لاک ڈاؤن کون سا لاک ڈاؤن
ایک چوتھائی کا خیال ہے کہ ہم اللہ تعالی یا بھگوان یا فطرت کا کوئی منتخب لاڈلا گروہ ہیں
حکمران لاک ڈاؤن کی نرمی یا سختی کے بارے میں علما اور کاروباری حضرات سے طے ہونے والے ضابطہِ اخلاق کی دھجیاں اڑنے اور کورونا متاثرین میں زقندی اضافے پر یوں بتِ حیرت بننے کی اوور ایکٹنگ کر رہے ہیں جیسے وہ خود مریخ سے کل شام ہی اترے ہوں یا پھر جس قوم کی رگ رگ سے واقف ہونے کا دعوی کرتے ہیں وہ دراصل دیسی نہیں کوئی از قسم جاپانی و جرمن ٹائپ منظم قوم ہو۔یا پھر لگتا ہے کہ حکمرانوں نے بیشتر زندگی '' باہرلے مُلخوں '' میں گذاری ہو اور انھیں اندازہ ہی نہ ہو کہ یہ وہی قوم ہے جس کے خمیر میں ان کی قیادت بھی گندھی ہوئی ہے۔
یہ جو چینی ، جنوبی کوریائی ، تائیوانی ، سنگا پوری حتیٰ کہ بھارتی کہہ رہے ہیں کہ جو ہم نے کر دکھایا ایسا ہوتا ہے لاک ڈاؤن۔اگر ان میں سے کسی بھی ملک کی قیادت کو ہمارا حکمران بنا دیا جائے تو لگ پتہ جائے گا کہ لاک ڈاؤن لگانا یا اس پر عمل کروانا زیادہ کٹھن ہے یا فرہاد کا جوئے شیر لانا۔
ہے اس روئے زمین پر کوئی دوسری قوم جو ہماری طرح سیسہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے لاک ڈاؤن، سماجی دوری اور ماسک لگانے کی عادت کو نیچا دکھانا ہے۔
بائیس کروڑ میں سے ایک چوتھائی یہ تو مانتے ہیں کہ کورونا پھیل رہا ہے مگر یہ ماننے کو تیار نہیں کہ یہ کوئی ایسی خطرناک وبا ہے جس کا کوئی دین ذات ، قومیت اور جغرافیہ نہیں۔
باقی ایک چوتھائی سمجھتے ہیں کہ یہ سرے سے کوئی وبا ہی نہیں بلکہ کورونا کے نام پر امیر ممالک نے ہمیں لوٹنے اور آپس کی معاشی و سیاسی و سفارتی خاربازی میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ڈرامہ رچایا ہے۔تاکہ دنیا کو ڈیجیٹلی سہولت کے ساتھ پہلے سے زیادہ اور بہتر انداز میں کنٹرول کیا جا سکے اور یہ کنٹرول چند ہاتھوں میں رہے۔
اس سوچ میں بہت سے امریکی ہم سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ یہ ڈرامہ دراصل بل گیٹس نے دنیا پر قبضے کے لیے شروع کیا ہے اور دوا ساز کمپنیاں اور چند امریکا دشمن سائنس داں اس سازش میں بل گیٹس فاؤنڈیشن کے حاشیہ بردار ہیں۔
باقی ایک چوتھائی کا خیال ہے کہ ہم اللہ تعالی یا خدائے بزرگ و برتر یا بھگوان یا فطرت کا کوئی منتخب لاڈلا گروہ ہیں لہذا کورونا ہماری طرف انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا۔یا پھر ہم پر فلاں پیر ، فلاں دیوی یا فلاں آسمانی قوت یا ہزار برس پہلے وفات پانے والے فلانے زندہ روحانی کا سایہ ہے۔ چنانچہ کورونا کیا بیچتا ہے۔ابے او بزدل کورونا ہمت ہے تو سامنے آ۔چھپ چھپ کر وار کرنے کے بجائے مرد کا بچہ بن وغیرہ وغیرہ۔
