انسانی زندگیوں سے کھیلتے جعلی ڈاکٹرز

عطائیت کے خاتمے اور ہیلتھ کئیر کمیشن کی خلاف ورزی کرنے والوں کیخلاف قانونی کارروائی ڈی ایچ او کی زمہ داری بنتی ہے


سلطان مرزا May 14, 2020
عطائیت کے خاتمے اور ہیلتھ کئیر کمیشن کی خلاف ورزی کرنے والوں کیخلاف قانونی کارروائی ڈی ایچ او کی زمہ داری بنتی ہے

عطائیت جس پر ہیلتھ کئیر کمیشن بننے کے بعد بہت سختی دکھائی گئی اتنی کورونا وائرس پر نہیں دکھائی جتنی عطایت کے خلاف دکھائی گئی، ہم آئے روز ہیلتھ کئیر کمیشن کی طرف سے بے شمار عطایؤں کے اڈے سیل اور سزاؤں کے متعلق خبریں دیکھتے ہیں، دراصل دیکھنا تو یہ ہے کہ ہیلتھ کیئر کمیشن کی کاروائیوں کے بعدعطائیوں کے اڈے کتنے فیصد کم ہو گئے اور واقعی عطائیت ختم ہوگئی یا اس کے بر عکس عطائیت منظم ہوئی ہے، ہیلتھ کئیر کمیشن کے ایس او پیز پر کتنے فیصد کلینک اور پرائیویٹ ہسپتال عمل کررہے ہیں، کیا رجسٹرڈ کلینک اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں واقع کوالیفائیڈ ڈاکٹر اور کوالیفائیڈ عملہ موجود ہے، کیونکہ کہ اکثر جگہوں پرکوالیفائیڈ ڈاکٹر و عملہ کی آڑ میں عطائی ان کا علاج معالجہ کرتے ہیں جن کا مقصد مسیحائی نہیں بلکہ پیسے بٹورنا ہوتا ہے، ابھی چند روز قبل جڑانوالہ کے صحافیوں نے جڑانوالہ شہر کے وسط میں واقع ہیلتھ کئیر کمیشن سے رجسٹرڈ شدہ تاج ہسپتال کے متعلق خبریں شائع کی کہ اس ہسپتال میں ایک عورت جو کہ ڈاکٹر کی سیٹ پر بیٹھ کر مریضوں کا چیک اپ کرتی ہے اور تو اوروہ اپریشن کرنے میں بھی بہت ماہر ہے جبکہ خبر کیساتھ جعلی سپیسلٹ لیڈی ڈاکٹر کی تصویر بھی نمایاں دکھائی گئی اور خبر میں ہیلتھ کئیر کمیشن کے ایس او پیز کی خلاف ورزی کے متعلق بھی بتایا گیا۔

صحافیوں نے اس خبر کو سوشل میڈیا کی زینت بھی بنایا، سوشل میڈیا پر یہ خبر آتے ہی اس ہسپتال کے مالک اللہ رکھیو عرف ڈاکٹر عمیر ملک نے اپنے تاثرات میں خبر کو غلط یا درست کہنے کی بجائے اور اپنا قبلہ درست کرنے کی بجائے صحافیوں پر تابڑ توڑ الفاظی حملے شروع کر دیئے، حالانکہ صحافیوں نے اس کے خلاف تو خبریں شائع نہیں کی بلکہ اس کے ہسپتال کے عملہ جو کہ نان کوالیفائیڈ اور عام مریضوں کے علاج معالجے کے ساتھ ساتھ سرجری کرنے میں اپنا ہنر دکھاتاہے ان کو ارباب اختیار کی نظر کیا لیکن موصوف الفاظی حملوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر اس خبر کے متعلق خوب غصہ نکالا اور جب کچھ نا بنا تو بیچارے صحافیوں کو ڈڑانے دھمکاتے ہوئے صحافیوں پر من گھڑت الزامات عائد کر کے مختلف جگہوں پر درخواست بازی شروع کر دی، جیسے یہ صحافی نہیں بلکہ گنڈے یا کوئی ریکارڈ یافتہ کریمنل ہیں، حالانکہ موصوف نے درخواست بازی سے قبل سوشل میڈیا پر جو اپنا مؤقف دیا بہت دلچسپ ہے۔

