغیر تیل کی کم قیمتوں پربھی اپنے اہداف کو باآسانی پورا کرسکتا ہے۔
فنی اور عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو روس کی تیل کی پیداوار پہلے ہی بلند ترین سطح پر ہے، جبکہ تیل اور گیس کی مارکیٹوں تک ترسیل یا حمل ونقل اس کےلیے بدستور ایک بڑا مسئلہ ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ تیل کا تنازعہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے، جو فی الحال سعودی عرب کےلیے پریشانی کا باعث نہیں، لیکن اس تنازعے نے روسی حکومت کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
تنازعے کے بعد روسی صدر نے وزیر توانائی اور ملک کی انرجی فرموں کے نمائندوں سے ویڈیو کانفرس کے ذریعے ہنگامی اجلاس طلب کیا اور اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عالمی انرجی منڈی میں اس سے قبل کبھی ایسی صورتحال کا ہم نے سامنا نہیں کیا تھا۔ ایسا اتار چڑھاؤ ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ انہوں نے کورونا سے عالمی معیشت اور تیل کی مانگ میں سخت کمی آنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ توانائی منڈی میں توازن قائم کرنے کےلیے اوپیک اور تیل پیدا کنندگان ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی طرح کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
جہاں روسی حکومت اس غیر معمولی پشرفت سے پریشان ہے، وہیں سعودی حکومت کے کسی بیان اور اقدام سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ وہ اس تنازعے سے کسی معاشی پریشانی کا شکار ہے۔
روس اور اوپیک اس سپلائی کو روکنے کےلیے کسی نئے معاہدے پر راضی نہیں ہو سکے، جبکہ سعودی عرب نے تیل کی قیمت کم کرکے سپلائی بڑھانے کا اشارہ دیا ہے۔
دوسری جانب روس کی تیل اور گیس کی پیداوار کو برقرار رکھنے کےلیے مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ پیداوار میں ڈرامائی اضافے کےلیے بہت زیادہ نقدی اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے، جو فی الوقت روس کے پاس میسر نہیں۔ جبکہ روس پر عائد موجودہ اور نئی پابندیاں پہلے ہی دور دراز اور وسطی علاقوں میں پیداواری سرگرمیوں کو محدود کرنے کا موجب بن رہی ہیں۔
روسی کمپنیوں کو عالمی مالیاتی مارکیٹوں میں اس نوعیت کی رسائی حاصل نہیں، جس نوعیت کی رسائی سعودی آرامکو کو حاصل ہے۔ کیونکہ روس کے تیل، گیس اور مالیات کے شعبوں کی ترقی کو مغرب کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں سے روک دیا گیا ہے یا سعودی عرب اب بھی بڑی اعلیٰ سطح پر مالیاتی مارکیٹوں میں داخل ہونے کی صلاحیت کا حامل ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ سب سے زیادہ طاقتور ہے۔
دوسرے الفاظ میں اگر یہ کہا جائے کہ سعودی عرب کی سربراہی میں دنیا میں تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوگئی ہے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ ( واضح رہے کہ اوپیک تیل کی پیداوار والے تمام ممالک کی نمائندگی نہیں کرتا۔ کئی بڑے پیداواری ممالک ہیں جو اس کے رکن نہیں ہیں، جن میں امریکا، روس، چین اور کینیڈا شامل ہیں۔ لیکن یہ تنظیم جو عالمی سطح پر تقریباً 40 فیصد منڈی کی نمائندگی کرتی ہے، اور یہ پیداوار میں کمی سے اثرانداز ہوسکتی ہے۔ ماضی میں بھی تیل کی قیمتوں میں کمی کے جواب میں تیل کی پیداوار میں کمی کرتی رہی ہے)
سعودی عرب نے روس کی جانب سے قیمتوں میں کمی کی پیش کش کو مسترد کرنے کے بعد اپنی پیداوار میں مزید اضافہ کیا، اس کے بعد ابوظہبی نے بھی اس کی پیروی کی اور آرامکو کی طرح اس نے بھی اپنی پیداوار میں نمایاں اضافہ کردیا تھا۔ میرے اندازے کے مطابق روس کو سعودی عرب اور اوپیک ممالک کی جانب سے اس قسم کے ردعمل کی قطعی توقع نہیں تھی۔ روس کی توقعات کے برعکس اوپیک کے رکن ممالک اپنی پیداوار کو باضابطہ بنارہے ہیں، جس کے بعد عالمی مارکیٹ میں روس تیل کی کم قیمت سے عمومی اندازوں سے بھی زیادہ متاثر ہوگا۔
میرا خیال ہے کہ روس ایک بڑی طاقت ہے اور اس کے پاس یقیناً معاشی ماہرین، مشیر، عالمی سیاست اور معیشت پر نگاہ رکھنے والے ذہین دماغ ہوں گے، تاہم روس کے اب آنے والے ردعمل سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ماسکو نے اس بات کا کوئی اندازہ نہیں لگایا تھا کہ اگر خلیجی عرب ممالک اپنی پیداوار میں اضافہ کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف امریکا کے تیل پر اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ روس بھی اس کا شکار بنے گا۔
حالیہ معاشی اور سیاسی پس منظر اور پیش منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے الریاض نے ایک بہت ہی بہترین ماسٹر اسٹروک کھیلتے ہوئے امریکا سمیت یورپی ممالک کو سعودی خام تیل کی نہایت ارزاں نرخوں پر فروخت کی پیش کش کی ہے۔ یہ سعودی عرب کی دور اندیشی اور بہترین معاشی ماہرین کی جانب سے ایک ایسا بروقت فیصلہ ہے جس سے روس کی صارف مارکیٹ بری طرح متاثر ہوگی، جس کا اندازہ ماسکو کو ہوگیا ہے۔
جیسا میں نے پہلے عرض کیا کہ روس پر مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ معاشی پابندیوں کے باعث روس کی دسترس محدود ہوچکی ہے اور روس کو اپنی تیل کی پیداوار کو بڑھانے کےلیے بہت زیادہ لاگت کا استعمال کرنا پڑے گا، جو فی الحال روس کےلیے کوئی دانشمدانہ فیصلہ ہرگز نہیں۔ لیکن اگر سعودی عرب کو دیکھا جائے تو سعودی عرب اپنی پیداوار میں اضافے اور اس کو برآمد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ ماسکو کو بھی بخوبی عمل ہوگیا ہے کہ عمومی طور پر تیل کی قیمت میں اضافہ درست فیصلہ نہیں۔ کیونکہ اس سے یورپ اور دوسرے خطوں کو قدرتی گیس کی برآمد بھی متاثر ہوگی، کیونکہ گیس کے ٹھیکے جزوی طور پر تیل کی قیمت سے منسلک ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