کورونا کے ساتھ ساتھ چلنا ہے

دنیاوی تجربات و حوادث کو دیکھتے ہوئے ارباب اختیار تصادم کی دھند اور دلدل سے نکلیں۔

دنیاوی تجربات و حوادث کو دیکھتے ہوئے ارباب اختیار تصادم کی دھند اور دلدل سے نکلیں۔ فوٹو : فائل

کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے لاک ڈاؤن پالیسی میں پیراڈائم شفٹ کی جانب مراجعت ہوئی ہے جس کے تحت اہم فیصلے ہوئے ہیں، حکومت اپنے بولڈ فیصلوں سے کورونا صورت حال کو حقیقت پسندانہ طریقہ سے کنٹرول کرنے کے لیے طبی تقاضوں، صحت و سماجی اور معاشی ترجیحات کی روشنی میں نتیجہ خیز بنانے پر گامزن ہے، حکومت ایک طرف سٹیٹس کے خاتمہ کا صائب تاثر دے رہی ہے، دوسری جانب وہ قوم کو ذہنی طور پر اس حقیقت کے لیے تیار کررہی ہے کہ لاک ڈاؤن سے کورونا وائرس ختم نہیں ہوگا۔ اس لیے وزیراعظم نے تمام صوبوں سے درخواست کی کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ کھول دیں۔

انھوں نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ پبلک ٹرانسپورٹ اس لیے کھولنے کا فیصلہ نہیں ہوسکا کیونکہ ایک دو صوبوں کو اس سے کورونا پھیلنے کا خدشہ ہے، تاہم انھوں نے صوبوں سے ایک اجتماعی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کھول دیں، کیونکہ اس کی بندش سے غریب کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ تاہم پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ٹرانسپورٹ کھولنے اور سندھ وبلوچستان نے بند رکھنے کی پالیسی برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

وزیراعظم کے فیصلے بادی النظر میں اگرچہ غیر روایتی سیاق وسباق رکھتے ہیں اور سندھ حکومت نے ان کے ٹرانسپورٹ اور شاپنگ مالز کھولنے کی پالیسی سے اختلاف کیا ہے جب کہ سندھ نے لاک ڈاؤن کے تسلسل پر اصرار کیا ہے جس پر ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اس کی وجہ سے کورونا سے نمٹنے کی کوششوں کو زک پہنچنے کااحتمال ہے، ہم آہنگ پالیسی کے نہ ہونے سے وائرس سے جاری جنگ شدید متاثر ہوسکتی ہے، وفاق وصوبہ سندھ دہری حکمت عملی سے وہ نتائج نہیں حاصل کرسکیں گے جن تک رسائی ایک متفقہ حکمت عملی، اور مربوط لائحہ عمل سے ہی ممکن ہوگی جب کہ قومی جدوجہد کا ایک ہی مقصد ہے کہ کورونا سے نجات حاصل کی جائے اور اس کے لیے پوری قوم ایک پیج پر ہو۔ اس لیے ممکنہ ابہام اور تصادم سے گریز ناگزیر ہے۔

وزیراعظم نے صوبوں سے جو درخواست کی ہے وہ انسانیت کو بچانے اور ملک کی معیشت اور قیمتی انسانی جانوں کو کورونا کی آگ سے بچانے کی ایک ہوش مندانہ اپیل ہے، صورت حال گھمبیر ہے، حالات قابو سے باہر بھی ہوسکتے ہیں اور عالمی سطح پر کورونا سے بچنے کے لیے جو حکمت عملی مشرق و مغرب شمال وجنوب میں اختیار کی جارہی ہے اس کے مضمرات، نتائج، اثرات اور فوائد و نقصانات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے، دنیا کے کئی ممالک نے لاک ڈاؤن تھیوری کو مستر د کیا مگر اس کی تباہ کاریوں سے بچنے کی تدابیر اور لازمی ایس اوپیز پر عمل درآمد سے اجتناب نہیں کیا، پاکستان بھی کورونا کے خلاف جنگ کا فرنٹ لائن ملک ہے، اس کی ترجیحات میں انسانی جانوں کے تحفظ سمیت معیشت کی بحالی اور قومی امنگوں اور صحت کے بنیادی اور اہم مراکز یعنی اسپتالوں کی افادیت اور مرکزیت کا برقرار رکھنا اشد ضروری ہے، صحت کے ادارے، ہماری نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو ہر قسم کے ضروری آلات اور سہولتوں سے آراستہ کرنا ہی اس جنگ میں ہماری کامیابی کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔

یہ سیاسی مسئلہ نہیں ہے اور وفاق وصوبوں کے مابین کوئی رنجش اور کشیدگی پیدا نہیں ہونی چاہیے، وفاق کی رٹ قائم رہنی چاہیے، صحت صوبائی مسئلہ ضرور ہے لیکن حقیقت کو بھی سامنے رکھنا ہوگا کہ صوبے اور وفاق مل کر کورونا کے خلاف اس جنگ کی زنجیر ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہیں، لاک ڈاؤن کی حکمت عملی کو تصادم سے بالاتر رکھنا بہترین حکمت عملی ہوگی۔

وزیراعظم نے مدلل و صائب بات کی ہے کہ امریکا اور یورپ جہاں ایک دن میں 800 لوگ مر رہے ہیں، انھوں نے پبلک ٹرانسپورٹ بند نہیں کی تو ہم نے کیوں بند کردی؟ لاک ڈاؤن کھولنے کے فیصلے پرطبی عملے کی فکر تھی کہ اسپتالوں پردباؤ بڑھے گا، حکومت کویہ مکمل احساس ہے، اگر کوئی یقین دلاتا 2 یا 3 ماہ کے لاک ڈاؤن سے کورونا وائرس ختم ہوجائے گا تو ہم ایسے کرلیتے لیکن لاک ڈاؤن سے یہ ختم نہیں ہوگا، ایک سال تک ویکسین کا امکان نہیں، لاک ڈاؤن جب بھی کھولیں گے کیسز میں پھر اضافہ ہوگا، اب اس وائرس کے ساتھ گزارا کرنا ہوگا، مسلسل لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ 15 کروڑ لوگ متاثر ہیں، میڈیکل برادری بتائے ان کا کیا کریں؟ عوام کو روزگار نہ دیا تو کورونا سے زیادہ بھوک سے مرنے کا خطرہ ہے۔


یہ اندیشہ ہائے دور دراز زمینی حقائق سے جڑے ہوئے ہیں، امریکا اور جرمنی کی مثال لیں، وہاں عالمی ادارہ صحت کا یہ انتباہ کارفرما ہے کہ دنیا کو اب کورونا سے ہم آہنگ رہتے ہوئے سفر حیات طے کرنا ہوگا یعنی عالمی ادارہ صحت نے لکیر کھینچ دی کہ کورونا جانے والا نہیں بلکہ دنیا بھر کے غریب وامیر ملکوں کو اس وبا کے ساتھ ساتھ چلنے کے لیے عقل، سائنس کی روشنی میں حفظان صحت کے اصولوں اور اپنے لائف اسٹائل میں بنیادی تبدیلی لانا ہوگی، ایک طرح سے یہ جدید ترین صحت سسٹم رکھنے والے یورپ وامریکا کے لیے بھی شکست کی آواز ہے، دنیا مجبور ہوگئی، کسی چارہ گر کے پاس کورونا کا کوئی علاج نہیں، اس بے بسی کو اہل پاکستان حکومتی طرز عمل اور اس کی پالیسیوں سے اختلاف کی نظر سے نہ دیکھیں بلکہ کل کی فکر کریں، کورونا ہی ایک واحد بیماری نہیں، درجنوں امراض پاکستانیوں سے چمٹے ہوئے ہیں، ہزاروں لاکھوں مریض کورونا سے متاثر ہوئے بغیر بھی لقمہ اجل ہوئے ہیں۔

حقیقت تلخ ہے، ملک میں کوئی صحت انفرااسٹرکچر نہیں، جو ہیلتھ سسٹم بڑے ملکوں کا طرہ امتیاز تھا وہ بھی زمیں بوس ہوا ہے، ویکسین پر ساری دنیا کی نظریں مرکوز ہیں، ایک انار سو بیمار والی کہانی ہے، ابھی کورونا سے نمٹنے کی تدبیریں ہیں ادھر فرانس میں ایک نئی بیماری ''کاواسا''سے بچہ کی ہلاکت ہوئی ہے، عالمی ادارہ صحت حرکت میں آگیا ہے، خطرہ ہے کہ کہیں یہ کورونا کی ذیلی شاخ نہ ہو، لندن و نیویارک میں اس طرز کی بیماری سے ہونے والی ہلاکتوں اور 100 کے قریب کیسز کی تحقیق ہورہی ہے، اٹلی اور لندن کے ماہرین صحت کے بعد امریکی ماہرین نے بھی بچوں کے کیسز سامنے آنے کی تصدیق کی ہے، ڈاکٹروں نے والدین سے کہا ہے کہ فوری طور پر ڈاکٹروں سے رجوع کریں۔

