عوام کی جانب سے بے احتیاطی کا مظاہرہ کیوں
لاک ڈاؤن میں نرمی کیاہوئی کہ تمام حفاظتی تدابیرکو نظر اندازکرتے ہوئے تمام چھوٹے بڑوں شہروں میں شہریوں کاہجوم امڈ آیا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پارلیمینٹیرینز اپنے متعلقہ حلقوں میں عوام کوکورونا وائرس سے بچاؤکی حفاظتی تدابیر اختیارکرنے کی ترغیب دیں۔کورونا وائرس کے حوالے سے پوری قوم کے طرز عمل کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہم تاحال غیر سنجیدہ ہیں۔ وزیراعظم اسی صورتحال کی جانب بار بار نشاندہی کررہے ہیں۔
لاک ڈاؤن میں نرمی کیا ہوئی کہ تمام حفاظتی تدابیرکو نظر اندازکرتے ہوئے تمام چھوٹے بڑوں شہروں میں شہریوں کا ہجوم امڈ آیا جس سے بازاروں میں بے پناہ رش دیکھنے میں آیا۔ دکانداروں کے علاوہ خریدار بھی ماسک کے بغیر نظرآئے، ایس او پیزکی خلاف ورزی دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کورونا وائرس کی وبا ملک سے ختم ہوچکی ہے۔ایس او پیز کی خلاف ورزی کی یہ صورتحال دیکھتے ہوئے، حکومت سندھ نے کراچی کی پانچ بڑی مارکیٹیں سیل کردیں۔لاہور میں متعدد مارکیٹیں انتظامیہ نے بند کروائیں۔ اس وقت ہم حالت جنگ میں ہیں لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد ابھی تک صورتحال کوغیرسنجیدگی سے لے رہی ہے، دنیا بھر میں تین لاکھ سے زائد افراد اس وباء کا شکارہوچکے ہیں۔
پاکستان میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد چھتیس ہزارسے تجاوزکرچکی ہے، جب کہ اموات تقریبا آٹھ سوکی قریب پہنچ چکی ہے۔ صورتحال روز بروز بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے، لیکن تاجروں اورگاہکوں نے حالات کی نزاکت کو نہیں سمجھا۔
وفاقی وزیر اسد عمر نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا تیزی سے بڑھا تو فیصلوں پرنظرثانی کے لیے مجبورہوں گے،کروڑوں لوگوں کی معاشی مشکلات نظرانداز نہیں کی جاسکتیں۔ ہر10روز بعد کورونا کی ممکنہ صورتحال کا جائزہ لیاجاتا ہے، اب ہمیں کورونا کے ساتھ زندگی گزارنا سیکھنا ہے۔عالمی وباء سے بچاؤکے لیے ضروری ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں اپنے طرزحیات میں تبدیلی لانا ہوگی، جینے کے نئے ڈھنگ اپنانے ہونگے۔ اسی میں ہماری اور ہماری نسلوں کی زندگی کی بقا کا راز پوشیدہ ہے۔ ریڈیو، ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا سمیت ہر ڈیجٹیل پلیٹ فارم کے ذریعے موثر عوامی آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے۔ ساری ذمے داری اب عوام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیارکریں اپنی زندگی سے پیارکریں۔
دوسری جانب دورہ کوئٹہ کے موقعے پر پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمرجاوید باجوہ نے کہا ہے کہ بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے، صوبائی حکومت اورعوام کی ترقی وخوشحالی کے لیے بھرپور تعاون ہمارا فرض ہے۔ علاوہ ازیں آرمی چیف کوکورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں بھی بتایا گیا۔ بلوچستان میں وطن عزیز کے دشمن ممالک کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں، جب کہ پاک فوج ، رینجرز اور پولیس کے جوان، اپنی جوانیاں مادر وطن پر نچھاورکررہے ہیں۔ قوم پرامید ہے کہ بلوچستان صوبہ جلد ترقی وخوشحالی کی راہ پرگامزن ہوگا، اور دشمن کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ بلوچستان کے محب وطن عوام کے دلوں میں پاکستان سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