اور آخری ایک چوتھائی اسے واقعی ایک خطرناک وبا سمجھ کر خود کو بچانے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔
کورونا کے لاک ڈاؤن کو کامیاب یا ناکام بنانے کا دارومدار بہت حد تک اس پر بھی ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز رول ماڈلز کن نکات پر عمل پیرا ہیں اور کون سی باتیں محض باتیں ہی ہیں۔مثلاً اگر آپ سرکاری تقریبات یا کابینہ کے اجلاس یا سرکاری پریس بریفنگ ملاحظہ کریں تو طرح طرح کے تجربات نظر آئیں گے۔
موڈ ہوا تو ماسک لگا لیا، نشستوں کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ بھی رکھ لیا ، جی چاہا تو ماسک اتارتے لگاتے رہے اور زیادہ لوگوں کی موجودگی کے سبب نشستوں کا فاصلہ چھ کے بجائے تین فٹ کر لیا، اور نہ جی چاہا تو بغیر دستانوں کے عوام میں گھل مل گئے یا مستحقین کے کندھے سے کندھا جوڑ کر امداد بانٹتے ہوئے تصویر کھنچوا لی ، جی چاہا تو مصافحے کے بجائے دور سے نمستے کر دیا نہ جی چاہا تو گھٹ کے جپھی ڈال لی۔جی چاہا تو اعلان کر دیا کہ سرکاری عہدیدار کسی پرہجوم تقریب میں نہیں جائیں گے اور جی چاہا تو شادی غمی یا خاندان ہجوم کے درمیان پوری اینٹی کورونا احتیاطی مشق غتر بود۔
چنانچہ جب عام آدمی اپنے رول ماڈلز کو اپنے ہی طے کردہ اصول اور پالیسی نکات توڑتے ہوئے دیکھتا ہے تو پھر عام آدمی اپنی پالیسی خود بناتا ہے اور اس پر عمل یا عدم عمل بھی اپنی طبیعت کے اعتبار سے کرتا ہے اور اس میں جدتیں بھی کرتا چلا جاتا ہے۔
مثلاً یہ معجزہ شائد پاکستان میں ہی ممکن ہے۔ کہ بازار پورا بند ہے۔ہر جانب ہو کا عالم ہے مگر دکان دار سکون سے گھر بیٹھنے کے بجائے اپنی دکانوں کے آس پاس منڈلا رہے ہیں۔کچھ کسی متلاشی گاہک کو دیکھ کر زیرِ لب پوچھتے ہیں باجی کیا چاہیے ؟ کچھ نے بظاہر مقفل شٹرز پر موبائل نمبر لکھ چھوڑے ہیں۔گاہک جب ان نمبروں پر فون کرتا ہے تو آگے سے جواب ملتا ہے۔ہم شٹر کھول رہے ہیں جھک کر اندر آ جائیں یا پچھلی سائیڈ سے دکان میں آجائیں۔ یعنی پورا بازار بظاہربند ہے مگر کھلا ہوا ہے۔یعنی بج رہا ہے اور بے آواز ہے۔
لاک ڈاؤن کا ایک توڑ یہ بھی ہے کہ سندھ میں بالخصوص فی الحال پان سگریٹ کے کھوکھے سماجی فاصلے کے اصول کے تحت بند ہیں۔چانچہ پان سگریٹ والے یا تو کھوکھے کو بیگ میں ڈالے گھومتے ہیں۔یا پھر سگریٹ سامنے والے کریانہ فروش یا قصائی یا مکینک کی دکان پر رکھوا دیے اور بنے بنائے تمباکو والے پان دودھ دہی کی دکان سے دستیاب ہیں اور نائی کی خدمات میڈیکل اسٹور والے صاحب کے توسط سے حاصل ہو سکتی ہیں۔
ایسی گوریلا جنگ تو ویت کانگ نے امریکیوں سے نہیں لڑی جیسی ہمارے دیسی کاروباری بھائی لاک ڈاؤن کروانے والوں سے لڑ رہے ہیں۔ پرویت کانگ اور ہمارے دیسی دوکان داروں میں ایک قدرِ مشترک ہے۔دونوں نے اپنے دشمنوں کو لوہے کے چنے چبوا دیے۔
