جامعات کو آن لائن تعلیم کیلیے اضافی آئینی ادارے قائم کرنے کی ہدایت
سرکاری و نجی جامعات کے وائس چانسلرز کو لکھے گئے خط میں موجودہ آئینی ادارے نظرانداز، عملدرآمد رپورٹ بھجوانے کا حکم
اعلی تعلیمی کمیشن آف پاکستان نے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ملک بھر کی سرکاری و نجی جامعات کو آن لائن ایجوکیشن شروع کرنے کے لیے اضافی آئینی یا دستوری ادارے قائم کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔
آن لائن ایجوکیشن کی نگرانی کیلیے آن لائن اکیڈمک کونسل قائم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور اس سلسلے میں وائس چانسلرز کو لکھے گئے خط میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ آن لائن اکیڈمک کونسل قائم کرکے آن لائن ایجوکیشن کی تیاری کے سلسلے میں اس کی عملدرآمد رپورٹ compliance report ایچ ای سی کو بھجوائیں۔ اسے آن لائن readiness کا نام دیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں ایچ ای سی کوالٹی ایشورنس ایجنسی کی منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر نادیہ طاہر نے جامعات کے وائس چانسلر کو لکھے گئے خط میں سرکاری جامعات کی خود مختاری کو ہی چیلنج کردیا ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ اگر ان کی اکیڈمک کونسل آن لائن ایجوکیشن کی منظوری میں تاخیر برتے تو وہ اس کی عبوری provisional منظوری دیتے ہوئے ایک آن لائن کمیٹی قائم کردیں جو آن لائن ایجوکیشن کی نگرانی کرے گی۔
''ایکسپریس'' کو موصولہ اس دستاویز کے مطابق ایچ ای سی نے وائس چانسلرز سے کہا ہے کہ جامعات آن لائن ایجوکیشن کی تیاری readiness کے لیے اس کی دی گئی پالیسیز کو باقاعدہ لاگو کریں اورکورسز کو آن لائن کرنے کے لیے دی گئی ''ایس او پیز'' کو بھی اپنائیں، خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ماڈل پالیسی مسودے کے مطابق اس سلسلے میں ایک باقاعدہ فیصلہ ساز ادارہ تشکیل دیا جائے جو موجودہ کورسز کے آن لائن اجرا کی منظوری دے۔ اگر ان کورسز کے اجراکے فیصلے میں کسی قسم کا اختلاف یا عدم ہم آہنگی پیدا ہوجائے تو آن لائن ایجوکیشن کا پالیسی ڈاکومنٹ آن لائن ایکریڈیشن کمیٹی کے حوالے کردیا جائے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی موجودہ کورسز کو آن لائن ایجوکیشن میں تبدیل کرنے کے لیے شفاف ایس او پیز بنائے۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ ان ایس ایس او پیز کو بنانے اور لاگو کرنے کے لیے جو تجاویز اس خط میں دی گئی ہیں اس میں ٹیچرز کمیونٹی کے خلاف بھی کارروائی کی سفارش موجود ہے۔
مزید یہ کہ ڈینز شعبہ جاتی سربراہوں کی فیکلٹی کے حوالے سے ان یقین دہانیوں کو آن لائن اکیڈمک کونسل یا آن لائن ایکریڈیشن کمیٹی میں منظوری کے لیے بھیجیں گے۔ آن لائن کونسل یا کمیٹی کورس کی کارکردگی کے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر طلبہ سے رائے طلب کرے گی۔
ادھر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چیئرمین ایچ ای سی نے یا تو مذکورہ خط پڑھا ہی نہیں یا وہ اس کے مندرجات سے لاعلم ہیں کیونکہ جب "ایکسپریس " نے اس معاملے پر ان سے رابطہ کرکے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی کہ کیا خط میں موجود تحریر جامعات میں آئینی اداروں statuary bodies کی موجودگی میں اضافی ادارے بنانے کے مترادف نہیں ہے جس پر چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر طارق بنوری نے موقف اختیار کیا کہ جامعات کو بھجوائی گئی ہدایات میں واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ وہ جامعات اپنے فیصلہ ساز اداروں کو یہ ذمے داری تفویض کریں کہ وہ یہ فیصلے خود کریں یا اس مقصد کے لیے کوئی خصوصی ادارہ تشکیل دیں یہ جامعات کا اپنا اختیار ہے۔
''ایکسپریس'' نے جب اس سلسلے میں اساتذہ برادری کا موقف جاننے کے لیے فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) سندھ فیکٹر کی سابق اور انجمن اساتذہ جامعہ کراچی(کراچی یونیورسٹی ٹیچر سوسائٹی) کی موجودہ صدر پروفیسر ڈاکٹر انیلا امبر ملک سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم ایچ ای سی کی جانب سے دی گئی کسی قسم کی اضافی آئینی اداروں کی تجویز پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی اس پر عمل کریں گے، ایچ ای سی نے ایسی ہدایت جاری کرکے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔
آن لائن ایجوکیشن کی نگرانی کیلیے آن لائن اکیڈمک کونسل قائم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور اس سلسلے میں وائس چانسلرز کو لکھے گئے خط میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ آن لائن اکیڈمک کونسل قائم کرکے آن لائن ایجوکیشن کی تیاری کے سلسلے میں اس کی عملدرآمد رپورٹ compliance report ایچ ای سی کو بھجوائیں۔ اسے آن لائن readiness کا نام دیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں ایچ ای سی کوالٹی ایشورنس ایجنسی کی منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر نادیہ طاہر نے جامعات کے وائس چانسلر کو لکھے گئے خط میں سرکاری جامعات کی خود مختاری کو ہی چیلنج کردیا ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ اگر ان کی اکیڈمک کونسل آن لائن ایجوکیشن کی منظوری میں تاخیر برتے تو وہ اس کی عبوری provisional منظوری دیتے ہوئے ایک آن لائن کمیٹی قائم کردیں جو آن لائن ایجوکیشن کی نگرانی کرے گی۔
''ایکسپریس'' کو موصولہ اس دستاویز کے مطابق ایچ ای سی نے وائس چانسلرز سے کہا ہے کہ جامعات آن لائن ایجوکیشن کی تیاری readiness کے لیے اس کی دی گئی پالیسیز کو باقاعدہ لاگو کریں اورکورسز کو آن لائن کرنے کے لیے دی گئی ''ایس او پیز'' کو بھی اپنائیں، خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ماڈل پالیسی مسودے کے مطابق اس سلسلے میں ایک باقاعدہ فیصلہ ساز ادارہ تشکیل دیا جائے جو موجودہ کورسز کے آن لائن اجرا کی منظوری دے۔ اگر ان کورسز کے اجراکے فیصلے میں کسی قسم کا اختلاف یا عدم ہم آہنگی پیدا ہوجائے تو آن لائن ایجوکیشن کا پالیسی ڈاکومنٹ آن لائن ایکریڈیشن کمیٹی کے حوالے کردیا جائے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی موجودہ کورسز کو آن لائن ایجوکیشن میں تبدیل کرنے کے لیے شفاف ایس او پیز بنائے۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ ان ایس ایس او پیز کو بنانے اور لاگو کرنے کے لیے جو تجاویز اس خط میں دی گئی ہیں اس میں ٹیچرز کمیونٹی کے خلاف بھی کارروائی کی سفارش موجود ہے۔
مزید یہ کہ ڈینز شعبہ جاتی سربراہوں کی فیکلٹی کے حوالے سے ان یقین دہانیوں کو آن لائن اکیڈمک کونسل یا آن لائن ایکریڈیشن کمیٹی میں منظوری کے لیے بھیجیں گے۔ آن لائن کونسل یا کمیٹی کورس کی کارکردگی کے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر طلبہ سے رائے طلب کرے گی۔
ادھر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چیئرمین ایچ ای سی نے یا تو مذکورہ خط پڑھا ہی نہیں یا وہ اس کے مندرجات سے لاعلم ہیں کیونکہ جب "ایکسپریس " نے اس معاملے پر ان سے رابطہ کرکے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی کہ کیا خط میں موجود تحریر جامعات میں آئینی اداروں statuary bodies کی موجودگی میں اضافی ادارے بنانے کے مترادف نہیں ہے جس پر چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر طارق بنوری نے موقف اختیار کیا کہ جامعات کو بھجوائی گئی ہدایات میں واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ وہ جامعات اپنے فیصلہ ساز اداروں کو یہ ذمے داری تفویض کریں کہ وہ یہ فیصلے خود کریں یا اس مقصد کے لیے کوئی خصوصی ادارہ تشکیل دیں یہ جامعات کا اپنا اختیار ہے۔
''ایکسپریس'' نے جب اس سلسلے میں اساتذہ برادری کا موقف جاننے کے لیے فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) سندھ فیکٹر کی سابق اور انجمن اساتذہ جامعہ کراچی(کراچی یونیورسٹی ٹیچر سوسائٹی) کی موجودہ صدر پروفیسر ڈاکٹر انیلا امبر ملک سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم ایچ ای سی کی جانب سے دی گئی کسی قسم کی اضافی آئینی اداروں کی تجویز پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی اس پر عمل کریں گے، ایچ ای سی نے ایسی ہدایت جاری کرکے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