ادھر اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ورچوئل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کورونا وائرس کے تناظر میں کسی طبقے کے ساتھ مذہب، رنگ ونسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی کسی طبقے کواس کے لیے مورد الزام ٹھہرایا یا نشانہ بنایا جانا چاہیے۔ وبا کے تناظر میں دیگر قومیتوں سے بیزاری اور اسلام مخالف سوچ کو دنیا میں بڑھنے نہ دیا جائے اور دنیا ان رجحانات کو مستردکرے۔ ان کا واضح ترین اشارہ بھارت کی طرف تھا،جہاں مسلمانوں پرکورونا وائرس پھیلانے کا جھوٹا الزام عائد کرکے تشدد کو ہوا دی جارہی ہے۔ یہ سب مودی کی انتہائی متعصبانہ پالیسیوں کا شاخسانہ ہے کہ وہ ایک عالمی وبا کو مسلمانوں سے نتھی کرکے ان پرظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔
آیندہ چھ ماہ کے دوران پانچ سال سے کم عمر بچوں میں ہونے والی بیماریوں سے اموات میں تقریبا 45 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے یہ بات اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتائی گئی ہے ۔ دی لانسیٹ گلوبل ہیلتھ کے ذریعے شایع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق ، افریقہ ، ایشیا اور لاطینی امریکا کی غریب اقوام اس عرصے کے دوران مزید 12 لاکھ بچوں کی موت دیکھ سکتی ہیں۔یہ رپورٹ مستقبل کے انتہائی بھیانک منظرنامے کو پیش کررہی ہے۔ عالمی قیادت اور طبی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اس کا حل تلاش کرنا چاہیے تاکہ انسانیت کو اس طرح مٹنے سے بچایا جاسکے۔ ایک جانب تو کورونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں، جب کہ دوسری جانب اس سے بچاؤ کے لیے تدابیر بھی کی جا رہی ہیں۔
چیئرمین این ڈی ایم اے نے کہا ہے کہ کورونا سے بچاؤ کے لیے چین سے خریدا گیا ایک لاکھ ٹن سے زائد طبی سامان پاکستان پہنچ چکا ہے، وینٹی لیٹرز کے سوا اب تمام حفاظتی سامان مقامی مارکیٹ سے خریدا جا رہا ہے جس سے خطیر فنڈز کی بچت ہو رہی ہے، سامان کی خریداری اور ترسیل کے عمل میں مکمل شفافیت کو یقینی بنایا گیا ہے۔ان عملی کاوشوںکو یقیناً قوم قدرکی نگاہ سے دیکھ رہی ہے ۔کراچی میں ڈاکٹرز برادری کا موقف ہے کہ کورونا انفیکشن کے پھیلاؤ سے ہمارا ہیلتھ کیئرنظام،منہدم ہونے کا امکان ہے، طبی ماہرین پہلے بھی متعدد بار اپنی تشویش سے آگاہ کرچکے ہیں۔
اس خطرناک بیماری کی موجودگی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بے بنیاد پروپیگنڈے کے زیر اثر عوام کے ایک طبقے میں کورونا کی حقیقت سے یکسر انکار کی کیفیت بھی نظر آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاک ڈاون کے خاتمے کے پہلے ہی دن تاجروں اور عوام کی جانب سے ایس او پیز کو بری طرح نظر انداز کیا گیا اور تمام احتیاطی تدابیرکی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ بازاروں میں عیدکی خریداری کے سلسلے میں عوام کا رش بڑھتا جارہا ہے ، یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے۔ گو عوام کی سہولت کے لیے لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی ہے لیکن عوام یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ وباء کے پھیلنے کا خطرہ بدستور موجود ہے،حفاظتی ایس او پیز پر عمل درآمد سے عوام کی صحت اور حفاظت کو یقینی بنانا انتظامیہ، تاجروں اور عوام کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ وفاقی اورصوبائی حکومتوں سمیت مخیرحضرات بلکہ ہر شخص دامے ، درمے ، سخنے مستحقین کی مدد کررہا ہے۔ رمضان المبارک میں لوگ دل کھول کر راشن بھی تقسیم کررہے ہیں اور یہ عمل وسیع پیمانے پر جاری وساری ہے۔ عید کی آمد ہے، اسی تناظر میں حکومت پنجاب نے21 سے24 مئی تک پبلک ٹرانسپورٹ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ لوگ عید الفطر منانے اپنے گھروں کوجاسکیں، اعلان بیس مئی تک متوقع ہے۔ ٹرانسپورٹ اڈوں پر سینی ٹائزر واک تھروگیٹ لگائے جائیں گے، بغیر ماسک اورگلوزکے کسی مسافرکو سوار نہیں کیا جائے گا۔ نزلہ، زکام، کھانسی میں مبتلا مسافروں کوگاڑیوں میں سوار نہیں کیا جائے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ضمن میں دوسری صوبائی حکومتیں کیا اقدامات اٹھاتی ہیں۔کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے زرعی شعبے کے لیے 56.60 ارب روپے کے پیکیج کی منظوری دی ہے ، کسانوں کوکھادکی خریداری پر 37 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ اسی طرح زرعی قرضوں کے سود پر دس فیصد مارک اپ سبسڈی دی جائے گی۔ حکومتی سطح پر زرعی شعبہ کے لیے پیکیج کا اعلان انتہائی خوش آیند امر ہے، زراعت کے تن مردہ میں روح پھونکنے کے مترادف ہے، درحقیقت پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے،لیکن ماضی کی حکومتوں کی عدم توجہی کے باعث یہ شعبہ بھی زوال کا شکار ہوا ہے۔
زراعت کے میدان میں جدید ٹیکنالوجی اپنانے اورحکومتی سطح پر بہتر اقدامات سے ہماری ملکی معیشت کوسہارا مل سکتا ہے۔کسان کو ریلیف ملے گا تو زرعی پیداوار میں اضافے کی رفتار تیز تر ہوگی۔ اس پیکیج پر عملدرآمدکو جلد ممکن بنایا جائے۔مشکل کی گھڑی میں کسی بھی قوم کی پہچان اس کے رویوں سے ہوتی ہے، مقام افسوس ہے کہ اتنی قیامت خیز وبا کی موجودگی میں ہم نے ملاوٹ اور کرپشن کو نہیں چھوڑا۔ رمضان المبارک کے مبارک مہینے میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ایک عام فرد بھی اپنی فیملی کے لیے افطاری لینے کی استطاعت نہیں رکھتا، پھل اتنے مہنگے ہوچکے ہیں کہ انھیں خریدا نہیں جاسکتا۔ پرائس کنٹرول کمیٹی کا نظام مکمل طور پر مفلوج ہے، اسے فعال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ناجائزمنافع خوروں کوگرفت میں لائے بغیر مہنگائی پر قابو پانا ناممکن ہے۔دوسری جانب عوامی حلقوں میں یہ باتیں گردش کر رہی ہیں کہ لاک ڈاؤن میں کرپشن کا گراف بھی بہت اوپر گیا جس سے سب سے زیادہ محکمہ پولیس کے اہلکار مستفید ہوئے،پولیس اہلکاروں نے دکانداروں سے روزانہ کی بنیاد پر مک مکا کر کے انھیں دکانیں کھولنے کی اجازت دے دی،اس طرح حکومتی احکامات کی سب سے زیادہ دھجیاں پولیس اہلکاروں کی جانب سے اڑائی گئیں۔
سچ کیا ہے 'ان الزامات کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے حکومت کو فوری تحقیقات کرانا چاہیے کہ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے کے مصداق جن پولیس اہلکاروں کے سہارے لاک ڈاؤن پر پابندی کرائی جا رہی ہے کہیں وہی تو اس کا سر عام مذاق نہیں اڑا رہے ۔شہری کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کا سب سے زیادہ دکھ ان راشی پولیس اہلکاروں ہی کو ہو رہا ہے۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت ایک پیج پر نہیں آسکی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے جاری اجلاسوں میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ زورشور سے جاری ہے۔