موصوف کہتا ہے کہ میں کوالیفائیڈ ڈاکٹر ہوں اوربعض صحافی مجھ سے مفت میں الٹرا ساؤنڈ، مفت میں علاج اور مفت میں ادویات و دیگر سہولیات لیتے ہیں لیکن میں انہیں یہ نہیں دے سکتا، اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ جوں بھی ہو میں اپنے ہسپتال کے خلاف لکھنے والوں کے لئے چٹان بن جاؤں گا دیکھتا ہوں کہ یہ کیسے میرے ہسپتال کے متعلق لکھتے ہیں، موصوف مزید کہتے ہیں کہ وہ دیکھوں سامنے ڈی ڈی ایچ او کا آفس ہے آج تک اس آفس کے کسی فرد کی جرات نہیں ہوئی کہ وہ میرے ہسپتال کی طرف رخ کریں آپ کون ہوتے ہو، ہمارا ان سے سوال تھا کہ اگر آپ کے ہسپتال میں ہیلتھ کئیر کمیشن کے قوائد و ضوابط پر عمل ہو رہا ہے اور وہی عملہ آپ کے ہسپتال میں کام کر رہا ہے جس کی تفصیل آپ نے محکمہ ہیلتھ کیئر کمیشن کو دی تو پھر آپ کے بقول کے میں اب ان کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گا۔

جناب، صحافیوں نے آپ کے خلاف تو لکھا ہی نہیں انہوں نے توہسپتال کے متعلق لکھاجو آپ کے ہسپتال میں معاملات قوانین کے خلاف چل رہے ہیں ان سے پردہ اٹھا یا گیا ہے کہ واقع بقول آپ کے بھی کہ ڈی ڈی ایچ او جڑانوالہ کے دفتر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر آپ کا تاج ہسپتال واقع ہے جس میں نان کوالیفائیڈ لیڈی ڈاکٹر اورعملہ کی حالت زار پر صحافیوں نے ارباب اختیار کے آگے رونا رویا ہے کہ جناب والا سب اچھا اور سب اچھا کہنے سے کچھ نہیں بنے گا کچھ تو قوانین پر عملدرآمد کیجئے اور کروائیے، جناب کچھ تو بھولی بھالی عوام کا بھی خیال رکھیئے کہ جو آپ کے ہسپتال کے باہر لگے بورڈ پر قابل کوالیفائیڈ ڈاکٹرکا بورڈ پڑھ کر اندھے اعتماد کی طرح ان پراپنا قیمتی مال نچھاور کرتی ہے لیکن جناب موصوف اپنی غلطیوں کا ازالہ کرتے نوٹوں کی چمک میں اندھا دھند حق بات کہنے اور لکھنے والوں کے خلاف اپنے آپ کو چٹان بنانے کا دعوہ کرتے نظر آتے رہے اورجب موصوف کے ہسپتال میں ہیلتھ کیئر کمیشن کے ایس او پیز کی بات کی تو موصوف مزید آگ بگولہ ہو گیا اور کہا کہ تم صحافی کون ہوتے ہوں مجھے ایس او پیز بتانے والے، میراہسپتال ہے اور ایس او پیز بھی میرے ہو نگے، میں اپنی یونین کو ایک کال کرو تو جڑانوالہ کے تمام کلینک اور ہسپتال بند ہو سکتے ہیں اور صحافیوں کو حق سچ لکھنے کا مزا چکھوا سکتا ہوں،میں مزید سوچ میں پڑھ گیا کہ صحافی تو اپنے قلم سے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور صحافی بیچارہ تو قانون کی بالادستی چاہتا ہے لیکن یہ موصوف ڈاکٹر کیا یہ واقعی عوام کا مسیحا ہے۔

میں تو موصوف کے الفاظ سن کر ہی حیران ہو گیا کہ یہ کیسا انسانوں کا مسیحا ہے کہ جو اپنے متعلقہ آفسران اور محکمہ کے متعلق اتنی جرات رکھتا ہوں تو وہاں بیچارہ صحافی کیا کرے اور ارباب اختیار کو کیا رونا دکھائے، لیکن اس کی بات درست ہے کہ سامنے ڈی ڈی ایچ او کا آفس ہے لیکن آج تک اس کی رپورٹ کیوں نہیں ارباب اختیار تک پہنچی، حالانکہ ڈی ایچ او کی زمہ داری بنتی ہے کہ عطائیت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ ہیلتھ کئیر کمیشن کے قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف بھر پور قانونی کاروائی کروائے لیکن عرصہ دراز سے یہی ہسپتال عطائیت کے زیر سائیہ پروان چڑھتا رہا آج تک کسی بھی محکمہ کے فرد نے کیوں نا ادھر کا رخ کیا، کیا غریب کوالیفائیڈ کے بورڈ کے نیچے کیاعطائیوں کو اپنے علاج معالجے کے لئے خون پسینا نچھاور کرتا رہے اور ارباب اختیار کے نمائندے صرف کاغذی کاروائیوں تک محمدود، آخر ایسا کیوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں