ایس او پیز پر عمل نہ کیاگیا تو نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں
حکومت، سول سوسائٹی اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
حکومت نے بزنس کمیونٹی کے ساتھ '' ایس او پیز'' طے کر کے لاک ڈاؤن میں نرمی کی تو پہلے ہی روز لوگوں کی بڑی تعداد نے حفاظتی تدابیر اپنائے بغیر بازاروں کا رخ کر لیا جبکہ دکانداروں نے بھی کوئی حفاظتی اقدامات نہیں اٹھائے۔ اس کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی اور ''ایس او پیز'' کی خلاف ورزی پر سینکڑوں دکانیں اور بازار بند کر دیے ۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ''لاک ڈاؤن میں نرمی اور ہماری ذمہ داریاں'' کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت،سول سوسائٹی اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
سعدیہ سہیل رانا
(ترجمان حکومت پنجاب)
کورونا عالمی مسئلہ ہے۔ اس سے صرف پاکستان یا چند ممالک ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے۔ اس خطرناک صورتحال میں ہمارے جیسے ملک جہاں وسائل محدود ہیں،جہاں گزشتہ 70 برسوں میں صحت کے نظام پر خرچ نہیں کیا گیا، جہاں غربت ہے، زیادہ تر عوام غریب ہیں، کے لیے کورونا کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے۔لاک ڈاؤن میں نرمی سے یہ خیال نہ کیا جائے کہ کورونا ختم ہوگیا بلکہ معیشت کا پہیہ چلانے اور غرباء کو روزگار دینے کیلئے کاروبار کھولا گیا مگر اس پرعوام کا ردعمل افسوسناک ہے۔
ٹریڈرز اور دکانداروں کی جانب سے ایس او پیز پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا اور نہ ہی کوئی حفاظتی اقدامات لیے گئے ہیں۔ اس صوتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت نے کارروائی کی جس کے بعد انارکلی اور شاہ عالم مارکیٹ بند کر دی گئی لہٰذاجہاں بھی ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی جائیں گی وہاں سخت ایکشن لیا جائے گا۔ یہ بات درست ہے کہ کاروبار کا دورانیہ کم ہونے کی وجہ سے رش زیادہ ہے لہٰذا میں وزیراعظم تک یہ تجویز پہنچاؤں گی کہ اس میں اضافہ کیا جائے تاکہ رش کم کیا جاسکے۔ قومیں مشکل وقت میں پہچانی جاتی ہیں اور ہماری قوم نے اس مشکل گھڑی میں آگے بڑھ کر امدادی کاموں میں حصہ لیا۔
حکومت نے بھی احساس پروگرام و دیگر اقدامات سے مستحق اور غریب افراد کی مدد کی۔ اب جبکہ لوگوں کا احساس کرتے ہوئے یہ کاروبار کھولا گیا ہے تو سب کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ کورونا کی وباء میں حکومت نے پہلے دن سے ہی اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ تعلیمی ادارے بند کردئے گئے، کاروبار و رش والی تمام جگہیں بند کر دی گئی تاکہ کورونا کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔ یہ بات قابل افسوس ہے کہ حکومت ، میڈیا اور سول سوسائٹی کی جانب سے وسیع پیمانے پر آگاہی دینے کے باجود لوگ لاپرواہی برت رہے ہیں۔
بہت سے تاجروں نے بھی آگاہی مہم چلائی، سٹورز پر آگاہی پیغامات بھی آویزاں کیے گئے ہیں مگر لوگ تعاون نہیں کر رہے۔ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ یہ سیر و تفریح کا موقع نہیں ہے۔ خدا کا واسطہ ہے بچوں کو بازاروں میں مت لائیں بلکہ ایمرجنسی کی صورتحال میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ایک دوسرے کا خیال کریں، خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ نارووے نے اس صورتحال میں مثبت کام کیا۔ انہوں نے تمام ملازمین کو حکومتی خزانے سے تنخواہ دینے کا اعلان کیا اور مالکان کو کہا کہ ملازمین کو فارغ نہ کریں۔ امریکا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات و دیگر بڑے ممالک بھی ایسا کرسکتے تھے مگر وہاں ملازمین بے روزگار ہوگئے اوران ممالک سے 50 ہزار سے زائد پاکستانی بے روزگار ہوکر وطن واپس آرہے ہیں۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے، ہماری آبادی زیادہ اور وسائل کم ہیں۔
