احتیاط علاج کا نعم البدل نہیں ہوسکتی
اس وبا کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ دیکھتے دیکھتے یہ وبا ہزاروں جانوں کا خراج لے لیتی ہے
کورونا وائرس سے آج ساری دنیا لرز رہی ہے۔ اس آسیب کی تباہ کاریوں کا اندازہ اس کے نقصانات سے لگایا جاسکتا ہے کورونا کی تباہ کاریوں کا زہر پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ دنیا میں کورونا کے متاثرین کی تعداد اب تک 42لاکھ38ہزار اور ہلاکتوں کی تعداد دو لاکھ 90 ہزار ہوگئی ہے اور آئے دن ان میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
اس وبا کی تباہ کاریوں سے عوام کو بچانے یا کم کرنے کے لیے ہر ملک میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے ،اب تک لاک ڈاؤن سے لاکھوں عوام بے روزگار ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں اس وبا کو آئے ہوئے تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، ان تین مہینوں میں کورونا نے پاکستانی عوام کو کس قدر جانی نقصان پہنچایا ہے، اس کے بھیانک پن کا اندازہ اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے۔
اس حوالے سے سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اب تک اس کا علاج دریافت نہیں ہو سکا۔ صرف ''احتیاط'' کو اس کا علاج قرار دیا جا رہا ہے۔ دنیا میں اب تک صرف کینسر کو لاعلاج قرار دیا جاتا رہا لیکن اب اس حوالے سے کورونا بھی لاعلاج بیماری کی تعریف میں آتا ہے اس فرق کے ساتھ کہ کورونا کی تباہ کاریاں اور جانی نقصان کینسر سے بہت زیادہ ہے اور امریکا اور روس جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں دس ہزار یومیہ میں آرہی ہے۔
دنیا کی تاریخ میں انسانوں کو جانی نقصان پہنچانے والی کئی وبائی بیماریاں آئیں لیکن اس کے نقصانات کورونا سے بہت کم رہے ہیں۔ کورونا سے ساری دنیا لرزہ براندام ہے اور طبی ماہرین اس حوالے سے اس موذی مرض کا علاج دریافت کرنے میں جٹے ہوئے ہیں لیکن ابھی تک اس حوالے سے کسی کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔دنیا بھر میں اس وبا سے عوام کو بچانے کے لیے لاک ڈاؤن کیے جا رہے ہیں لیکن اس سے خاطر خواہ فائدہ نظر نہیں آرہا ہے اس کے برخلاف بھاری جانی نقصان کے علاوہ معیشتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور بے روزگاری کا ایک طوفان آیا ہوا ہے جس سے حکومتیں متزلزل ہو کر رہ گئی ہیں۔
اس وبا کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ دیکھتے دیکھتے یہ وبا ہزاروں جانوں کا خراج لے لیتی ہے۔ اس وبا سے متاثرین کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے ایک دن میں 10 ہزار متاثرین کی تعداد صرف ایک ملک کی ہے اور دنیا میں لگ بھگ دو سو ملک ہیں ان خوفناک حقائق سے کورونا کی تباہ کاریوں کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ اس وبا کی خوفناکی کا عالم یہ ہے کہ اب تک سیکڑوں ڈاکٹر اس کی زد میں آچکے ہیں ان نقصانات کی وجہ دنیا کے عوام میں مایوسی کی ایک خوفناک لہر پیدا ہوگئی ہے۔
اس حوالے سے ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ روز ہزاروں انسانی جانوں کو ہڑپ کرنے والی اس خونی دیوی کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں کیا جاسکا۔ جب کہ ساری دنیا کے ہزاروں طبی ماہرین اس عذاب کا علاج دریافت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم نے اس سے قبل بھی انھی کالموں میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا دنیا کے مشہور طبی ماہرین مشترکہ طور پر کورونا کا علاج ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کرسکتے، ایسا کیا گیا تو اس عفریت کے علاج میں کامیابی کے زیادہ امکانات کی توقع کی جاسکتی ہے۔
