مظلوم پی ٹی سی ایل پنشنرز اب تک انصاف کے منتظر
وطن عزیز میں حکمرانوں اور بیوروکریسی کے شاہانہ اخراجات پر کروڑوں خرچ ہوتے ہیں لیکن پنشنرز کو ان کا حق نہیں دیا جارہا
اسی موقر ویب سائٹ پر تقریباً تین سال پہلے 2017 میں پی ٹی سی ایل پنشنرز کی حالت زار کے حوالے سے ایک بلاگ لکھا تھا اور حقیر سی کوشش کی تھی کہ ضعیف و بزرگ پنشنرز جن میں بیوائیں، یتیم اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی جوانیاں اس محکمے اور ریاست پاکستان کی خدمت میں لگادیں اور اب اپنا حق حاصل کرنے کےلیے ملک کی سب سے بڑی عدالت سے فیصلہ بھی اپنے حق میں حاصل کرچکے ہیں، ان کو ان کا حق دلانے کے جہاد میں اپنا بھی حصہ تحریر کی شکل میں ڈال جائے اور گویا فراز صاحب کے اس شعر پر عمل کرنے کی عاجزانہ سی کوشش کی تھی کہ
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
پھر نئی انصافی حکومت کے آنے کے بعد امید بندھی تھی کہ شاید کچھ تبدیلی آجائے، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ ابھی تک کچھ بھی نہ ہوسکا اور پر نالہ وہیں کا وہیں گر رہا ہے۔ پہلے ذرا سا پس منظر اور پھر موجودہ حالت کا بیان اس امید کے ساتھ کہ شاید کسی صاحب اختیار دردمند کی نگاہ اس تحریر پر پڑ جائے اور حقداروں کو ان کا حق ملنے کی کوئی صورت بن جائے۔
یھ بلاگ بھی پڑھیے: پی ٹی سی ایل پنشنرز: جائیں تو جائیں کہاں؟
وطنِ عزیز میں اور شعبوں کی دگرگوں صورتحال کے ساتھ ایک مسئلہ حق کا نہ ملنا بھی ہے۔ اپنے حق کےلیے لڑنے اور جدوجہد کرنے کو جہاد کہا گیا ہے۔ آج کچھ بات پی ٹی سی ایل کے چالیس ہزار سے زائد پنشنرز کی ہوجائے جو پچھلے کئی برسوں سے اپنے حق کےلیے ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جو جیتی جا چکنے کے باوجود شکست کا منظر پیش کر رہی ہے۔
اس قصہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ جب پی ٹی سی ایل کو نجی ملکیت میں دیا گیا تھا تو معاہدے کے مطابق حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین پر وفاقی حکومت کے تمام سروس اینڈ پنشن قوانین کا منصفانہ اطلاق ہونا تھا۔ واضح رہے کہ یہ پرائیویٹائزیشن کا عمل 1996 میں ہوا تھا۔ شروع میں معاملہ ٹھیک چلا اور ہر سال بجٹ میں اعلان کردہ پنشن میں اضافہ ان ریٹائرڈ ملازمین کو دیا جاتا رہا جو اس معاہدے کے تحت آتے تھے۔ پھر یکایک ہمارے وزارت خزانہ میں بیٹھے بابوؤں کو بچت کا خیال آیا اور بجلی گری ان بے چارے ضعیف، ناتواں، بزرگوں اور بیواؤں پر، جن کےلیے پنشن ایک بہت بڑا سہارا ہوتی ہے۔
