خدارا سنجیدہ فیصلے کیجیے

ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک کروڑ افراد بیروزگاری کا شکار ہو چکے ہیں


[email protected]

پاکستان میں کورونا وائرس نے جہاں انسانی زندگیوں کے لیے خطرات پیدا کیے وہاں معیشت کی چولیں بھی ہلا کر رکھ دیں۔کورونا سے بچنے کے لیے وفاق اور صوبوں نے لاک ڈاون کر دیا، اس فیصلے سے شاید کورونا کا پھیلاؤ تو کسی حد تک رک گیا لیکن تاجروں کا دیوالیہ نکل گیا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک کروڑ افراد بیروزگاری کا شکار ہو چکے ہیں۔ اگرچہ پیر سے ملک بھرمیں لاک ڈاون کو اسمارٹ لاک ڈاون میں تبدیل کرکے چھوٹی دکانوں اور بازاروں میں کاروباری سرگرمیاں شروع کرنیکی اجازت دی جا چکی ہے اور یہ اجازت ہفتے میں چار دن کے لیے دی گئی ہے، یعنی جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو ملک بھرمیں مکمل لاک ڈاون ہی رہے گا۔

لاک ڈاون میں نرمی کے باوجود کچھ ایسے کاروبارہیں جو بند ہیں، ان میں سے اگر صرف ایک کی بات کی جائے توچھوٹے ہوٹلوں، فاسٹ فوڈ پوائنٹس اور ریسٹورنٹس ہیں، ان کی تعداد صرف لاہور شہر میں ہزاروں میں ہے جن پر لاکھوں افراد کام کرتے تھے اس وقت سب ہوٹل، فوڈ پوائنٹس اور ریسٹورنٹس بند ہونے سے یہ لاکھوں افراد بیروزگار ہیں۔ مالکان کو ناصرف اپنی بند پڑی بلڈنگز کے بھاری کرایوں کے لالے پڑے ہوئے ہیںبلکہ بدترین خسارے کا بھی سامنا ہے۔ مشکل کی اس گھڑی میں سب کی نظریں سیاسی قیادت پر ہیں کہ وہ ان کے لیے بھی کوئی ریلیف پیکیج اناؤنس کرے گی۔

اس ضمن میں ایک شاندار مثال ہمارے سامنے آسٹریلیاکی ہے، کورونا وائرس کی وباء کے دوران متاثرہ افراد عام شہریوں، بیروزگار افراد اورچھوٹے و بڑے کاروباری اداروں کی مدد کے لیے آسٹریلیا کی حکومت نے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے رعایتی اور امدادی پیکیجز کا اعلان کیا ہے جس کے تحت ہر کاروبار کو ملازمین کی اجرت کی ادائیگی کے لیے فی ملازم پندرہ سو ڈالردیے جائیں گے۔

امدادی اور رعایتی پیکیجز میں چھوٹے بڑے کاروبار سے منسلک افراد کے لیے کیاکچھ ہے اور اس میں ہمارے لیے کیا سبق ہے اس پر آخر میں بات کرتے ہیں، سردست تو سیاسی قیادت کی سنجیدگی پر روشنی ڈال لیتے ہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ گورننس کا ہے۔

یہی وہ بحران ہے جسے مدر آف آل کرائسزکہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ گورننس کی جب بات کی جاتی ہے تو دو ہی اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں ایک گڈ گورننس اور دوسری بیڈ گورننس، اگر حکمرانی اچھی ہو، عوام الناس اس سے مطمئن ہوں، ادارے آئینی و قانونی حدود میں رہ کر فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہوں تو اسے گڈ گورننس سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اگر حکمرانی بری ہو، حکومت کی اداروں پرگرفت کمزور ہو اور عوام الناس میں بے چینی نظر آ رہی ہو تو اسے بیڈ گورننس کا نام جاتا ہے لیکن اس وقت ہم جس قسم کی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔

حکومتی فیصلے، ان پر عملدر آمد کا میکنزم، حکمرانوں کی اداروں پر گرفت، آئین و قانون کی حکمرانی کی صورتحال، عوام الناس کی بے چینی کا آسمان کو چھوتا لیول اور وفاق و صوبوں کے ایک دوسرے پرتابڑ توڑ حملے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس صورتحال کو گڈ گورننس کا نام دیا جائے یا بیڈ گورننس کا کیونکہ یہاں گورننس ہوگی تو اسے کوئی نام دیا جاسکے گا نا۔ رواں ہفتے سے شروع ہونے والے قومی اسمبلی و سینیٹ اجلاسوں نے ساری کہانی کھول کر عوام کے سامنے رکھ دی۔

جس صورتحال میں قوم کو متحد کرنے کی ضرورت تھی اس صورتحال میں قومی قیادت ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑنے میں لگی ہوئی ہے۔ پاکستان میں اس وقت کورونا وباء اپنے پورے زور پر نظر آرہی ہے، روزانہ کی بنیاد پر ڈیڑھ سے دوہزار نئے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں، درجنوں کوروناوائرس کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ صوبائی حکومتوں نے کیسز زیادہ ہونے کی صورت میں مریضوں کو گھروں میں قرنطینہ کرنے کے ایس او پیز بنالیے ہیں، جو انتہائی خطرناک صورتحال کی نشاندہی ہے۔

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ریاست کی اس سے زیادہ استعداد نہیں کہ وہ مریضوں کو سہولیات دے سکے ہمارا صحت کا نظام مزید بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ دنیا نے اس مہلک وباء سے بچاو کے لیے سخت ترین فیصلے لیے اور ان پر عملدرآمد کے لیے زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل کیا، ہمارے ہاں فیصلے تو ہوئے لیکن عملدرآمد مساجد کے علاوہ کہیں دکھائی نہیں دیا، ملک بھر کی مساجد کے آئمہ ، خطباء اور مساجد انتظامیہ نے ثابت کیا کہ وہ ناصرف پاکستان کے وفادار ہیں بلکہ ان کے دل میں انسانیت کا درد بھی کوٹ کوٹ کربھرا ہے۔ حکومت اور مساجد کے درمیان جو بیس نکاتی اعلامیہ طے پایا تھا کراچی سے خیبر تک ان پر من وعن عملدرآمد ہورہا ہے، احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرکے علماء و خطباء نے اپنی سطح پر کورونا وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کی سرتوڑ کوشش کی اور کررہے ہیں۔

اس کے علاوہ کوئی ایک جگہ ایسی نہیں جہاں ایس او پیز پر دس فیصد سے بھی زیادہ عمل کیا گیا ہو۔ قومی اسمبلی و سینیٹ کے حالیہ اجلاس تک میں اراکین اسمبلی نے ایس او پیز کی دھجیاں اڑا دیں، آپ باقی کس سے امید رکھتے ہیں۔ ڈیڑھ ماہ کے لاک ڈاون کے بعد حکومت نے تمام کاروباری سرگرمیاں ہفتے میں چار دن کے لیے کھول دی ہیں، آپ آج بازاروں میں جا کر دیکھ لیں، کون ان ایس او پیز پر عمل کررہا ہے جن کی شرائط پر کاروبار کھولنے کی اجازت دی گئی ہے؟ ان ایس او پیز پر عمل درآمد کرانے والا بھی کوئی دکھائی نہیں دیتا,کہاں ہے گورننس، کہاں ہے حکومت کی رٹ؟

پاکستان میں کروبا وباء کے پھیلاؤ کی صورتحال اور لاک ڈاون میں نرمی کا جائزہ لیتے ہوئے عالمی ادارہ صحت کے حکام نے واضح طور پر کہا تھا کہ پاکستان میں کورونا وائرس ختم نہیں ہوا ایسی صورتحال میں لاک ڈاؤن ختم یا اسے نرم کرنے کی صورت میں وائرس تیزی سے پھیلنے کا خطرہ موجود ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے دنیا بھر کے ممالک کو خبردارکیا تھا کہ مختلف ممالک میں لاک ڈاؤن کے خاتمے میں جلدی خطرناک ہوسکتی ہے۔ پھر ڈبلیو ایچ او نے ان ممالک کے لیے جو کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاون میں تھے چھ نکات جاری کیے، اور ہدایت کی کہ لاک ڈاون کھولنے سے پہلے ان پر لازمی عمل کیا جائے۔ ان میں پہلا نکتہ لاک ڈاؤن میں نرمی سے پہلے یہ یقینی ہونا چاہیے کہ کورونا کیسز کی تعداد کم ہو رہی ہے اور وائرس کی منتقلی قابو میں ہے۔

دوسرا، حکومتوں کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ لاک ڈاؤن میں نرمی سے قبل مشتبہ مریضوں کے لیے آئسولیشن وارڈز، ٹیسٹ اور علاج کی موثر سہولتیں موجود ہوں۔ تیسرا، یہ دیکھنا ہوگا کہ نرسنگ ہوم اورعلاج معالجے کی جگہوں پر کورونا وائرس کی وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات کر لیے گئے ہیں۔

چوتھا، لاک ڈاؤن کے خاتمے سے قبل کام کی جگہوں،تعلیمی اداروں اور دیگر عوامی مقامات پر مکمل احتیاطی اقدامات کیے جائیں۔ پانچواں، کورونا وائرس کی باہر سے منتقلی کو روکنے کا بندوبست کیا جا ئے۔ چھٹا، لاک ڈاؤن میں نرمی سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کورونا وائرس سے متعلق کمیونٹی کی سطح پر لوگوں کو مکمل آگاہی اور شعور دیا جا چکا ہو۔ لاک ڈاون کھولنے سے پہلے ان چھ نکات میں سے ہم نے کس پر من و عن عمل کیا؟

ہم ڈیڑھ ماہ کاروباری سرگرمیاں بند رہنے کا ازالہ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں، اگر ہمارے غیر سنجیدہ رویوں کے باعث کورونا شدت اختیار کرگیا تو ایک بار پھرمکمل اور پہلے سے زیادہ سخت لاک ڈاؤن کی جانب بڑھنا پڑے گا۔ اس لیے سیاسی قیادت سے دست بدست گزارش ہے کہ آپ اپنی سیاست بعد میں کر لیجیے گا، فی الحال صورتحال کی نزاکت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ملک و قوم کو اس بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لیے سنجیدہ اقدامات پر توجہ دیں۔ حکومتوں کا کام بھوک اورموت کی تکرارنہیں ہونا چاہیے بلکہ مشکلات میں گھری قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کا ہونا چاہیے۔

آسٹریلیا کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے اپنی معیشت کو بچانے کے لیے لوگوں کے کاروبارکو پوری طرح سپورٹ کیا۔ وہاں کی حکومت نے جس مراعاتی پیکیج کا اعلان کیا اس کے مطابق کسی بھی کاروبار میں یکم مارچ تک کل وقتی یا جز وقتی ملازمت کرنے والے ایسے افراد جو کم ازکم ایک سال تک کاروبار میں ملازم ہوں اور اب وہ بزنس خسارے میں آگیا ہوتو اس پیکیج سے بزنس اپنے ملازمین کو تنخواہ کی ادائیگی کرسکے گا۔ اس پیکیج کے تحت کرائے داروں کے لیے بھی مراعات دی جارہی ہیں کسی بھی کرائے دار سے اگلے چھ ماہ تک کرایہ نہ دینے پر بلڈنگ خالی نہیں کرائی جاسکے گی۔

بینکوں نے نرم شرائط پر قرضوں ،اضافی کاروباری قرضوں اور چھ مہینے تک بلڈنگز کے قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی کی چھوٹ جیسی مراعات کا اعلان کیا ہے۔ہماری حکومت کو بھی ایسے اقدامات کرنے چاہئیں۔ لاک ڈاؤن سے متاثرہ کاروبار کے لیے ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے، انھیں آسان شرائط پر بلاسود قرضوں کی فراہمی یقنی بنائی جائے۔ دکانوں اور عمارتوں کے مالکان اخوت کا عملی مظاہرہ کریں اورکرایہ معاف کردیں۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ اﷲ کی طرف سے آزمائش ہے، ہمیں اس سے نکلنے کا راستہ تبھی ملے گا جب اللہ راضی ہوگا اور اﷲ کو راضی کرنے کا ایک بہترین راستہ یہ ہے کہ مشکلات کا شکار لوگوں کی مدد کی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |