رش کم کرنے کیلیے تاجروں کا بازار 24 گھنٹے کھولنے کا مطالبہ

دو ماہ سے بازار بند ہونے کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد بازاروں کا رخ کررہی ہے، دکان دار


Staff Reporter May 14, 2020
دو ماہ سے بازار بند ہونے کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد بازاروں کا رخ کررہی ہے، دکاندار۔ فوٹو: فائل

تاجروں نے رش کو کم کرنے کے لیے مختصر وقت کے بجائے 24 گھنٹے بازار کھولنے کا مطالبہ کردیا اور کہا ہے کہ محدود کاروباری اوقات اور بڑے مالز بند ہونے کی وجہ سے بازاروں میں گاہکوں کا رش ہے جس قابو کرنا تاجروں کے بس کی بات نہیں۔

ایکسپریس نیوز کیے مطابق سندھ میں لاک ڈاؤن کی نرمی کے چوتھے روز بھی شہر کے بازاروں میں گاہکوں کا رش لگا رہا، بیشتر بازاروں میں احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا۔

شہری انتظامیہ کی جانب سے زینب مارکیٹ میں بدھ کو سیل کیے جانے والے چار تجارتی مراکز جمعرات کو بھی بند رہے۔ مدینہ سٹی شاپنگ سینٹر، انٹرنیشنل سینٹر، وکٹوریہ شاپنگ سینٹر اور زینب مارکیٹ میں لگ بھگ 1200 سے زائد دکانیں بند رہیں۔ دکان دار اور سیلز مین کی بڑی تعداد صبح سویرے بازاروں میں پہنچ گئی تاہم اسسٹنٹ کمشنر صدر نے پولیس کی نفری کے ہمراہ دکانیں کھولنے سے منع کردیا۔

اسسٹنٹ کمشنر صدر آصف رضا چانڈیو کا کہنا تھا کہ سیل کیے گئے بازاروں میں ایس او پی پر عمل درآمد کے لیے تاحال کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے جس بازار میں بھی ایس او پی پر عمل نہیں ہوگا اسے بند کرادیا جائے گا، صدر میں ہی زینب مارکیٹ کے قریب دیگر بازار جو ایس او پی پر عمل کررہے ہیں وہاں کاروبار کی اجازت ہے۔

یہ پڑھیں : کراچی کے بعد لاہور میں بھی متعدد مارکیٹس بند کرادی گئیں

 

سیل کی گئی مارکیٹوں کے دکان داروں کا کہنا تھا کہ دو ماہ سے بازار بند ہونے کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد بازاروں کا رخ کررہی ہے، دکاندار اپنے طور پر اپنی حفاظت کے لیے ماسک اور دستانوں کا استعمال کررہے ہیں لیکن گاہکوں کے ہجوم کو قابو کرنا دشوار ہے، تجارتی مراکز کھولنے کے لیے محدود اوقات اور ہفتہ میں چار روز تجارت کی اجازت کی وجہ سے گاہکوں کا رش ہے۔

سندھ تاجر اتحاد کے چیئرمین جمیل پراچہ نے سیل کیے گئے بازاروں کا دورہ کیا اور کہا کہ بازاروں کو چوبیس گھنٹے کھولا جائے، ایس او پی پر عمل درآمد کی ذمہ داری ضلعی انتظامیہ کو سونپی جائے کیونکہ تاجروں کے لیے عوام کے ہجوم کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں