انسانی جانوں کا تحفظ اولین ترجیح
لاک ڈاؤن کے تناظر میں یہ بحث جنم لے رہی ہے کہ انسانی جانوں کا بچانا زیادہ ضروری ہے یا معیشت کا پہیہ رواں رکھنا
پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں ناول کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن سمیت دیگر پابندیوں میں نرمی کردی گئی ہے۔ امریکا سمیت یورپی ممالک میں بھی مزید معاشی نقصانات سے بچنے کی خاطر پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں۔ دوسری جانب انہی ممالک کے ماہرین صحت اور ڈبلیو ایچ او بھی فوری پابندیوں کے خاتمے کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہے، کیونکہ اُن کےنزدیک وبا کی دسری لہر کا خدشہ بدستور موجود ہے اور فی الحال متاثرہ مریضوں کی یومیہ تعداد میں بھی کوئی نمایاں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔
یہاں یہ بحث بھی جنم لے رہی ہے کہ انسانی جانوں کا بچانا زیادہ ضروری ہے کہ معیشت کا پہیہ رواں رکھنا۔ ایک جانب امریکا جیسا ترقی یافتہ ملک ہے جہاں وبا کے باعث کروڑوں افراد بیروزگار ہوچکے ہیں، دوسری جانب پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک جہاں کی معیشتیں مزید صنعتی جمود کی متحمل ہی نہیں ہوسکتیں۔ ایسے میں لاک ڈاؤن کے خاتمے کے سوا دوسرا کوئی چارہ ہی نہیں۔ دنیا کی معروف سماجی و کاروباری شخصیت اور ای کامرس کے حوالے سے عالمی شہرت یافتہ ادارے علی بابا کے بانی جیک ما نے کورونا وائرس کی جاری تباہ کاریوں کے تناظر میں حالیہ دنوں ایک زبردست بیان دیا، جس میں انہوں نے کاروباری اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ''رواں برس انسانی جان کا بچ جانا سب سے بڑا منافع ہے''۔ یہ بات تو حقیقت بھی ہے کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔
اسی طرح دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل بل گیٹس، جنہیں اپنے فلاحی کاموں کے باعث بھی جانا جاتا ہے، انہوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ جب وہ چھوٹے تھے تو ان کے نزدیک سب سے بڑی پریشان کن آفت جوہری جنگ تھی۔ لیکن آئندہ چند دہائیوں میں اگر کوئی چیز دس لاکھ سے زائد لوگوں کی ہلاکت کا باعث بنے تو ان کے نزدیک یہ جوہری جنگ کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ ناول کورونا وائرس نے بھی اس وقت پوری دنیا کو شدید اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔
ناول کورونا وائرس یا کووِڈ 19 کی تباہ کاریوں کی اگر بات کی جائے تو انسانیت کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کےلیے اسے ایک کٹھن آزمائش قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ ماضی میں دنیا کے اکثر ممالک میں صحت کے شعبے کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو اس کا حق بنتا تھا یا یہ سوچ لیا گیا تھا کہ آج کی سائنسی ترقی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے بھرپور دنیا میں یہ ممکن ہی نہیں کہ انسانیت کو کسی وبا کے خطرے کا سامنا ہو۔ حد سے زیادہ خوداعتمادی نے یہ دن دکھایا کہ آج پوری دنیا ناول کورونا وائرس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوچکی ہے۔