جب سے اب تک پی ٹی سی ایل کے پنشنرز کو صرف 8 فیصد سالانہ اضافہ ملتا ہے اور دیگر سرکاری محکموں کے ملازمین کو حکومت کا بجٹ میں اعلان کردہ پنشن اضافہ دیا جاتا ہے۔ پنشنرز نے سارے پاکستان میں آپس میں رابطے کرکے ایک پی ٹی سی ایل پنشنرز ایکشن کمیٹی بنائی اور سو، سو روپے کا چندہ جمع کیا، پھر ایک طویل قانونی جنگ کا آغاز ہوا، جس کا اختتام 2014 میں معزز عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر ہوا جس میں پی ٹی سی ایل پنشنرز کے اضافے کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت کو اضافہ دینے اور گزشتہ برسوں کے بقایا جات ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ حکومت اپیل میں گئی اور فیصلہ برقرار رہا۔ دوسری نظرثانی اپیل بھی خارج کردی گئی۔
اب موجودہ صورت حال یہ ہے کہ حکومت تاخیری حربے استعمال کرکے عملی طور پر فیصلے پر عمل نہیں کررہی۔ ایک اور مکرر نظر ثانی کی اپیل سرکار اور پی ٹی سی ایل انتظامیہ نے دائر کی تھی جس کا فیصلہ بس اب جلد ہی متوقع ہے، اور پرانے فیصلے پر عمل درآمد سے بچنے کےلیے کبھی پیسے نہ ہونے کا بہانہ، کبھی جلد از جلد عمل کی طفل تسلی، کبھی کوئی اور نوکر شاہی تاخیری حربہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لوگوں کو امید تھی کہ واجبات اور بقایا جات اگر مل گئے تو ان کے بہت سے کام بن جائیں گے۔ کسی کو بچوں کی شادی کرنا ہے، کسی کو حج بیت اللہ کا ارمان ہے، تو کوئی ذاتی گھر لینا چاہتا ہے جو کہ ان سب کا حق بھی ہے۔ کئی لوگ اللہ کو پیارے ہوگئے، ان کے لواحقین منتظر ہیں کہ کب ان کا حق انہیں ملے گا؟ ملے گا بھی کہ نہیں؟
وطن عزیز میں حکمرانوں اور بیوروکریسی کے شاہانہ اخراجات اظہر من الشمس ہیں۔ کیا چند ارب روپے ان کے لیے نہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ اس ملک اور محکمے کی خدمت میں صرف کیا اور جو اپنا ایسا حق مانگ رہے ہیں جسے اس ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی تسلیم کر چکی ہے۔ کیا یہ بزرگ، یہ بیوائیں، یہ ناتواں افراد کسی ہمدردی کے مستحق نہیں؟ کیونکہ معاملہ زیادہ سنسنی خیز نہیں اور دیگر معاملات بہت اہم ہیں، اس لیے ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی بس کبھی کبھار برکت کےلیے ان چالیس ہزار لوگوں کے تسلیم شدہ حق کے بارے میں کوئی خبر لگا دیتا ہے۔ بس سوشل میڈیا پر اس حوالے سے تھوڑی بہت ہلچل نظر آتی ہے۔
مقتدر حلقوں سے گزارش ہے کہ ان ہزاروں لوگوں اور ان سے جڑی لاکھوں امیدوں کا خیال کریں ورنہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ یاد رہے کہ رب جلیل فرماتا ہے کہ میں مظلوم کی فریاد ضرور سنتا ہوں، چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ تو بہتر یہی ہے کہ معاملہ جلد ہی نمٹا دیا جائے، وگرنہ اگر رب جلیل کا امر حرکت میں آگیا تو ذمے داران کو جائے پناہ ملنا مشکل ہوجائے گی۔
پھر موجودہ حکومت تو اقتدار میں آئی ہی انصاف کی فراہمی کے حوالے سے ہے، تو کیا اس کے کارپردازان کو یہ اتنی بڑی ناانصافی، جس سے ہزاروں لوگ متاثر ہیں، اور وہ سب سفید پوش شریف لوگ ہیں، نعرے مظاہرے اور گالم گلوچ شور شرابا بھی نہیں کرسکتے۔ تو جس ملک میں سیکڑوں ارکان پارلیمنٹ پر تقریباً سالانہ آٹھ کروڑ روپے فی رکن خرچ ہوجاتے ہیں، وہاں چالیس ہزار بیواؤں اور بزرگوں کا حق دینے میں کیا مشکل پیش آئے گی، جو سب ملاکر چند ارب روپے بھی نہیں بنتے۔ لیکن اس عمل یعنی حق دے دینے کے نتیجے میں جو دعائیں اس حکومت کو ملیں گی وہ ان چند روپوں سے بدرجہا بیش قیمت ہوں گی اور نہ جانے کیسی کیسی مشکلات اور بلاؤں سے موجودہ حکومت کو نجات دلا دیں گی اوران کےلیے ڈھال بن جائیں گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
پھر نئی انصافی حکومت کے آنے کے بعد امید بندھی تھی کہ شاید کچھ تبدیلی آجائے، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ ابھی تک کچھ بھی نہ ہوسکا اور پر نالہ وہیں کا وہیں گر رہا ہے۔ پہلے ذرا سا پس منظر اور پھر موجودہ حالت کا بیان اس امید کے ساتھ کہ شاید کسی صاحب اختیار دردمند کی نگاہ اس تحریر پر پڑ جائے اور حقداروں کو ان کا حق ملنے کی کوئی صورت بن جائے۔
یھ بلاگ بھی پڑھیے: پی ٹی سی ایل پنشنرز: جائیں تو جائیں کہاں؟
وطنِ عزیز میں اور شعبوں کی دگرگوں صورتحال کے ساتھ ایک مسئلہ حق کا نہ ملنا بھی ہے۔ اپنے حق کےلیے لڑنے اور جدوجہد کرنے کو جہاد کہا گیا ہے۔ آج کچھ بات پی ٹی سی ایل کے چالیس ہزار سے زائد پنشنرز کی ہوجائے جو پچھلے کئی برسوں سے اپنے حق کےلیے ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جو جیتی جا چکنے کے باوجود شکست کا منظر پیش کر رہی ہے۔
اس قصہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ جب پی ٹی سی ایل کو نجی ملکیت میں دیا گیا تھا تو معاہدے کے مطابق حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین پر وفاقی حکومت کے تمام سروس اینڈ پنشن قوانین کا منصفانہ اطلاق ہونا تھا۔ واضح رہے کہ یہ پرائیویٹائزیشن کا عمل 1996 میں ہوا تھا۔ شروع میں معاملہ ٹھیک چلا اور ہر سال بجٹ میں اعلان کردہ پنشن میں اضافہ ان ریٹائرڈ ملازمین کو دیا جاتا رہا جو اس معاہدے کے تحت آتے تھے۔ پھر یکایک ہمارے وزارت خزانہ میں بیٹھے بابوؤں کو بچت کا خیال آیا اور بجلی گری ان بے چارے ضعیف، ناتواں، بزرگوں اور بیواؤں پر، جن کےلیے پنشن ایک بہت بڑا سہارا ہوتی ہے۔
جب سے اب تک پی ٹی سی ایل کے پنشنرز کو صرف 8 فیصد سالانہ اضافہ ملتا ہے اور دیگر سرکاری محکموں کے ملازمین کو حکومت کا بجٹ میں اعلان کردہ پنشن اضافہ دیا جاتا ہے۔ پنشنرز نے سارے پاکستان میں آپس میں رابطے کرکے ایک پی ٹی سی ایل پنشنرز ایکشن کمیٹی بنائی اور سو، سو روپے کا چندہ جمع کیا، پھر ایک طویل قانونی جنگ کا آغاز ہوا، جس کا اختتام 2014 میں معزز عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر ہوا جس میں پی ٹی سی ایل پنشنرز کے اضافے کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت کو اضافہ دینے اور گزشتہ برسوں کے بقایا جات ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ حکومت اپیل میں گئی اور فیصلہ برقرار رہا۔ دوسری نظرثانی اپیل بھی خارج کردی گئی۔
اب موجودہ صورت حال یہ ہے کہ حکومت تاخیری حربے استعمال کرکے عملی طور پر فیصلے پر عمل نہیں کررہی۔ ایک اور مکرر نظر ثانی کی اپیل سرکار اور پی ٹی سی ایل انتظامیہ نے دائر کی تھی جس کا فیصلہ بس اب جلد ہی متوقع ہے، اور پرانے فیصلے پر عمل درآمد سے بچنے کےلیے کبھی پیسے نہ ہونے کا بہانہ، کبھی جلد از جلد عمل کی طفل تسلی، کبھی کوئی اور نوکر شاہی تاخیری حربہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لوگوں کو امید تھی کہ واجبات اور بقایا جات اگر مل گئے تو ان کے بہت سے کام بن جائیں گے۔ کسی کو بچوں کی شادی کرنا ہے، کسی کو حج بیت اللہ کا ارمان ہے، تو کوئی ذاتی گھر لینا چاہتا ہے جو کہ ان سب کا حق بھی ہے۔ کئی لوگ اللہ کو پیارے ہوگئے، ان کے لواحقین منتظر ہیں کہ کب ان کا حق انہیں ملے گا؟ ملے گا بھی کہ نہیں؟
وطن عزیز میں حکمرانوں اور بیوروکریسی کے شاہانہ اخراجات اظہر من الشمس ہیں۔ کیا چند ارب روپے ان کے لیے نہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ اس ملک اور محکمے کی خدمت میں صرف کیا اور جو اپنا ایسا حق مانگ رہے ہیں جسے اس ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی تسلیم کر چکی ہے۔ کیا یہ بزرگ، یہ بیوائیں، یہ ناتواں افراد کسی ہمدردی کے مستحق نہیں؟ کیونکہ معاملہ زیادہ سنسنی خیز نہیں اور دیگر معاملات بہت اہم ہیں، اس لیے ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی بس کبھی کبھار برکت کےلیے ان چالیس ہزار لوگوں کے تسلیم شدہ حق کے بارے میں کوئی خبر لگا دیتا ہے۔ بس سوشل میڈیا پر اس حوالے سے تھوڑی بہت ہلچل نظر آتی ہے۔
مقتدر حلقوں سے گزارش ہے کہ ان ہزاروں لوگوں اور ان سے جڑی لاکھوں امیدوں کا خیال کریں ورنہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ یاد رہے کہ رب جلیل فرماتا ہے کہ میں مظلوم کی فریاد ضرور سنتا ہوں، چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ تو بہتر یہی ہے کہ معاملہ جلد ہی نمٹا دیا جائے، وگرنہ اگر رب جلیل کا امر حرکت میں آگیا تو ذمے داران کو جائے پناہ ملنا مشکل ہوجائے گی۔
پھر موجودہ حکومت تو اقتدار میں آئی ہی انصاف کی فراہمی کے حوالے سے ہے، تو کیا اس کے کارپردازان کو یہ اتنی بڑی ناانصافی، جس سے ہزاروں لوگ متاثر ہیں، اور وہ سب سفید پوش شریف لوگ ہیں، نعرے مظاہرے اور گالم گلوچ شور شرابا بھی نہیں کرسکتے۔ تو جس ملک میں سیکڑوں ارکان پارلیمنٹ پر تقریباً سالانہ آٹھ کروڑ روپے فی رکن خرچ ہوجاتے ہیں، وہاں چالیس ہزار بیواؤں اور بزرگوں کا حق دینے میں کیا مشکل پیش آئے گی، جو سب ملاکر چند ارب روپے بھی نہیں بنتے۔ لیکن اس عمل یعنی حق دے دینے کے نتیجے میں جو دعائیں اس حکومت کو ملیں گی وہ ان چند روپوں سے بدرجہا بیش قیمت ہوں گی اور نہ جانے کیسی کیسی مشکلات اور بلاؤں سے موجودہ حکومت کو نجات دلا دیں گی اوران کےلیے ڈھال بن جائیں گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