سیاسی رہنما پوائنٹ اسکورنگ میں مصروف ہیں۔قوم مایوس ہوتی جارہی ہے، قوم کو مایوسی کی دلدل سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فہم وفراست اور تدبر کا مظاہرہ کریں تاکہ عوام میںامید اورحوصلہ پیدا ہو، تب ہی ہم بحیثیت قوم اس وبا کے عذاب سے نکل سکتے ہیں۔
لاک ڈاؤن میں نرمی کیا ہوئی کہ تمام حفاظتی تدابیرکو نظر اندازکرتے ہوئے تمام چھوٹے بڑوں شہروں میں شہریوں کا ہجوم امڈ آیا جس سے بازاروں میں بے پناہ رش دیکھنے میں آیا۔ دکانداروں کے علاوہ خریدار بھی ماسک کے بغیر نظرآئے، ایس او پیزکی خلاف ورزی دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کورونا وائرس کی وبا ملک سے ختم ہوچکی ہے۔ایس او پیز کی خلاف ورزی کی یہ صورتحال دیکھتے ہوئے، حکومت سندھ نے کراچی کی پانچ بڑی مارکیٹیں سیل کردیں۔لاہور میں متعدد مارکیٹیں انتظامیہ نے بند کروائیں۔ اس وقت ہم حالت جنگ میں ہیں لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد ابھی تک صورتحال کوغیرسنجیدگی سے لے رہی ہے، دنیا بھر میں تین لاکھ سے زائد افراد اس وباء کا شکارہوچکے ہیں۔
پاکستان میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد چھتیس ہزارسے تجاوزکرچکی ہے، جب کہ اموات تقریبا آٹھ سوکی قریب پہنچ چکی ہے۔ صورتحال روز بروز بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے، لیکن تاجروں اورگاہکوں نے حالات کی نزاکت کو نہیں سمجھا۔
وفاقی وزیر اسد عمر نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا تیزی سے بڑھا تو فیصلوں پرنظرثانی کے لیے مجبورہوں گے،کروڑوں لوگوں کی معاشی مشکلات نظرانداز نہیں کی جاسکتیں۔ ہر10روز بعد کورونا کی ممکنہ صورتحال کا جائزہ لیاجاتا ہے، اب ہمیں کورونا کے ساتھ زندگی گزارنا سیکھنا ہے۔عالمی وباء سے بچاؤکے لیے ضروری ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں اپنے طرزحیات میں تبدیلی لانا ہوگی، جینے کے نئے ڈھنگ اپنانے ہونگے۔ اسی میں ہماری اور ہماری نسلوں کی زندگی کی بقا کا راز پوشیدہ ہے۔ ریڈیو، ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا سمیت ہر ڈیجٹیل پلیٹ فارم کے ذریعے موثر عوامی آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے۔ ساری ذمے داری اب عوام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیارکریں اپنی زندگی سے پیارکریں۔
دوسری جانب دورہ کوئٹہ کے موقعے پر پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمرجاوید باجوہ نے کہا ہے کہ بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے، صوبائی حکومت اورعوام کی ترقی وخوشحالی کے لیے بھرپور تعاون ہمارا فرض ہے۔ علاوہ ازیں آرمی چیف کوکورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں بھی بتایا گیا۔ بلوچستان میں وطن عزیز کے دشمن ممالک کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں، جب کہ پاک فوج ، رینجرز اور پولیس کے جوان، اپنی جوانیاں مادر وطن پر نچھاورکررہے ہیں۔ قوم پرامید ہے کہ بلوچستان صوبہ جلد ترقی وخوشحالی کی راہ پرگامزن ہوگا، اور دشمن کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ بلوچستان کے محب وطن عوام کے دلوں میں پاکستان سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