ترقی یافتہ دولت مند ملکوں میں اس وبا سے مقابلہ کرنے کی نسبتاً زیادہ سکت ہے لیکن پسماندہ ملکوں کی معیشت اس وبا کے ناقابل یقین نقصانات سے تباہی کے کنارے پہنچ گئی ہے۔ ان مخدوش حالات میں دولت مند ملکوں کی طرف سے پسماندہ ملکوں کی مالی مدد میں ضرورت کے مطابق اضافہ ضروری ہے، اس میں شک نہیں کہ دولت مند ملک ،پسماندہ ملکوں کی مدد کر رہے ہیں ۔ان کے علاوہ دنیا کے مالیاتی ادارے بھی ان ملکوں کی مالی مدد کر رہے ہیں لیکن ان ملکوں کی معیشت کو ہونے والے نقصانات کا تقاضا ہے کہ اور بڑے پیمانے پر مالی مدد کی جائے۔
پسماندہ ملکوں کی مالی مدد ان کی ضرورتوں کے تناظر میں نہ کی جائے تو پسماندہ ملک اور مشکلات کی زد میں آسکتے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے اس قابل ہیں کہ وہ پسماندہ ملکوں کی ضرورتوں کے تناظر میں اتنی مدد ضرور کریں کہ ان ملکوں کی معیشت کا بھٹہ نہ بیٹھنے پائے۔ پسماندہ ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے اسے عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے مالی مدد بھی مل رہی ہے لیکن وہ پاکستان کی ضرورتوں کے تناظر میں تشویش ناک حد تک کم ہے اور حکومت اور مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
ہمارے حکمران طبقات عوام کو احتیاط کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ایسے معاملات کے تناظر میں بلاشبہ احتیاط ضروری ہے لیکن اس حقیقت کو کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ احتیاط علاج کا نعم البدل نہیں ہو سکتی ۔اس حقیقت کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھر کے طبی ماہرین کی حکمت کو یکجا کیا جائے اور ان کی اجتماعی کاوشوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے ،حالات حاضرہ کی روشنی میں اس کوشش کو آزمانا ضروری ہے صرف احتیاط سے کام چلنے کا شاید کوئی حوصلہ افزا نتیجہ ہمارے سامنے نہ آسکے۔
اس وبا کی تباہ کاریوں سے عوام کو بچانے یا کم کرنے کے لیے ہر ملک میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے ،اب تک لاک ڈاؤن سے لاکھوں عوام بے روزگار ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں اس وبا کو آئے ہوئے تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، ان تین مہینوں میں کورونا نے پاکستانی عوام کو کس قدر جانی نقصان پہنچایا ہے، اس کے بھیانک پن کا اندازہ اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے۔
اس حوالے سے سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اب تک اس کا علاج دریافت نہیں ہو سکا۔ صرف ''احتیاط'' کو اس کا علاج قرار دیا جا رہا ہے۔ دنیا میں اب تک صرف کینسر کو لاعلاج قرار دیا جاتا رہا لیکن اب اس حوالے سے کورونا بھی لاعلاج بیماری کی تعریف میں آتا ہے اس فرق کے ساتھ کہ کورونا کی تباہ کاریاں اور جانی نقصان کینسر سے بہت زیادہ ہے اور امریکا اور روس جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں دس ہزار یومیہ میں آرہی ہے۔
دنیا کی تاریخ میں انسانوں کو جانی نقصان پہنچانے والی کئی وبائی بیماریاں آئیں لیکن اس کے نقصانات کورونا سے بہت کم رہے ہیں۔ کورونا سے ساری دنیا لرزہ براندام ہے اور طبی ماہرین اس حوالے سے اس موذی مرض کا علاج دریافت کرنے میں جٹے ہوئے ہیں لیکن ابھی تک اس حوالے سے کسی کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔دنیا بھر میں اس وبا سے عوام کو بچانے کے لیے لاک ڈاؤن کیے جا رہے ہیں لیکن اس سے خاطر خواہ فائدہ نظر نہیں آرہا ہے اس کے برخلاف بھاری جانی نقصان کے علاوہ معیشتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور بے روزگاری کا ایک طوفان آیا ہوا ہے جس سے حکومتیں متزلزل ہو کر رہ گئی ہیں۔
