جنگ ہو یا وباء محنت کش ہی مرتے ہیں
پاکستان میں اس وقت بیس لاکھ مزدوروں کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہے
MADRID:
جنگ ہو، وبا ہو، مہلک بیما ریاں ہوں یا وا ئرس کے حملے، موت اور تبا ہی محنت کشوں کی ہی ہوتی ہے۔ امیر کے پاس وسا ئل ہیں، وہ اپنے آپ کو محفوظ کر لیتے ہیں۔ لا کھوں میں اگر اکا دکا امیر مرتا ہے تو اسے کسی شمار میں نہیں لا یا جا سکتا۔ دنیا میں اس وقت امریکا، بر طا نیہ، بھارت اور پاکستان میں شرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جہاں سب سے زیادہ اموات ہو رہی تھیں اب وہاں رو زانہ کے حسا ب سے کمی آرہی ہیں جن میں اٹلی، اسپین، فرانس اور ایران شامل ہیں۔ ان ملکوں میں شروع میں شدید اضافہ اس لیے ہوا تھا کہ ورلڈ ہیلتھ کی ہدا یات کو نہیں مان رہے تھے۔ جب چین میں یہ بیماری شروع ہوئی توکچھ ہی عرصے میں چین سے امریکا جا نے والی فلائٹوں سے ستر ہزار چینی امریکا آئے اور گئے، جب کہ امریکی حکام نے کسی بھی قسم کی احتیاتی تدابیر اختیار نہیں کیں۔ اٹلی کی حکو مت نے کو رونا خطرات کے پیش نظر شہریوں کو چھٹی دے دی لیکن عوام گھروں میں رہنے کی بجائے چھٹیاں منانے چلے گئے۔
اس وقت جن ملکوں میں اموات کی شرح کم ہو رہی ہے، ان میں لا طینی امریکا، مشرق وسطیِ، مشرق بعید، افریقہ، مشرقی یورپ، جنوب مشرق ایشیا، پیسفک و کیربین مما لک شامل ہیں۔ کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں بہت کم اور کہیں اموات ہو ہی نہیں رہیں۔ جیسا کہ منگو لیا میں دو، یمن میں دو، زمبیا میں دو، میانمار میں چھ، شام میں تین، ملاوی میں تین، مو رانتانیہ میں دو، کینیا تین، تائیوان میں چھ، ایتھو پیا میں تین، تاجکستان میں تین، زمبابوے میں چار، سری لنکا میں آٹھ، وینیزویلا میں آٹھ، لیبیا میں تین، گمبیا میں ایک، سینیگال میں نو، ہانگ کانگ میں چار، گنی بسایو میں ایک، کوسٹاریکا میں چھ، جبو تی تین، جارجیا میں نو، مالدیپ میں ایک، مالٹا میں چار، گیانا میں نو، جب کہ سوشلسٹ کوریا، ویتنام، مو زا مبیق، کمبو ڈیا، نیپال، گنی بسایو، منگو لیا، لا یوس، مڈ اگاسکر، یوگینڈا، جنوبی سوڈان، بھو ٹان، روانڈا، وغیرہ میں کوئی بھی ابھی تک نہیں مرا۔
ان اعداد و شمار کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو تی ہے کہ جتنے لوگ مرے ہیں وہ سب غریب اور مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ امریکا اور بر طانیہ، محنت کشوں کی اموات میں سختی سے کمی کے اقدام اس لیے بھی نہیں کر رہے ہیں کہ انھیں انسانوں کی نہیں، اپنے منا فع کی پڑی ہے۔ اس وقت دنیا میں امریکا کے متعدد بحری جنگی بیڑے دنیا کے سات سمندروں میں آپریشنل حالات میں مو جود ہیں۔ اس بدترین وبا کے دوران میں بھی سپر سا نک لڑاکا طیارے کا تجر بہ کیا جا رہا ہے۔
امریکا، بر طا نیہ، بھارت اور پاکستان کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ سال بھر اپنے عوام کو کھلا سکتے ہیں، اگر یہ ممالک دفاعی اور پولیس کے بجٹ کو اسپتال، ڈاکٹروں اور نر سوں پر خرچ کر دیں تو ہما رے ملک میں وبائی اموات اور بیروزگاری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت بیس لاکھ مزدوروں کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ پو لیس اہلکاروں کو موت پر سر کا ری اعزاز کے ساتھ دفنا یا جا تا ہے لیکن کورونا وائرس میں مبتلا ڈاکٹر ایک اسپتال سے دوسرے اور تیسرے اسپتال میںدوران منتقلی راستے میں ہی دم توڑ دیتا ہے۔ ڈاکٹرز کو سر کا ری اعزاز کے ساتھ دفنا نا تو در کناران کے بر وقت علاج کے انتظا مات بھی نہیں ہیں۔
جون میں آنے وا لے بجٹ میں چونتیس فیصد ٹیکس میں اضافہ ہو گا یعنی اسی حساب سے مہنگا ئی بھی لازمی طور پر بڑھے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو ایک کروڑ اسی لاکھ مزدور بیروزگار ہوجائیں گے اور لا کھوں کی تعداد کو رو نا وائرس میں مبتلا ہو جا ئے گی۔ اس لیے حکومت تمام مل، کار خانے، فیکٹری، اسٹور،دکانوں کو کھول دے۔ بیروزگاروں کو مالی امداد ، علاج کی بر وقت، اور بہتر سہو لت مہیا کر نا، حکومت کا فرض بنتا ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو حکو مت صرف تصویر بنوانے میں مصروف ہے۔
ریاست کے ماتحت سارے کام، صاحب جائیداد طبقات کے ذریعے کروائے جا رہے ہیں تو پھر وہ کیونکرغریب عوام کی خد مت کریں گے۔ اب تک دنیا میں غریب ہی مرا ہے کوئی امیر نہیں مرا۔ جہاں اموات کی شرح کم ہو رہی ہے، وہاں لاک ڈاؤن میں نرمی کر نے کی بات سمجھ میں آتی ہے۔ مگر جہاں اموات میں اضافہ ہو رہا ہے جیسا کہ امریکا، برطانیہ، انڈیااور پاکستان ، وہاں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ لاکھوں ،کروڑوں مزدوروں کی جان بچانے کے دو ہی راستے ہیں۔ اول حکو مت انھیں ہر طرح کی طبی سہولتیں فرا ہم کرے اور دوئم مزدوروں کی پرائیوٹ اداروں سے بر طرفی کے عمل کو روکا جائے۔
جہاں تک پا کستان کی معیشت اور بیروزگاری کا تعلق ہے تو اس پر حکو مت کی کو ئی نگاہ نہیں ہے۔ حکومت بیروزگاری کے خاتمے کے لیے مل،کار خا نے قائم کر نے کی بجا ئے جاگیر داروں اور سر ما یہ داروں کو بیل آؤٹ پیکیج دے رہی ہے۔ مزدوروں اور کسانوں کو گھر تک کھا نا اور رقوم پہنچا نے کے بجائے مجمع لگواکر تصویریں اتروائی جارہی ہیں۔
دنیا بھر میں اور پا کستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود پا کستان میں دال، چاول، آٹا،گھی، چینی، گوشت، دودھ، خوردنی تیل، چا ئے، انڈے اور دیگراشیا ء خورونوش کی قیمتوں میں کمی نہیں کی گئی ہے۔ ہر چند کہ حکو مت غریبوں کے نام پر ہمہ وقت ٹی وی پر دکھاؤے کی ہمدردی کا اظہار کر تی رہتی ہے۔ حکومت کو اپنے اس منافقانہ رویے کو بد لنا ہو گا۔ مہنگائی کو کم کیے بغیر اور طبی عملے و عوام کو کو رو نا سے بچنے کے لیے حفاظتی سامان مہیا کیے بغیر تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہونگی ۔ اس وقت حکو مت کو وزیروں کی نہیں ڈاکٹروں کے مشوروں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
جنگ ہو، وبا ہو، مہلک بیما ریاں ہوں یا وا ئرس کے حملے، موت اور تبا ہی محنت کشوں کی ہی ہوتی ہے۔ امیر کے پاس وسا ئل ہیں، وہ اپنے آپ کو محفوظ کر لیتے ہیں۔ لا کھوں میں اگر اکا دکا امیر مرتا ہے تو اسے کسی شمار میں نہیں لا یا جا سکتا۔ دنیا میں اس وقت امریکا، بر طا نیہ، بھارت اور پاکستان میں شرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جہاں سب سے زیادہ اموات ہو رہی تھیں اب وہاں رو زانہ کے حسا ب سے کمی آرہی ہیں جن میں اٹلی، اسپین، فرانس اور ایران شامل ہیں۔ ان ملکوں میں شروع میں شدید اضافہ اس لیے ہوا تھا کہ ورلڈ ہیلتھ کی ہدا یات کو نہیں مان رہے تھے۔ جب چین میں یہ بیماری شروع ہوئی توکچھ ہی عرصے میں چین سے امریکا جا نے والی فلائٹوں سے ستر ہزار چینی امریکا آئے اور گئے، جب کہ امریکی حکام نے کسی بھی قسم کی احتیاتی تدابیر اختیار نہیں کیں۔ اٹلی کی حکو مت نے کو رونا خطرات کے پیش نظر شہریوں کو چھٹی دے دی لیکن عوام گھروں میں رہنے کی بجائے چھٹیاں منانے چلے گئے۔
اس وقت جن ملکوں میں اموات کی شرح کم ہو رہی ہے، ان میں لا طینی امریکا، مشرق وسطیِ، مشرق بعید، افریقہ، مشرقی یورپ، جنوب مشرق ایشیا، پیسفک و کیربین مما لک شامل ہیں۔ کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں بہت کم اور کہیں اموات ہو ہی نہیں رہیں۔ جیسا کہ منگو لیا میں دو، یمن میں دو، زمبیا میں دو، میانمار میں چھ، شام میں تین، ملاوی میں تین، مو رانتانیہ میں دو، کینیا تین، تائیوان میں چھ، ایتھو پیا میں تین، تاجکستان میں تین، زمبابوے میں چار، سری لنکا میں آٹھ، وینیزویلا میں آٹھ، لیبیا میں تین، گمبیا میں ایک، سینیگال میں نو، ہانگ کانگ میں چار، گنی بسایو میں ایک، کوسٹاریکا میں چھ، جبو تی تین، جارجیا میں نو، مالدیپ میں ایک، مالٹا میں چار، گیانا میں نو، جب کہ سوشلسٹ کوریا، ویتنام، مو زا مبیق، کمبو ڈیا، نیپال، گنی بسایو، منگو لیا، لا یوس، مڈ اگاسکر، یوگینڈا، جنوبی سوڈان، بھو ٹان، روانڈا، وغیرہ میں کوئی بھی ابھی تک نہیں مرا۔
ان اعداد و شمار کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو تی ہے کہ جتنے لوگ مرے ہیں وہ سب غریب اور مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ امریکا اور بر طانیہ، محنت کشوں کی اموات میں سختی سے کمی کے اقدام اس لیے بھی نہیں کر رہے ہیں کہ انھیں انسانوں کی نہیں، اپنے منا فع کی پڑی ہے۔ اس وقت دنیا میں امریکا کے متعدد بحری جنگی بیڑے دنیا کے سات سمندروں میں آپریشنل حالات میں مو جود ہیں۔ اس بدترین وبا کے دوران میں بھی سپر سا نک لڑاکا طیارے کا تجر بہ کیا جا رہا ہے۔
امریکا، بر طا نیہ، بھارت اور پاکستان کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ سال بھر اپنے عوام کو کھلا سکتے ہیں، اگر یہ ممالک دفاعی اور پولیس کے بجٹ کو اسپتال، ڈاکٹروں اور نر سوں پر خرچ کر دیں تو ہما رے ملک میں وبائی اموات اور بیروزگاری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت بیس لاکھ مزدوروں کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ پو لیس اہلکاروں کو موت پر سر کا ری اعزاز کے ساتھ دفنا یا جا تا ہے لیکن کورونا وائرس میں مبتلا ڈاکٹر ایک اسپتال سے دوسرے اور تیسرے اسپتال میںدوران منتقلی راستے میں ہی دم توڑ دیتا ہے۔ ڈاکٹرز کو سر کا ری اعزاز کے ساتھ دفنا نا تو در کناران کے بر وقت علاج کے انتظا مات بھی نہیں ہیں۔
جون میں آنے وا لے بجٹ میں چونتیس فیصد ٹیکس میں اضافہ ہو گا یعنی اسی حساب سے مہنگا ئی بھی لازمی طور پر بڑھے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو ایک کروڑ اسی لاکھ مزدور بیروزگار ہوجائیں گے اور لا کھوں کی تعداد کو رو نا وائرس میں مبتلا ہو جا ئے گی۔ اس لیے حکومت تمام مل، کار خانے، فیکٹری، اسٹور،دکانوں کو کھول دے۔ بیروزگاروں کو مالی امداد ، علاج کی بر وقت، اور بہتر سہو لت مہیا کر نا، حکومت کا فرض بنتا ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو حکو مت صرف تصویر بنوانے میں مصروف ہے۔
ریاست کے ماتحت سارے کام، صاحب جائیداد طبقات کے ذریعے کروائے جا رہے ہیں تو پھر وہ کیونکرغریب عوام کی خد مت کریں گے۔ اب تک دنیا میں غریب ہی مرا ہے کوئی امیر نہیں مرا۔ جہاں اموات کی شرح کم ہو رہی ہے، وہاں لاک ڈاؤن میں نرمی کر نے کی بات سمجھ میں آتی ہے۔ مگر جہاں اموات میں اضافہ ہو رہا ہے جیسا کہ امریکا، برطانیہ، انڈیااور پاکستان ، وہاں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ لاکھوں ،کروڑوں مزدوروں کی جان بچانے کے دو ہی راستے ہیں۔ اول حکو مت انھیں ہر طرح کی طبی سہولتیں فرا ہم کرے اور دوئم مزدوروں کی پرائیوٹ اداروں سے بر طرفی کے عمل کو روکا جائے۔
جہاں تک پا کستان کی معیشت اور بیروزگاری کا تعلق ہے تو اس پر حکو مت کی کو ئی نگاہ نہیں ہے۔ حکومت بیروزگاری کے خاتمے کے لیے مل،کار خا نے قائم کر نے کی بجا ئے جاگیر داروں اور سر ما یہ داروں کو بیل آؤٹ پیکیج دے رہی ہے۔ مزدوروں اور کسانوں کو گھر تک کھا نا اور رقوم پہنچا نے کے بجائے مجمع لگواکر تصویریں اتروائی جارہی ہیں۔
دنیا بھر میں اور پا کستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود پا کستان میں دال، چاول، آٹا،گھی، چینی، گوشت، دودھ، خوردنی تیل، چا ئے، انڈے اور دیگراشیا ء خورونوش کی قیمتوں میں کمی نہیں کی گئی ہے۔ ہر چند کہ حکو مت غریبوں کے نام پر ہمہ وقت ٹی وی پر دکھاؤے کی ہمدردی کا اظہار کر تی رہتی ہے۔ حکومت کو اپنے اس منافقانہ رویے کو بد لنا ہو گا۔ مہنگائی کو کم کیے بغیر اور طبی عملے و عوام کو کو رو نا سے بچنے کے لیے حفاظتی سامان مہیا کیے بغیر تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہونگی ۔ اس وقت حکو مت کو وزیروں کی نہیں ڈاکٹروں کے مشوروں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