دریں اثنا وزیراعظم نے وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا ووہان اور جنوبی کوریا میں کیس پھر سامنے آرہے ہیں، جب بھی لوگوں کو ملنے کا موقع دیں گے وائرس پھیلے گا تاہم ہم کتنا عرصہ 12 ہزار روپے پہنچا سکتے ہیں اور یہ کب تک ایک خاندان کے لیے کافی ہوں گے؟ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹرکے ذریعے تجزیہ کیا ہے کہ آیندہ دنوں میں کیس بڑھنے ہیں لیکن روزگار نہ دینا شروع کیا تو کورونا سے زیادہ بھوک سے اموات کا مسئلہ ہے۔ کیسوں اور اموات کی تعداد خدشات سے کافی کم ہے اور ہمارے اسپتالوں میں اب تک وہ دباؤ نہیں پڑا، حکومت کیسوں میں اضافے سے نمٹنے کے لیے تیار ہے، جون کے آخر تک اسپتالوں کی سہولیات موجود ہوں گی۔

وزیراعظم نے کہاکورونا کے باعث پوری دنیا میں اشیاء کی قیمتیں متاثر ہوئیں تاہم پاکستان میں رمضان کے باوجود قیمتیں نہیں بڑھیں، پاکستان کے مقابلہ میں برصغیر کے دوسرے ممالک میں پٹرولیم کی قیمتیں چالیس سے پچاس فیصد زیادہ ہیں۔ وزیراعظم نے عوام پر زور دیا کہ وہ اپنے گھروں میں موجود بوڑھوں اور بیماروں کا خیال رکھیں اور انھیں وائرس سے بچانے کے لیے احتیاط کریں، عوام یاد رکھیں، وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ یہ عید الفطر ماضی سے مختلف ہے، ہم نے اسے ہمیشہ کی طرح نہیں منانا بلکہ زیادہ احتیاط کرنی ہے۔ اس سے بھی زیادہ احتیاط قومی اتفاق رائے، ملی وحدت یکجہتی، ملکی سلامتی اور اخوت و محبت کے فروغ کی ہے۔

اس بات کا اندیشہ ملک کے بعض تجزیہ کاروں، دانشورں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کورونا سے نمٹنے میں حکمرانوں نے سائنس سے درست استفادہ نہیں کیا،کیونکہ روشن ضمیری کی وہ تعلیم ہی ملک میں نہیں پھیلائی گئی جو سائنس اور عقلی دلائل و طبعی تقاضوں ٕ سے مطابقت رکھتی ہو، لوگوں نے توہم پرستی کی چادر لپیٹ لی، ان دانشوروں نے چین کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ووہان میں پہلی بار جب کورونا کا انکشاف ہوا تو ابتدا میں چینی حکام نے بھی مناسب توجہ نہیں دی، مگر جب عالمی میڈیا نے نکتہ چینی کی تو چینی حکومت الرٹ ہوگئی اور اس نے موبلائزیشن کی عصر جدید میں جو شاندار مہم چلائی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

چینی حکام نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے وینٹی لیٹرز اور ماسکس کی بہت بڑی تعداد مہیا کی، مکمل لاک ڈاؤن کیا، اور متاثرین کے علاج کے لیے قرنطینہ سمیت دیگر انتظامات کا ایسا جامع نظام وضع کیا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ ہم بلاشبہ آدھے تیتر آدھے بٹیر رہ گئے اور کورونا کی آندھی میں ہمارے اسٹیک ہولڈرز ایک دوسرے سے سینگ اڑائے ہوئے ہیں۔کب ہمیں ہوش آئے گا، جب چڑیا چک جائیں گی کھیت۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیاوی تجربات و حوادث کو دیکھتے ہوئے ارباب اختیار تصادم کی دھند اور دلدل سے نکلیں، باہمی اختلافات اور سیاسی بلیم گیم کا سلسلہ ختم کریں، اخباری اطلاع ہے کہ دنیا میں کورونا کی وبا کے باعث 28 ملین سرجیکل آپریشن منسوخ کرنا پڑے ہیں، سٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ لاک ڈاؤن سے معاشی سست روی ختم نہیں ہوگی، معیشت 2.2 فیصد سکڑنے کا خطرہ ہے، مہنگائی امسال 11سے 12 فیصد رہے گی، ٹیکس وصولی کم ہوئی ہے، ترسیل کے مسائل ہیں، زرعی اشیا کی قیمتیں بڑھیں گی اور بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 22 فی صد کمی ہوئی ہے۔
Load Next Story