ناول کورونا وائرس نے ہمیں یہ سبق سکھایا ہے کہ عالمگیریت کے دور میں وائرس یا وبا صرف ایک ملک، خطے یا جغرافیے تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر ملک اس کا شکار ہوسکتا ہے۔ کسی ایک ملک کا وبائی صورتحال پر قابو پالینا یقیناً کامیابی تو ہے مگر جب تک دنیا کے سبھی ممالک سے وائرس کا خاتمہ نہیں ہوجاتا، اس وقت تک کسی بھی ملک کی جیت نہیں ہوگی۔ کیونکہ وبا کا خطرہ بدستور منڈلاتا رہتا ہے۔ لہٰذا ہر ملک میں صحت عامہ کا مضبوط نظام تمام ممالک کے مفاد میں ہے۔ ناول کورونا وائرس کے آغاز میں امریکی صدر ہمیشہ کہتے رہے کہ ان کے پاس دنیا کے بہترین طبی ماہرین اور سائنسدان موجود ہیں جو کسی بھی ایسی صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں مگر قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ آج امریکا دنیا میں وائرس سے متاثرہ سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ اور تو اور امریکی صد اپنے صدارتی محل ''وائٹ ہاوس'' کو بھی وائرس کا شکار ہونے سے نہیں بچاسکے، لہٰذا یہاں باتوں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے بات بنے گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وبا کا خاتمہ کیسے کیا جائے؟ بالخصوص ایسے وقت میں جب عالمی ادارہ صحت کے ماہرین خبردار کرچکے ہیں کہ ناول کورونا وائرس بہت جلد ہماری جان چھوڑنے والا نہیں اور انسانیت کو فی الحال اس کے ساتھ رہنے کی عادت اپنانا ہوگی، جیسا کہ ایچ آئی وی ایڈز بھی اس وقت ہمارے معاشروں میں رچ بس چکا ہے۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عالمی تعاون ہی وہ بنیاد ہے جس کے باعث وبا پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ہم نے یہ تو جان لیا کہ وائرس کسی قومیت، رنگ، نسل، جنس میں تمیز نہیں کررہا۔ یہ امیر، غریب، چھوٹے، بڑے ہر ایک کو نشانہ بناسکتا ہے، لہٰذا ترقی یافتہ ممالک کی ذمے داری ہے کہ وہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں صحت کے شعبے کی ترقی کو اہمیت دیں۔ ایسا کرنا خود ان کے اپنے مفاد میں ہے کیونکہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں، غربت، مہنگائی، بے روزگاری میں اضافہ، ایوی ایشن انڈسٹری کی تنزلی، عالمی کساد بازاری اور بڑی معیشتوں میں شدید گرواٹ ''گلوبل ویلیج'' کی اہمیت کی عکاس ہیں۔ عالمی ملٹی نیشنل کمپنیاں مصنوعات تو تیار کرلیں گی مگر انہیں صارف بھی تو چاہیے اور چیزیں بھی اسی وقت خریدی جائیں گی جب حالات سازگار ہوں گے۔
اسی طرح طبی شعبے کی سائنسی پیمانے پر ترقی کی اہمیت بھی مزید عیاں ہوئی ہے۔ طبی آلات بالخصوص طبی عملے کےلیے حفاظتی لباس کی کمی سے کئی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ماضی میں اس جانب اتنی توجہ نہیں دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ وبا کی شروعات میں ماسک، وینٹی لیٹرز، طبی لباس اور دیگر امدادی سازوسامان کی کمی نے پوری دنیا کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگرچہ مکمل خودکفالت ممکن نہیں مگر ہر ملک کے پاس اتنے وسائل تو ضرور موجود ہوں کہ کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹا جاسکے۔ اس ضمن میں پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق 2035 تک دنیا بھر کو تقریباً تین کروڑ پیشہ ور طبی ماہرین کی کمی کا سامنا ہوگا۔ اس ضمن میں مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیلی ہیلتھ اور آرٹیفشل انٹیلی جنس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ پاکستان جیسے ممالک میں طبی وسائل کی دستیابی، سائنس و تحقیق کے فروغ اور طبی آلات کی تیاری جیسے شعبہ جات کو مزید اہمیت دی جائے, کیونکہ ٹیکنالوجی کا حصول یا فوری جدید ٹیکنالوجی کی جانب منتقلی فی الحال اتنا آسان نہیں ہے۔
