متحدہ نے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کو ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا
حلقہ بندیوں کے ذریعے ایم کیو ایم کے مینڈیٹ اور میئر شپ کو چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے، ڈاکٹر فاروق ستار
متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی میں سندھ لوکل گورنمنٹ(ترمیمی) ایکٹ2013 کے تحت بلدیاتی انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیوں کو غیرآئینی اور غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کردیاہے اور موقف اختیارکیا کہ کراچی کے 2 اضلاع جنوبی اور ملیر کی حد بندیاں متحدہ قومی موومنٹ کے مینڈیٹ پر اثداز ہونے کے لیے کی گئی ہیں، درخواست کی سماعت جمعرات کو متوقع ہے۔
بدھ کو سندھ ہائیکورٹ میں نئی حلقہ بندیوں کے خلاف پٹیشن ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے بیرسٹر فروغ نسیم کے ہمراہ دائر کی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ کراچی کے دیہی اور شہری علاقوں میں کی جانے والی حلقہ بندیوں میں طریقہ کار کو نظر انداز کیا گیا ہے،حلقہ بندیوں کے ذریعے ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے، سیاسی مقاصد کے لیے غلط حلقہ بندیاں کی گئی جو غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں لہذا ان حلقہ بندیوں کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ درخواست میں چیف سیکریٹری، الیکشن کمیشن،کمشنرکراچی، ملیر، غربی، شرقی، وسطی اور جنوبی کے ڈپٹی کمشنرز اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت حلقہ بندیاں آخری مردم شماری کے مطابق ہونا چاہئیں ،کراچی میں 1998میں آخری مردم شماری ہوئی۔
جس کے مطابق کراچی کی آبادی 93لاکھ93ہزارتصور کی جاتی ہے۔ پرانے بلدیاتی نظام کے تحت ایک یونین کونسل 10سے 15ہزار نفوس کی بنیاد پر تشکیل دی گئی تھی جبکہ نئے نظام کے تحت 40سے 50ہزار نفوس پر مشتمل یونین کمیٹیاں قائم کردی گئی ہیں، اس نظام میں کراچی میں ڈسٹرکٹ کونسل بھی ختم کردی گئی ہے اور اس طرح کراچی میں صرف یونین کمیٹیاں ہی کام کریں گی۔اس ضمن میں 12نومبر کو سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) ایکٹ 2013 کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہے،درخواست میں مزید کہا گیا کہ مذکورہ نوٹیفکیشن کے ذریعے ضلع ملیر میں 38یونین کمیٹیاں قائم کردی گئی ہیں ، شاہ مریداور مائی گاڑھی کو غربی سے نکال کرملیر میں شامل کردیا گیا ہے جبکہ گابوپٹ کو غربی سے نکال کرضلع جنوبی میں شامل کیا گیا ہے۔
5 یونین کمیٹیوں جان محمد بروہی گوٹھ، ایوب گوٹھ، عباس ٹاؤن،گلزار ہجری اور صفورا گوٹھ کو ضلع ملیر سے نکال کر ضلع شرقی میں شامل کردیا گیا ہے۔ اس طرح ملیر کیلیے 41یونین کمیٹیاں اور جنوبی کیلیے 17یونین کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں اور یونین کمیٹیوں میں آبادی کا تناسب بھی یکساں نہیں۔درخواست میں استدعا کی گئی کہ مذکورہ نوٹیفیکیشن کو غیرقانونی اور کالعدم قراردیا جائے1998کی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں کی جائیں اور اسی لحاظ سے یونین کمیٹیاں بھی تشکیل دی جائیں۔ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے دائر درخواست میںملیر اور شرقی اضلاع کی یونین کمیٹیوں میں ردوبدل کو غیرقانونی قراردینے کی بھی استدعا کی گئی ہے ، اس موقع پر ڈاکٹر فاروق ستار نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ہونے والی حلقہ بندیاں اور یونین کمیٹیوں کی تشکیل غیر قانونی ہے۔
کراچی کے مینڈیٹ اور میئر شپ کو چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے، یونین کمیٹیوں کی تشکیل میں آبادی کے تناسب کو یکساں نہیں رکھا گیا بلکہ من پسند انداز میں تشکیل کی گئی ہے۔فاروق ستار کا کہنا تھا کہ کراچی کے دیہی علاقوں پر مشتمل 25 یوسیز کو میونسپل کارپوریشن میں شامل کیا گیا، یوسیز کومیونسپل کارپوریشن میں شامل کرنا لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ کراچی جنوبی اور ملیر کی حلقہ بندی ہمارے مینڈیٹ کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے ہرضلع کونسل میں یونین کونسل کی آبادی یکساں ہونی چاہیے اس طرح کی حلقہ بندیاں انتخابات سے قبل دھاندلی کے مترادف ہے۔فاروق ستار نے کہاکہ سندھ کے دیگر اضلاع میں بھی غیرقانونی حلقہ بندیاں کی گئی ہیں۔ حیدرآباد، میرپور خاص اور نواب شاہ کی حلقہ بندیوں کے خلاف ہمارے قانونی ماہرین پٹیشن تیار کررہے ہیں۔ اندرون سندھ میں حلقہ بندیوں میں جو ناانصافیاں کی گئی ہیں ہم انھیں بھی چیلنج کریں گے۔