جس قوم کو اپنی جان ، گھر والوں اور اپنے بچوں کی ممکنہ حفاظت سے متعلق خدشات متزلزل نہ کر پائیں اور ہر شخص اپنے تئیں فیثا غورث ، بقراط اور نپولین بن کر کورونا کو ٹف ٹائم دینے پر کمر بستہ ہو ایسی قوم کا کوئی بھی کیا بگاڑ یا سنوار سکتا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ جو چینی ، جنوبی کوریائی ، تائیوانی ، سنگا پوری حتیٰ کہ بھارتی کہہ رہے ہیں کہ جو ہم نے کر دکھایا ایسا ہوتا ہے لاک ڈاؤن۔اگر ان میں سے کسی بھی ملک کی قیادت کو ہمارا حکمران بنا دیا جائے تو لگ پتہ جائے گا کہ لاک ڈاؤن لگانا یا اس پر عمل کروانا زیادہ کٹھن ہے یا فرہاد کا جوئے شیر لانا۔
ہے اس روئے زمین پر کوئی دوسری قوم جو ہماری طرح سیسہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے لاک ڈاؤن، سماجی دوری اور ماسک لگانے کی عادت کو نیچا دکھانا ہے۔
بائیس کروڑ میں سے ایک چوتھائی یہ تو مانتے ہیں کہ کورونا پھیل رہا ہے مگر یہ ماننے کو تیار نہیں کہ یہ کوئی ایسی خطرناک وبا ہے جس کا کوئی دین ذات ، قومیت اور جغرافیہ نہیں۔
باقی ایک چوتھائی سمجھتے ہیں کہ یہ سرے سے کوئی وبا ہی نہیں بلکہ کورونا کے نام پر امیر ممالک نے ہمیں لوٹنے اور آپس کی معاشی و سیاسی و سفارتی خاربازی میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ڈرامہ رچایا ہے۔تاکہ دنیا کو ڈیجیٹلی سہولت کے ساتھ پہلے سے زیادہ اور بہتر انداز میں کنٹرول کیا جا سکے اور یہ کنٹرول چند ہاتھوں میں رہے۔
اس سوچ میں بہت سے امریکی ہم سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ یہ ڈرامہ دراصل بل گیٹس نے دنیا پر قبضے کے لیے شروع کیا ہے اور دوا ساز کمپنیاں اور چند امریکا دشمن سائنس داں اس سازش میں بل گیٹس فاؤنڈیشن کے حاشیہ بردار ہیں۔
باقی ایک چوتھائی کا خیال ہے کہ ہم اللہ تعالی یا خدائے بزرگ و برتر یا بھگوان یا فطرت کا کوئی منتخب لاڈلا گروہ ہیں لہذا کورونا ہماری طرف انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا۔یا پھر ہم پر فلاں پیر ، فلاں دیوی یا فلاں آسمانی قوت یا ہزار برس پہلے وفات پانے والے فلانے زندہ روحانی کا سایہ ہے۔ چنانچہ کورونا کیا بیچتا ہے۔ابے او بزدل کورونا ہمت ہے تو سامنے آ۔چھپ چھپ کر وار کرنے کے بجائے مرد کا بچہ بن وغیرہ وغیرہ۔
اور آخری ایک چوتھائی اسے واقعی ایک خطرناک وبا سمجھ کر خود کو بچانے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔
کورونا کے لاک ڈاؤن کو کامیاب یا ناکام بنانے کا دارومدار بہت حد تک اس پر بھی ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز رول ماڈلز کن نکات پر عمل پیرا ہیں اور کون سی باتیں محض باتیں ہی ہیں۔مثلاً اگر آپ سرکاری تقریبات یا کابینہ کے اجلاس یا سرکاری پریس بریفنگ ملاحظہ کریں تو طرح طرح کے تجربات نظر آئیں گے۔
