سندھ کی سیاست
ن لیگ کی قیادت نے حالات کااندازہ کرکے باہر نکل لینے ہی میں عافیت سمجھی اوربے چاری پیپلزپارٹی کومیدان میں اکیلاچھوڑدیا۔
موجودہ حالات میں سب سے زیادہ اہم قومی یکجہتی ہے کیونکہ پاکستان جس کورونا کی دہشت گردی کا شکار ہے اس سے نکلنے کے لیے قومی یکجہتی شرط اول ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ صوبہ سندھ کے حکام وفاق کی پالیسیوں کی اتباع کرنے کے بجائے اپنی علیحدہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اس تضاد کی وجہ سے صوبہ سندھ ایسی مشکلات کا شکار ہو رہا ہے جس سے نکلنا اور زیادہ مشکل ہو رہا ہے۔
مثال کے طور پر لاک ڈاؤن کی پالیسی کو لے لیں، وزیر اعظم عمران خان کا خیال ہے کہ لاک ڈاؤن کی پالیسی سے ملک میں بے روزگاری کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے عوام بھوکے مر رہے ہیں۔ حکومت نے دو بار لاک ڈاؤن کا شکار عوام کو بارہ بارہ ہزار روپے کی مدد کی بلاشبہ بارہ ہزار روپے سے عوام کو تھوڑا ریلیف مل گیا لیکن اس امداد کے ختم ہونے کے بعد غریب عوام ایک بار پھر بھوک کے شکار ہو رہے ہیں، دو مرتبہ بارہ بارہ ہزار کی ریلیف پر غالباً ایک کھرب سے زیادہ خرچ آیا ہے۔
اب اگر لاک ڈاؤن جاری رہتا ہے تو عوام کی مالی مدد کرنا بہت دشوار ہو جائے گا تاجر اور دوسرے کاروباری لوگ کہہ رہے ہیں کہ حکومت لاک ڈاؤن کھولے یا نہ کھولے ہم لاک ڈاؤن کھولیں گے۔ سو اس صورتحال سے بچنے کے لیے حکومت نے لاک ڈاؤن ہٹا دیا، سندھ حکومت کو بھی مرکزکی مکمل اتباع کرنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔
اگر مسئلہ صرف نظم حکومت اور صوبے کی کارکردگی کا ہوتا تو یقینا مراد علی شاہ اس سے آسانی سے نمٹ سکتے تھے لیکن چونکہ مسئلہ مرکز میں حکومت سازی کا ہے اور ایلیٹ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے لیے اعلیٰ مقام یعنی وزارت عظمیٰ کے لیے کوشش کرے، سو بلاول کا ٹارگٹ بھی وزارت عظمیٰ ہی ہے اور اس کے حصول کے لیے ہر ممکنہ کوشش کرنا امیدوار اپنا حق سمجھتا ہے۔ اس حوالے سے عمران خان ایلیٹ کا پہلا ہدف نظر آتے ہیں اس ہدف کے حصول کے لیے صوبائی حکومت سے جتنی مدد لی جاسکتی ہے وہ لی جائے گی، لی جا رہی ہے۔
آج کل بدقسمتی سے کورونا نے سارے معاملات کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے لہٰذا سیاست کار آزادی سے وہ کھیل نہیں کھیل پا رہے ہیں جو وہ نارمل حالات میں کھیل سکتے تھے۔ سندھ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہی نہیں بلکہ پاکستان کی اقتصادی زندگی کا محور ہے، سندھ سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا صوبہ ہے اور سندھ کے حکمران اس حوالے سے اپنا حق مانگتے ہیں اور یہی مطالبہ میئر کراچی کا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو بھی سندھ کی ضرورت اور اہمیت کا احساس ہے اور وہ اسی تناظر میں سندھ کی خدمت کر رہے ہیں کورونا نے سارے سیاستدانوں کے ہاتھ باندھ دیے ہیں یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ کورونا کی وجہ سے سیاستدان سخت مشکلات کا شکار ہیں۔
جب تک میاں صاحبان کی حکومت تھی میاں برادران کی کوشش ہوتی کہ جہاں تک ممکن ہو پیپلز پارٹی سے دوستانہ تعلقات برقرار رکھے جائیں۔ کیونکہ بالغ نظر میاں برادران جانتے تھے کہ سیاست میں وہی سیاستدان کامیاب ہوسکتا ہے جو پنگوں سے گریز کرے۔ میاں برادران کی بھی یہی پالیسی تھی کہ وہ پنگوں سے گریز کریں۔ چونکہ عمران خان ابھی اقتدار میں نہیں آئے تھے لہٰذا شریف برادران کو کوئی خطرہ نہیں تھا وہ آزادی سے حکومت کا کاروبار چلا رہے تھے اسی دوران ''وہ کچھ'' ہوا جس نے سینئر سیاستدانوں کو عوام میں ایکسپوز کردیا۔ کرپشن کے الزامات کی ایسی دھوم مچی کہ سابق حکمرانوں کے لیے اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا اور سابق حکمران عوام میں اس قدر ایکسپوز ہوگئے کہ سیاست کرنا ان کے لیے مشکل ہو گیا۔
سیاست میں دو جماعتیں اس وقت تک ایک دوسرے کے قریب نہیں آتیں جب تک ان کے سیاسی نظریات میں یکسانیت نہ ہو۔ اس حوالے سے جب ہم پاکستانی سیاست پر نظر ڈالتے ہیں تو مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کی ''نظریاتی'' ساتھی نظر آتی ہیں جب تک سیاسی افق پر تحریک انصاف نہیں ابھری تھی ن لیگ بڑے آرام سے گلشن کا کاروبار چلا رہی تھی لیکن جب 2018 میں تحریک انصاف انتخابات میں کامیاب ہو کر اقتدار میں آئی تو سیاسی اشرافیہ کے کان کھڑے ہوگئے۔ تحریک انصاف ایک مڈل کلاس کی پارٹی ہے اور اس کے سربراہ عمران خان اسی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔
اشرافیہ کا خیال تھا کہ وہ جس حال میں پاکستان کو چھوڑ کر جا رہے ہیں اس حال میں کسی دوسری جماعت کا حکومت چلانا ممکن نہیں۔ حکومت بہت جلد اقتدار سے بھاگ جائے گی لیکن اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ تحریک انصاف نے اپنے قدم جما لیے اور عوام کی حمایت بھی حاصل کرلی۔ اقتدار پر دوبارہ براجمان ہونے کی یقین دہانی میں مبتلا ایلیٹ کو جب احساس ہوا کہ عمران نے اپنے قدم مضبوطی سے جما لیے ہیں تو (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کو احساس ہوا کہ چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
ن لیگ کی قیادت نے حالات کا اندازہ کرکے باہر نکل لینے ہی میں عافیت سمجھی اور بے چاری پیپلز پارٹی کو میدان میں اکیلا چھوڑ دیا۔ سیاسی ایلیٹ کو اچھی طرح اندازہ ہو گیا کہ فی الوقت اقتدار میں ان کے لیے جگہ بننے کے امکانات نہیں ہیں سو وہ اخباری بیانات سے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ جان سے نہیں گئی اب بھی اس میں دم ہے لہٰذا اخباری بیانات اور ٹی وی انٹرویوز ان کے زندہ ہونے کی علامت بن گئے ہیں اور پی پی پی سندھ کے نیشنلزم کے سہارے زندہ رہنے