کورونا نے سب کچھ دکھا دیا
کورونا نے دکھا دیا کہ اس موقع پر حکومت اور اپوزیشن سیاست نہیں چھوڑ رہیں تو عوام لاک ڈاؤن کی دھجیاں کیوں نہ اڑائیں۔
دنیا بھر میں عالمی وبا کورونا کی تباہ کاریاں جاری ہیں جس میں ہلاکتوں کی تعداددو لاکھ ستاسی ہزار تک پہنچ گئی ہے ۔ امریکا سب سے زیادہ متاثر ہوااور تقریباً 82 ہزار امریکی شہری لقمہ اجل بنے ۔ برطانیہ میں تقریباً 32 ہزار لوگوںمرے جب کہ 8 سارک ممالک میں 21 فیصد جب کہ ہم صرف 1.28 فیصد متاثر ہوئے۔
پاکستان پر اللہ کا کرم رہا۔ وزیر اعظم ملک کے حالات کے باعث لاک ڈاؤن میں سختی اور توسیع کے بجائے نرمی کے خواہاں ہیں تو وزیر اعلیٰ سندھ مزید سختی اور توسیع چاہتے ہیں اور اعلیٰ ماہرین طب بھی ان کے خدشات سے متفق ہیں ۔
لاک ڈاؤن کے آغاز پر سرکاری چھٹیوں کو لوگوں نے تفریح جان لیا تھا اور گھروں میں محدود رہنے کے بجائے سڑکوں پر آکر رش بڑھانے کو ترجیح دی اور گھومنے پھرنے کے ساتھ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے گھر جا کر جبری مہمان بننے کا شوق پورا کرتے رہے۔
ملک میں وفاق اور سندھ میں اختلافات تو شروع ہی میں ظاہر ہوگئے تھے جنھیں وزیر اعظم نے چھپانے کے بجائے کراچی کا دورہ نہ کرکے بام عروج پر پہنچا دیا اور کے پی کے، پنجاب اور بلوچستان کا دورہ کرکے بتا دیا کہ سندھ میں چونکہ ان کی اپنی حکومت نہیں، اس لیے وہ خود کو سندھ کا وزیر اعظم نہیں سمجھتے حالانکہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں جو ملک کا معاشی حب ہے وہاں ان کی اپنی پارٹی اور حلیف ایم کیو ایم کی پی پی سے زیادہ نمایندگی ہے جب کہ اندرون سندھ پیپلز پارٹی کی واضح اکثریت ہے جس کے باعث ہی وہ سندھ کی حکمران ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ کی پھرتیاں پی ٹی آئی سے برداشت نہیں ہو رہیں جہاں لاک ڈاؤن پر گورنر اور وزیر اعلیٰ کے اختلافات اور موقف نمایاں ہیں۔ گورنر اپنے وزیر اعظم کے اور وزیر اعلیٰ پی پی قیادت کے احکامات پر عمل پیرا ہیں۔
لاک ڈاؤن مزید سخت یا نرم کرنے پر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سندھ کا موقف مختلف مگر اپنی اپنی جگہ بالکل درست بھی ہے۔ کراچی کے مقابلے میں اندرون سندھ برائے نام ہے۔ کراچی کھلے گا تو ملک چلے گا۔ کراچی میں لاک ڈاؤن برقرار اور سخت ہونے کا اثر پورے ملک پر پڑتا ہے جس کا ادراک وزیر اعظم عمران خان کوہے، جو ملک کے حالات میں اور کراچی میں نرمی چاہتے ہیں اور کیونکہ کراچی میں سختی سے ملک مفلوج ہو جاتا ہے تو وفاق سندھ کو اس کا قانونی حصہ دینے کے قابل نہیں رہتا جب کہ سندھ پہلے ہی وفاق سے ناراض اور شکوہ کر رہا ہے کہ اس کی نہیں سنی جا رہی جب کہ وزیر اعظم روبرو وزیر اعلیٰ سے ملنے کے بجائے ویڈیو کانفرنسوں میں پنجاب سے زیادہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کی سنتے ہیں مگر عمل وہ اپنی مرضی سے کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ملک انھوں نے چلانا ہے اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں۔
کورونا کی عالمی وبا نے یہ بھی دکھادیا کہ اس اہم موقع پر بھی سب ایک نہیں بلکہ سب اپنی اپنی سیاست میں مصروف ہیں جس کا ذمے دار اپوزیشن وزیر اعلیٰ کو قرار دیتی ہے جو اس مشکل وقت میں بھی اپوزیشن سے ملنے اور ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں جب کہ بلاول زرداری نے سب سے پہلے مل کر چلنے کی اپنی پہلی پیشکش کی تھی اور مسلم لیگ (ن) و دیگر بھی راضی تھے مگر وزیر اعظم اپنی سنا کر اپوزیشن کی سننے کے بجائے کانفرنس چھوڑ کر چلے گئے تھے حالانکہ آپس میں مشوروں سے مل کر چلنے کا یہ اچھا موقعہ ثابت ہو سکتا تھا ۔ ایسی سیاست کا اپوزیشن کو موقعہ وزیر اعظم نے خود دے کر پی ٹی آئی کو تنہائی میں دھکیل رکھا ہے اور اپوزیشن کی تمام جماعتیں اس سلسلے میں وزیر اعظم کو موجودہ سیاسی صورتحال کا ذمے دار قرار دیتی ہیں۔
کورونا نے دکھا دیا کہ اس موقع پر حکومت اور اپوزیشن سیاست نہیں چھوڑ رہیں تو عوام لاک ڈاؤن کی دھجیاں کیوں نہ اڑائیں منافع خور اور ذخیرہ اندوز مہنگائی بڑھا کر پریشان عوام کو کیوں نہ لوٹیں انھیں تو رمضان سے قبل کورونا نے کمانے کا موقعہ فراہم کردیا ہے۔ وفاق سے گیس و بجلی کے بل نہ لینے کی اپیل کرنے والی سندھ حکومت خود پانی کے بل وصول کرا رہی ہے اور لاک ڈاؤن میں پہل کا کریڈٹ رکھنے والوں کو عوام کا احساس نہیں تو عوام بھی لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی اپنا حق سمجھ رہے ہیں اور وہ کچھ ہو رہا ہے جو ماضی میں نہیں ہوا۔ کورونا نے دکھا دیا کہ وہ لاکھ تباہی لائے ہم بھی کم نہیں۔ حکومت ہو، اپوزیشن ہو یا عوام سب احساس سے عاری ہیں اور بھگت صرف وہ رہا ہے جس پر گزر رہی ہے۔