بدھ کو سندھ ہائیکورٹ میں نئی حلقہ بندیوں کے خلاف پٹیشن ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے بیرسٹر فروغ نسیم کے ہمراہ دائر کی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ کراچی کے دیہی اور شہری علاقوں میں کی جانے والی حلقہ بندیوں میں طریقہ کار کو نظر انداز کیا گیا ہے،حلقہ بندیوں کے ذریعے ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے، سیاسی مقاصد کے لیے غلط حلقہ بندیاں کی گئی جو غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں لہذا ان حلقہ بندیوں کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ درخواست میں چیف سیکریٹری، الیکشن کمیشن،کمشنرکراچی، ملیر، غربی، شرقی، وسطی اور جنوبی کے ڈپٹی کمشنرز اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت حلقہ بندیاں آخری مردم شماری کے مطابق ہونا چاہئیں ،کراچی میں 1998میں آخری مردم شماری ہوئی۔
جس کے مطابق کراچی کی آبادی 93لاکھ93ہزارتصور کی جاتی ہے۔ پرانے بلدیاتی نظام کے تحت ایک یونین کونسل 10سے 15ہزار نفوس کی بنیاد پر تشکیل دی گئی تھی جبکہ نئے نظام کے تحت 40سے 50ہزار نفوس پر مشتمل یونین کمیٹیاں قائم کردی گئی ہیں، اس نظام میں کراچی میں ڈسٹرکٹ کونسل بھی ختم کردی گئی ہے اور اس طرح کراچی میں صرف یونین کمیٹیاں ہی کام کریں گی۔اس ضمن میں 12نومبر کو سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) ایکٹ 2013 کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہے،درخواست میں مزید کہا گیا کہ مذکورہ نوٹیفکیشن کے ذریعے ضلع ملیر میں 38یونین کمیٹیاں قائم کردی گئی ہیں ، شاہ مریداور مائی گاڑھی کو غربی سے نکال کرملیر میں شامل کردیا گیا ہے جبکہ گابوپٹ کو غربی سے نکال کرضلع جنوبی میں شامل کیا گیا ہے۔
5 یونین کمیٹیوں جان محمد بروہی گوٹھ، ایوب گوٹھ، عباس ٹاؤن،گلزار ہجری اور صفورا گوٹھ کو ضلع ملیر سے نکال کر ضلع شرقی میں شامل کردیا گیا ہے۔ اس طرح ملیر کیلیے 41یونین کمیٹیاں اور جنوبی کیلیے 17یونین کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں اور یونین کمیٹیوں میں آبادی کا تناسب بھی یکساں نہیں۔درخواست میں استدعا کی گئی کہ مذکورہ نوٹیفیکیشن کو غیرقانونی اور کالعدم قراردیا جائے1998کی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں کی جائیں اور اسی لحاظ سے یونین کمیٹیاں بھی تشکیل دی جائیں۔ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے دائر درخواست میںملیر اور شرقی اضلاع کی یونین کمیٹیوں میں ردوبدل کو غیرقانونی قراردینے کی بھی استدعا کی گئی ہے ، اس موقع پر ڈاکٹر فاروق ستار نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ہونے والی حلقہ بندیاں اور یونین کمیٹیوں کی تشکیل غیر قانونی ہے۔
کراچی کے مینڈیٹ اور میئر شپ کو چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے، یونین کمیٹیوں کی تشکیل میں آبادی کے تناسب کو یکساں نہیں رکھا گیا بلکہ من پسند انداز میں تشکیل کی گئی ہے۔فاروق ستار کا کہنا تھا کہ کراچی کے دیہی علاقوں پر مشتمل 25 یوسیز کو میونسپل کارپوریشن میں شامل کیا گیا، یوسیز کومیونسپل کارپوریشن میں شامل کرنا لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ کراچی جنوبی اور ملیر کی حلقہ بندی ہمارے مینڈیٹ کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے ہرضلع کونسل میں یونین کونسل کی آبادی یکساں ہونی چاہیے اس طرح کی حلقہ بندیاں انتخابات سے قبل دھاندلی کے مترادف ہے۔فاروق ستار نے کہاکہ سندھ کے دیگر اضلاع میں بھی غیرقانونی حلقہ بندیاں کی گئی ہیں۔ حیدرآباد، میرپور خاص اور نواب شاہ کی حلقہ بندیوں کے خلاف ہمارے قانونی ماہرین پٹیشن تیار کررہے ہیں۔ اندرون سندھ میں حلقہ بندیوں میں جو ناانصافیاں کی گئی ہیں ہم انھیں بھی چیلنج کریں گے۔