ہم ایسی پالیسی نہیں لاسکتے مگر اس کے باوجود حکومت ہرممکن اقدامات کر رہی ہے تاکہ لوگوں کی مدد ہوسکے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے عوام میں غلط خبریں گردش کر رہی ہیں، سوشل میڈیا سے افواہیں پھیلائی جارہی ہیں لہٰذا لوگ ان باتوں پر کان نہ دھریں اور صرف ماہرین کی رائے پر اعتبار کریں۔
یہ مرض اللہ کی طرف سے ہے اور اسے وہی دور کرسکتا ہے۔ ہم نے صرف احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس کا رسک کم کرنا ہے۔ کورونا کی مشکل صورتحال میں لوگوں نے ایک دوسرے کی بہت مدد کی۔ سماجی ادارے بھی مستحق اور غریب افراد میں راشن تقسیم کر رہے ہیں۔ حکومت نے اس حوالے سے مختلف سماجی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا تاکہ امداد کا دائرہ کار بڑھایا جائے اور یہ نہ ہو کہ سب تنظیمیں ایک ہی جگہ پر لوگوںکی مدد کرتی رہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کورونا کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی اسے دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے، امید ہے جلد اس مسئلے پر قابو پالیاجائے گا۔
عرفان اقبال شیخ
(صدر لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
معیشت کا پہیہ چلنا ملک کی ضرورت ہے لہٰذا میں وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا مشکور ہوں جنہوں نے ہمارے مطالبات سنے اور کاروبار کھولنے کا فیصلہ کیا۔بازاروں اور مارکیٹوں میں رش کی جو صورتحال پیدا ہوئی یہ غیر معمولی نہیںہے۔ میں نے لاک ڈاؤن کھولنے سے ایک دن پہلے میٹنگ میں کہا تھا کہ لوگ کورونا وائرس کو سنجیدہ نہیں لے رہے لہٰذا اب جبکہ 51 دن بعد لاک ڈاؤن کھولا جا رہا ہے تو ابتدائی 3سے4 دن مشکل صورتحال رہے گی، احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد نظر نہیںآئے گا مگر ایک ہفتے میں حالات نارمل ہوجائیں گے۔
لوگوں کا رویہ یہ ہے کہ کوئی بھی نیا پلازہ ، دکان یا سٹور کھلے تو سب ایک بار ضرور دیکھنے جاتے ہیں لہٰذا یہی صورتحال اب ہوئی۔ لوگوں نے لاک ڈاؤن سے تنگی کی وجہ سے بھی بازاروں کا رخ کیا۔ ایک اور بات غور طلب ہے کہ ماہ رمضان میں لوگ دیر سے سوتے اور دیر سے اٹھتے ہیں لہٰذا افطاری سے چند گھنٹے قبل شدید رش ہوتا ہے، اگر کاروبار کھولنے کا وقت بڑھا دیا جائے تو رش کم ہوجائے گا۔ یہ عید کا موقع ہے لہٰذا اس پر نظر ثانی کی جائے۔ حکومت ہول سیل مارکیٹ صبح 8 سے 2 بجے تک کھولے جبکہ دکانیں دوپہر 12 سے رات 12 بجے تک کھولی جائیں، اس سے معاملات بہتر ہوجائیں گے۔
جتنی بڑی تعداد میں لوگ نکلے اس میں انتظامیہ اور دکانداروں کیلئے حفاظتی اقدامات کرنا مشکل ہوگیا، بعض جگہ ٹریڈرز نے بھی اس میں لاپرواہی برتی تاہم اب حکومت کی جانب سے جو ایکشن لیا جا رہا ہے یہ درست ہے اور مجبوری بھی کیونکہ لوگوں کو موت کے منہ میں نہیں دھکیلا جا سکتاتاہم یہ بھی درست نہیں کہ کاروبار دوبارہ بند کر دیا جائے کیونکہ ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ چین کے ساتھ ہماری 4.5 1ارب ڈالر کی امپورٹ جبکہ1.8 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ ہے یعنی کل تجارت 16.3 ارب ڈالر بنتی ہے۔
تین ماہ تجارتی بندش کی وجہ سے چین کے ساتھ4ارب ڈالر کا تجارتی نقصان ہوا۔ اسی طرح یورپ کے ساتھ 8ارب ڈالر کی ایکسپورٹ ہے۔ ان تین ماہ میں یورپ کے ساتھ تجارت نہ ہونے کی وجہ سے 2 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ہماری تیسری بڑی تجارت امریکا کے ساتھ ہے اور وہاں ہم 3.8 بلین ڈالرکی ایکسپورٹ جبکہ 2.9 بلین ڈالر کی امپورٹ کرتے ہیں۔ ان تین ماہ میں امریکا کے ساتھ 1.5 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اگر ان تینوں ممالک کے ساتھ تجارتی نقصان کا حساب لگائیں تو گزشتہ تین ماہ میں ساڑھے سات ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
ہماری 314 ارب کی معیشت ہے جو پہلے ہی سکڑ کر 283 ارب پر چلی گئی تھی اور اب یہ 260 ارب رہ گئی ہے۔ اگر کاروبار نہ کھولا جاتا تو ایسی خطرناک معاشی صورتحال پیدا ہوجاتی جس کا ریکور ہونا ناممکن ہوجاتا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اوورسیز پاکستانیوں کو ملازمت سے فارغ کردیا ہے۔ اندازے کے مطابق 50 ہزار پاکستانی ملک میں واپس آئیں گے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی وجہ سے سعودی عرب سے 5 ارب ، متحدہ عرب امارات4.3 ارب، یو کے سے 3.4، امریکا سے 3.3 ارب جبکہ جی ای سی ممالک سے 2.1ارب کی ترسیلات زر ہوتی تھی جس میںا س مرتبہ 5ارب کی کمی ہوگی۔
ان تمام چیلنجز کے پیش نظر کاروبار کھولنا انتہائی ضروری ہے۔ اس کے لیے طے شدہ ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے انتظامیہ کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ ہم نے مارکیٹ کمیٹیوں اور تاجر تنظیموں کو بھی کہا ہے کہ عملدرآمد یقینی بنائیں۔
مارکیٹوں کے باہر ناکے لگائے جائیں، رش کو کم کیا جائے، ایک ہی خاندان کے زیادہ افراد کے آنے کی حوصلہ شکنی کی جائے اور بچوں کو ساتھ لانے والوں کو گھر بھیج دیا جائے۔ عوام سے اپیل ہے کہ خدارا بچوں کو ساتھ لے کر نہ آئیں۔ میرے نزدیک لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے، ہم نے خود بھی بچنا ہے اور لوگوں کو بھی بچانا ہے، خدا نخواستہ اگر یہ پھیل گیا تو سب اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ امریکا و دیگر ممالک میں لاکھوں افراد کی روزانہ سکریننگ ہوئی جس کی وجہ سے وہاں کیسز زیادہ سامنے آئے مگر ہمارے ہاں ابھی 5سے 7 ہزار ٹیسٹ ہورہے ہیں۔
جون کا مہینہ اس حوالے سے خطرناک دکھائی دے رہا ہے، اگر احتیاطی تدابیر اختیار کر لی جائیں تو صورتحال بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ حکومت اکیلے کچھ نہیں کرسکتی،عوام، ٹریڈرز، صنعتکاروں، سول سوسائٹی و تمام سٹیک ہولڈرز کوحکومت کا ساتھ دینا ہوگا۔
راؤ سکندر اعظم
(صدر فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
کورونا عالمی وباء ہے لہٰذا اس سے نمٹنے کیلئے طریقہ بھی عالمی معیار کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔ افسوس ہے کہ پہلے دن سے ہی ملک میں لاک ڈاؤن نہیں تھا ، صرف کاروبار بند تھا جس کی وجہ سے ٹریڈرز پریشان تھے اور مطالبہ کر رہے تھے کہ کاروبار کھولیں ہم تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کریں گے۔
میڈیا و عوامی سطح پر بھی آگاہی مہم چلائی جارہی تھی مگر جیسے ہی لاک ڈاؤن میں نرمی ہوئی سب نے بھلا دیا کہ کورونا ہے۔افسوس ہے کہ ہم صرف دکھاوے کیلئے کام کرتے ہیں لہٰذا ہمیں منافقانہ رویے ترک کرنا ہونگے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی پر عوامی ردعمل حیرت انگیز ہے، لوگ ایسے باہر نکلے جیسے شاپنگ فیسٹیول ہو، سب کو سمجھنا چاہیے کہ حالات نارمل نہیں ہیں لہٰذا مناسب خریداری کریں اور پورا خاندان شاپنگ کیلئے نہ آئے۔
ہم نے یہ بارہا کہا کہ انتظامیہ، تاجر برادری کو ساتھ بٹھا کر ''ایس او پیز'' تیار کرے۔ میں نے وزیراعظم اور وزراء کو خطوط لکھے کہ علاقائی سطح پر تاجروں و سٹیک ہولڈرز کو بٹھایا جائے، ان کے ساتھ معاہدہ کیا جائے تاکہ وہ اس سے فرار اختیار نہ کرسکیں مگر افسوس ہے کہ حکومت نے ہمیںآ ن بورڈ نہیں لیا جس کی وجہ سے یہ اب یہ مسائل سامنے آئے ہیں۔ ٹریڈز نے بھی اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی، سب کو سمجھنا چاہیے کہ ملک اس وقت غیر ذمہ داری کا متحمل نہیں ہوسکتا، ہم سب نے مل کر کورونا وائرس کا خاتمہ کرنا ہے۔
لاک ڈاؤن میں نرمی پر سب نے ہی دکانیں کھول لیں، کوئی ''ایس او پیز'' نظر نہیں آئے، لوگوں نے بھی بغیر احتیاطی تدابیر اپنائے بازاروں کا رخ کر لیا اورپورا خاندان بچوں سمیت شاپنگ کیلئے امڈ آیا۔ سول سوسائٹی بھی اس معاملے میں کہیں نظر نہیںآئی جبکہ انتظامیہ بھی پریشان اور کمزور دکھائی دی۔ ہمارے چیمبر نے لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد میڈیا اور مقامی سطح پر آگاہی مہم چلائی ہے ، ہم دکانداروں کے ساتھ میٹنگز بھی کر رہے ہیں تاکہ حالات کو بہتر بنایا جاسکے۔
فیصل آباد چیمبرنے گھنٹہ گھر کے 8 بازاروں میں گاڑیوں اور موٹر سائیکل کے داخلہ پر پابندی کی سفارش کی، یہ پہلے دن تو نہ ہوا لیکن جب انتظامیہ نے شدید رش دیکھا تو دوسرے دن موٹر سائیکل اور گاڑیوں کی انٹری بند کر دی گئی۔ بعدازاں تیسرے روز موٹر سائیکل کی انٹری کی اجازت دے دی گئی۔ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا، انتظامیہ کو فیصلے پر سختی سے عملدرآمد کروانا چاہیے تھا۔ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے، اگر احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو شدید مشکلات پیدا ہونگی لہٰذا سب کو ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ملکی وسائل انتہائی کم ہیں، ملک اس وقت لاپرواہی کا متحمل نہیں ہوسکتا لہٰذا معیشت کا پہیہ چلانے کیلئے ہمیں احتیاطی تدابیر اپنانا ہونگی۔
شاہنواز خان
(نمائندہ سول سوسائٹی )
لاک ڈاؤن میں نرمی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ملک سے کورونا کا خاتمہ ہوگیا ہے بلکہ مشکل معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اور لوگوں کو بے روزگاری سے بچانے کیلئے حکومت کو یہ فیصلہ کرنا پڑا لہٰذا اب تاجروں اور عوام کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہماری زیادہ تر آبادی ناخواندہ ہے جو کورونا کی منکر ہے۔
وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کورونا ہے ہی نہیں بلکہ افواہوں اور جھوٹی باتوں پر یقین کرتے ہیں لہٰذا یہ ہماری اجتماعی اور انفرادی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو آگاہی دیں اور ان کی زندگیاں بچائیں۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ یہ کوئی سازش نہیںہے بلکہ جان لیوا وائرس ہے جو اس وقت دنیا کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے لہٰذا احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ اب چونکہ مارکیٹ اور دکانیں کھیل چکی ہیں اور لوگ خریداری کیلئے آرہے ہیں لہٰذا تاجروں کو بھی چاہیے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں، رش نہ لگنے دیں اور لوگوں کو ماسک و دیگر حفاظتی اقدامات کرنے کی تلقین کریں۔ لاک ڈاؤن میں نرمی ہوتے ہی اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا نکلناحیران کن ہے۔
یونینز ، ایسوسی ایشنز ودیگر تنظیمیں سول سوسائٹی کا حصہ ہیں لہٰذا انہیں اپنی اپنی سطح پر حفاظتی اقدامات پر عملدرآمد یقینی بنانا چاہیے، دکانداروں اور خریداروں دونوں کو ہی حفاظتی اقدامات کی ترغیب دی جائے۔دکاندار اپنے عملے کو ماسک، سینی ٹائزر استعمال کروائیں اور یقینی بنائیں کہ ان کی دکان میں کوئی بھی شخص بغیر حفاظتی اقدامات کے داخل نہیں ہوگا۔ میرے نزدیک جس طرح بغیر ہیلمٹ پٹرول کی فروخت پر پابندی لگائی گئی ہے، اسی طرح اب ایسی قانون سازی کی جائے کہ کوئی بھی شخص بغیر ماسک کے نہ تو گھر سے نکلے اور نہ ہی اس کے ؓبغیر خریداری کرسکے۔
شہری حفاظتی تدابیر اختیار کریں، ماسک پہنیں اور بلاوجہ گھر سے نہ نکلیں۔ پورے خاندان کے بجائے صرف ایک شخص خریداری کیلئے آئے، بچوں کو بازاروں میں لے کر نہ جائیں اور عید کی شاپنگ کے بجائے یہ پیسے کسی غریب ہمسائے کی مدد کیلئے خرچ کریں۔ سول سوسائٹی اور این جی اوز پر یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ یہ آگاہی پر بہت کام کرتی ہیں میرے نزدیک اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہی آگاہی کی ہے۔ معاشرے کے تمام طبقات اس حوالے سے کام کر رہے ہیں مگر ابھی بہت زیادہ کام کرنا ہوگا۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ''لاک ڈاؤن میں نرمی اور ہماری ذمہ داریاں'' کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت،سول سوسائٹی اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
سعدیہ سہیل رانا
(ترجمان حکومت پنجاب)
کورونا عالمی مسئلہ ہے۔ اس سے صرف پاکستان یا چند ممالک ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے۔ اس خطرناک صورتحال میں ہمارے جیسے ملک جہاں وسائل محدود ہیں،جہاں گزشتہ 70 برسوں میں صحت کے نظام پر خرچ نہیں کیا گیا، جہاں غربت ہے، زیادہ تر عوام غریب ہیں، کے لیے کورونا کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے۔لاک ڈاؤن میں نرمی سے یہ خیال نہ کیا جائے کہ کورونا ختم ہوگیا بلکہ معیشت کا پہیہ چلانے اور غرباء کو روزگار دینے کیلئے کاروبار کھولا گیا مگر اس پرعوام کا ردعمل افسوسناک ہے۔
ٹریڈرز اور دکانداروں کی جانب سے ایس او پیز پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا اور نہ ہی کوئی حفاظتی اقدامات لیے گئے ہیں۔ اس صوتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت نے کارروائی کی جس کے بعد انارکلی اور شاہ عالم مارکیٹ بند کر دی گئی لہٰذاجہاں بھی ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی جائیں گی وہاں سخت ایکشن لیا جائے گا۔ یہ بات درست ہے کہ کاروبار کا دورانیہ کم ہونے کی وجہ سے رش زیادہ ہے لہٰذا میں وزیراعظم تک یہ تجویز پہنچاؤں گی کہ اس میں اضافہ کیا جائے تاکہ رش کم کیا جاسکے۔ قومیں مشکل وقت میں پہچانی جاتی ہیں اور ہماری قوم نے اس مشکل گھڑی میں آگے بڑھ کر امدادی کاموں میں حصہ لیا۔
حکومت نے بھی احساس پروگرام و دیگر اقدامات سے مستحق اور غریب افراد کی مدد کی۔ اب جبکہ لوگوں کا احساس کرتے ہوئے یہ کاروبار کھولا گیا ہے تو سب کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ کورونا کی وباء میں حکومت نے پہلے دن سے ہی اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ تعلیمی ادارے بند کردئے گئے، کاروبار و رش والی تمام جگہیں بند کر دی گئی تاکہ کورونا کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔ یہ بات قابل افسوس ہے کہ حکومت ، میڈیا اور سول سوسائٹی کی جانب سے وسیع پیمانے پر آگاہی دینے کے باجود لوگ لاپرواہی برت رہے ہیں۔
بہت سے تاجروں نے بھی آگاہی مہم چلائی، سٹورز پر آگاہی پیغامات بھی آویزاں کیے گئے ہیں مگر لوگ تعاون نہیں کر رہے۔ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ یہ سیر و تفریح کا موقع نہیں ہے۔ خدا کا واسطہ ہے بچوں کو بازاروں میں مت لائیں بلکہ ایمرجنسی کی صورتحال میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ایک دوسرے کا خیال کریں، خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ نارووے نے اس صورتحال میں مثبت کام کیا۔ انہوں نے تمام ملازمین کو حکومتی خزانے سے تنخواہ دینے کا اعلان کیا اور مالکان کو کہا کہ ملازمین کو فارغ نہ کریں۔ امریکا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات و دیگر بڑے ممالک بھی ایسا کرسکتے تھے مگر وہاں ملازمین بے روزگار ہوگئے اوران ممالک سے 50 ہزار سے زائد پاکستانی بے روزگار ہوکر وطن واپس آرہے ہیں۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے، ہماری آبادی زیادہ اور وسائل کم ہیں۔
ہم ایسی پالیسی نہیں لاسکتے مگر اس کے باوجود حکومت ہرممکن اقدامات کر رہی ہے تاکہ لوگوں کی مدد ہوسکے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے عوام میں غلط خبریں گردش کر رہی ہیں، سوشل میڈیا سے افواہیں پھیلائی جارہی ہیں لہٰذا لوگ ان باتوں پر کان نہ دھریں اور صرف ماہرین کی رائے پر اعتبار کریں۔
یہ مرض اللہ کی طرف سے ہے اور اسے وہی دور کرسکتا ہے۔ ہم نے صرف احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس کا رسک کم کرنا ہے۔ کورونا کی مشکل صورتحال میں لوگوں نے ایک دوسرے کی بہت مدد کی۔ سماجی ادارے بھی مستحق اور غریب افراد میں راشن تقسیم کر رہے ہیں۔ حکومت نے اس حوالے سے مختلف سماجی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا تاکہ امداد کا دائرہ کار بڑھایا جائے اور یہ نہ ہو کہ سب تنظیمیں ایک ہی جگہ پر لوگوںکی مدد کرتی رہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کورونا کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی اسے دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے، امید ہے جلد اس مسئلے پر قابو پالیاجائے گا۔
عرفان اقبال شیخ
(صدر لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
معیشت کا پہیہ چلنا ملک کی ضرورت ہے لہٰذا میں وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا مشکور ہوں جنہوں نے ہمارے مطالبات سنے اور کاروبار کھولنے کا فیصلہ کیا۔بازاروں اور مارکیٹوں میں رش کی جو صورتحال پیدا ہوئی یہ غیر معمولی نہیںہے۔ میں نے لاک ڈاؤن کھولنے سے ایک دن پہلے میٹنگ میں کہا تھا کہ لوگ کورونا وائرس کو سنجیدہ نہیں لے رہے لہٰذا اب جبکہ 51 دن بعد لاک ڈاؤن کھولا جا رہا ہے تو ابتدائی 3سے4 دن مشکل صورتحال رہے گی، احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد نظر نہیںآئے گا مگر ایک ہفتے میں حالات نارمل ہوجائیں گے۔
لوگوں کا رویہ یہ ہے کہ کوئی بھی نیا پلازہ ، دکان یا سٹور کھلے تو سب ایک بار ضرور دیکھنے جاتے ہیں لہٰذا یہی صورتحال اب ہوئی۔ لوگوں نے لاک ڈاؤن سے تنگی کی وجہ سے بھی بازاروں کا رخ کیا۔ ایک اور بات غور طلب ہے کہ ماہ رمضان میں لوگ دیر سے سوتے اور دیر سے اٹھتے ہیں لہٰذا افطاری سے چند گھنٹے قبل شدید رش ہوتا ہے، اگر کاروبار کھولنے کا وقت بڑھا دیا جائے تو رش کم ہوجائے گا۔ یہ عید کا موقع ہے لہٰذا اس پر نظر ثانی کی جائے۔ حکومت ہول سیل مارکیٹ صبح 8 سے 2 بجے تک کھولے جبکہ دکانیں دوپہر 12 سے رات 12 بجے تک کھولی جائیں، اس سے معاملات بہتر ہوجائیں گے۔
جتنی بڑی تعداد میں لوگ نکلے اس میں انتظامیہ اور دکانداروں کیلئے حفاظتی اقدامات کرنا مشکل ہوگیا، بعض جگہ ٹریڈرز نے بھی اس میں لاپرواہی برتی تاہم اب حکومت کی جانب سے جو ایکشن لیا جا رہا ہے یہ درست ہے اور مجبوری بھی کیونکہ لوگوں کو موت کے منہ میں نہیں دھکیلا جا سکتاتاہم یہ بھی درست نہیں کہ کاروبار دوبارہ بند کر دیا جائے کیونکہ ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ چین کے ساتھ ہماری 4.5 1ارب ڈالر کی امپورٹ جبکہ1.8 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ ہے یعنی کل تجارت 16.3 ارب ڈالر بنتی ہے۔
تین ماہ تجارتی بندش کی وجہ سے چین کے ساتھ4ارب ڈالر کا تجارتی نقصان ہوا۔ اسی طرح یورپ کے ساتھ 8ارب ڈالر کی ایکسپورٹ ہے۔ ان تین ماہ میں یورپ کے ساتھ تجارت نہ ہونے کی وجہ سے 2 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ہماری تیسری بڑی تجارت امریکا کے ساتھ ہے اور وہاں ہم 3.8 بلین ڈالرکی ایکسپورٹ جبکہ 2.9 بلین ڈالر کی امپورٹ کرتے ہیں۔ ان تین ماہ میں امریکا کے ساتھ 1.5 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اگر ان تینوں ممالک کے ساتھ تجارتی نقصان کا حساب لگائیں تو گزشتہ تین ماہ میں ساڑھے سات ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
ہماری 314 ارب کی معیشت ہے جو پہلے ہی سکڑ کر 283 ارب پر چلی گئی تھی اور اب یہ 260 ارب رہ گئی ہے۔ اگر کاروبار نہ کھولا جاتا تو ایسی خطرناک معاشی صورتحال پیدا ہوجاتی جس کا ریکور ہونا ناممکن ہوجاتا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اوورسیز پاکستانیوں کو ملازمت سے فارغ کردیا ہے۔ اندازے کے مطابق 50 ہزار پاکستانی ملک میں واپس آئیں گے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی وجہ سے سعودی عرب سے 5 ارب ، متحدہ عرب امارات4.3 ارب، یو کے سے 3.4، امریکا سے 3.3 ارب جبکہ جی ای سی ممالک سے 2.1ارب کی ترسیلات زر ہوتی تھی جس میںا س مرتبہ 5ارب کی کمی ہوگی۔
ان تمام چیلنجز کے پیش نظر کاروبار کھولنا انتہائی ضروری ہے۔ اس کے لیے طے شدہ ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے انتظامیہ کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ ہم نے مارکیٹ کمیٹیوں اور تاجر تنظیموں کو بھی کہا ہے کہ عملدرآمد یقینی بنائیں۔
مارکیٹوں کے باہر ناکے لگائے جائیں، رش کو کم کیا جائے، ایک ہی خاندان کے زیادہ افراد کے آنے کی حوصلہ شکنی کی جائے اور بچوں کو ساتھ لانے والوں کو گھر بھیج دیا جائے۔ عوام سے اپیل ہے کہ خدارا بچوں کو ساتھ لے کر نہ آئیں۔ میرے نزدیک لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے، ہم نے خود بھی بچنا ہے اور لوگوں کو بھی بچانا ہے، خدا نخواستہ اگر یہ پھیل گیا تو سب اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ امریکا و دیگر ممالک میں لاکھوں افراد کی روزانہ سکریننگ ہوئی جس کی وجہ سے وہاں کیسز زیادہ سامنے آئے مگر ہمارے ہاں ابھی 5سے 7 ہزار ٹیسٹ ہورہے ہیں۔
جون کا مہینہ اس حوالے سے خطرناک دکھائی دے رہا ہے، اگر احتیاطی تدابیر اختیار کر لی جائیں تو صورتحال بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ حکومت اکیلے کچھ نہیں کرسکتی،عوام، ٹریڈرز، صنعتکاروں، سول سوسائٹی و تمام سٹیک ہولڈرز کوحکومت کا ساتھ دینا ہوگا۔
راؤ سکندر اعظم
(صدر فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
کورونا عالمی وباء ہے لہٰذا اس سے نمٹنے کیلئے طریقہ بھی عالمی معیار کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔ افسوس ہے کہ پہلے دن سے ہی ملک میں لاک ڈاؤن نہیں تھا ، صرف کاروبار بند تھا جس کی وجہ سے ٹریڈرز پریشان تھے اور مطالبہ کر رہے تھے کہ کاروبار کھولیں ہم تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کریں گے۔
میڈیا و عوامی سطح پر بھی آگاہی مہم چلائی جارہی تھی مگر جیسے ہی لاک ڈاؤن میں نرمی ہوئی سب نے بھلا دیا کہ کورونا ہے۔افسوس ہے کہ ہم صرف دکھاوے کیلئے کام کرتے ہیں لہٰذا ہمیں منافقانہ رویے ترک کرنا ہونگے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی پر عوامی ردعمل حیرت انگیز ہے، لوگ ایسے باہر نکلے جیسے شاپنگ فیسٹیول ہو، سب کو سمجھنا چاہیے کہ حالات نارمل نہیں ہیں لہٰذا مناسب خریداری کریں اور پورا خاندان شاپنگ کیلئے نہ آئے۔
ہم نے یہ بارہا کہا کہ انتظامیہ، تاجر برادری کو ساتھ بٹھا کر ''ایس او پیز'' تیار کرے۔ میں نے وزیراعظم اور وزراء کو خطوط لکھے کہ علاقائی سطح پر تاجروں و سٹیک ہولڈرز کو بٹھایا جائے، ان کے ساتھ معاہدہ کیا جائے تاکہ وہ اس سے فرار اختیار نہ کرسکیں مگر افسوس ہے کہ حکومت نے ہمیںآ ن بورڈ نہیں لیا جس کی وجہ سے یہ اب یہ مسائل سامنے آئے ہیں۔ ٹریڈز نے بھی اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی، سب کو سمجھنا چاہیے کہ ملک اس وقت غیر ذمہ داری کا متحمل نہیں ہوسکتا، ہم سب نے مل کر کورونا وائرس کا خاتمہ کرنا ہے۔
لاک ڈاؤن میں نرمی پر سب نے ہی دکانیں کھول لیں، کوئی ''ایس او پیز'' نظر نہیں آئے، لوگوں نے بھی بغیر احتیاطی تدابیر اپنائے بازاروں کا رخ کر لیا اورپورا خاندان بچوں سمیت شاپنگ کیلئے امڈ آیا۔ سول سوسائٹی بھی اس معاملے میں کہیں نظر نہیںآئی جبکہ انتظامیہ بھی پریشان اور کمزور دکھائی دی۔ ہمارے چیمبر نے لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد میڈیا اور مقامی سطح پر آگاہی مہم چلائی ہے ، ہم دکانداروں کے ساتھ میٹنگز بھی کر رہے ہیں تاکہ حالات کو بہتر بنایا جاسکے۔