اس وبا کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ دیکھتے دیکھتے یہ وبا ہزاروں جانوں کا خراج لے لیتی ہے۔ اس وبا سے متاثرین کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے ایک دن میں 10 ہزار متاثرین کی تعداد صرف ایک ملک کی ہے اور دنیا میں لگ بھگ دو سو ملک ہیں ان خوفناک حقائق سے کورونا کی تباہ کاریوں کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ اس وبا کی خوفناکی کا عالم یہ ہے کہ اب تک سیکڑوں ڈاکٹر اس کی زد میں آچکے ہیں ان نقصانات کی وجہ دنیا کے عوام میں مایوسی کی ایک خوفناک لہر پیدا ہوگئی ہے۔
اس حوالے سے ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ روز ہزاروں انسانی جانوں کو ہڑپ کرنے والی اس خونی دیوی کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں کیا جاسکا۔ جب کہ ساری دنیا کے ہزاروں طبی ماہرین اس عذاب کا علاج دریافت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم نے اس سے قبل بھی انھی کالموں میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا دنیا کے مشہور طبی ماہرین مشترکہ طور پر کورونا کا علاج ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کرسکتے، ایسا کیا گیا تو اس عفریت کے علاج میں کامیابی کے زیادہ امکانات کی توقع کی جاسکتی ہے۔
ترقی یافتہ دولت مند ملکوں میں اس وبا سے مقابلہ کرنے کی نسبتاً زیادہ سکت ہے لیکن پسماندہ ملکوں کی معیشت اس وبا کے ناقابل یقین نقصانات سے تباہی کے کنارے پہنچ گئی ہے۔ ان مخدوش حالات میں دولت مند ملکوں کی طرف سے پسماندہ ملکوں کی مالی مدد میں ضرورت کے مطابق اضافہ ضروری ہے، اس میں شک نہیں کہ دولت مند ملک ،پسماندہ ملکوں کی مدد کر رہے ہیں ۔ان کے علاوہ دنیا کے مالیاتی ادارے بھی ان ملکوں کی مالی مدد کر رہے ہیں لیکن ان ملکوں کی معیشت کو ہونے والے نقصانات کا تقاضا ہے کہ اور بڑے پیمانے پر مالی مدد کی جائے۔
پسماندہ ملکوں کی مالی مدد ان کی ضرورتوں کے تناظر میں نہ کی جائے تو پسماندہ ملک اور مشکلات کی زد میں آسکتے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے اس قابل ہیں کہ وہ پسماندہ ملکوں کی ضرورتوں کے تناظر میں اتنی مدد ضرور کریں کہ ان ملکوں کی معیشت کا بھٹہ نہ بیٹھنے پائے۔ پسماندہ ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے اسے عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے مالی مدد بھی مل رہی ہے لیکن وہ پاکستان کی ضرورتوں کے تناظر میں تشویش ناک حد تک کم ہے اور حکومت اور مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
ہمارے حکمران طبقات عوام کو احتیاط کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ایسے معاملات کے تناظر میں بلاشبہ احتیاط ضروری ہے لیکن اس حقیقت کو کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ احتیاط علاج کا نعم البدل نہیں ہو سکتی ۔اس حقیقت کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھر کے طبی ماہرین کی حکمت کو یکجا کیا جائے اور ان کی اجتماعی کاوشوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے ،حالات حاضرہ کی روشنی میں اس کوشش کو آزمانا ضروری ہے صرف احتیاط سے کام چلنے کا شاید کوئی حوصلہ افزا نتیجہ ہمارے سامنے نہ آسکے۔