فکسنگ کی بازگشت کب تک سنائی دے گی
پاکستان ٹیم کا دورہ انگلینڈ ممکن بنانے کیلئے مثبت پیش رفت
آفس ڈیوٹی کے بعد رات دو بجے کے قریب گھر پہنچا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجی،دوسری طرف میرے لندن میں موجود دیرینہ دوست قیصر باری تھے، کرکٹ پر گہری نظر رکھتے ہیں، رسمی سلام دعا کے بعد بولے، یہ پاکستانی کرکٹرز کو کیا ہو گیا ہے، ہر روز میچ فکسنگ کے حوالے سے ایسے ایسے بیانات داغ رہے ہیں کہ دیار غیر میں ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔
دنیا کورونا وائرس سے بچنے کی تدبیریں کر رہی ہے اور ہمارے کھلاڑی اپنے ہی ملکی وقارکے ساتھ کھیل رہے ہیں،افسوس کہ پاکستان کرکٹ بورڈ بھی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، گزشتہ تین عشروں میں گرین شرٹس نے جو سیاہ کارنامے سر انجام دیئے ہیں، آخر ان کو اب دہرانے کا فائدہ کیا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی کرکٹ کی تاریخ ہمارے کھلاڑیوں کے سیاہ کارناموں سے بھری پڑی ہے، قومی کرکٹرز نے شائقین کو ہنسایا کم رلایا زیادہ ہے، پاکستان میں پہلی بار میچ فکسنگ کا سکینڈل سامنے آیا تو پی سی بی کی درخواست پر اگست 1998 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس ملک محمد قیوم پر مشتمل کمیشن قائم کیا گیا جس کی رپورٹ منظر عام پر آئی تو کرکٹ حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔ اس کی روشنی میں پی سی بی نے سابق کپتان سلیم ملک پر تاحیات پابندی لگائی، فاسٹ بولر عطا الرحمن کو اپنے بیانات بار بار بدلنے کا خمیازہ تاحیات پابندی کی صورت میں اٹھانا پڑا۔ جسٹس قیوم کمیشن نے وسیم اکرم، مشتاق احمد، انضمام الحق، اکرم رضا، سعید انور اور وقاریونس پر جرمانے کئے۔ وسیم اکرم کو مستقبل میں کپتانی نہ دینے کی سفارش بھی کی گئی۔
میچ فکسنگ کا پنڈورا باکس کھلنے کے بعد مختلف کرکٹرز اب اس کا بڑا ذمہ دار وسیم اکرم کو قرار دے رہے ہیں، عطاء الرحمان نے سابق پیسر کو اپنا کیرئیر تباہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے جبکہ عامر سہیل نے تو اور بھی سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ وسیم اکرم نے 1992ء کے ورلڈکپ کے بعد اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان کوئی بھی ورلڈکپ نہ جیتے، ان کے مطابق 1995ء میں رمیز راجہ، ان سے پہلے سلیم ملک کپتان تھے، وہ کامیاب بھی تھے اور اگر وہ بطور کپتان ایک سال اور گزار جاتے تو وسیم اکرم کو قومی ٹیم کی قیادت نہ ملتی۔ اگر آپ یہ دیکھیں کہ 2003ء تک ہر ورلڈکپ سے پہلے قومی ٹیم کے کپتان کو ہٹا کر وسیم اکرم کو کپتان بنانے کی مہم چلی۔
ان کا کہنا تھا کہ وسیم اکرم کی پاکستان کرکٹ کیلئے سب سے بڑی ''خدمت'' یہی ہے کہ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان 1992ء کے بعد کوئی ورلڈکپ نہ جیتے۔ اگر وہ پاکستان کیساتھ مخلص ہوتے تو ہم بہت آسانی سے 1999,1996 اور 2003ء میں کھیلے گئے ورلڈکپ جیت سکتے تھے۔ سابق کپتان وسیم اکرم نے میچ فکسنگ کے الزامات لگانے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ 17 سال قبل انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی لوگ اپنے مفاد کیلئے میرا نام استعمال کر رہے ہیں، جب میں اپنے بارے میں ایسی منفی باتیں سنتا ہوں تو بہت افسردہ ہو جاتا ہوں، میں نے ہمیشہ اس طرح کے لوگوں کو نظرانداز کیا ہے اور ایسا کرتا رہوں گا کیونکہ ایسے منفی سوچ کے حامل لوگوں کیلئے میرے پاس کوئی وقت نہیں ہے۔
اسی طرح کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپاٹ فکسنگ کے الزامات ثابت ہونے پر پاکستانی کھلاڑیوں محمد عامر، محمد آصف اور سلمان بٹ کو سزائیں دی گئیں، کرکٹرز براہ راست آئی سی سی کی جانب سے پابندی کی زد میں آئے، اس سے قبل تمام کرکٹرز کو ان کے اپنے کرکٹ بورڈز نے سزائیں دی تھیں۔2010 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورہ انگلینڈ کے دوران سپاٹ فکسنگ سکینڈل سامنے آیا جس میں تین کرکٹرز سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر ملوث تھے۔اس سکینڈل میں یہ بات سامنے آئی کہ پاکستانی فاسٹ بولرز محمد عامر اور محمد آصف مبینہ طور پر بک میکر سے طے کیے گئے معاملات کے مطابق نو بال کریں گے۔آئی سی سی نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ٹریبونل قائم کیا جس نے سلمان بٹ پر10 سال کی پابندی عائد کی جن میں 5 سال معطل سزا کے تھے۔
محمد آصف پر 7 سال کی پابندی عائد کی گئی جن میں دو سال معطل سزا کے تھے جبکہ محمد عامر پر 5 سالہ پابندی عائد کی گئی۔یہ تینوں کرکٹرز لندن کی عدالت کی جانب سے سزاوں سے بھی نہ بچ سکے۔محمد عامر کو چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ محمد آصف کو ایک سال قید کا سامنا کرنا پڑا جبکہ کپتان سلمان بٹ کو ڈھائی سال قید کی سزا سنائی گئی۔ کرکٹ کے حلقوں میں ایک بار پھر اس وقت کھلبلی مچی جب پاکستان سپر لیگ کے سیزن ٹو کے آغاز پر پاکستانی کھلاڑیوں شرجیل خان، خالد لطیف، ناصر جمشید، شاہ زیب حسن خان اور محمد عرفان پر سپاٹ فکسنگ کا الزام لگا۔پاکستان کرکٹ بورڈ کا مؤقف رہا کہ سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں ناصر جمشید کا اہم کردار رہا ہے اور انہی کی وساطت سے شرجیل خان اور خالد لطیف نے یوسف انور نامی بکی سے ملاقات کی تھی۔
خالد لطیف اور شرجیل خان پر 5، 5 سال کی پابندی عائد کی گئی۔اسی سکینڈل میں فاسٹ بولر محمد عرفان پر بھی ایک سال کیلیے پابندی عائد کی گئی ان پرالزام تھا کہ انھوں نے مشکوک فرد کی جانب سے کیے گئے رابطے کی بروقت اطلاع بورڈ کو نہیں دی تھی۔
ماضی کے سپر سٹارز کے بعد محمد عامر، شرجیل خان سمیت دوسرے سزا یافتہ کھلاڑیوں کیلئے بھی کرکٹ کے دروازے کھلتے دیکھ کر سلیم ملک نے بھی واپسی کا مطالبہ کر دیا، سابق کپتان کے مطابق محمد عامر، سلمان بٹ اور شرجیل خان واپس آئے، پی ایس ایل بھی کھیلے مجھے کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ 2008 میں عدالت نے مجھے کلین چٹ دے دی تھی، اس کے باوجود کام نہیں کرنے دیا جاتا۔
