آئندہ تین سے چار ہفتے معاشی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا عبدالحفیظ شیخ
دنیا کی شرح نمو میں کمی سے ہماری برآمدات کی طلب کم ہوگی اور ہماری ترسیلات زر میں بھی کمی آئے گی، مشیر خزانہ
RAWALPINDI:
وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ کورونا وبا کے سبب معاشی سرگرمیاں کم ہونے سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا اور ٹیکس آمدنی میں کمی آئے گی جس کی وجہ سے اگلے تین چار ہفتے مشکل میں گزریں گے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے آئی کیپ کے زیر اہتمام کورونا وائرس کی وبا کے بعد ملکی معیشت کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد مشکل فیصلے کرنا پڑے مگر بروقت اور مشکل فیصلوں سے معیشت کی سمت درست کی۔
انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو بیس ارب ڈالر سے کم کرکے تین ارب ڈالر کیا، روپے کو اس کے حقیقی سطح پر لایا گیا ہے، عالمی برادری میں اعتماد کو بحال کیا، عالمی مالیاتی اداروں کی پاکستان میں دلچسپی بڑھی محصولات میں سولہ فیصد کا اضافہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا سے پوری دنیا متاثر ہوئی ہے، آئی ایم ایف کے تخمینہ کے مطابق دنیا کی معاشی شرح نمو میں تین فیصد تک کمی ہوگی، دنیا کی شرح نمو میں کمی سے ہماری برآمدات کی طلب بھی گرے گی اور ہماری ترسیلات زر میں بھی کمی آئے گی جبکہ معاشی سرگرمیوں کم ہونے سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا اور ٹیکس آمدنی میں کمی آئے گی اور اگلے تین چار ہفتے مشکل میں گزریں گے۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ وبا سے پہلے معاشی ترقی کی شرح تین فیصد کے قریب تھی، وبا کے بعد منفی ایک اعشاریہ پانچ فیصد ہونے کا امکان ہے، ہمیں مستحق طبقے اور کاروبار کو تحفظ فراہم کرنا ہے، 12 سو ارب روپے کا وزیر اعظم معاشی ریلیف پیکیج دیا ہے، 144 ارب روپے 1 کروڑ 20 لاکھ افراد کے معاشی تحفظ پر خرچ کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بے روزگار افرادی قوت کے لیے معاونت کی اسکیم بھی منظور کی گئی ہے جس کے تحت کمپنیوں کے لیے پے رول اخراجات کی مد میں چار فیصد پر سبسڈائزڈ قرضے دے ہیں جبکہ 100 ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈ جاری کیے ہیں اور تمام کمرشل اداروں کو تین مہینے کے لیے مفت بجلی فراہم کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کو عوام تک منتقل کیا ہے، 30 سے 40 فیصد تک توانائی کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے، گھریلو صارفین کے لیے گیس کے بلوں کو تین ما کے لیے موخر کیا گیا ہے۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ چھوٹے کاروبار کو سستے قرضوں کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، زرعی شعبے کے لیے 280 ارب روپے گندم کی خریداری پر خرچ کیے جائیں گے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ کورونا وبا کے سبب معاشی سرگرمیاں کم ہونے سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا اور ٹیکس آمدنی میں کمی آئے گی جس کی وجہ سے اگلے تین چار ہفتے مشکل میں گزریں گے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے آئی کیپ کے زیر اہتمام کورونا وائرس کی وبا کے بعد ملکی معیشت کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد مشکل فیصلے کرنا پڑے مگر بروقت اور مشکل فیصلوں سے معیشت کی سمت درست کی۔
انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو بیس ارب ڈالر سے کم کرکے تین ارب ڈالر کیا، روپے کو اس کے حقیقی سطح پر لایا گیا ہے، عالمی برادری میں اعتماد کو بحال کیا، عالمی مالیاتی اداروں کی پاکستان میں دلچسپی بڑھی محصولات میں سولہ فیصد کا اضافہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا سے پوری دنیا متاثر ہوئی ہے، آئی ایم ایف کے تخمینہ کے مطابق دنیا کی معاشی شرح نمو میں تین فیصد تک کمی ہوگی، دنیا کی شرح نمو میں کمی سے ہماری برآمدات کی طلب بھی گرے گی اور ہماری ترسیلات زر میں بھی کمی آئے گی جبکہ معاشی سرگرمیوں کم ہونے سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا اور ٹیکس آمدنی میں کمی آئے گی اور اگلے تین چار ہفتے مشکل میں گزریں گے۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ وبا سے پہلے معاشی ترقی کی شرح تین فیصد کے قریب تھی، وبا کے بعد منفی ایک اعشاریہ پانچ فیصد ہونے کا امکان ہے، ہمیں مستحق طبقے اور کاروبار کو تحفظ فراہم کرنا ہے، 12 سو ارب روپے کا وزیر اعظم معاشی ریلیف پیکیج دیا ہے، 144 ارب روپے 1 کروڑ 20 لاکھ افراد کے معاشی تحفظ پر خرچ کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بے روزگار افرادی قوت کے لیے معاونت کی اسکیم بھی منظور کی گئی ہے جس کے تحت کمپنیوں کے لیے پے رول اخراجات کی مد میں چار فیصد پر سبسڈائزڈ قرضے دے ہیں جبکہ 100 ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈ جاری کیے ہیں اور تمام کمرشل اداروں کو تین مہینے کے لیے مفت بجلی فراہم کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کو عوام تک منتقل کیا ہے، 30 سے 40 فیصد تک توانائی کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے، گھریلو صارفین کے لیے گیس کے بلوں کو تین ما کے لیے موخر کیا گیا ہے۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ چھوٹے کاروبار کو سستے قرضوں کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، زرعی شعبے کے لیے 280 ارب روپے گندم کی خریداری پر خرچ کیے جائیں گے۔