موڈ ہوا تو ماسک لگا لیا، نشستوں کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ بھی رکھ لیا ، جی چاہا تو ماسک اتارتے لگاتے رہے اور زیادہ لوگوں کی موجودگی کے سبب نشستوں کا فاصلہ چھ کے بجائے تین فٹ کر لیا، اور نہ جی چاہا تو بغیر دستانوں کے عوام میں گھل مل گئے یا مستحقین کے کندھے سے کندھا جوڑ کر امداد بانٹتے ہوئے تصویر کھنچوا لی ، جی چاہا تو مصافحے کے بجائے دور سے نمستے کر دیا نہ جی چاہا تو گھٹ کے جپھی ڈال لی۔جی چاہا تو اعلان کر دیا کہ سرکاری عہدیدار کسی پرہجوم تقریب میں نہیں جائیں گے اور جی چاہا تو شادی غمی یا خاندان ہجوم کے درمیان پوری اینٹی کورونا احتیاطی مشق غتر بود۔
چنانچہ جب عام آدمی اپنے رول ماڈلز کو اپنے ہی طے کردہ اصول اور پالیسی نکات توڑتے ہوئے دیکھتا ہے تو پھر عام آدمی اپنی پالیسی خود بناتا ہے اور اس پر عمل یا عدم عمل بھی اپنی طبیعت کے اعتبار سے کرتا ہے اور اس میں جدتیں بھی کرتا چلا جاتا ہے۔
مثلاً یہ معجزہ شائد پاکستان میں ہی ممکن ہے۔ کہ بازار پورا بند ہے۔ہر جانب ہو کا عالم ہے مگر دکان دار سکون سے گھر بیٹھنے کے بجائے اپنی دکانوں کے آس پاس منڈلا رہے ہیں۔کچھ کسی متلاشی گاہک کو دیکھ کر زیرِ لب پوچھتے ہیں باجی کیا چاہیے ؟ کچھ نے بظاہر مقفل شٹرز پر موبائل نمبر لکھ چھوڑے ہیں۔گاہک جب ان نمبروں پر فون کرتا ہے تو آگے سے جواب ملتا ہے۔ہم شٹر کھول رہے ہیں جھک کر اندر آ جائیں یا پچھلی سائیڈ سے دکان میں آجائیں۔ یعنی پورا بازار بظاہربند ہے مگر کھلا ہوا ہے۔یعنی بج رہا ہے اور بے آواز ہے۔
لاک ڈاؤن کا ایک توڑ یہ بھی ہے کہ سندھ میں بالخصوص فی الحال پان سگریٹ کے کھوکھے سماجی فاصلے کے اصول کے تحت بند ہیں۔چانچہ پان سگریٹ والے یا تو کھوکھے کو بیگ میں ڈالے گھومتے ہیں۔یا پھر سگریٹ سامنے والے کریانہ فروش یا قصائی یا مکینک کی دکان پر رکھوا دیے اور بنے بنائے تمباکو والے پان دودھ دہی کی دکان سے دستیاب ہیں اور نائی کی خدمات میڈیکل اسٹور والے صاحب کے توسط سے حاصل ہو سکتی ہیں۔
ایسی گوریلا جنگ تو ویت کانگ نے امریکیوں سے نہیں لڑی جیسی ہمارے دیسی کاروباری بھائی لاک ڈاؤن کروانے والوں سے لڑ رہے ہیں۔ پرویت کانگ اور ہمارے دیسی دوکان داروں میں ایک قدرِ مشترک ہے۔دونوں نے اپنے دشمنوں کو لوہے کے چنے چبوا دیے۔
جس قوم کو اپنی جان ، گھر والوں اور اپنے بچوں کی ممکنہ حفاظت سے متعلق خدشات متزلزل نہ کر پائیں اور ہر شخص اپنے تئیں فیثا غورث ، بقراط اور نپولین بن کر کورونا کو ٹف ٹائم دینے پر کمر بستہ ہو ایسی قوم کا کوئی بھی کیا بگاڑ یا سنوار سکتا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)