انضمام الحق نے میچ فکسنگ میں سزا یافتہ سلیم ملک کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مڈل آرڈر بیٹسمین کا کیریئر بدقسمتی سے ناخوشگوار انداز میں ختم ہوا لیکن میرے خیال میں ان کو دوسرا موقع ملنا چاہیے، بھارت میں اظہرالدین بھی اسی نوعیت کی صورتحال میں رہے لیکن اب حیدرآباد کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر ہیں،سلیم ملک اپنے وقت کے بہترین بیٹسیمنوں میں شمار ہوتے تھے، کرکٹ کا تجربہ اور گہری معلومات رکھتے ہیں،اگر نوجوانوں کی رہنمائی کیلیے ان کی خدمات حاصل کی جائیں تو پاکستان کرکٹ کا فائدہ ہوسکتا ہے۔
عاقب جاوید کے مطابق جسٹس قیوم کمیشن میں بھی حقائق چھپائے گئے، سلیم ملک کو ایک اور موقع ملنا چاہیے اور انہیں کرکٹ بورڈ میں بھی نوکری ملنی چاہیے۔سابق کرکٹر نے مزید کہا کہ میچ فکسنگ مافیا بہت بڑا ہے جہاں اندر جانے کا راستہ تو ہے نکلنے کا نہیں، کرکٹرز اور مافیا والوں کو سزائیں ہونی چاہییں کیونکہ کرکٹر تو بہت آئے مافیا کی نشاندہی نہیں ہوئی۔
میچ فکسنگ کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے اب نئی تجاویز آنا شروع ہو گئی ہیں، سابق ٹیسٹ کرکٹر مدثر نذر نے سپاٹ فکسنگ کے خاتمے کے لیے تاحیات پابندی کو موثر حل قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ سخت قوانین بناکر ہی اس برائی کو جڑ سے اکھاڑنے میں مدد مل سکتی ہے، نرم قوانین اور زیادہ لمبی سزا نہ ہونے سے کئی کرکٹرز دوبارہ کھیل میں واپس آجاتے ہیں،وہ جانتے ہیں کہ اگر پکڑے گئے تو سزا بھگت کر دوبارہ جلد موقع ملے گا۔اس لیے تاحیات پابندی ہی زیادہ موزوں ہوسکتی ہے۔
اسی طرح سابق کرکٹر جاوید میانداد نے بھی پاکستان کرکٹ میں فکسنگ کرنے والے کھلاڑیوں کے ساتھ بکیز کو بھی پھانسی دینے کی تجویز دی ہے، جاوید میانداد کے مطابق 1999 میں فکسنگ کا اندازہ ہوگیا تھا جس پر کوچنگ چھوڑ دی، فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں نے ملک کے ساتھ اپنے خاندان اور مداحوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے، سابق کرکٹرعطا الرحمٰن آج رو رو کر بتا رہا ہے کہ مجھے پھنسایا گیا اس کے علاوہ جسٹس قیوم کمیشن کو فکسنگ سے متعلق سب کچھ بتایا لیکن کھلاڑی بچ نکلے، کمیشن نے جن کرکٹرزکو پاکستان کرکٹ بورڈ سے دور رکھنے کا کہا آج بھی وہ کرکٹ بورڈ سے جڑے ہوئے ہیں۔
جاوید میانداد کے مطابق پاکستان میں کرکٹرز کمزور قوانین کی وجہ سے بچ نکلتے ہیں اس لیے چاہتا ہوں وزیر اعظم عمران خان قانون بنوائیں اور ایسے کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ بکیز کو بھی پھانسی دی جائے، جب تک بکیز کو سزا نہیں ہوگی، کھلاڑی ایسے ہی اسپاٹ فکسنگ اور میچ فکسنگ کرتے رہیں گے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی نے میچ فکسنگ کیخلاف ملکی سطح پر قانون سازی کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرکٹ میں کرپشن کی بالکل گنجائش نہیں ہونی چاہیے، حکومت سے بات کی ہے کہ میچ فکسنگ کو قانونی طور پر جرم قرار دیا جائے۔ مدثر نذر، جاوید میانداد کی تجاویز میں بڑا وزن اس لئے بھی ہے کیونکہ جب قتل، چوری، ڈکیتی سمیت دوسرے جرائم میں ملوث شہریوں کے لئے سزا مقرر ہے تو ملک وقوم کی نیک نامی اور عزت وقار سے کھیلنے والوں کو سزا دینے کا قانون آخر کیوں موجود نہیں ہے؟
کرونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں ہی انٹرنیشنل کرکٹ کی سرگرمیاں معطل ہیں، اس صورتحال میں انگلش کرکٹ بورڈ ایک انقلابی سوچ کے ساتھ میدان میں آیا ہے، تمام تر احتیاطی تدابیر کے ساتھ بائیو سکیور ماحول میں کرکٹ کا تجربہ کرنے کے لیے تیاریاں مکمل کی جا رہی ہے، جولائی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز بند دروازوں کے پیچھے ہی سہی لیکن کم از کم شائقین کو کرکٹ ایکشن دیکھنے کا موقع فراہم کرے گی، ابھی تک حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن بات چیت مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہے،ویسٹ انڈیز کے بعد اپنی ٹیم بھجوانے کے لئے پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی گرین سگنل دے دیا ہے،انگلینڈ میں سرگرمیاں بحال ہونے کے بعد دیگر ملکوں کا حوصلہ بھی بڑھے گا کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ میچز کروائے جا سکتے ہیں۔
پی سی بی اور انگلش بورڈ حکام کی ٹیلی کانفرنس میں ہونے والی بات چیت میں مثبت پیش رفت کے بعد چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ مصباح الحق نے 25 کرکٹر کا پول منتخب کرنے کے لیے تیاری شروع کر دی ہے، ٹیسٹ اور محدود اوورز کی کرکٹ کے لیے ممکنہ سکواڈز میں شامل تمام کھلاڑی ایک ساتھ سفر کریں گے، یہاں پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں اعلان کئے جانے والے سینٹرل کنٹریکٹ میں مجموعی طور پر 21 کھلاڑیوں کو فہرست میں شامل کیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دورہ انگلینڈ کے لیے ان کے علاوہ بھی ناموں پر غور کیا جائے گا۔
دنیا کورونا وائرس سے بچنے کی تدبیریں کر رہی ہے اور ہمارے کھلاڑی اپنے ہی ملکی وقارکے ساتھ کھیل رہے ہیں،افسوس کہ پاکستان کرکٹ بورڈ بھی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، گزشتہ تین عشروں میں گرین شرٹس نے جو سیاہ کارنامے سر انجام دیئے ہیں، آخر ان کو اب دہرانے کا فائدہ کیا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی کرکٹ کی تاریخ ہمارے کھلاڑیوں کے سیاہ کارناموں سے بھری پڑی ہے، قومی کرکٹرز نے شائقین کو ہنسایا کم رلایا زیادہ ہے، پاکستان میں پہلی بار میچ فکسنگ کا سکینڈل سامنے آیا تو پی سی بی کی درخواست پر اگست 1998 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس ملک محمد قیوم پر مشتمل کمیشن قائم کیا گیا جس کی رپورٹ منظر عام پر آئی تو کرکٹ حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔ اس کی روشنی میں پی سی بی نے سابق کپتان سلیم ملک پر تاحیات پابندی لگائی، فاسٹ بولر عطا الرحمن کو اپنے بیانات بار بار بدلنے کا خمیازہ تاحیات پابندی کی صورت میں اٹھانا پڑا۔ جسٹس قیوم کمیشن نے وسیم اکرم، مشتاق احمد، انضمام الحق، اکرم رضا، سعید انور اور وقاریونس پر جرمانے کئے۔ وسیم اکرم کو مستقبل میں کپتانی نہ دینے کی سفارش بھی کی گئی۔
میچ فکسنگ کا پنڈورا باکس کھلنے کے بعد مختلف کرکٹرز اب اس کا بڑا ذمہ دار وسیم اکرم کو قرار دے رہے ہیں، عطاء الرحمان نے سابق پیسر کو اپنا کیرئیر تباہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے جبکہ عامر سہیل نے تو اور بھی سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ وسیم اکرم نے 1992ء کے ورلڈکپ کے بعد اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان کوئی بھی ورلڈکپ نہ جیتے، ان کے مطابق 1995ء میں رمیز راجہ، ان سے پہلے سلیم ملک کپتان تھے، وہ کامیاب بھی تھے اور اگر وہ بطور کپتان ایک سال اور گزار جاتے تو وسیم اکرم کو قومی ٹیم کی قیادت نہ ملتی۔ اگر آپ یہ دیکھیں کہ 2003ء تک ہر ورلڈکپ سے پہلے قومی ٹیم کے کپتان کو ہٹا کر وسیم اکرم کو کپتان بنانے کی مہم چلی۔
ان کا کہنا تھا کہ وسیم اکرم کی پاکستان کرکٹ کیلئے سب سے بڑی ''خدمت'' یہی ہے کہ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان 1992ء کے بعد کوئی ورلڈکپ نہ جیتے۔ اگر وہ پاکستان کیساتھ مخلص ہوتے تو ہم بہت آسانی سے 1999,1996 اور 2003ء میں کھیلے گئے ورلڈکپ جیت سکتے تھے۔ سابق کپتان وسیم اکرم نے میچ فکسنگ کے الزامات لگانے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ 17 سال قبل انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی لوگ اپنے مفاد کیلئے میرا نام استعمال کر رہے ہیں، جب میں اپنے بارے میں ایسی منفی باتیں سنتا ہوں تو بہت افسردہ ہو جاتا ہوں، میں نے ہمیشہ اس طرح کے لوگوں کو نظرانداز کیا ہے اور ایسا کرتا رہوں گا کیونکہ ایسے منفی سوچ کے حامل لوگوں کیلئے میرے پاس کوئی وقت نہیں ہے۔
اسی طرح کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپاٹ فکسنگ کے الزامات ثابت ہونے پر پاکستانی کھلاڑیوں محمد عامر، محمد آصف اور سلمان بٹ کو سزائیں دی گئیں، کرکٹرز براہ راست آئی سی سی کی جانب سے پابندی کی زد میں آئے، اس سے قبل تمام کرکٹرز کو ان کے اپنے کرکٹ بورڈز نے سزائیں دی تھیں۔2010 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورہ انگلینڈ کے دوران سپاٹ فکسنگ سکینڈل سامنے آیا جس میں تین کرکٹرز سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر ملوث تھے۔اس سکینڈل میں یہ بات سامنے آئی کہ پاکستانی فاسٹ بولرز محمد عامر اور محمد آصف مبینہ طور پر بک میکر سے طے کیے گئے معاملات کے مطابق نو بال کریں گے۔آئی سی سی نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ٹریبونل قائم کیا جس نے سلمان بٹ پر10 سال کی پابندی عائد کی جن میں 5 سال معطل سزا کے تھے۔
محمد آصف پر 7 سال کی پابندی عائد کی گئی جن میں دو سال معطل سزا کے تھے جبکہ محمد عامر پر 5 سالہ پابندی عائد کی گئی۔یہ تینوں کرکٹرز لندن کی عدالت کی جانب سے سزاوں سے بھی نہ بچ سکے۔محمد عامر کو چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ محمد آصف کو ایک سال قید کا سامنا کرنا پڑا جبکہ کپتان سلمان بٹ کو ڈھائی سال قید کی سزا سنائی گئی۔ کرکٹ کے حلقوں میں ایک بار پھر اس وقت کھلبلی مچی جب پاکستان سپر لیگ کے سیزن ٹو کے آغاز پر پاکستانی کھلاڑیوں شرجیل خان، خالد لطیف، ناصر جمشید، شاہ زیب حسن خان اور محمد عرفان پر سپاٹ فکسنگ کا الزام لگا۔پاکستان کرکٹ بورڈ کا مؤقف رہا کہ سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں ناصر جمشید کا اہم کردار رہا ہے اور انہی کی وساطت سے شرجیل خان اور خالد لطیف نے یوسف انور نامی بکی سے ملاقات کی تھی۔
خالد لطیف اور شرجیل خان پر 5، 5 سال کی پابندی عائد کی گئی۔اسی سکینڈل میں فاسٹ بولر محمد عرفان پر بھی ایک سال کیلیے پابندی عائد کی گئی ان پرالزام تھا کہ انھوں نے مشکوک فرد کی جانب سے کیے گئے رابطے کی بروقت اطلاع بورڈ کو نہیں دی تھی۔
ماضی کے سپر سٹارز کے بعد محمد عامر، شرجیل خان سمیت دوسرے سزا یافتہ کھلاڑیوں کیلئے بھی کرکٹ کے دروازے کھلتے دیکھ کر سلیم ملک نے بھی واپسی کا مطالبہ کر دیا، سابق کپتان کے مطابق محمد عامر، سلمان بٹ اور شرجیل خان واپس آئے، پی ایس ایل بھی کھیلے مجھے کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ 2008 میں عدالت نے مجھے کلین چٹ دے دی تھی، اس کے باوجود کام نہیں کرنے دیا جاتا۔
انضمام الحق نے میچ فکسنگ میں سزا یافتہ سلیم ملک کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مڈل آرڈر بیٹسمین کا کیریئر بدقسمتی سے ناخوشگوار انداز میں ختم ہوا لیکن میرے خیال میں ان کو دوسرا موقع ملنا چاہیے، بھارت میں اظہرالدین بھی اسی نوعیت کی صورتحال میں رہے لیکن اب حیدرآباد کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر ہیں،سلیم ملک اپنے وقت کے بہترین بیٹسیمنوں میں شمار ہوتے تھے، کرکٹ کا تجربہ اور گہری معلومات رکھتے ہیں،اگر نوجوانوں کی رہنمائی کیلیے ان کی خدمات حاصل کی جائیں تو پاکستان کرکٹ کا فائدہ ہوسکتا ہے۔
عاقب جاوید کے مطابق جسٹس قیوم کمیشن میں بھی حقائق چھپائے گئے، سلیم ملک کو ایک اور موقع ملنا چاہیے اور انہیں کرکٹ بورڈ میں بھی نوکری ملنی چاہیے۔سابق کرکٹر نے مزید کہا کہ میچ فکسنگ مافیا بہت بڑا ہے جہاں اندر جانے کا راستہ تو ہے نکلنے کا نہیں، کرکٹرز اور مافیا والوں کو سزائیں ہونی چاہییں کیونکہ کرکٹر تو بہت آئے مافیا کی نشاندہی نہیں ہوئی۔
میچ فکسنگ کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے اب نئی تجاویز آنا شروع ہو گئی ہیں، سابق ٹیسٹ کرکٹر مدثر نذر نے سپاٹ فکسنگ کے خاتمے کے لیے تاحیات پابندی کو موثر حل قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ سخت قوانین بناکر ہی اس برائی کو جڑ سے اکھاڑنے میں مدد مل سکتی ہے، نرم قوانین اور زیادہ لمبی سزا نہ ہونے سے کئی کرکٹرز دوبارہ کھیل میں واپس آجاتے ہیں،وہ جانتے ہیں کہ اگر پکڑے گئے تو سزا بھگت کر دوبارہ جلد موقع ملے گا۔اس لیے تاحیات پابندی ہی زیادہ موزوں ہوسکتی ہے۔