ادھر اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ورچوئل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کورونا وائرس کے تناظر میں کسی طبقے کے ساتھ مذہب، رنگ ونسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی کسی طبقے کواس کے لیے مورد الزام ٹھہرایا یا نشانہ بنایا جانا چاہیے۔ وبا کے تناظر میں دیگر قومیتوں سے بیزاری اور اسلام مخالف سوچ کو دنیا میں بڑھنے نہ دیا جائے اور دنیا ان رجحانات کو مستردکرے۔ ان کا واضح ترین اشارہ بھارت کی طرف تھا،جہاں مسلمانوں پرکورونا وائرس پھیلانے کا جھوٹا الزام عائد کرکے تشدد کو ہوا دی جارہی ہے۔ یہ سب مودی کی انتہائی متعصبانہ پالیسیوں کا شاخسانہ ہے کہ وہ ایک عالمی وبا کو مسلمانوں سے نتھی کرکے ان پرظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔
آیندہ چھ ماہ کے دوران پانچ سال سے کم عمر بچوں میں ہونے والی بیماریوں سے اموات میں تقریبا 45 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے یہ بات اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتائی گئی ہے ۔ دی لانسیٹ گلوبل ہیلتھ کے ذریعے شایع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق ، افریقہ ، ایشیا اور لاطینی امریکا کی غریب اقوام اس عرصے کے دوران مزید 12 لاکھ بچوں کی موت دیکھ سکتی ہیں۔یہ رپورٹ مستقبل کے انتہائی بھیانک منظرنامے کو پیش کررہی ہے۔ عالمی قیادت اور طبی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اس کا حل تلاش کرنا چاہیے تاکہ انسانیت کو اس طرح مٹنے سے بچایا جاسکے۔ ایک جانب تو کورونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں، جب کہ دوسری جانب اس سے بچاؤ کے لیے تدابیر بھی کی جا رہی ہیں۔
چیئرمین این ڈی ایم اے نے کہا ہے کہ کورونا سے بچاؤ کے لیے چین سے خریدا گیا ایک لاکھ ٹن سے زائد طبی سامان پاکستان پہنچ چکا ہے، وینٹی لیٹرز کے سوا اب تمام حفاظتی سامان مقامی مارکیٹ سے خریدا جا رہا ہے جس سے خطیر فنڈز کی بچت ہو رہی ہے، سامان کی خریداری اور ترسیل کے عمل میں مکمل شفافیت کو یقینی بنایا گیا ہے۔ان عملی کاوشوںکو یقیناً قوم قدرکی نگاہ سے دیکھ رہی ہے ۔کراچی میں ڈاکٹرز برادری کا موقف ہے کہ کورونا انفیکشن کے پھیلاؤ سے ہمارا ہیلتھ کیئرنظام،منہدم ہونے کا امکان ہے، طبی ماہرین پہلے بھی متعدد بار اپنی تشویش سے آگاہ کرچکے ہیں۔
اس خطرناک بیماری کی موجودگی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بے بنیاد پروپیگنڈے کے زیر اثر عوام کے ایک طبقے میں کورونا کی حقیقت سے یکسر انکار کی کیفیت بھی نظر آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاک ڈاون کے خاتمے کے پہلے ہی دن تاجروں اور عوام کی جانب سے ایس او پیز کو بری طرح نظر انداز کیا گیا اور تمام احتیاطی تدابیرکی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ بازاروں میں عیدکی خریداری کے سلسلے میں عوام کا رش بڑھتا جارہا ہے ، یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے۔ گو عوام کی سہولت کے لیے لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی ہے لیکن عوام یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ وباء کے پھیلنے کا خطرہ بدستور موجود ہے،حفاظتی ایس او پیز پر عمل درآمد سے عوام کی صحت اور حفاظت کو یقینی بنانا انتظامیہ، تاجروں اور عوام کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ وفاقی اورصوبائی حکومتوں سمیت مخیرحضرات بلکہ ہر شخص دامے ، درمے ، سخنے مستحقین کی مدد کررہا ہے۔ رمضان المبارک میں لوگ دل کھول کر راشن بھی تقسیم کررہے ہیں اور یہ عمل وسیع پیمانے پر جاری وساری ہے۔ عید کی آمد ہے، اسی تناظر میں حکومت پنجاب نے21 سے24 مئی تک پبلک ٹرانسپورٹ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ لوگ عید الفطر منانے اپنے گھروں کوجاسکیں، اعلان بیس مئی تک متوقع ہے۔ ٹرانسپورٹ اڈوں پر سینی ٹائزر واک تھروگیٹ لگائے جائیں گے، بغیر ماسک اورگلوزکے کسی مسافرکو سوار نہیں کیا جائے گا۔ نزلہ، زکام، کھانسی میں مبتلا مسافروں کوگاڑیوں میں سوار نہیں کیا جائے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ضمن میں دوسری صوبائی حکومتیں کیا اقدامات اٹھاتی ہیں۔کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے زرعی شعبے کے لیے 56.60 ارب روپے کے پیکیج کی منظوری دی ہے ، کسانوں کوکھادکی خریداری پر 37 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ اسی طرح زرعی قرضوں کے سود پر دس فیصد مارک اپ سبسڈی دی جائے گی۔ حکومتی سطح پر زرعی شعبہ کے لیے پیکیج کا اعلان انتہائی خوش آیند امر ہے، زراعت کے تن مردہ میں روح پھونکنے کے مترادف ہے، درحقیقت پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے،لیکن ماضی کی حکومتوں کی عدم توجہی کے باعث یہ شعبہ بھی زوال کا شکار ہوا ہے۔
زراعت کے میدان میں جدید ٹیکنالوجی اپنانے اورحکومتی سطح پر بہتر اقدامات سے ہماری ملکی معیشت کوسہارا مل سکتا ہے۔کسان کو ریلیف ملے گا تو زرعی پیداوار میں اضافے کی رفتار تیز تر ہوگی۔ اس پیکیج پر عملدرآمدکو جلد ممکن بنایا جائے۔مشکل کی گھڑی میں کسی بھی قوم کی پہچان اس کے رویوں سے ہوتی ہے، مقام افسوس ہے کہ اتنی قیامت خیز وبا کی موجودگی میں ہم نے ملاوٹ اور کرپشن کو نہیں چھوڑا۔ رمضان المبارک کے مبارک مہینے میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ایک عام فرد بھی اپنی فیملی کے لیے افطاری لینے کی استطاعت نہیں رکھتا، پھل اتنے مہنگے ہوچکے ہیں کہ انھیں خریدا نہیں جاسکتا۔ پرائس کنٹرول کمیٹی کا نظام مکمل طور پر مفلوج ہے، اسے فعال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ناجائزمنافع خوروں کوگرفت میں لائے بغیر مہنگائی پر قابو پانا ناممکن ہے۔دوسری جانب عوامی حلقوں میں یہ باتیں گردش کر رہی ہیں کہ لاک ڈاؤن میں کرپشن کا گراف بھی بہت اوپر گیا جس سے سب سے زیادہ محکمہ پولیس کے اہلکار مستفید ہوئے،پولیس اہلکاروں نے دکانداروں سے روزانہ کی بنیاد پر مک مکا کر کے انھیں دکانیں کھولنے کی اجازت دے دی،اس طرح حکومتی احکامات کی سب سے زیادہ دھجیاں پولیس اہلکاروں کی جانب سے اڑائی گئیں۔
سچ کیا ہے 'ان الزامات کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے حکومت کو فوری تحقیقات کرانا چاہیے کہ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے کے مصداق جن پولیس اہلکاروں کے سہارے لاک ڈاؤن پر پابندی کرائی جا رہی ہے کہیں وہی تو اس کا سر عام مذاق نہیں اڑا رہے ۔شہری کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کا سب سے زیادہ دکھ ان راشی پولیس اہلکاروں ہی کو ہو رہا ہے۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت ایک پیج پر نہیں آسکی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے جاری اجلاسوں میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ زورشور سے جاری ہے۔
سیاسی رہنما پوائنٹ اسکورنگ میں مصروف ہیں۔قوم مایوس ہوتی جارہی ہے، قوم کو مایوسی کی دلدل سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فہم وفراست اور تدبر کا مظاہرہ کریں تاکہ عوام میںامید اورحوصلہ پیدا ہو، تب ہی ہم بحیثیت قوم اس وبا کے عذاب سے نکل سکتے ہیں۔