فیصل آباد چیمبرنے گھنٹہ گھر کے 8 بازاروں میں گاڑیوں اور موٹر سائیکل کے داخلہ پر پابندی کی سفارش کی، یہ پہلے دن تو نہ ہوا لیکن جب انتظامیہ نے شدید رش دیکھا تو دوسرے دن موٹر سائیکل اور گاڑیوں کی انٹری بند کر دی گئی۔ بعدازاں تیسرے روز موٹر سائیکل کی انٹری کی اجازت دے دی گئی۔ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا، انتظامیہ کو فیصلے پر سختی سے عملدرآمد کروانا چاہیے تھا۔ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے، اگر احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو شدید مشکلات پیدا ہونگی لہٰذا سب کو ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ملکی وسائل انتہائی کم ہیں، ملک اس وقت لاپرواہی کا متحمل نہیں ہوسکتا لہٰذا معیشت کا پہیہ چلانے کیلئے ہمیں احتیاطی تدابیر اپنانا ہونگی۔
شاہنواز خان
(نمائندہ سول سوسائٹی )
لاک ڈاؤن میں نرمی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ملک سے کورونا کا خاتمہ ہوگیا ہے بلکہ مشکل معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اور لوگوں کو بے روزگاری سے بچانے کیلئے حکومت کو یہ فیصلہ کرنا پڑا لہٰذا اب تاجروں اور عوام کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہماری زیادہ تر آبادی ناخواندہ ہے جو کورونا کی منکر ہے۔
وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کورونا ہے ہی نہیں بلکہ افواہوں اور جھوٹی باتوں پر یقین کرتے ہیں لہٰذا یہ ہماری اجتماعی اور انفرادی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو آگاہی دیں اور ان کی زندگیاں بچائیں۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ یہ کوئی سازش نہیںہے بلکہ جان لیوا وائرس ہے جو اس وقت دنیا کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے لہٰذا احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ اب چونکہ مارکیٹ اور دکانیں کھیل چکی ہیں اور لوگ خریداری کیلئے آرہے ہیں لہٰذا تاجروں کو بھی چاہیے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں، رش نہ لگنے دیں اور لوگوں کو ماسک و دیگر حفاظتی اقدامات کرنے کی تلقین کریں۔ لاک ڈاؤن میں نرمی ہوتے ہی اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا نکلناحیران کن ہے۔
یونینز ، ایسوسی ایشنز ودیگر تنظیمیں سول سوسائٹی کا حصہ ہیں لہٰذا انہیں اپنی اپنی سطح پر حفاظتی اقدامات پر عملدرآمد یقینی بنانا چاہیے، دکانداروں اور خریداروں دونوں کو ہی حفاظتی اقدامات کی ترغیب دی جائے۔دکاندار اپنے عملے کو ماسک، سینی ٹائزر استعمال کروائیں اور یقینی بنائیں کہ ان کی دکان میں کوئی بھی شخص بغیر حفاظتی اقدامات کے داخل نہیں ہوگا۔ میرے نزدیک جس طرح بغیر ہیلمٹ پٹرول کی فروخت پر پابندی لگائی گئی ہے، اسی طرح اب ایسی قانون سازی کی جائے کہ کوئی بھی شخص بغیر ماسک کے نہ تو گھر سے نکلے اور نہ ہی اس کے ؓبغیر خریداری کرسکے۔
شہری حفاظتی تدابیر اختیار کریں، ماسک پہنیں اور بلاوجہ گھر سے نہ نکلیں۔ پورے خاندان کے بجائے صرف ایک شخص خریداری کیلئے آئے، بچوں کو بازاروں میں لے کر نہ جائیں اور عید کی شاپنگ کے بجائے یہ پیسے کسی غریب ہمسائے کی مدد کیلئے خرچ کریں۔ سول سوسائٹی اور این جی اوز پر یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ یہ آگاہی پر بہت کام کرتی ہیں میرے نزدیک اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہی آگاہی کی ہے۔ معاشرے کے تمام طبقات اس حوالے سے کام کر رہے ہیں مگر ابھی بہت زیادہ کام کرنا ہوگا۔