اسی طرح سابق کرکٹر جاوید میانداد نے بھی پاکستان کرکٹ میں فکسنگ کرنے والے کھلاڑیوں کے ساتھ بکیز کو بھی پھانسی دینے کی تجویز دی ہے، جاوید میانداد کے مطابق 1999 میں فکسنگ کا اندازہ ہوگیا تھا جس پر کوچنگ چھوڑ دی، فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں نے ملک کے ساتھ اپنے خاندان اور مداحوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے، سابق کرکٹرعطا الرحمٰن آج رو رو کر بتا رہا ہے کہ مجھے پھنسایا گیا اس کے علاوہ جسٹس قیوم کمیشن کو فکسنگ سے متعلق سب کچھ بتایا لیکن کھلاڑی بچ نکلے، کمیشن نے جن کرکٹرزکو پاکستان کرکٹ بورڈ سے دور رکھنے کا کہا آج بھی وہ کرکٹ بورڈ سے جڑے ہوئے ہیں۔
جاوید میانداد کے مطابق پاکستان میں کرکٹرز کمزور قوانین کی وجہ سے بچ نکلتے ہیں اس لیے چاہتا ہوں وزیر اعظم عمران خان قانون بنوائیں اور ایسے کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ بکیز کو بھی پھانسی دی جائے، جب تک بکیز کو سزا نہیں ہوگی، کھلاڑی ایسے ہی اسپاٹ فکسنگ اور میچ فکسنگ کرتے رہیں گے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی نے میچ فکسنگ کیخلاف ملکی سطح پر قانون سازی کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرکٹ میں کرپشن کی بالکل گنجائش نہیں ہونی چاہیے، حکومت سے بات کی ہے کہ میچ فکسنگ کو قانونی طور پر جرم قرار دیا جائے۔ مدثر نذر، جاوید میانداد کی تجاویز میں بڑا وزن اس لئے بھی ہے کیونکہ جب قتل، چوری، ڈکیتی سمیت دوسرے جرائم میں ملوث شہریوں کے لئے سزا مقرر ہے تو ملک وقوم کی نیک نامی اور عزت وقار سے کھیلنے والوں کو سزا دینے کا قانون آخر کیوں موجود نہیں ہے؟
کرونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں ہی انٹرنیشنل کرکٹ کی سرگرمیاں معطل ہیں، اس صورتحال میں انگلش کرکٹ بورڈ ایک انقلابی سوچ کے ساتھ میدان میں آیا ہے، تمام تر احتیاطی تدابیر کے ساتھ بائیو سکیور ماحول میں کرکٹ کا تجربہ کرنے کے لیے تیاریاں مکمل کی جا رہی ہے، جولائی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز بند دروازوں کے پیچھے ہی سہی لیکن کم از کم شائقین کو کرکٹ ایکشن دیکھنے کا موقع فراہم کرے گی، ابھی تک حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن بات چیت مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہے،ویسٹ انڈیز کے بعد اپنی ٹیم بھجوانے کے لئے پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی گرین سگنل دے دیا ہے،انگلینڈ میں سرگرمیاں بحال ہونے کے بعد دیگر ملکوں کا حوصلہ بھی بڑھے گا کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ میچز کروائے جا سکتے ہیں۔
پی سی بی اور انگلش بورڈ حکام کی ٹیلی کانفرنس میں ہونے والی بات چیت میں مثبت پیش رفت کے بعد چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ مصباح الحق نے 25 کرکٹر کا پول منتخب کرنے کے لیے تیاری شروع کر دی ہے، ٹیسٹ اور محدود اوورز کی کرکٹ کے لیے ممکنہ سکواڈز میں شامل تمام کھلاڑی ایک ساتھ سفر کریں گے، یہاں پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں اعلان کئے جانے والے سینٹرل کنٹریکٹ میں مجموعی طور پر 21 کھلاڑیوں کو فہرست میں شامل کیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دورہ انگلینڈ کے لیے ان کے علاوہ بھی ناموں پر غور کیا جائے گا۔