یہاں انسانی جانوں کے تحفظ کےلیے عوامی رویے بھی اہم ہیں۔ وبا سے بچاؤ کی خاطر عوام کا ''صحت دوست'' اصولوں پر کاربند رہنا یقیناً سب سے اہم عنصر ہے۔ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے دوران مجموعی طور پر دیکھا گیا کہ عوام کی اکثریت نے حکومتوں کے ساتھ تعاون کیا۔ پاکستان میں وبا کی موجودہ سنگین صورتحال اور لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد عوام کا بازاروں کا رخ کرنا اور پرہجوم مناظر کسی طور پر بھی خوش آئند نہیں ہیں۔ عید کی خریداری ہر ایک کی خواہش تو ہے لیکن اس مرتبہ عید کی خوشیوں میں ان لوگوں کو بھی شامل کیجئے جو وبا کے باعث بے روزگار ہوئے ہیں۔ نئے کپڑوں اور جوتوں کےلیے رکھے گئے پیسوں سے کسی گھر کا راشن آسکتا ہے، کسی بچے کی فیس ادا کی جا سکتی ہے یا پھر کسی مستحق کی امداد سے آپ کی عید کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہاں یہ بحث بھی جنم لے رہی ہے کہ انسانی جانوں کا بچانا زیادہ ضروری ہے کہ معیشت کا پہیہ رواں رکھنا۔ ایک جانب امریکا جیسا ترقی یافتہ ملک ہے جہاں وبا کے باعث کروڑوں افراد بیروزگار ہوچکے ہیں، دوسری جانب پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک جہاں کی معیشتیں مزید صنعتی جمود کی متحمل ہی نہیں ہوسکتیں۔ ایسے میں لاک ڈاؤن کے خاتمے کے سوا دوسرا کوئی چارہ ہی نہیں۔ دنیا کی معروف سماجی و کاروباری شخصیت اور ای کامرس کے حوالے سے عالمی شہرت یافتہ ادارے علی بابا کے بانی جیک ما نے کورونا وائرس کی جاری تباہ کاریوں کے تناظر میں حالیہ دنوں ایک زبردست بیان دیا، جس میں انہوں نے کاروباری اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ''رواں برس انسانی جان کا بچ جانا سب سے بڑا منافع ہے''۔ یہ بات تو حقیقت بھی ہے کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔
اسی طرح دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل بل گیٹس، جنہیں اپنے فلاحی کاموں کے باعث بھی جانا جاتا ہے، انہوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ جب وہ چھوٹے تھے تو ان کے نزدیک سب سے بڑی پریشان کن آفت جوہری جنگ تھی۔ لیکن آئندہ چند دہائیوں میں اگر کوئی چیز دس لاکھ سے زائد لوگوں کی ہلاکت کا باعث بنے تو ان کے نزدیک یہ جوہری جنگ کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ ناول کورونا وائرس نے بھی اس وقت پوری دنیا کو شدید اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔
ناول کورونا وائرس یا کووِڈ 19 کی تباہ کاریوں کی اگر بات کی جائے تو انسانیت کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کےلیے اسے ایک کٹھن آزمائش قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ ماضی میں دنیا کے اکثر ممالک میں صحت کے شعبے کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو اس کا حق بنتا تھا یا یہ سوچ لیا گیا تھا کہ آج کی سائنسی ترقی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے بھرپور دنیا میں یہ ممکن ہی نہیں کہ انسانیت کو کسی وبا کے خطرے کا سامنا ہو۔ حد سے زیادہ خوداعتمادی نے یہ دن دکھایا کہ آج پوری دنیا ناول کورونا وائرس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوچکی ہے۔
ناول کورونا وائرس نے ہمیں یہ سبق سکھایا ہے کہ عالمگیریت کے دور میں وائرس یا وبا صرف ایک ملک، خطے یا جغرافیے تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر ملک اس کا شکار ہوسکتا ہے۔ کسی ایک ملک کا وبائی صورتحال پر قابو پالینا یقیناً کامیابی تو ہے مگر جب تک دنیا کے سبھی ممالک سے وائرس کا خاتمہ نہیں ہوجاتا، اس وقت تک کسی بھی ملک کی جیت نہیں ہوگی۔ کیونکہ وبا کا خطرہ بدستور منڈلاتا رہتا ہے۔ لہٰذا ہر ملک میں صحت عامہ کا مضبوط نظام تمام ممالک کے مفاد میں ہے۔ ناول کورونا وائرس کے آغاز میں امریکی صدر ہمیشہ کہتے رہے کہ ان کے پاس دنیا کے بہترین طبی ماہرین اور سائنسدان موجود ہیں جو کسی بھی ایسی صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں مگر قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ آج امریکا دنیا میں وائرس سے متاثرہ سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ اور تو اور امریکی صد اپنے صدارتی محل ''وائٹ ہاوس'' کو بھی وائرس کا شکار ہونے سے نہیں بچاسکے، لہٰذا یہاں باتوں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے بات بنے گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وبا کا خاتمہ کیسے کیا جائے؟ بالخصوص ایسے وقت میں جب عالمی ادارہ صحت کے ماہرین خبردار کرچکے ہیں کہ ناول کورونا وائرس بہت جلد ہماری جان چھوڑنے والا نہیں اور انسانیت کو فی الحال اس کے ساتھ رہنے کی عادت اپنانا ہوگی، جیسا کہ ایچ آئی وی ایڈز بھی اس وقت ہمارے معاشروں میں رچ بس چکا ہے۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عالمی تعاون ہی وہ بنیاد ہے جس کے باعث وبا پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ہم نے یہ تو جان لیا کہ وائرس کسی قومیت، رنگ، نسل، جنس میں تمیز نہیں کررہا۔ یہ امیر، غریب، چھوٹے، بڑے ہر ایک کو نشانہ بناسکتا ہے، لہٰذا ترقی یافتہ ممالک کی ذمے داری ہے کہ وہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں صحت کے شعبے کی ترقی کو اہمیت دیں۔ ایسا کرنا خود ان کے اپنے مفاد میں ہے کیونکہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں، غربت، مہنگائی، بے روزگاری میں اضافہ، ایوی ایشن انڈسٹری کی تنزلی، عالمی کساد بازاری اور بڑی معیشتوں میں شدید گرواٹ ''گلوبل ویلیج'' کی اہمیت کی عکاس ہیں۔ عالمی ملٹی نیشنل کمپنیاں مصنوعات تو تیار کرلیں گی مگر انہیں صارف بھی تو چاہیے اور چیزیں بھی اسی وقت خریدی جائیں گی جب حالات سازگار ہوں گے۔
اسی طرح طبی شعبے کی سائنسی پیمانے پر ترقی کی اہمیت بھی مزید عیاں ہوئی ہے۔ طبی آلات بالخصوص طبی عملے کےلیے حفاظتی لباس کی کمی سے کئی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ماضی میں اس جانب اتنی توجہ نہیں دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ وبا کی شروعات میں ماسک، وینٹی لیٹرز، طبی لباس اور دیگر امدادی سازوسامان کی کمی نے پوری دنیا کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگرچہ مکمل خودکفالت ممکن نہیں مگر ہر ملک کے پاس اتنے وسائل تو ضرور موجود ہوں کہ کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹا جاسکے۔ اس ضمن میں پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق 2035 تک دنیا بھر کو تقریباً تین کروڑ پیشہ ور طبی ماہرین کی کمی کا سامنا ہوگا۔ اس ضمن میں مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیلی ہیلتھ اور آرٹیفشل انٹیلی جنس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ پاکستان جیسے ممالک میں طبی وسائل کی دستیابی، سائنس و تحقیق کے فروغ اور طبی آلات کی تیاری جیسے شعبہ جات کو مزید اہمیت دی جائے, کیونکہ ٹیکنالوجی کا حصول یا فوری جدید ٹیکنالوجی کی جانب منتقلی فی الحال اتنا آسان نہیں ہے۔
یہاں انسانی جانوں کے تحفظ کےلیے عوامی رویے بھی اہم ہیں۔ وبا سے بچاؤ کی خاطر عوام کا ''صحت دوست'' اصولوں پر کاربند رہنا یقیناً سب سے اہم عنصر ہے۔ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے دوران مجموعی طور پر دیکھا گیا کہ عوام کی اکثریت نے حکومتوں کے ساتھ تعاون کیا۔ پاکستان میں وبا کی موجودہ سنگین صورتحال اور لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد عوام کا بازاروں کا رخ کرنا اور پرہجوم مناظر کسی طور پر بھی خوش آئند نہیں ہیں۔ عید کی خریداری ہر ایک کی خواہش تو ہے لیکن اس مرتبہ عید کی خوشیوں میں ان لوگوں کو بھی شامل کیجئے جو وبا کے باعث بے روزگار ہوئے ہیں۔ نئے کپڑوں اور جوتوں کےلیے رکھے گئے پیسوں سے کسی گھر کا راشن آسکتا ہے، کسی بچے کی فیس ادا کی جا سکتی ہے یا پھر کسی مستحق کی امداد سے آپ کی عید کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