خاکروبوں کی نئی نسل کام چھوڑنے لگی نئے پیشے اپنا لیے
صفائی کرنیوالے اقلیتی برادریوں کی نئی نسل کے نوجوان طب کے کئی شعبوں، ہوٹلنگ اوردیگر پیشوں سے وابستہ ہورہے ہیں
کراچی میں صفائی کے کام سے وابستہ مختلف اقلیتی برادریوں کے کئی گھرانوں کی نئی نسل نے اس کام کو خیرآباد کہہ دیا، نئی نسل سے تعلق رکھنے والے نوجوان طب کے کئی شعبوں، ہوٹلنگ اوردیگر پیشوں سے وابستہ ہوگئے ہیں، اس لیے شہر میں صفائی کاکام کرنے والے ہنر مند افراد کی قلت ہوگئی ہے ان افراد کی جگہ اب افغانی برادری جگہ لیتی جارہی ہے یہ افغانی افراد بیشتر یونین کونسلوں میں صفائی کی نجی کمپنیوں میں ملازمت حاصل کرکے گھر گھر جاکر کچرا اٹھانے کا کام کررہے ہیں۔
تاہم خاکروب کا کام کرنے کے باوجود گٹروں کی صفائی کا کام اب بھی ہنر مند بھنگیوں کے پاس ہی ہے، صفائی کے کام سے وابستہ کرسچن کالونی کے رہائشی روبن مسیح نے ایکسپریس کوبتایا کہ صفائی کے حوالے سے 2 عہدے کلیدی کردار کے حامل ہیں ایک خاکروب اور دوسرا کنڈی مین (گٹروں کی صفائی کرنیوالے) کہلاتے ہیں، صفائی کے کام سے وابستہ افراد کی اکثریت سرکاری اداروں میں رٹائرمنٹ کی عمر کے قریب پہنچ چکی ہے یہ افراد زیادہ تر کیماڑی، ماڑی پور، لیاری، شیر شاہ، گولیمار، پاک کالونی، لیاقت آباد، مشرف کالونی، عیسیٰ نگری، کورنگی، لانڈھی، ناظم آباد پہاڑگنج، سرجانی ٹاؤن، نیوکراچی، ملیر اور دیگر علاقوں میں آباد ہیں یہ افراد غریب بستیوں میں رہتے ہیں ان افراد کی اکثریت غیر مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہے۔
ان افراد کی معاشی صورتحال انتہائی خراب ہے اس لیے ان گھرانوں زیادہ سے زیادہ افراد سرکاری اداروں میں ملازم ہونے کے ساتھ پرائیویٹ نوکریاں بھی کرتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ سرکاری طور پرصفائی کام کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہ اور مراعات تو الگ ہوتی ہیں لیکن نجی اداروں اور دیگر میں عارضی طور پر صفائی کا کام کرنے والوں کی تنخواہ 15 سے 20 ہزار روپے ہوتی ہے، ہم صبح 5 بجے اٹھ جاتے ہیں اور اس کے بعد اپنی نوکری کی مناسبت سے مخصوص علاقوں میں سڑکوں، شاہراہوں،گلی اور محلوں کی صفائی کرتے ہیں ویسے تو ہماری ڈیوٹی 8 گھنٹے کی ہوتی ہے لیکن بعض اوقات ہمیں 12 سے 16 گھنٹے بھی کام کرنا پڑتا ہے حالات کیسے بھی ہوں ہمیں چھٹی نہیں ملتی ہے کام کرنا پڑتا ہے صرف ہمارے مذہبی تہوار کے موقع پر ہمیں چھٹی ملتی ہے۔
بھرتیوں پر پاپندی سے نئی نسل کی دلچسپی ختم ہوگئی
مقامی یونین کمیٹی میں صفائی کا کام کرنے والی نجی کمپنی کے انچارج سید تنویر کاظمی نے بتایا کہ بھرتیوں پر پابندی وجہ سے ان کی نئی نسل نے اس کاکام کو چھوڑ دیا ہے اس لیے اب شہر نجی کمپنیاں بلدیاتی اداروں کی اجازت سے گھر گھر کچرا اٹھانے کاکام کررہے ہیں، یہ کام افغانی کرتے ہیں جو کارگو چنگ چی رکشے پر گھر گھر جاکر کچرا جمع کرتے ہیں اور صفائی کا کام کرتے ہیں اس کام کے لیے فی گھر ماہانہ 150سے 250 روپے بطور اجرت لیے جاتے ہیں گٹروں کی صفائی سرکاری ہنر مند کنڈی مین کرتے ہیں جو کسی اور کے بس کام نہیں ہے۔
یوسیز میں صفائی کا کام کرنے والے نجی کمپنیوں کے حوالے سے یوسی 36 ضلع وسطی کے وائس چیئرمین شمشاد زیدی نے کہا کہ یہ کمپنیاں متعلقہ ڈی ایم سیز کی این او سی کے بعد یویین کمیٹی کے ماتحت کام کرتی ہیں یہ صرف گھر گھر سے کچرا جمع کرتے ہیں اور طے شدہ ماہانہ فی گھر اپنی اجرت لیتے ہیں۔
خاکروب رمضان اورعیدین اور مذہبی تہواروں پر بلاناغہ صفائی کرتے ہیں
خاکروب رمضان ، عیدین اور مذہبی ایام اور تہواروں پر بھی بلا ناغہ صفائی کا کام انجام دیتے ہیں اور عید پر آ کر یہ افراد عیدی وصول کرتے ہیں۔
جھاڑو لگانے والوں کوحفاظتی لباس اورماسک نہیں ملتے
روبن مسیح کے مطابق صفائی کے شعبے سے منسلک افراد کا زیادہ تر کام شاہراہوں پر جھاڑوں لگانا ہونا ہے جھاڑو لگانے کے دوران انھیں حفاظتی لباس یا ماسک فراہم نہیں کیے جاتے جس کی وجہ سے زیادہ تر افراد آلودگی کے باعث دمے اور سینے کے امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، بعض اوقات ان امراض میں مبتلا رہنے کے سبب خاکروب مرجاتے ہیں، بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ سرکاری اداروں میں سن کوٹے پر پابندی کے باعث ان افراد کی جگہ ان کے اہل خانہ میں سے کسی فرد کو ملازمت نہیں ملتی۔
بروقت صفائی نہ ہونے سے سڑکوں پر گٹر اکثر ابل پڑتے ہیں
گٹروں کی صفائی کنڈی مین کرتے ہیں جنھیں عام طور پر بھنگی کہا جاتا ہے بھنگیوں کے پاس 10 فٹ سے لے کر 50 فٹ کے موٹے اور پتلے لچک دار بانس کے ڈنڈے ہوتے ہیں جنھیں عموماً ونجی کہا جاتا ہے اس کے علاوہ ان افراد کے پاس ہتھوڑے، چھینی اور پیتل یا لوہے کا باریک اور موٹا تار، بیلچہ، لوہے کی بالٹی بمعہ رسی اور دیگر اوزار ہوتے ہیں۔
شہباز مسیح نے بتایا کہ یہ افراد گٹروں کو کھولنے میں مہارت رکھتے ہیں، جس علاقے میں جو کنڈی مین کام کرتا ہے انھیں گٹروں کے اہم پوائنٹس معلوم ہوتے ہیں اسی لیے جب گٹر بھرجاتے ہیں تو وہ انھیں مخصوص پوائنٹ پر گٹروں میں اترکر کھول دیتے ہیں ان گٹروں کے اوپر ماضی میں لوہے کے ڈھکن رکھے جاتے تھے۔
تاہم ڈھکن چوری ہونے کرنے کے واقعات بڑھ جانے کے باعث اب سیمنٹ والے ڈھکن رکھے جاتے ہیں بھنگیوں کے پاس اکثر حفاظتی سامان نہیں ہوتا جس کے باعث گٹروں میں گیس بھرجانے کے باعث بھنگی بیہوش ہوکر جان کی بازی بھی ہارجاتے ہیں تاہم اب جدید مشینوں کے ذریعہ نالوں اور گٹروں کی صفائی کی جاتی ہے۔
خاکروب کا بیشتر کام خواتین کرتی ہیں
خاکروب کا کام بیشتر خواتین بھی کرتی ہے، تاہم یہ خواتین صرف سرکاری بلدیاتی اداروں میں خدمات انجام دیتی ہیں ان کا کام صرف سڑکوں پر جھاڑو لگانا ہوتا ہے، روبن مسیح کے مطابق کئی خواتین اپنے گھرانوں کے مردوں کے ہمراہ بعض فلیٹوں اور مخصوص علاقوں میں صفائی کا کام نجی طور پر انجام دیتے ہیں علاقے کی مناسبت سے یہ فی گھر 200 روپے سے لے کر 500 روپے تک ماہانہ معاوضہ وصول کرتے ہیں۔
فنڈزنہ ملنے پرخاکروب اپنے لیے جھاڑو خود خرید لیتے ہیں
خاکروب سائمن مسیح نے بتایا کہ تنکوں والی جھاڑو ویسے تو پورے شہر میں ملتی ہے لیکن ہول سیل کے حساب سے یہ جھاڑو کھارادر سے ملتی ہے۔ ایک جھاڑو کی قیمت کم از کم 100 روپے ہے موٹی جھاڑو 200 روپے کی ملتی ہے، اس جھاڑو میں ایک لمبا پتلا بانس یا ڈنڈا باندھا جاتا ہے تاکہ جھکے بغیرکام کیا جاسکتے۔
تاہم خاکروب کا کام کرنے کے باوجود گٹروں کی صفائی کا کام اب بھی ہنر مند بھنگیوں کے پاس ہی ہے، صفائی کے کام سے وابستہ کرسچن کالونی کے رہائشی روبن مسیح نے ایکسپریس کوبتایا کہ صفائی کے حوالے سے 2 عہدے کلیدی کردار کے حامل ہیں ایک خاکروب اور دوسرا کنڈی مین (گٹروں کی صفائی کرنیوالے) کہلاتے ہیں، صفائی کے کام سے وابستہ افراد کی اکثریت سرکاری اداروں میں رٹائرمنٹ کی عمر کے قریب پہنچ چکی ہے یہ افراد زیادہ تر کیماڑی، ماڑی پور، لیاری، شیر شاہ، گولیمار، پاک کالونی، لیاقت آباد، مشرف کالونی، عیسیٰ نگری، کورنگی، لانڈھی، ناظم آباد پہاڑگنج، سرجانی ٹاؤن، نیوکراچی، ملیر اور دیگر علاقوں میں آباد ہیں یہ افراد غریب بستیوں میں رہتے ہیں ان افراد کی اکثریت غیر مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہے۔
ان افراد کی معاشی صورتحال انتہائی خراب ہے اس لیے ان گھرانوں زیادہ سے زیادہ افراد سرکاری اداروں میں ملازم ہونے کے ساتھ پرائیویٹ نوکریاں بھی کرتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ سرکاری طور پرصفائی کام کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہ اور مراعات تو الگ ہوتی ہیں لیکن نجی اداروں اور دیگر میں عارضی طور پر صفائی کا کام کرنے والوں کی تنخواہ 15 سے 20 ہزار روپے ہوتی ہے، ہم صبح 5 بجے اٹھ جاتے ہیں اور اس کے بعد اپنی نوکری کی مناسبت سے مخصوص علاقوں میں سڑکوں، شاہراہوں،گلی اور محلوں کی صفائی کرتے ہیں ویسے تو ہماری ڈیوٹی 8 گھنٹے کی ہوتی ہے لیکن بعض اوقات ہمیں 12 سے 16 گھنٹے بھی کام کرنا پڑتا ہے حالات کیسے بھی ہوں ہمیں چھٹی نہیں ملتی ہے کام کرنا پڑتا ہے صرف ہمارے مذہبی تہوار کے موقع پر ہمیں چھٹی ملتی ہے۔
بھرتیوں پر پاپندی سے نئی نسل کی دلچسپی ختم ہوگئی
مقامی یونین کمیٹی میں صفائی کا کام کرنے والی نجی کمپنی کے انچارج سید تنویر کاظمی نے بتایا کہ بھرتیوں پر پابندی وجہ سے ان کی نئی نسل نے اس کاکام کو چھوڑ دیا ہے اس لیے اب شہر نجی کمپنیاں بلدیاتی اداروں کی اجازت سے گھر گھر کچرا اٹھانے کاکام کررہے ہیں، یہ کام افغانی کرتے ہیں جو کارگو چنگ چی رکشے پر گھر گھر جاکر کچرا جمع کرتے ہیں اور صفائی کا کام کرتے ہیں اس کام کے لیے فی گھر ماہانہ 150سے 250 روپے بطور اجرت لیے جاتے ہیں گٹروں کی صفائی سرکاری ہنر مند کنڈی مین کرتے ہیں جو کسی اور کے بس کام نہیں ہے۔
یوسیز میں صفائی کا کام کرنے والے نجی کمپنیوں کے حوالے سے یوسی 36 ضلع وسطی کے وائس چیئرمین شمشاد زیدی نے کہا کہ یہ کمپنیاں متعلقہ ڈی ایم سیز کی این او سی کے بعد یویین کمیٹی کے ماتحت کام کرتی ہیں یہ صرف گھر گھر سے کچرا جمع کرتے ہیں اور طے شدہ ماہانہ فی گھر اپنی اجرت لیتے ہیں۔
خاکروب رمضان اورعیدین اور مذہبی تہواروں پر بلاناغہ صفائی کرتے ہیں
خاکروب رمضان ، عیدین اور مذہبی ایام اور تہواروں پر بھی بلا ناغہ صفائی کا کام انجام دیتے ہیں اور عید پر آ کر یہ افراد عیدی وصول کرتے ہیں۔
جھاڑو لگانے والوں کوحفاظتی لباس اورماسک نہیں ملتے
روبن مسیح کے مطابق صفائی کے شعبے سے منسلک افراد کا زیادہ تر کام شاہراہوں پر جھاڑوں لگانا ہونا ہے جھاڑو لگانے کے دوران انھیں حفاظتی لباس یا ماسک فراہم نہیں کیے جاتے جس کی وجہ سے زیادہ تر افراد آلودگی کے باعث دمے اور سینے کے امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، بعض اوقات ان امراض میں مبتلا رہنے کے سبب خاکروب مرجاتے ہیں، بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ سرکاری اداروں میں سن کوٹے پر پابندی کے باعث ان افراد کی جگہ ان کے اہل خانہ میں سے کسی فرد کو ملازمت نہیں ملتی۔
بروقت صفائی نہ ہونے سے سڑکوں پر گٹر اکثر ابل پڑتے ہیں
گٹروں کی صفائی کنڈی مین کرتے ہیں جنھیں عام طور پر بھنگی کہا جاتا ہے بھنگیوں کے پاس 10 فٹ سے لے کر 50 فٹ کے موٹے اور پتلے لچک دار بانس کے ڈنڈے ہوتے ہیں جنھیں عموماً ونجی کہا جاتا ہے اس کے علاوہ ان افراد کے پاس ہتھوڑے، چھینی اور پیتل یا لوہے کا باریک اور موٹا تار، بیلچہ، لوہے کی بالٹی بمعہ رسی اور دیگر اوزار ہوتے ہیں۔
شہباز مسیح نے بتایا کہ یہ افراد گٹروں کو کھولنے میں مہارت رکھتے ہیں، جس علاقے میں جو کنڈی مین کام کرتا ہے انھیں گٹروں کے اہم پوائنٹس معلوم ہوتے ہیں اسی لیے جب گٹر بھرجاتے ہیں تو وہ انھیں مخصوص پوائنٹ پر گٹروں میں اترکر کھول دیتے ہیں ان گٹروں کے اوپر ماضی میں لوہے کے ڈھکن رکھے جاتے تھے۔
تاہم ڈھکن چوری ہونے کرنے کے واقعات بڑھ جانے کے باعث اب سیمنٹ والے ڈھکن رکھے جاتے ہیں بھنگیوں کے پاس اکثر حفاظتی سامان نہیں ہوتا جس کے باعث گٹروں میں گیس بھرجانے کے باعث بھنگی بیہوش ہوکر جان کی بازی بھی ہارجاتے ہیں تاہم اب جدید مشینوں کے ذریعہ نالوں اور گٹروں کی صفائی کی جاتی ہے۔
خاکروب کا بیشتر کام خواتین کرتی ہیں
خاکروب کا کام بیشتر خواتین بھی کرتی ہے، تاہم یہ خواتین صرف سرکاری بلدیاتی اداروں میں خدمات انجام دیتی ہیں ان کا کام صرف سڑکوں پر جھاڑو لگانا ہوتا ہے، روبن مسیح کے مطابق کئی خواتین اپنے گھرانوں کے مردوں کے ہمراہ بعض فلیٹوں اور مخصوص علاقوں میں صفائی کا کام نجی طور پر انجام دیتے ہیں علاقے کی مناسبت سے یہ فی گھر 200 روپے سے لے کر 500 روپے تک ماہانہ معاوضہ وصول کرتے ہیں۔
فنڈزنہ ملنے پرخاکروب اپنے لیے جھاڑو خود خرید لیتے ہیں
خاکروب سائمن مسیح نے بتایا کہ تنکوں والی جھاڑو ویسے تو پورے شہر میں ملتی ہے لیکن ہول سیل کے حساب سے یہ جھاڑو کھارادر سے ملتی ہے۔ ایک جھاڑو کی قیمت کم از کم 100 روپے ہے موٹی جھاڑو 200 روپے کی ملتی ہے، اس جھاڑو میں ایک لمبا پتلا بانس یا ڈنڈا باندھا جاتا ہے تاکہ جھکے بغیرکام کیا جاسکتے۔